مکافاتِ عمل
افسانہ
عطیہ ربانی
اس کی فلائٹ میں کچھ دن ہی باقی تھے لیکن جتنی رقم عبدالمجید بھائی نے لانے کو کہا تھا وہ بندوبست نہیں ہو پا رہا تھا۔ اب کام دھندا ویسا نہیں رہا تھا۔ سختی بہت زیادہ ہوگئی تھی۔ اس کے کافی ساتھی پکڑے گئے تھے، کچھ ملک چھوڑ کر جا چکے تھے اور کچھ اس کے جیسے جو ابھی ملک چھوڑنے کی تیاری میں تھے۔
موبائل چھیننا اور گلی کوچوں میں چھوٹی چھوٹی وارداتیں اس کا پیشہ نہیں تھا لیکن آمدنی سے زیادہ اخراجات نے جینا مشکل کیا ہوا تھا پھر اس کی صحبت جیسی تھی۔ ضرورت یا اشد ضرورت جب مجبوری بن جاتی ہے تو حالات کے مطابق انسان کو ڈھال لیتی ہے۔ انسان پڑھ لکھ کر کسی اچھے عہدے پر فائز ہو تو فائلوں کی ہیرا پھیری سے ذرا باعزت چوری میں ملوث ہوتا ہے، کسی سرکاری محکمے میں حفاظت کے لئے تعینات ہو تو ذرا طاقتور چور ہوتا ہے اور جو کم پڑھا لکھا بے روزگار ہو وہ چھوٹی چھوٹی چوری چکاری میں ملوث ہوجاتا ہے۔ یہی حال اس کا تھا۔ پہلا موبائل چھین کر جو کمائی ہوئی تھی اس سے بجلی کا بل ادا کیا تھا۔ گھر کی ضروریات کے پیش نظر اپنی انا کا قتل، اپنی خودداری کا ایک بار ایثار کردیا لیکن اس کے بعد توبہ کرلی کہ آئندہ یہ کام نہیں کرنا مگر کیا کیا جائے۔ بل صرف بجلی کا تھوڑا ہی آتا ہے اور پھر ہر مہینے…… کام نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ یہ اس کی سوچ تھی۔ جب تک کوئی ڈھنگ کا کا نہیں ملتا بس تب تک ہی لیکن پھر جتنی کمائی ہونے لگی کوئی کام ڈھنگ کا لگتا ہی نہیں۔ لیکن جب سے بڑے بھائیوں کا سیاست میں پاؤں لڑکھڑائے تب سے اس دھندے میں بھی زور نہیں رہا۔ ”سنا ہے وہ ہری کوٹھی والے سب باہر چلے گئے ہیں خالی پڑی رہتی ہے۔ ان کا باپ تو یہیں تھا۔ نہیں یاد نہیں اس کے بیٹے نے اپنے پاس آسٹریلیا بلوا لیا تھا۔ اس کے بعد تو سنسان ہی پڑی ہے۔“ واپسی پر اس کا دھیان اس ہری کوٹھی پر ہی لگا رہا۔ گھر پہنچ کر بستر پر لیٹے لیٹے اس نے کچھ سوچا اور پھر وہ جھپاک سے کھڑا ہوا۔ الماری میں سامنے سے کپڑے ہٹائے اور پیچھے دیوار میں ہاتھ سے زور لگایا تو دیوار میں پوشیدہ دراز باہر آگئی۔ اس نے اپنی ریوالور نکال کر لوڈ کی اور چپکے سے گھر سے باہر نکل آیا۔ اس کے قدم ہری کوٹھی کی جانب تھے۔ قریب پہنچ کر اس نے آس پاس نظر دوڑائی، اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد کچھ قدم پیچھے ہٹا اور پھر دوڑ کر آگے بڑھا اور دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوگیا۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ نہ کوئی بلب تھا نہ لیمپ کی روشنی مطلب کہ کوٹھی خالی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھا۔ جس جگہ سے کودا، اس سے کچھ فاصلے پر دائیں جانب پورچ تھا۔ اس سے آگے دائیں جانب ہی گھر کا داخلی دروازہ تھا جو یقیناً مقفل ہوتا تو اس نے سامنے بنی کھڑکیوں پر نظر ڈالی شاید کوئی کھلی ہو۔ ہلکے ہلکے دباؤ سے ہر کھڑکی کھولنے کی کوشش کی لیکن سب بند تھیں، وہ چلتا چلتا داخلی دروازہ تک پہنچ چکا تھا کہ اچانک اس کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور پاؤں کے پاس باقاعدہ حرکت ہوئی تو ایک پل کو وہ گھبرا گیا اور اس کا توازن کچھ خراب ہوگیا، پاؤں کے نیچے بلی کا بچہ تھا جو دوڑتا ہوا ایک طرف چھپ گیا، لیکن اس کا توازن بگڑ چکا تھا اور وہ دروازے سے ٹکرا گیا۔ حیرت انگیز طور پر وہ گھر کے اندر داخل ہوگیا، دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لگتا ہے یہاں کچھ بھی نہیں ہے تبھی دروازہ تک بند کر کے نہیں گئے۔ اسے کچھ مایوسی سی ہوئی۔ گھر میں عجیب قسم کا سناٹا تھا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی، بائیں جانب محرابی دروازہ تھا جہاں سے اندر رکھے صوفے نظر آرہے تھے۔ وہ دبے پاؤں وہاں داخل ہوا تو سامنے دیوار پر ایل ای ڈی پر نظر پڑی۔ ”پرانی بھی ہوئی تو بھی ٹھیک ہے۔“ اس نے دھیرے اتار کر صوفے پر رکھی اور باقی گھر کا جائزہ لینے لگا۔ اس ٹی وی لاؤنج کی دائیں جانب دروازہ مقفل تھا لیکن بائیں جانب دروازہ کچھ ادھ کھلا سا لگا۔ وہ تیزی سے دبے پاؤں اس کمرے میں داخل ہوا۔ اندھیرے کی وجہ سے کچھ ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سامنے دیوار ایک اور ایل ای ڈی لگی تھی۔ افف اس کا سانس ایک پل کو رک گیا، کمرے میں ایسی بدبو آرہی تھی جیسے جانور اپنی غلاظت یہاں کر جاتے ہوں۔ کمال ہے سب ایسے کھلا چھوڑ کر چلے گئے۔ سامنے بستر تھا جس پر سفید چادریں پڑی تھیں، وہ بستر کے پاس سے ہوتا ہوا آگے بڑھا تو اچانک اس کا ہاتھ کسی نے پکڑ لیا۔ اس کی چیخ نکل گئی۔ ایک لمحے کو جیسے جسم سن سا ہوگیا۔ اچھا خاصا ہٹا کٹا ستائیس سالہ نوجوان تھا لیکن اس اندھیرے میں گھبرا گیا۔ اسی اثناء پلنگ کے ساتھ رکھے لیمپ روشن ہوگئے۔ بستر پر ایک نہایت ہی نحیف، بوڑھا شخص لیٹا ہوا تھا۔ ”آا۔ آپ کون ہیں؟“
”یہ سوال تو مجھے پوچھنا چاہئے کہ تم کون ہو اور میرے گھر میں کیا کررہے ہو؟“
”مم…. ممیں…. میں وہ….“
”اس کا ہاتھ جیب میں جا رہا تھا کہ کیا پستول نکالے یا نہیں۔“
”چور ہو، چوری کرنے آئے ہو؟“
”نن، نہیں وہ….“ ایک دم اس نے گھبراہٹ پر قابو پایا اور خود کو سنبھالا۔
”دیکھو بابا جی، گھر میں اور کون کون ہے؟ سیدھی طرح بتا دو۔“
”کیا تمہیں میرے علاوہ کوئی دکھائی دے رہا ہے، جو چاہئے لے جاؤ یہاں کوئی نہیں ہے جو روک سکے۔“
”اگر کوئی ہوا بھی تو بچے گا نہیں،“ اس نے ریوالور ہاتھ میں پکڑ لیا اور ہر طرف نظر دوڑانی شروع کی۔ ”کمرے میں کتنی بو آرہی ہے یا صفائی نہیں کرواتے۔“
”میں بستر سے اٹھ نہیں سکتا۔ کیسے کروں۔“
اس نے تیزی سے دیوار سے ایل ای ڈی اتارتے ہوئے پوچھا۔”نوکر کہاں ہیں اتنا بڑا گھر ہے ہم نے تو سنا تھا یہاں نوکروں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ نوکروں سے کرواؤ۔ کیا فائدہ ہے اتنے امیر ہونے کا چچچ چچچ!“
”ہاں تھیں کبھی اب نہیں ہیں۔ بچے کبھی کبھار رقم بھیج دیا کرتے تھے تو تنخواہیں ادا ہوجاتی تھیں اب نہیں ہو پاتیں۔“
”بابا جی تم تو باہر چلے گئے تھے، سنا تو ایسا ہی تھا۔“
”ہاں بیٹی کینیڈا میں ہے کچھ عرصہ اس کے پاس رہا لیکن اس کا شوہر زیادہ دن برداشت نہیں کر پایا۔ پھر بیٹوں نے آسٹریلیا بلا لیا لیکن ان کی گوری بیویاں تیمارداری نہیں کرسکتیں تو واپس بھیج دیا۔“
وہ کمرے میں رکھے قیمتی ڈیکوریشن پیس اٹھا کر تھیلے میں ڈالنے لگا۔ ”بُرا تو نہیں لگ رہا ناں اب تمہارے کس کام کے ہیں۔“
”نہیں جو لے جانا چاہتے ہو لے جاؤ لیکن ایک احسان کرتے جاؤ۔“ اس نے واپسی کے لئے قدم بڑھائے ہی تھے کہ بات سن کر رک گیا۔ بوڑھا کیا مانگے گا۔”کیسا احسان؟“
”مجھے جان سے مار دو۔ اب اور موت کا انتظار نہیں ہوتا۔“
”ہاہاہاہا…. بابا جی مذاق کر رہے ہو۔“
اس بوڑھے کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔”میری حالت دیکھو، اکیلا پڑا ہوں کوئی پانی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔ جانتے ہو میں نے کب سے کھانا نہیں کھایا۔“
”تو میں کچھ لا دیتا ہوں۔ کیا کھاؤ گے پیزا آرڈر کروں۔“
”یہ گولی چلا دو مجھ پر۔ خدا کیلئے اتنا احسان کر دو۔ میری دراز میں ہتھیار ہے تم پر کوئی الزم نہیں ہوگا۔ یہ تو ویسے بھی خودکشی ہے۔“
”میں نے آج تک کسی کو جان سے نہیں مارا۔ کبھی بدتر حالات بھی پیش آئے تو صرف ٹانگ پر دیکھ کر گولی ماری کہ کسی کو بس چھو کر ہی گزرے۔ میں چور ہوں لیکن قتل کا عذاب نہیں سہہ سکتا۔ ساری زندگی کی نیند قربان ہوجائے گی۔“
”نہیں یہ تم نجات دلاؤ گے مجھے۔ تم پر گناہ نہیں، مجھ پر ہوگا جو اتنا بزدل ہے کہ اپنی جان بھی نہیں لے سکتا۔“
”میرا زندگی بھر کا سکون قربان ہوجائے گا۔ لوگ اپنوں کی خاطر زندگی بھر ایثار سے کام لیتے ہیں کیا تم نے کبھی زندگی میں کسی کیلئے کچھ نہیں کیا جو اس حال میں پڑے ہو۔بابا جی کبھی تو کسی کی خاطر قربانی دی ہوگی اپنی اولاد کو واسطہ دو وہ تمہیں بلا لے۔“
”وہ ایسا نہیں کریں گے۔ مجھے یہیں اسی حال میں رہنا ہوگا۔ خدا کیلئے مجھ پر ترس کھاؤ۔ اب تو میں اٹھ کر حاجت رفع کیلئے بھی نہیں جاسکتا۔ اسی بستر پر نکل جاتا ہے۔“
”اوہ…. تو یہ بدبو…. بابا جی ایسا کیا گناہ کر بیٹھے ہو؟“
”میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کبھی کسی شہر کبھی کسی ملک میں کام کی خاطر جایا کرتا۔ میری بیوی کو میری غیرموجودگی میں اپنے میکے میں رہنا پسند تھا، اس کو یہاں میرے باپ کے ساتھ نہیں رہنا تھا اور مجھے کبھی اعتراض بھی نہیں تھا۔ ایک دن جب میں پاکستان واپس لوٹا تو دیکھا میرا باپ یہاں مرا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کا جسم چار دن سے مردہ پڑا تھا۔ اب میرے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ میرے بچوں کو تو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ مجھے اس حال میں چھوڑ کر مت جاؤ۔ یہ میری سزا ہے مجھے بھگتنی پڑے گی۔“
اوہ…. ایک لمحے کو اس کا دل پسیجا۔”بابا جی مجھے معاف کرو۔“ وہ واپس جانے کیلئے مڑا تو اس بوڑھے نے اس کو بازو سے پکڑ لیا۔ ”مجھ پر احسان کر جاؤ خدا کے واسطے تمہارا سکون، تمہاری نیند قربان نہیں ہوگی۔“”چھوڑو بابا جی، میرا بازو چھوڑو۔“ اس نے بوڑھے کا ہاتھ جھٹکا، سامان اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ لیکن اس بوڑھے کی آہ و زاری ختم نہیں ہوئی۔ ”خدا کیلئے مجھے ایسے چھوڑ کر مت جاؤ۔ یہ قتل نہیں ہے نہ تمہاری نیند و سکون کا ایثار ہے یہ بس احسان ہے۔ میرے باپ کی لاش میری آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ یہ اندھیرا مجھے دہلاتا ہے۔“
”مجھ پر احسان کو جاؤ۔ میں روز روز، سسک سسک کر مر رہا ہوں۔ میرے باپ نے میری ماں کے مرنے کے بعد کبھی شادی نہیں کی، اپنی تمام خوشیاں ایثار کردیں اور میں نے اسے یہاں اکیلے مرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ اسی بستر پر دم توڑا تھا میرے باپ نے۔!“
”اففف“
اس بوڑھے کی چیخ و پکار ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ سب چھوڑ کر باہر نکل گیا لیکن بند کھڑکیوں سے بھی اس کی آواز سنائی دے رہی تھی، اس کی بلند و بانگ چیخ و پکار….
”میں اپنے باپ کی لاش پر پڑا رہتا ہوں۔ جیسے وہ اس بستر پر جانے کیسے تڑپ کر اس دنیا سے گیا ہو۔ مجھے وہ تکلیف آج محسوس ہوتی ہے۔ میرے باپ کی لاش مجھے گھور رہی ہے۔ اس کی کھلی آنکھیں مجھے دہلا رہی ہیں۔ سنو!!! مجھ پر احسان کر جاؤ۔ خدا کے لئے!“
وہ واپس پلٹا…. تیزی سے کمرے کی طرف بڑھا اور ایک…. دو…. تین…. کتنی گولیاں ایک ساتھ چلا دیں۔ خودکشی کا کیس تھا کسی نے پولیس کو فوری اطلاع کردی تھی۔ تمام کارروائی کے بعد آج صبح اس کی آخری رسومات ادا کردی گئیں۔ وہ فلائٹ میں آنکھین بند کئے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یہ قتل تو نہیں تھا۔ اس کے باپ کے ایثار کو بھلانے کی سزا تھی بس۔ وہ اس بوڑھے کی شکل میں اپنا کل دیکھ رہا تھا۔ جہاز کی کھڑکی سے باہر بادلوں میں اسے اپنا گزرا ہوا وقت اور آنے والا وقت دکھائی دے رہا تھا۔
مکافاتِ عمل
مطلقہ خبریں