Monday, June 16, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

داستانیں بھارتی سامراج کے ستم رسیدوں کی

محسن فارانی

مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط اور وحشیانہ مظالم نے ہزاروں کشمیری گھرانوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ محمد اشرف 1990ء میں بھارتی سیکورٹی فورس میں ملازمت کررہا تھا۔ اس کا خاندان اس سے دور، پاکستانی سرحد کے قریب مقبوضہ کشمیر کے ایک گاؤں میں مقیم تھا۔ تب بھارتی تسلّط کے خلاف وادی میں مسلح تحریک نے زور پکڑ لیا تھا۔ بھارتی فوج کی طرف سے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، چھاپوں اور گرفتار شدگان کو بدترین اذیتیں دینے کی خبریں عام ہوئیں، لہٰذا خوف کے مارے اشرف کے گھر والے گاؤں سے بھاگ نکلے۔ 20 ہزار دیگر مہاجرین کے ہمراہ وہ بھی کنٹرول لائن پار کر کے آزاد کشمیر چلے آئے۔ محمد اشرف پیچھے مقبوضہ وادی میں رہ گیا۔ اسے ایک ہفتہ بعد خبر ملی کہ گھر والے آزاد کشمیر چلے گئے ہیں جبکہ ان کو یہ خیال تک نہ تھا کہ انہیں 26 برس بعد اپنے پیارے سے ملنا ہوگا۔
سفید ریش محمد اشرف آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا ہے جو کہ غم اور خوشی کے ملے جلے آنسو ہیں: ’’میرا بیٹا 12 سال کا تھا جب وہ مجھ سے جدا ہوا تھا۔ اب میرا پوتا 16 برس کا ہے۔‘‘ اب ربع صدی بعد ان کی ملاقات ہوئی ہے، چنانچہ محمد اشرف کہتا ہے کہ ’’میری زندگی کا سنہری دور بیت گیا جو مجھے اپنے خاندان کے ساتھ گزارنا تھا۔‘‘ وہ فوج میں ڈیوٹی دے رہا تھا مگر اسے آزاد جموں و کشمیر آ کر اپنے خاندان سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔ اس کا کہنا ہے: ’’میں نے سوچا کہ اگر میں ملازمت چھوڑ دوں تو مجھے غدار گردانا جائے گا۔ مجھے یہ بھی خدشہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں میری ایک بیٹی کے لئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔‘‘ پھر 2006ء میں جب وہ فوج سے ریٹائرڈ ہوا تو اس نے اپنے خاندان سے ملنے کی کوششیں تیز کردیں۔ پہلے اس نے کشمیر بس سروس پر سفر کی درخواست دی جو ایک سال پہلے منقسم خاندانوں کے مابین ملاقاتوں کی سہولت کے لئے شروع کی گئی تھی۔ اس نے پانچ بار کوشش کی مگر بے سود۔ زیادہ تر اس بس سروس تک رسائی بھارتی حکام کی مرضی پر موقوف ہوتی ہے اور سرحدی کشیدگی کے دنوں میں عموماً ایسی خواہش مسترد کردی جاتی ہے۔ پھر اس نے پاسپورٹ کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا تاکہ پنجاب کی باقاعدہ سرحد کے راستے سفر کی اجازت مل جائے لیکن پاسپورٹ بنوانے میں دس سال لگ گئے۔ غالباً بھارتی حکام نہیں چاہتے تھے کہ ایک سابق بھارتی فوجی پاکستان کا سفر کرے۔ 2016ء میں پاسپورٹ مل گیا مگر اتنی تاخیر ہوچکی تھی۔ اس دوران میں اس کے ماں باپ آزاد کشمیر میں انتقال کر چکے تھے۔ اس کے بچوں کی شادیاں ہوچکی تھیں اور اس کے پوتے پوتیاں بھی پیدا ہوچکے تھے۔ اسے اپنی بیوی بدر النساء سے علیحدگی کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا تھا جو اب 62 برس کی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’’میں اپنے بچوں کی شادیوں کے دوران میں رویا کرتی کیونکہ میرا شوہر موقع پر موجود نہیں تھا۔‘‘ محمد اشرف کے بیٹے محمد اصغر نے بتایا: ’’میری ماں نے بہت محنت کی۔ ایک عورت کے لئے اپنے شوہر کے بغیر بچوں کی پرورش بہت مشکل کام ہے۔‘‘
جب 2003ء میں فائر بندی کا معاہدہ ہوا تو حکام نے دو مقامات دریائے نیلم پر، جو آزاد اور مقبوضہ کشمیر کی سرحد بناتا ہے، مقرر کیے جہاں دونوں اطراف کے رشتے دار دریا کے بہتے دھارے کے آرپار ایک دوسرے کو دیکھ کر بس ہاتھ ہلا سکتے تھے۔ اشرف کے اہل خانہ کا بیان ہے کہ انہیں ہم نے ایک بار 2006ء میں عید پر دیکھا تھا، وہ بھی 16 برس کی جدائی کے بعد۔ وہاں دریا صرف 25 میٹر چوڑا ہے لیکن دونوں طرف مسلح فوجی بندوقیں تانیں کھڑے دیکھ رہے ہوتے ہیں، لہٰذا اپنے پیاروں کو بس دیکھا ہی جاسکتا ہے۔ محمد اشرف ہی کے گاؤں سے تعلق رکھنے والی اشرف جان 60 سال کی ہیں، ان کا گاؤں کیرن (مقبوضہ کشمیر) میں ہے۔ وہ بھی 1990ء سے اپنے پیاروں کی جدائی کا دکھ جھیلتی آرہی ہیں۔ وہ ٹوٹے دل کے ساتھ اپنے بیٹے عاشق حسین کو نیلم پار سے دیکھتی ہیں۔ اشرف جان نے بتایا: میرا جی چاہا میں دریا میں کود کر اپنے بیٹے سے جا ملوں۔ میں دریا کے اس طرف رو رہی تھی اور میرا بیٹا دوسری طرف آنسو بہا رہا تھا مگر ہم دونوں مجبور اور لاچار تھے۔ پچھلے فروری میں آزاد کشمیر آ کر اپنے گھر والوں سے ملی تو یوں لگا جیسے میں دوبارہ پیدا ہوئی ہوں۔‘‘ لیکن اشرف جان اور محمد اشرف دونوں کا اپنے خاندانوں سے ملاپ الم انگیز ہے کیونکہ ان کے ویزے صرف ایک ماہ تک کے ہیں۔ انہوں نے ویزوں میں توسیع کی درخواستیں دی ہیں اور اب آزاد کشمیر میں وزارتِ داخلہ کے جواب کے منتظر ہیں، آخرکار انہیں واپس جانا ہوگا۔
اگر وہ اپنے بھارتی پاسپورٹ چھوڑ دیں تو آزاد کشمیر کے کیمپ میں مہاجربن کر رہ سکتے ہیں لیکن محمد اشرف کو اس صورت میں اپنی دوسری بیٹی سے جدائی کے علاوہ اپنے گھر اور پنشن سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ اگر بھارتی شہریت برقرار رکھے تو محمد اشرف دوبارہ ملنے آ سکتا ہے لیکن کنٹرول لائن پر نئی کشیدگی کے باعث وہ مایوس ہے اور مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اس کی دل گرفتہ بیوی کہتی ہیں: ’’میرا شوہر جب سے میرے ساتھ ہے، ہم بہت خوش ہیں لیکن خوشی کے یہ لمحات مختصر ہیں اور اسے ایک دن جانا ہی ہوگا۔ یہ صرف ایک دو گھرانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ان گنت خاندان اس مسئلے سے دوچار ہیں۔‘‘
بلقیس بانو سفاک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے مسلم کش فسادات (فروری 2002ء) کی ستم رسیدہ ہے۔ 4 مئی 2017ء کو ایک اعلیٰ بھارتی عدالت نے 5 ہندو پولیس افسروں اور 2 ڈاکٹروں کو اس الزام میں سزائیں سنائیں کہ انہوں نے حاملہ خاتون بلقیس بانو کے گینگ ریپ (اجتماعی آبروریزی) اور اس کے خاندان کے سات افراد کے بہیمانہ قتل کے مقدمے کی شہادتیں ضائع کردی تھیں۔ اس سے پہلے عدالت نے مرکزی ادارۂ تفتیش (سی بی آئی) کی اپیل پر زیریں عدالت سے سات ملزمان کے بری قرار پانے کے فیصلے کو معطل کردیا تھا اور ریپ اور قتل کے مقدمے میں سزایاب 11 ہندو دہشت گردوں کی سزا برقرار رکھی تھی۔ بلقیس بانو نے اس پر اطمینان ظاہر کیا کہ جن افسروں نے مجھ پر حملہ کرنے والے مجرموں کو تحفظ دیا تھا، وہ آخرکار سزا کے حق دار ٹھہرے ہیں۔ مظلوم خاتون نے کہا: ’’ایک انسان، ایک شہری عورت اور ایک ماں ہونے کی حیثیت سے میرے حقوق انتہائی وحشیانہ طریقے سے سلب کر لئے گئے تھے۔ اب میں اور میرا خاندان سمجھتے ہیں کہ ہم دوبارہ اپنی زندگیاں بسر کرسکتے ہیں۔‘‘
2002ء کے وحشی ہندوؤں کے حملے میں 17 افراد کے گھرانے میں سے صرف بلقیس بانو اور اس کے دو بچے ہی زندہ بچے تھے۔ اس کی تین سال کی بچی بھی ظالموں نے شہید کردی تھی۔ گجرات کے ان فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام اس وقت کے صوبائی وزیراعلیٰ نریندر مودی کی پس پردہ حمایت اور خباثت کا نتیجہ تھا۔ لیکن 2012ء میں تفتیشی ٹیم نے جو سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل پائی تھی، اپنی رپورٹ میں درندہ صفت مودی کو صاف بری قرار دے دیا جیسا کہ ریاستی حکومت پچھلے 15 برسوں میں گھناؤنے جرائم کے مرتکب ہندوؤں کو سزا دلوانے میں لیت و لعل سے کام لیتی آرہی ہے۔ اسی طرح مذکورہ ساتوں ملزمان اب بھارتی سپریم کورٹ میں اپیل کرسکتے ہیں اور عین ممکن ہے کسی روز انہیں بھی بری قرار دے دیا جائے۔

مطلقہ خبریں