Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

تیل۔۔ ایران، چین اور خلیج

چین کے ساتھ معاہدے سے ایران کی معیشت مضبوط ہوگی اور تیل کی برآمد بڑھنے سے اس کی معیشت کا حجم بھی بڑھے گا جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا اس لئے وہ ایران کو گھیرنے کی پوری کوشش کریں گے
منیر احمد بلوچ
فرض کیجئے کہ ایران اپنے تیل کا سب سے زیادہ حصہ چین کو بیچنا شروع کر دے یا چین، جو دنیا میں تیل کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے، اگر اپنی ضرورت کا سب سے زیادہ تیل ایران سے خریدنا شروع کر دیتا ہے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ ہوگا یہ کہ چین دوسرے ممالک سے اپنی توانائی کے حصول کا انحصار کم کر دے گا جن میں خلیجی ممالک بھی شامل ہوں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خلیجی ممالک کے تیل کا ایک بڑا گاہک چھن جانے سے ان کے سودوں میں کمی ہو جائے گی جبکہ دوسری جانب ایران کا چین پر انحصار اس لئے بھی سودمند ہوگا کہ امریکا، برطانیہ اور یورپ اگر پہلے کی طرح ایران پر معاشی پابندیاں عائد کرتے ہیں تو چین ان پابندیوں کو خاطر میں نہیں لائے گا، اسے ان ممالک کی کوئی پروا نہیں ہوگی اور وہ ایران سے تجارت اور اس کا تیل بغیر کسی ڈر اور خوف کے خریدتا رہے گا، جس سے ایران کی معیشت کو زبردست سہارا مل سکتا ہے۔ ایرانی قوم کی ضرورت کی ایسی تمام اشیاء جنہیں یورپ کی جانب سے ایران کے لئے شجر ممنوعہ قرار دے دیا جائے گا، ایران وہ سب کچھ چین سے باآسانی خرید سکے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران چین سے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کر کے مغرب کی مکمل محتاجی کے دائرے سے نکل سکتا ہے۔ دوسری طرف چین کی ایران میں سرمایہ کاری سے اس کا خطے میں سیاسی اور دفاعی عمل دخل بڑھنے لگے گا اور ایسے میں جب چین اربوں ڈالرز ایران میں سرمایہ کاری کے لئے لائے گا تو اس سے ایران کی معیشت کو بہت بڑا سہارا ملنے سے ایران کی فوجی طاقت بھی چین کی مدد اور تعاون سے بڑھنا شروع ہوجائے گی، پھر چین اپنے سرمائے سے شروع کئے گئے پروجیکٹس کی حفاظت کے لئے کسی بھی بیرونی حملے یا مداخلت کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھے گا، یورپ اور اسرائیل کی بھی یہ جرأت نہیں ہوسکے گی کہ وہ چینی منصوبوں پر حملہ کرسکیں یا ایسے مقامات کو نشانہ بنائیں جس سے چین کے مفادات کو زک پہنچے۔
جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا تھا، اس وقت امریکی صدر جو بائیڈن کی وائٹ ہاؤس سے ایک مختصر تقریر نشر کی گئی جو انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ اس تقریر کے مطابق امریکا یکم مئی سے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا عمل شروع کر رہا ہے اور 11 ستمبر تک امریکا اپنی تمام افواج افغانستان سے واپس بلا لے گا۔ امریکی صدر کی تقریر کا سب سے اہم فقرہ اور حوالہ ان 20 برسوں کا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ امریکا اب ماضی کے 20 برسوں کی جانب دیکھنے کے بجائے اگلے 20 برسوں کو سامنے رکھے گا۔ اکتوبر 2011ء میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان میں امریکی فوجیں لانے کی جو غلطی کی تھی، لگتا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اور صدر جو بائیڈن ویسے ہی فوجوں کا رخ ساؤتھ چائنا سمندر اور ایران سمیت عرب ممالک، خلیج اور برصغیر کی طرف موڑنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ سی آئی اے ان علا قوں میں اپنے پلان یکلخت نہیں شروع کرے گی بلکہ بغیر محسوس کرائے یہ پلان پانچ سے دس برس پہلے سے شروع کر دیئے جاتے ہیں اور امکان ہے کہ 2022ء یا شاید اس سے بھی پہلے اس کے اثرات دکھائی دینے لگیں گے۔ امریکا کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ ایران سے توانائی کے حصول میں چین کامیاب ہو اور پرشین گلف بھی چین کے زیراثر چلا جائے اور یہاں چینی کرنسی مضبوط ہو؟ ایران اور چین نے جس معاہدے پر دستخط کئے ہیں اس میں چینی کرنسی کی شرط نے امریکا سمیت تمام مغربی ممالک کو چونکا دیا ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ اب مڈل ایسٹ کے تیل کے سودے، جو مدتوں سے امریکی ڈالر کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں، آہستہ آہستہ چینی کرنسی میں تبدیل ہوتے جائیں گے اور ابتدا میں ایران، چین معاہدہ ہوا کا ایک لطیف جھونکا محسوس ہورہا ہے۔ کوئی ملک چینی کرنسی کی طرف جانے کا سوچے تو کیسے ممکن ہے کہ امریکی حکام اور ادارے اس سے بے خبر ہوں؟ یقیناً وہ اپنی پلاننگ میں مصروف ہوں گے اور جو امریکا کی روایت رہی ہے، وہ خطے کے حالات خراب کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ یہ درست ہے کہ چین ایران سے زیادہ سے زیادہ توانائی کے وسائل خریدنے میں انتہائی سنجیدہ ہے مگر ساتھ ہی اس کی یہ بھی خواہش ہے کہ امریکی ڈالر کی طرح اس کا یوآن بھی دنیا میں مضبوط ہو اور اسے تمام بین الاقوامی سودوں میں استعمال میں لایا جائے، کسی پر یہ پابندی نہیں ہونی چاہئے کہ ڈالر کے سوا کسی دوسری کرنسی میں لین دین نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاہدے سے ایران کی معیشت مضبوط ہوگی اور اس کی تیل کی برآمد بڑھنے سے اس کی معیشت کا حجم بھی بڑھے گا جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا، اس لئے وہ ایران کو گھیرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
اگرچہ امریکی چھتر چھایہ تلے خود کو محفوظ سمجھنے والے خلیجی ممالک کسی بھی صورت چینی کرنسی کو امریکی ڈالر کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہوں گے، اس لئے جب بڑے خلیجی ممالک چینی کرنسی میں تیل کے سودے قبول نہیں کریں گے تو چینی حکومت یہ کہتے ہوئے ان ممالک سے تیل خریدنا یا تو کم کر دے گی یا بالکل بند کر دے گی کہ اگر ایران چینی کرنسی میں تمام سودے کرنے کے لئے تیار ہے تو پھر ہمیں اپنی کرنسی اور سہولت کے لئے ایران سے ہی تیل خریدنا زیادہ مناسب محسوس ہوتا ہے۔
حال ہی میں امریکا نے اسرائیل کے ذریعے ایران کی نیوکلیئر سائٹ پر جو حملہ کرایا، میری نظر میں وہ ایران اور چین کے اعصاب اور ردعمل کا اندازہ کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی حملے سے ایران کا زبردست نقصان ہوا ہے اور وہ ابھی تک اسرائیل کو سوائے زبانی دھمکیاں دینے کے اور کچھ نہیں کرسکا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس حملے سے چین کو یہ اشارہ دے دیا گیا ہے کہ وہ اس معاہدے سے باز رہے۔
چین نے ایران کے بعد مڈل ایسٹ کی دوسری ریاستوں کو اپنے مستقبل اور بہترین سودوں کی جانب آنے کی تحریک دے دی ہے۔ یہ وقت بتائے گا کہ کون اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے البتہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکا اب اپنی پوری توجہ خلیج، ایران، ایشیا اور برصغیر کی جانب مرکوز رکھنا چاہتا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہمیشہ کی طرح اپنے وقتی مفادات کے لئے پاکستان کو استعمال کرنے کے لئے اس کی اہمیت پہلے سے بڑھ جائے گی۔ ممکن ہے کہ پاکستان کے اندر ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں جس سے امریکا کو چین کا راستہ روکنے میں مدد مل سکے۔ میرے خدشات تو یہی ہیں کہ پاکستانی سیاست میں نظر آنے والی ہلچل اور تبدیلیاں مستقبل کے کسی ممکنہ پلان کو پایہ تکمیل کی جانب لے جانے کے لئے پیدا کی جا سکتی ہیں۔
اگر امریکا اپنی کسی بھی قسم کی فوجی قوت کو خلیج فارس میں ایران کی جانب بڑھاتا ہے اور چین اپنے بحری بیڑے پرشین گلف کی جانب روانہ نہیں کرتا تو سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے معاہدے سے پیچھے ہٹ گیا اور دوبارہ سے سمٹنا شروع ہوگیا ہے، لیکن اگر چین ردعمل کے طور پر آگے بڑھتا ہے تو اس سے پرشین گلف سمیت پورے خلیج میں امریکا کے لئے بے تحاشا مسائل سر اٹھا سکتے ہیں۔ ایران معاشی پابندیوں سے بے نیاز ہو کر بے خوف ہوجائے گا، ڈالر کے بجائے مڈل ایسٹ چینی کرنسی یوآن کی جانب بڑھنے لگے گا اور سب سے بڑھ کر چین اپنی فوجی قوت سمیت پرشین گلف میں آ بیٹھے گا۔ اگر پاکستان چاہے تو ایران اور چین کے اس معاہدے سے بے پناہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے اسے اپنی کشتیاں جلا کر میدان میں اترنا ہوگا۔ عوامی جمہوریہ چین، ایران سے 25 سالہ معاہدے کے تحت 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے جس میں توانائی کا شعبہ سب سے اہم ہے۔ ایران چین معاہدے سے مغربی رستے سے آذربائیجان، ترکی اور مشرقی حصے میں پاکستان سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کے لئے تو اور بھی آسانیاں ہیں کیونکہ (بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی اٹیو) اور اس سے منسلک سی پیک میں اس کا مرکزی کردار اسے سب سے نمایاں کرتا ہے۔ سی پیک، مغربی روٹ اور آذربائیجان، ترکی اور پاکستان کی تین طرفہ کوآرڈینیشن میں ایران کی شمولیت سے ترقی کی راہیں کھول دے گا۔

مطلقہ خبریں