Tuesday, June 17, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سی پیک کے خلاف سازش

چین پاکستان اقتصادی راہداری عالمی طاقتوں کے گلے میں ہڈی پھنسنے کے مترادف ہے، وہ اس کو اپنے لئے چیلنج تسلیم کررہے ہیں، اُن کے مطابق چین کے عالمی عزائم امریکی بالادستی کو ختم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس لئے امریکہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور اب وہ چین کو تنہا کرنے کے منصوبے پر زوروشور سے کام کرنے پر جتے ہو ئے ہیں، چین نے امریکی ایماء پر جی-20 کے اجلاس میں شمالی کوریا پر پابندی لگنے نہیں دی اور نہ ہی مذمت کرنے دی ہے جبکہ شمالی کوریا کھلم کھلا امریکہ کو چیلنج کررہا ہے اور وہ امریکہ جو اپنی ناک پر مکھی بیٹھنے نہیں دیتا تھا اس نے اب شمالی کوریا سے امن و آشتی کی بات کرنا شروع کردی ہے۔ امریکی یہ کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کا اس طرح کا چیلنج کرنا روس اور چین کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے، اُن کا اندازہ ہے کہ شمالی کوریا کے پاس 9 تا 10 ایٹمی ہتھیار ہوں گے جس سے خود امریکہ کو اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا جنوبی کوریا اور جاپان کو ہوسکتا ہے۔ امریکہ شمالی کوریا کو اپنے مقابلے کا نہیں سمجھتا مگر کوریا امریکہ سے بدلہ کی آگ میں جل رہے ہیں، اگرچہ امریکہ شمالی کوریا کے رویہ کو چین اور روس کے تناظر میں دیکھ رہا ہے مگر اسے یاد ہونا چاہئے کہ اس نے کوریا کے کئی ملین لوگوں کو بے گناہ مارا ہے، اپنی طاقت کا لوہا منوانے اور اپنا رعب جمانے کے لئے، اس لئے اگر اس وقت شمالی کوریا حالت غصہ میں ہے تو اس کے یہ معنی بھی لئے جاسکتے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کے بے گناہ قتل کو نہیں بھولا ہے۔ پھر چین نے بقول امریکی دانشوروں کے پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لئے انتہائی اقدامات کئے ہیں، اگرچہ وہ اِس کی تفصیل نہیں بتاتے مگر کہتے ہیں کہ چین نے ایک واخاں کی پٹی پر چین پاکستان راہداری کو بند کرنے یا رکاوٹ ڈالنے کی کسی امریکی، بھارتی یا افغانی کوشش کو روکنے کے لئے ہزاروں فوجی تعینات کردیئے ہیں۔ چیف ایڈیٹر زاویۂ نگاہ و انٹرایکشن دورہ خنجراب کے موقع پر گئے تو معلوم ہوا کہ واخاں کی پٹی وہاں سے کافی دور ہے، اُس کو دیکھنے کے لئے پاکستان کی مسلح افواج کی مدد کی ضرورت ہوگی، چنانچہ وہ نہیں دیکھ سکے، اس کے علاوہ چینیوں نے جو واخاں کی 90 میل کی افغان سرحد سے جو پہاڑ کے نیچے سے شروع ہوتی ہے وہاں پر ہیلی پیڈ اور فضائی اڈے بنا لئے ہیں تاکہ فوری ردعمل ظاہر کیا جاسکے۔ جہاں واخاں میں امریکہ نے بڑے حساس آلات لگا رکھے ہیں تو وہاں چینیوں نے بھی اپنے علاقے میں مناسب کارروائی کررکھی ہے جیسا کہ مغربی پریس پروپیگنڈا کررہا ہے، اس کے علاوہ امریکہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ پر چینی بحریہ پہنچ چکی ہے، جس کی پاکستان نے یہ کہہ کر تردید کی ہے کہ پاک بحریہ اِس قابل ہے کہ وہ خود اپنی سمندری حدود کا تحفظ کرسکے، اسے کسی اور کی مدد کی ضرورت نہیں البتہ وہ چین سے 8 آبدوزیں ضرور خرید رہا ہے، اس کے علاوہ پیٹرولنگ کے لئے ہمارے پاس جدید ترین فاسٹ اٹیک میزائل کشتیاں ہیں، اورین طیارے جیسی صلاحیت کے حامل فریگیٹ ہیں۔ پاک بحریہ یمن سے لے کر کراچی تک گہرے نیلگوں پانی کی بحریہ ہے یعنی وہ اپنے تجارتی جہازوں کی حفاظت کرسکتی ہے، یہاں تک بھارتی جہازوں کو کئی مرتبہ بحری قزاقوں سے بچایا ہے۔ بھارت کی متاثرہ خاندان کھل کر پاکستانی بحریہ کی تعریف کرتے ہوئے نہیں چوکتے اور بھارتی بحریہ کو تنقید کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ امریکہ یہ الزام بھی لگا رہا ہے جس میں بھارت بھی شامل ہے کہ چین بھارت کو گھیر رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان تو دوسری طرف سری لنکا اور تیسری طرف برما جہاں مسلمانوں کو بے دریغ قتل شاید اس لئے بھی کیا جارہا ہے تاکہ چین اور پاکستان کے درمیان دوری پیدا ہو اور کشمیر کے مسئلے سے توجہ کم ہو۔ مزید برآں چین نے ڈی جیبیوٹی میں اڈہ قائم کرکے بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اس سے قزاقوں، انسانی اسمگلروں اور افریقہ اور مغربی ایشیا میں امن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ مزید برآں عالمی بحری تجارتی راستوں کی حفاظت کے امکانات بھی بڑھیں گے۔ چین کا یہ اڈہ امریکی کا افریقہ میں بحری اڈہ لی مونیٹر سے چند میلوں کے فاصلے پر ہے۔ ڈی جی بیوٹی بحری اڈہ بہت اسٹرٹیجک اور مصروف سمندری شاہراہ پر واقع ہے۔ چین مشرق وسطیٰ میں بھی امریکہ پر شام کی تعمیرنو کا منصوبہ بنانے پر چیلنج کررہا ہے کہ چین شام کو ازسرنو تعمیر کرنے کا عزم کر چکا ہے۔ اس وقت 150 چینی کمپنیاں شام میں کام کررہی ہیں۔ چین بحر اوقیانوس میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہے، جواباً امریکی اور مغربی ممالک کا یہ خیال ہے کہ اگر وہ بلوچستان میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دیں تو چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کو ناکام بنا دیں گے۔ وہ پاکستان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں، پاکستان بظاہر اُن کے دباؤ کو بے اثر کرنے کے لئے حقانی نیٹ ورک اور جماعۃ الدعوۃ کے نیٹ ورک سے دوری اختیار کرکے امریکی دباؤ کو بے اثر کرنا چاہتا ہے مگر چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اگرچہ امریکیوں کا یہ خیال ہے کہ بلوچستان ہی وہ اصل جگہ ہے جہاں سے سی پیک کو متاثر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کی مدد حاصل کرکے اُن کو افغانستان سے ملانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بلاک بنے تاہم یہ کیسے ہوگا ازبکستان، تاجکستان پاکستان کے خلاف کیسے جاسکتے ہیں، وہ صرف بلوچستان میں ہی گڑ بڑ پھیلانا نہیں چاہتے بلکہ ایران کے سیستان کو بھی متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے لئے امریکیوں نے داعش کو افغانستان میں جمع کیا ہے، وہ ہمارے خلاف مخلوط جنگ ہائبرڈ وار لڑ رہے ہیں۔ جس میں ہر طرح کی دہشت گردی، فرقہ واریت، لسانیت کو ہوا دے کر ملک کو عدم استحکام کرنا چاہتے ہیں وہ جس طرح شام میں ناکام ہوئے ہیں یہاں بھی بُری طرح ناکام ہوں گے۔ اس لئے کہ بلوچ عوام پہلے ہی متحد ہوچکے ہیں، صرف چند لوگوں کا سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے خلاف پوسٹر لگانے سے اُن کا کام نہیں چل سکتا ہے اور اُن کے عزائم پورے نہیں ہوں گے اور انشاء اللہ سی پیک مکمل ہوکر رہے گا۔
سانحہ ارتحال
تحریک پاکستان کے کارکن، سینئر مسلم لیگی رہنما اور سابق وفاقی وزیرقانون میر نواز خان مروت 84 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ مرحوم سینئر وکیل کراچی بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری میر خالد نواز مروت کے والد تھے۔ مرحوم کی نماز جنازہ میں مرحوم کے اہل خانہ، عزیز واقارب، وکلاء اور عمائدین شہر نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ میر نواز خان مروت مرحوم یکم فروری 1933ء کو لکی مروت میں پیدا ہوئے۔ وہ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور ماہر قانون داں تھے۔ میر نواز خان مروت 1985ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ وفاقی وزیر قانون بھی رہے اور موتمر العالم الاسلامی کے فعال عہدیدار کے طور پر دنیا کے کئی ممالک میں عالم اسلام کا پیغام امن پہنچاتے رہے، انہیں کئی عالمی اور علاقائی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ مزید برآں میر نواز خان مروت کو یہ شرف حاصل تھا کہ انہوں نے ناموسِ رسالتؐ کے حوالے سے قانون سازی کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کیا اور اس مسودے کو قومی اسمبلی و سینیٹ میں وزیر قانون کی حیثیت سے پیش کیا تھا اور اس وقت کی پارلیمنٹ نے اس قانون کو منظور کیا تھا۔ ادارہ ’’زاویۂ نگاہ‘‘ ان کے لواحقین کے ساتھ غم میں برابر کا شریک اور اُن کے لئے دُعاگو ہے۔

مطلقہ خبریں