Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکا اور چین جنگ

چین اور امریکا کے درمیان اگر جنگ ہوئی تو اس کے دُنیا بھر میں بہت تباہ کن اور گہرے اثرات پڑیں گے، چین امریکا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنرز ہے، چین کے ساتھ جنگ سے جرمنی، جاپان، آسٹریلیا، روس اور جنوبی امریکا کے ممالک بھی متاثر ہوں گے

نصرت مرزا

امریکا میں چین کے خلاف جنگ کی بات ہورہی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع، امریکا کا عالمی سرمایہ کار، امریکا کا ہارا ہوا صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور سابقہ سلامتی امور کے مشیر اسٹوبینن اِس جنگ کے حق میں ہیں۔ یہ سن رہے ہیں کہ وقت آ گیا ہے کہ چین سے امریکا اپنی طاقت کا لوہا منوائے۔ سوال یہ ہے کہ کون پہل کرے۔ وہ ایسی جنگ شروع کردے گا، جس کے بعد بہت مارا ماری ہوگی۔ یہ اس طرح ہوگا کہ ایشیائی پانی میں ایک جہاز اگر گزر رہا ہے تو دوسرے جہاز کو گزرنے سے روک دے گا۔ کوئی ایک کو مارے گا دوسرا دوسرے کو۔ ایسی جنگ کی باتیں کرنا ایک بے وقوفانہ عمل ہے، تو ایک میزائل کے استعمال کو دوسرے میزائل کا فائر کئے جانے کی بات کی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ اس طرح ہوگا جیسے ہم دوسری جنگ عظیم لڑ رہے ہوں۔ مگر ہم یہ جنگ لڑنے نہیں جا رہے، اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
اگر جنگ امریکا کی طرف سے شروع ہوتی ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ امریکا اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ طاقتور سمجھ رہا ہے۔ چین کو بہت کمزور۔ پنٹاگون یہ ڈوکٹرائن کو اپنائے ہوئے ہے۔ اس پر ایک مینول بھی بنائی گئی ہے۔ واشنگٹن ڈی میں یہ سلسلہ اٹھا ہوا ہے کہ یہ ایک کم مدت کی جنگ ہوگی، جو چند دنوں میں ختم ہوجائے گی۔ ہفتہ بھی نہیں لگے گا اس جنگ کو ختم ہونے میں۔ مگر پھر ویت نام، لاؤس، کمبوڈیا اور افغانستان میں کیا ہوا۔ افغانستان کی جنگ 20 سال چلی۔ اب بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ سو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پنٹاگون کا حساب کتاب غلط ہوتا ہے۔ وہ اپنی روزی، سوئی اور مال بنانے اور امریکا کو مصروف رکھنے اور امریکی فوج کی ضرورت کو احساس دلانے کے لئے امریکی کسی نہ کسی جنگ میں جھونک دیتے ہیں، جو برسوں تک چلتی ہے۔ اُن کی فوج کی اہمیت اور امریکی جنرلوں کی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں۔ رینڈ کارپوریشن جو مکمل طور پر پنٹاگون کا تھینک ٹینک ہے اور اُس کی راگنی آلاپتا رہتا ہے۔ اب وہ آبنائے تائیوان اور جنوبی بحر چین جنگی کھیل کھیل رہے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ جنگ طویل اور بہت نقصان دہ ہوگی۔ اب 2021ء کا زمانہ ہے، 1960ء کا نہیں، چین بہت ترقی کر چکا ہے۔ اگر جنگ ہوتی ہے تو امریکا کو تجارتی طور پر بہت نقصان ہوگا، ایپل کی کمپنی بند ہوجائے گی، اُس کے 1.4 بلین ڈالرز کھو دے گا۔ اس کے اسٹور بند ہوجائیں گے، امریکا کو شدید نقصان پہنچے گا۔ چینی جتنی امریکی گاڑیاں خریدتے ہیں اتنی امریکی بھی نہیں خریدتے۔ امریکا کو اپنی چین سے تجارت کو خدا خافظ کہہ دینا ہوگا، وال میٹ دکانیں بند ہوجائیں گے، پلاسٹک کی اشیاء ہی نہیں، یا صفائی کے موپس پر ہی انحصار نہیں بلکہ ادویات، موٹرسائیکل، امریکا چین سے 472 بلین ڈالرز کی اشیاء خریدتا ہے جن میں اعلیٰ ٹیکنالوجی اور کم تر درجہ ٹیکنالوجی کی اشیاء شامل ہیں، جو چین میں بنتی ہیں یا خود امریکا میں مگر اس کا خام مال یا پرزہ جات چینی کمپنیوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔ جواباً چین امریکا سے 163 بلین ڈالرز کی اشیاء خریدتا ہے۔ پیٹرولیم کی اشیاء، کمپیوٹر کی اجزاء، ایئرلائن انجن، سویابین اور دیگر اشیاء اس طرح وہ کمپنیاں جو یہ سامان تیار کررہی ہیں وہ بند ہوجائیں گی اور لوگ بے کار ہوجائیں گے، جو تعداد میں لاکھوں میں ہیں۔ چین کچھ ایسی اشیاء امریکا کو فراہم کرتا ہے جو امریکا کی الیکٹرونک کے صنعت کاروں کی ضرورت قرار دی جاتی ہیں، جسے پاور پلگ، سیمی کنٹریکٹر کا خام مال اس کا نیم البدل فوری طور دُنیا سے ملنا ممکن نہیں ہے۔ یہ کمپیوٹر میں بھی استعمال ہورہا ہے۔ کمپیوٹر انڈسٹری بُری طرح متاثر ہوگی۔ اگر تائیوان سے یہ اشیاء حاصل کی جائیں تو وہ امریکا کی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ اگر جنگ ہوئی تو پہلا کام چین یہ کرے گا کہ تائیوان کو سیمی کنڈکٹر کی سپلائی کو تباہ کردے۔ چین کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہوگی کیونکہ آبنائے تائیوان 100 کلومیٹر سے زیادہ طویل نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ امریکا کے لئے کافی تکلیف دہ ہوگا۔ کچھ سنگی چھپائی یعنی پتھر پر چھپائی کی مشین چین سے دستیاب ہوتی ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ پتہ چل جائے گا کہ امریکا کا انحصار کافی حد تک چین پر ہے، اس کا متبادل نہ جاپان، نہ انڈیا اور نہ ہی تائیوان ہے۔ مزید تفصیل میں جائیں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ امریکا کی آٹو انڈسٹری کو سپارک پلگس چین سے آتے ہیں۔ اب یہ چین سے آنا بند ہوجائیں گے تو امریکا کی آٹو موبل انڈسٹری بُری طرح متاثر ہوگی۔ بوئنگ کمپنی کے بہت سے پارٹس چین سے آتے ہیں۔ امریکا اُن کو بنا لے گا مگر فوری ضرورت کیسے پوری کی جائے گی، اس بات کا امریکا فیصلہ نہیں کرسکا۔
امریکا سے ہٹ کر دیکھا جائے تو چین اور امریکا کے درمیان اگر جنگ ہوئی تو اس کے دُنیا بھر میں بہت تباہ کن اور گہرے اثرات پڑیں گے۔ چین سے دوسرے ممالک بھی سیمی کنٹریکٹر خریدتے ہیں مگر صرف امریکا اور چین کی بات کی جائے تو گوگل کے مطابق چین امریکا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنرز ہے اور اس سے جنگ سے سب ممالک متاثر ہوں گے، جن میں جرمنی، جاپان، آسٹریلیا، روس اور جنوبی امریکا کے ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ ممالک مکمل طور پر متاثر ہوں گے اور عالمی معیشت مکمل طور پر تباہ ہوجائے گی۔ امریکا پہلے ہی مشکل میں پھنسا ہوا ہے، اب اگر اس کی کرنسی کو کوئی دھچکا لگا تو اُس کی مڈل کلاس ڈوب جائے گی۔ اُس کی تجارتی دُنیا کووڈ-19 سے پہلے ہی متاثر ہے، روزگار غائب ہورہا ہے، لوگ اپنی تنخواہوں پر گزارہ کررہے ہیں اور وہ بھی مشکل میں، کیونکہ معاشی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہے۔ امریکیوں کی معاشرتی زندگی محدود ہوگئی ہے اور گھر میں بند رہتے ہیں۔ اس وجہ سے دُنیا بھر میں ہنگاموں کا خطرہ ہے۔ اس کے بعد کیا امریکا کے لوگ اس بے وقوفانہ جنگ کی حمایت کریں گے؟ جو اچانک اور مکمل طور تباہی لائے گی اور ساری دنیا میں معاشی کساد بازاری پیدا کردے گی، اگر ایسا ہوا تو امریکی عوام وہائٹ ہاؤس پر چڑھائی کردیں گے۔ جوق درجوق مظاہروں کی لہر شروع ہوجائے گی۔ ایک کے بعد دوسری کی لہر کا امریکی صدر کے گھر کو سامنے کرنا پڑے گا۔ سروں کا ایک سمندر ہوگا جو امریکی صدر کو گھیرے رکھے گا۔ ٹرمپ یہ جنگ شروع کرنا چاہتا ہے اور پنٹاگون بھی اُس کے حق میں ہے مگر وہ اس طرح امریکا کی تباہی کا سامان کررہے ہیں۔ امریکا خود جنگ نہ بھی کرے مگر وہ دوسرے ملکوں کو اپنی جنگ کرنے کے لئے اکسا رہا ہے، اشتعال دلا رہا ہے۔ مثال کے طور پرایران کے افسران کو قتل کرکے۔ اسلحہ کنٹرول معاہدات سے علیحدگی اختیار کرکے، نیٹو کو روس کے قریب کرکے، کئی ممالک کے خلاف پابندیاں لگا کر جسے وہ دیوار سے لگا سکتا ہے اور تجارتی جنگ کرکے۔ چین کے ساتھ جنگی کھلواڑ کرکے جنوبی بحر چین اور آبنائے تائیوان میں ایسی صورت میں جنگ کسی وقت بھی کسی مقام سے بھی شروع کرسکتی ہے۔ اگر امریکا تباہ نہ بھی ہو تو سب سے زیادہ نقصان امریکا کو ہی ہوگا۔

مطلقہ خبریں