Monday, June 16, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

داعش۔۔مغرب کی ساختہ و پرداختہ دہشت گرد تنظیم

آئی ایس آئی ایس کے خلاف آرمی چیف کی نوجوانوں کو ہدایات اور عالمی تناظر میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی سے متعلق ایک ہوشربا تحریر

حافظ شفیق الرحمن

گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا دورہ کیا اور وہاں انٹرن شپ مکمل کرنے والے نوجوانوں سے خطاب اور بعدازاں ان کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا: ’’فوج انہیں ایک محفوظ اور مستحکم ملک فراہم کرے گی، فوج تمام تر داخلی اور بیرونی چیلنجوں سے نبٹنے کی استعداد رکھتی ہے۔‘‘ انہوں نے طلبا کو ہدایت کی کہ وہ سوشل میدیا پر چلنے والے مخالفانہ بیانیہ سے ہوشیار رہیں۔ انہوں نے کہا پڑھے لکھے نوجوانوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ وہ داعش اور اس کی ذیلی تنظیموں کا خصوصی نشانہ ہیں۔ اس کورس کی اختتامی تقریب میں افواجِ پاکستان کے سپہ سالار کی شرکت یقیناً نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنی۔
آرمی چیف کی نوجوانوں سے بات چیت
اس حقیقت سے کوئی ذی شعور شہری انکار نہیں کرسکتا کہ داعش سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے جارحانہ نظریات کو پُرکشش انداز میں پُرکشش کرکے منفی تصورات کو فروغ دے رہی ہے اور نسل نو کے ذہنوں کو مذموم کررہی ہے اور آئی ایس آئی ایس، القاعدہ کو پیچھے چھوڑ کر دُنیا کا سب سے خطرناک گروپ بنتا جارہا ہے۔ یہ معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ نسل نو کو داعش کے اس مذموم حربے کا ہدف بننے سے بچانے کے لئے جملہ وسائل اور توانائیوں کو بروئے کار لائیں۔ آرمی چیف نے داعش کی غلط کاریوں اور فتنہ انگیزیوں کی جانب نوجوان طلبا و طالبات کی توجہ درست طور پر مبذول کرائی ہے۔ یہ امر تمام امن دوست اور وطن دوست شہریوں کے لئے موجب طمانیت ہے کہ آئی ایس پی آر نے معاشرے کے پڑھے لکھے طلبا و طالبات کی ذہنی و فکری تربیت کے لئے انٹرن شپ پروگرام کا آغاز کیا۔ اس کا بنیادی مقصد نسل نو کے تعلیم یافتہ اور زیرتعلیم نوجوانوں کو عصرحاضر کا ایک کامیاب شہری بنانے کے لئے فکری و شعوری غذا فراہم کرنا ہے۔ انٹرن شپ مکمل کرنے والے نوجوانوں نے پاک افواج کے سربراہ کو اپنے درمیان پا کر انتہائی مسرت محسوس کی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پروٹوکول کی پرواہ کئے بغیر نوجوانوں میں کھل مل گئے۔ انہوں نے ان کے تمام سوالات کے جوابات انتہائی مشفقانہ لب و لہجے میں دیئے۔ ان کا یہ انداز اس امر کا مظہر ہے کہ پاک فوج کے سپہ سالار وطن عزیز کے نوجوانوں سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے آئی ایس پی آر کے تربیتی پروگرام میں شریک ہونے والے طلبا و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے انہیں داعش جیسے مہیب خطرے سے آگاہ کیا۔ اس طرح آرمی چیف نے پوری قوم کے جدید تعلیم حاصل کرنے والے جوانوں کو پیغام دیا کہ وہ اپنی تعلیم کے دوران سوشل میڈیا یا دوسرے ذرائع سے کئے جانے والے داعش کے پروپیگنڈے کو خاطر میں نہ لائیں۔ ظاہر ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی گفتگو کا محور و مرکز نوجوانوں کو داعش کے اُن نظریات و تصورات سے آگاہ کرنا تھا، جن کے ذریعے وہ نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ داعش ایسی دہشت گرد تنظیم کے نظریات کسی بھی طور محب وطن نوجوانوں کے لئے مفید اور مثبت نہیں ہیں۔ خاص طور پر وہ نوجوان جو جدید تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں یا فارغ التحصیل ہوچکے ہیں، داعش اُن کو اپنے پُرفتن خیالات کا حامی بنانے کے لئے سوشل میڈیا پر مختلف حربے استعمال کررہی ہے۔ داعش کے یہ حربے ملک و قوم کے نوجوانوں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے کہ افواج پاکستان پہلے ہی دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ ضربِ عضب کے بعد ان کی بیخ کنی کے لئے آپریشن ردالفساد جاری ہے۔ یہ مانے بنا چارہ نہیں کہ افواج پاکستان کی کارروائیوں کی وجہ سے وطن عزیز میں دہشت گردی کے واقعات میں خاصی کمی آئی ہے۔ ان آپریشنز کے دوران ہمارے فوجی افسروں، جوانوں اور عام شہریوں کی ایک قابل ذکر تعداد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ کئی ایسے واقعات ہیں جن کے پیچھے داعش ہی کارفرما ہے۔
داعش کے رابطے اور پاکستان
امر واقع یہ ہے کہ داعش اپنی اصل کے لحاظ سے مشرق وسطیٰ میں جنم لینے اور پروان چڑھنے والی ایک دہشت گرد تنظیم ہے مگر افغان حکومت کی نااہلی اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی ملی بھگت سے اب وہ افغانستان میں بھی رسوخ حاصل کر چکی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس کے تربیت یافتہ افراد کی کوشش ہے کہ پاکستان کو بھی اپنی ترکتازیوں کا نشانہ بنائے۔ ’’را‘‘ اور داعش کا جوائنٹ ونچر یہ ہے کہ وہ پاکستان کے چند کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے افراد اور کارکنان سے بھی رابطے استوار کرے اور ان کے کارکنوں کو وہ اپنے نیٹ ورک کا حصہ بنائے۔ یوں اس کی مذموم خواہشیں کہ وہ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو آگے بڑھائے لیکن پاکستان کے 20 کروڑ شہریوں کو افواج پاکستان پر مکمل اعتماد ہے۔ انہیں یقین کامل ہے کہ وہ داعش نامی اس بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کی حدود پاکستان میں داخلے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے میں کامیاب رہے گی۔
یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ 9 اکتوبر 2014ء کو ایک نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں بلوچستان کے سابق قوم پرست وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے حقائق و حالات اور عواقب و نتائج سے آنکھیں بند کرکے جانے کس عالم میں درفنطنی نما یہ انکشاف صیغہ متکلم واحد میں کیا تھا کہ ’’میں آئی ایس آئی ایس یا کسی اور عسکری گروہ کی بلوچستان میں موجودگی کے امکان کو مسترد نہیں کرسکتا۔‘‘ جب وہ یہ فرما چکے تو انہیں احساس ہوا کہ محض منفرد نظر آنے اور بیان داغنے کے بجائے حقیقت حال کا بھی اظہار کردیا جائے تو اسی سانس میں انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’صوبہ بلوچستان عشروں سے چار بڑے مسائل کا سامنا کررہا ہے جن میں بلوچ علیحدگی پسند تحریک، فرقہ وارانہ تشدد، بلوچ عسکریت پسندوں کی ریشہ دوانیاں اور قبائلی تصادم شامل ہیں۔‘‘ ان کا یہ بیان سامنے آتے ہی حقائق کا بہ نظر غائر تجزیہ و تحلیل کرنے والے دانشوروں نے اس کا محاکمہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’’وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا یہ خدشہ اگر محض خدشہ نہیں اور بحیثیت وزیراعلیٰ مبنی برحقائق شواہد کی بنا پر اس کا انہوں نے اظہار کیا ہے کہ بلوچستان میں داعش کی موجودگی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا، تو وزیراعلیٰ بلوچستان کے اس بیان کے بعد ارباب حکومت اور وفاقی ایجنسیوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس امر کا کھوج لگائیں کہ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کن بنیادوں پر کیا۔ اگر اُن کے پاس ٹھوس حقائق و شواہد موجود نہیں ہیں اور عالمی میڈیا کی ڈس انفارمیشن کو اساس بنا کر انہوں نے یہ بیان دیا ہے تو اُن جیسے بالغ نظر اور پختہ کار سیاسی رہنما سے اس امر کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ عالمی مغربی میڈیا پر پاکستان کے امیج کو مسخ کرنے والے تصورات و نظریات کے ترجمان اور شاہراہ بنیں۔‘‘
دہشت گرد تنظیم کی موجودگی کی اطلاع
بدقسمتی سے 2001ء کے بعد پاکستان کے حکمرانوں نے عالمی دباؤ کے تحت یہ شیوہ اپنا شعار بنا لیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک جس بھی دہشت گرد اور انتہاپسند تنظیم کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے کوئی خبر یا تجزیہ شائع کریں تو حقائق کی جانچ پڑتال کئے بغیر وہ من و عن اُس کی تائید و توثیق کردیں۔ واضح رہے کہ 17 برسوں سے مغربی میڈیا اور حکام کی الزام طرازی کا مثبت اور مسکت جواب دینے کی بجائے اُلٹا سرتسلیم خم کرکے اعتراف و اقبال کرلیا جاتا ہے کہ پاکستان میں دنیا کی فلاں خطرناک ٹرین دہشت گرد تنظیم کا نیٹ ورک موجود ہے۔ یہ مرعابانہ ذہنیت جس کے تحت پاکستان کے حکمران طبقات مغربی پروپیگنڈا کی ہمنوائی کرتے رہے، یقیناً وطن دوستی کا مظہر نہیں۔ اس رویے اور رجحان کو کسی بھی طور مفید قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سیاسی حکمران ہوں یا مقتدر طبقات اُنہیں فکری و نظری اور ذہنی و عصبی سطح پر انتہائی مضبوط ہونا چاہئے۔ مغرب کے ہر الزام کو دہرا کر پاکستان کے لئے فردجرم عائد کرنے کی اس روش نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ جہاں تک آئی ایس آئی ایس یا داعش کا تعلق ہے تو مغرب، امریکہ اور مشرق وسطیٰ کا تمام میڈیا برملا اعتراف کررہا ہے کہ یہ تنظیم عراق اور شام میں سرگرم عمل ہے۔ اس تنظیم کے نیٹ ورک کے پاکستان میں قطعاً کوئی آثار دکھائی نہیں دیئے تاہم ایک مخصوص لابی یہ پروپیگنڈا ضرور کررہی ہے کہ داعش پاکستان میں بھی بال و پر پھیلا رہی ہے۔ اس پروپیگنڈا کے اغراض و مقاصد اور اہداف و عزائم کا بنظر غائر جائزہ لینا چاہئے۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ قوم پرستی کے پرچارک ڈاکٹر عبدالمالک کا یہ تسلیم کرنا کہ داعش بلوچستان میں موجود ہے، بین الطور عالمی استعمار کو بلوچستان کے داخلی معاملات میں براہ راست مداخلت کی دعوت دینے کے مترادف تھا۔
مسلمان ممالک میں داعش
اربابِ خبر و نظر جانتے ہیں کہ 15 دسمبر 2015ء کو سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان نے ریاض میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سمیت 34 ملکی اسلامی فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’’اس اتحاد کا مرکز ریاض میں ہوگا، جہاں سے فوجی آپریشنز کے سلسلے میں رابطہ رکھا جائے گا اور ہرممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔ اس اتحاد کا مقصد عراق، شام، لیبیا، مصر اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف مربوط کوششیں کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں سے مکمل تعاون کیا جائے گا، اسلامی فوجی اتحاد داعش ہی نہیں ہر اس دہشت گرد کا مقابلہ کرے گا جو امت مسلمہ کے مقابل آئے گا، چاہے دہشت گردوں کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو لیکن انہیں فساد پھیلانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔‘‘ ریاض سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ امت مسلمہ کو تمام دہشت گرد گروپوں کے ناپاک عزائم سے بچانا مسلم قائدین کی ذمہ داری ہے۔ یہ امر مزید لائق توجہ ہے کہ مفتی عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ نے حج 1435ھ کا خطبہ ارشاد فرماتے وقت پوری دنیا کے مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کو درست طور پر متنبہ کیا تھا کہ ان کا باہمی انتشار و افتراق امت مسلمہ کو لاحق ایسا مرض ثابت ہورہا ہے جس نے ایک نہیں کئی عوارض کو جنم دیا ہے۔ مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی فتنہ و جدل میں پڑے اور فساد برپا کرے، مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے اور حکومتیں دم سادھ کر بیٹھی ہوئی ہیں، ہمارے اندر پرلے درجے کا افتراق و انتشار اسی لئے ہے کہ باہمی اتحاد و اتفاق نہیں پایا جاتا، ہمارے حکمران دوسری طاقتوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں، امن وامان کی خراب صورتِ حال سے قومیں تباہ ہوجاتی ہیں اور انسانیت مٹ جاتی ہے، مسلمان متحد ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کریں، مسلمان حکمران ذمہ داریاں ادا کریں اور یہ نہ بھولیں کہ وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ مسلمان اپنے اندر اتحاد قائم رکھیں۔ ان کے اندر خوارج کے فتنے نے ایک دفعہ پھر سر اٹھا لیا ہے۔ مسلمان ممالک میں داعش اور اس طرح کی دوسری تنظیموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسی تحریکیں انسانیت دشمن ہیں۔ قتل گناہ کبیرہ ہے،خارجیوں نے انتشار اور فساد برپا کر رکھا ہے۔ مسلمان حکمران اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ عالم اسلام اپنی فوجی قوت کو اکٹھا کرے۔ اسلام دشمنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ حکمران عوام کی فلاح و بہبود کا پوری طرح خیال رکھیں۔ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ نے جن خیالات کا اظہار کیا اور خطبہ حج کی شکل میں مسلمان حکمرانوں اور عوام کو جو نصیحتیں کیں، ان کی ضرورت، اہمیت اور اصابت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
خونریزی کارروائیاں اور مسلمان
باخبر حلقے جانتے ہیں کہ جون 2009ء میں صدر اوباما جامعۃ الازہر اور اس کی مسجد میں بھی گئے تھے اور انہوں نے امت مسلمہ کو خطاب کیا تھا۔ تب اُن کے امت مسلمہ سے محبت بھرے خطاب سے یہ اُمید پیدا ہوئی تھی کہ بحیثیت امریکی صدر وہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے ہرممکن کوشش کریں گے لیکن حالات و حقائق اس امر کے شاہد ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ فلسطین کا مسئلہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔ نیز اُن کے 8 سالہ عہد اقتدار میں مشرق وسطیٰ میں انتشار، کانہ جنگی اور انارکی کی صورتِ حال میں ابتری روزافزوں ہوئی۔ داعش ایسی انتہاپسند تنظیم بھی اُنہی کے دور میں سامنے آئی اور خونریزی کا ایک نیا باب کھل گیا۔ اس تناظر میں اوباما کے مسلمانوں کے بارے میں خیالات کا عکس اُمہ امریکی پالیسی سازوں کے فیصلوں اور منصوبوں میں بھی دیکھنے کی خواقہاں تھی لیکن اُن کی یہ اُمید بھر نہیں آئی۔ زمینی حقائق اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کے دور میں امریکی حکام نے ان کے خیالات کے برعکس ہی پالیسیوں کو متعارف کرایا حالانکہ اوباما کے خطاب کے مدرجات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے حوالے سے امریکی حکام کی بہ نسبت کہیں بہتر فہم رکھتے ہیں۔ امریکی حکام کی پالیسیوں اور دہرے تضاد کا عالم یہ ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے مسلمان 68 برسوں سے آزادی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں، اُن کے اس حق کو یو این او کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ امریکہ یا کبھی اس کے اتحادی مغربی ملک نے کشمیریوں اور فلسطینیوں کی آزادی کے حق میں جاندار آواز نہیں اُٹھائی۔ دہرے معیار کا عالم یہ ہے کہ انڈونیشیا کے علاقے ایسٹ تیمور اور سوڈان کے علاقے جنوبی سوڈان میں جب عیسائی اکثریت آزادی کا مطالبہ کرتی ہے تو عالمی طاقت، عالمی ادارے اور مغربی ممالک اور میڈیا ان کے اس مطالبے کو توانا بنانے کے لئے رات دن ایک کر دیتے ہیں جبکہ کشمیر اور فلسطین کے مسلم اکثریتی مسلمانوں کے ھق میں ایسی کوئی منظم تحریک نہیں چلائی جاتی۔ مساوات کی بات کرنے والی عالمی طاقت کے اتحادی مغربی ممالک ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کو اس لئے آزاد ملک بنوا دیتے ہیں کہ اول الذکر عیسائی ہیں اور ثانی الذکر کو ان کی آزادی کے حق سے اس لئے محروم رکھا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ جب یہ دو رنگی اور تضاد امریکی پالیسیوں میں موجود ہے تو منطقی نتیجہ یہی ہوگا کہ 1.6 بلین مسلمان یہ شکوہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ امریکی و مغربی پالیسی ساز ان کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
نام نہاد بین الاقوامی دہشت گردی کا نتیجہ
حقیقت یہ ہے کہ یورپ نے 20 ویں صدی میں پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے نام پر دنیا کے مختلف ممالک میں قتل و غارت کے جو الاؤ دہکائے تھے، اس کا دھواں اب یورپ کے گلی کوچوں کو بھی اپنے حصار میں لے رہا ہے۔ نیز مارچ 2003ء میں امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک نے ممنوعہ ہتھیاروں کی تلاش کی آڑ میں عراق پر جو لشکرکشی کی اور لاکھوں شہریوں کو جدید ترین ہتھیاروں، کیمیائی، جراثیمی، حیاتیاتی اور نیم جوہری ایجنٹس کا نشانہ بنایا، اس پر بھی اہل مغرب کو اظہار تاسف کرنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بعدازاں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور امریکی رہنماؤں نے اعلانیہ تسلیم کیا کہ داعش اُن کی نام بہاد بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک نتیجہ ہے۔ کاش! عراق پر مسلط کی گئی جنگ کے عواقب و نتائج کو نگاہ میں رکھا جاتا۔ بہرطور ہر سنجیدہ فکر مسلمان کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ ہر نوعی دہشت گردی انسانیت کی دشمن ہے۔ خواہ اسے مذہب کے نام پر یا نسل کے نام پر پروان چڑھایا جائے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ امریکہ، روس اور مغربی ممالک محض اسرائیل کے تحفظ کے لئے مشرق وسطیٰ کے اُن تمام ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے ہیں، جو کسی بھی وقت اُن کی لے پالک ناجائز ریاست اسرائیل کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتے تھے۔ ان ممالک میں عراق، لیبیا اور شام نمایاں تھے۔ اس سے پہلے امریکہ کے اتحادی مغربی ممالک عراق اور لیبیا کو کھنڈر بنا چکے ہیں اور اب شام کو داعش کے خاتمے کے نام پر برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
داعش کی جڑیں، افغانستان میں۔۔
افغان طالبان جو افغانستان کی مقامی مزاحمتی قوت ہیں جن کے افغانستان کے شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک اثرات ہیں۔ جن کی موجودگی 9/11 سے اب تک امریکہ اور حامد کرزئی و اشرف غنی ختم نہیں کرسکے اور نہ ان کی عوامی طاقت کا کچھ بگاڑ سکے ہیں۔ طالبان افغانستان کے شہروں، قصبوں اور گلی محلوں میں رہتے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ ان طالبان کا افغانستان کے کئی علاقوں اور حصوں پر قبضہ ہے۔ وہ افغانستان کی داخلی قوت ہیں اور ملک افغانستان کے عوام کی بہت بڑی تعداد اور بہت برا حصہ ان کے ساتھ ہے۔ یہ طالبان 1996ء سے لے کر 2004ء تک افغانستان پر حکومت بھی کر چکے ہیں۔ یہ وہ ھکومت تھی جس نے پورے افغانستان پر اپنی حاکمیت قائم کر رکھی تھی اور اس ھکومت سے امریکہ نے خود آکر اقتدار چھینا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اشرف غنی صاحب کے ملک کی اس قدر داخلی عوامی قوت جس کے اثرات وہاں کے چپے چپے پر پائے جاتے ہیں ملک کی دشمن کیسے ہوگئی ہے۔ کیا افغانستان کا دوست وہی ہے جو امریکہ کا حاشیہ بردار ہو۔ جہاں تک داعش کا تعلق ہے تو بلاشبہ اس کی جڑیں افغانستان سے باہر عراق اور شام میں پائی جاتی ہیں۔ اگر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت طالبان کے ساتھ قابل عمل سمجھوتہ کر لیتی ہے تو اس کے لئے داعش سے چھٹکارا پانا آسان ہوجائے گا۔ لیکن داعش اس وقت نکلے گی جب طالبان کا یہ مطالبہ پورا ہوجائے گا کہ آخری امریکی بھی ان کے ارض وطن سے چلا جائے۔ اگر داعش بیرونی قوت ہیں تو امریکی بھی بیرونی طاقت ہیں، دونوں کو افغانستان کی سرزمین سے جانا ہوگا۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ افغانستان میں سب دہشت گرد تنظیمیں ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش سمیت دیگر موجود ہیں، بھارتی ’’را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے پاکستان سے پکڑے جانے کے بعد تو اس بات کا جواز ہی نہیں رہتا کہ سوال اتھایا جائے کہ دہشت گردی کہاں سے ہورہی ہے اور کون کررہا ہے؟
قارئین آیئے آخر میں 17 نومبر 2016ء کو پاکستان میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے جو نشاندہی کی تھی، قندمقرر کے طور پر ایک بار پھر اس پر نگاہ ڈالیں تاکہ یہ پتا چل سکے کہ بین الاقوامی امن کے لئے خطرے اور دہشت کا باعث بننے والی تنظیموں کی سرپرستی کون کررہا ہے؟ ترکی صدر رجب طیب اروان نے انتہائی واشگاف الفاظ میں بتایا تھا کہ ’’القاعدہ اور داعش سے جو اسلحہ پکڑا گیا، اس کا تعلق مغربی دنیا سے ہے، دیگر دہشت گرد تنظیموں کو بھی مغرب سپورٹ کررہا ہے اور یہ تنظیمیں صرف مسلمان ممالک کو اپنا ہدف بنا کر نقصان پہنچا رہی ہیں۔‘‘ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ رجب طیب اردوان نے یوں عالم اسلام اور عرب دنیا کے حوالے سے امریکہ اور یورپ کی منافقانہ پالیسیوں کا راز طشت ازبام کردیا۔ انہوں نے مسلم دنیا کو درپیش دہشت گردی کے فتنے کی اصل حقیقت کو واضح کیا۔ امر واقع یہ ہے کہ اس کی ہمت آج تک کسی عرب رہنما کو ہوئی نہ مسلمان ملکوں کے کسی اور لیڈر کو۔ عالم عرب اور مسلم دنیا جس میں پاکستان اور دیگر ملک بھی شامل ہیں یہ دہشت گردی جس طرح مسلط کردی گئی ہے اور اس کی آڑ میں کھلے انداز سے اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے فی الواقع یہ بہت بڑے مغربی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

مطلقہ خبریں