روس اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر ہے اور ماضی میں پاکستانی مفادات کے خلاف کام کرتا رہا ہے، پاکستان کیلئے یہ ایک اچھا اور نادر موقع ہے کہ روس سے تعلقات اتنے بہتر اور مضبوط کر لئے جائیں کہ آئندہ کبھی ہمیں بین الاقوامی فورمز پر روس کی مخالفت کا سامنا نہ ہو
عبدالحمید
روسی وزیرِ خارجہ جناب سرگئی لاروف نے پاکستان کا دورہ کیا۔ یہ دورہ بہت اہمیت کا حامل گردانا جا رہا ہے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے وزارتِ خارجہ اسلام آباد میں اعلیٰ حکام سے مذاکرات کیے۔
روسی وزیرِخارجہ نے وزیرِاعظم پاکستان جناب عمران خان اور پاکستان آرمی چیف جناب جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران اہم امور زیرِبحث رہے۔ ان ملاقاتوں میں ایڈوانس ٹیکنالوجی کے حامل دفاعی ہتھیاروں کی فراہمی کے علاوہ گیس پائپ لائن پروجیکٹ پر عمل درآمد، روس کی پاکستان کے اندر ہائیڈرو منصوبوں اور اسٹیل مل کی بحالی کے علاوہ متعدد پروجیکٹس پر تعاون کی پیش کش بھی کی گئی۔
سرد جنگ کے دوران دنیا بائی پولر تھی۔ ایک بلاک کی قیادت امریکا اور دوسرے کی سوویت یونین کے ہاتھ میں تھی۔ پاکستان امریکی مغربی دنیا کے بلاک کے ساتھ تھا جب کہ بھارت بظاہر غیرجانبدار ممالک کی تنظیم کا بانی رکن تھا لیکن حقیقت میں سوویت یونین کے ساتھ تھا۔ روس اور بھارت کے درمیان ایک دوستی کا معاہدہ تھا، جو عملاً ایک فوجی اتحاد تھا۔ اسی معاہدے کی وجہ سے 1971ء کی جنگ میں روس نے کھل کر بھارت کی مدد کی اور ہر قسم کے ہتھیاروں کی فراہمی کے علاوہ امریکی بحری بیڑے کو خلیج بنگال میں پاکستان کی مدد کے لئے سرگرمِ عمل نہ ہونے دیا۔ 1990ء میں جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تو اگلے کچھ عرصے تک امریکا واحد سپر پاور کے طور پر ساری دنیا پر حاوی رہا۔ پچھلی چند دہائیوں میں چین نے حیرت انگیز رفتار سے ترقی کی۔
امریکا جس نے بیسویں صدی میں ہر عالمی طاقت کو اپنے مقام سے گرا دیا وہ چین کی معاشی، اقتصادی اور فوجی قوت بننے سے کسی حد تک غافل بھی رہا اور ہوش آنے پر بے بس بھی نظر آ رہا ہے۔ اب چین بے پناہ قوت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہو چکا ہے اور بہت ہوش مندی سے پوری دنیا میں اپنے پاؤں پھیلا رہا ہے۔
روس ایک بہت ہی مضبوط قوت ہے لیکن چین کے مقابلے کی معاشی اور اقتصادی قوت نہیں۔ اصل میں روس کی معیشت چین کی معیشت سے کافی پیچھے رہ گئی ہے۔ روس کی معیشت بھارتی معیشت کا کوئی 60 فیصد ہے جب کہ چین کی معیشت روس اور بھارت دونوں کی مشترکہ معیشت سے ساڑھے تین گنا بڑی ہے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے پاکستان آنے سے پہلے دو دن بھارت کا دورہ کیا۔ وہ اس علاقے سے خوب واقف ہیں۔ چند یورپی زبانوں کے علاوہ سنہالی اور مالدیپی زبان بھی جانتے ہیں۔ وہ سری لنکا میں روسی سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ بطور وزیرخارجہ ان کو لمبا عرصہ ہوچکا ہے۔ ادھر بھارتی وزیرخارجہ ماسکو میں سفیر رہ چکے ہیں اور روس اور روسی قیادت سے خوب واقف ہیں۔
بھارت اور چین سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے روس نے بہت کام کیا ہے اور انہی کوششوں کا ثمر ہے کہ بھارت چین ڈی ایسکلیشن ممکن ہوسکی ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ روس بھارت کو اس دورے کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ بھارت چین کی دشمنی میں زیادہ آگے نہ بڑھے۔ کیویواے ڈی جس میں اب بھارت کو مرکزی کردار دیا گیا ہے وہ اصل میں ایک چین مخالف اتحاد ہی ہے۔
امریکا نے چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے جتنے اقدامات اٹھائے ہیں ان میں سے بیشتر وہ ہیں جن میں بھارت ایک سرگرم اور کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ روس اپنے دیرینہ دوست بھارت کو سمجھانے میں لگا ہوا ہے کہ اسے چین امریکا چپقلش میں اپنے بڑے پڑوسی چین کی مخالفت مول نہیں لینی چاہئے کیونکہ پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے۔
بھارت میں روسی وزیرِ خارجہ کے دورے کو اچھی پذیرائی نہیں ملی۔ دونوں وزرائے خارجہ کی مشترکہ کانفرنس میں جے شنکر نے انڈو پیسیفک کا حوالہ دیا تو جواب میں سرگئی لاروف نے ایشیا پیسیفک کی ٹرم استعمال کی جس پر بھارتی میڈیا آگ بگولہ ہوگیا۔ بھارت کو اس کا بھی شکوہ ہے کہ روسی وزیرخارجہ بھارت کے بعد پاکستان کیوں جا رہے ہیں۔ بھارت نے کم و بیش 25 سال اس پر بہت انوسٹمنٹ کی ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں پاکستان کو بھارت کا مدمقابل نہ سمجھا جائے۔
ہوتا یہ رہا ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی جب بھی بھارت کا دورہ کرتے تو ساتھ ہی پاکستان کو بھی شامل کر لیتے جس پر بھارت بہت جُز بُز ہوتا۔ پچھلی پچیس سالہ انویسٹمنٹ کے بعد بظاہر بھارت اس میں کامیاب ہوتا نظر آرہا تھا کہ کوئی بھی ملک پاکستان کے ساتھ بھارت کو نہ کرے۔ ادھر بھارت کو کامیابی ملنی شروع ہوئی، ادھر بھارت نے اپنی داخلی سیاست کی مجبوری میں پاکستان پاکستان کا راپ الاپنا شروع کردیا۔
بھارتی وزیراعظم مودی کی ہر بات کی تان پاکستان پر آکر ٹوٹتی تھی۔ پھر بھارت نے اگست 2019ء میں کشمیر کی خصوصی حیثیت پر شب خون مار دیا جس پر پاکستان سیکیورٹی کونسل چلا گیا۔ یوں دونوں ملک آمنے سامنے آ گئے اور بین الاقوامی افق پر دونوں ایک ساتھ زیربحث آنے لگے۔ رہی سہی کسر ایبٹ آباد کے قریب بھارت کی ناکام سرجیکل اسٹرائیک نے نکال دی جس کے جواب میں پاکستان، پاکستان کی مسلح افواج اور خاص طور پر پاکستان کی عظیم فضائیہ نے للکارتے ہوئے بھارتی دانت کھٹے کر دیئے۔
اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ بین الاقوامی افق پر یہ تاثر ابھرا کہ بھارت بس ایک کاغذی شیر ہے۔ بھارت چین جھڑپوں نے سونے پر سہاگہ کردیا۔ پاکستان کی معیشت بہت خراب ہے لیکن مودی حکومت نے معیشت کے میدان میں بھارت کو دوبارہ ایک غریب اور پسماندہ ملک بنا دیا ہے۔ روسی وزیرخارجہ نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے اندر زیادہ وقت گزار کر بھارت پاکستان کو زندہ کردیا ہے جس کا بھارت کو شدید قلق ہے۔
روسی وزیرخارجہ کی مودی صاحب سے ملاقات نہ ہونے کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت اپنے دفاع کے لئے ابھی روس کا محتاج ہے۔ اس کے پاس 86 فیصد ہتھیار روسی ہیں۔ رافیل طیاروں کو چھوڑ کر باقی سارے اچھے لڑاکا طیارے روسی ساختہ ہیں، آبدوزیں اور ٹینک روسی ساختہ ہیں۔ اس لئے ابھی بھارت روس سے دور نہیں جا سکتا لیکن چین دشمنی اور امریکی کاسہ لیسی میں امریکی پٹھو بننے پر اترا رہا ہے۔
روس افغانستان میں قیامِ امن کے لئے ایک سرگرم کردار ادا کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان یہ مسئلہ حل کرا دے۔ چین بھی افغان مسئلے میں بہت سرگرم ہے۔ دونوں جانتے ہیں کہ پاکستان اس حوالے سے بہت اہم ہے۔ تینوں ایک دوسرے کو سپورٹ اور سپلیمنٹ کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روسی وزیرِخارجہ کے دورے میں افغانستان کے لئے روس کے اسپیشل انوائے جناب ضمیر کابلوف ان کے ساتھ تھے۔
بھارت اور روس کی پچھلے سال سربراہی ملاقات کینسل ہوگئی تھی۔ اب یہ ملاقات شاید اکتوبر میں برکس سربراہی ملاقات کے موقع پر ہو لیکن صاف نظر آ رہا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں پہلے والی گہرائی مفقود ہے۔ چین اور روس کے تعلقات اس وقت اوجِ کمال پر ہیں۔ چین اور بھارت کی مخاصمت ہے اس لئے بھارت، چین روس گہرے تعلقات سے خوش نہیں ہے۔
اب روس اور پاکستان کے تعلقات میں خاصی گرم جوشی آتی جا رہی ہے حالانکہ ابھی یہ ایک ای وولونگ فینو میننہے لیکن بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اسے پاکستان کو ایڈوانس ٹیکنالوجی کے حامل ہتھیاروں کے ملنے پر تشویش ہے ویسے ہمارے پاس روس سے خریداری کے لئے کیش بھی نہیں۔ روس اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر ہے اور ماضی میں پاکستانی مفادات کے خلاف کام کرتا رہا ہے، پاکستان کیلئے یہ ایک اچھا اور نادر موقع ہے کہ روس سے تعلقات اتنے بہتر اور مضبوط کر لئے جائیں کہ آئندہ کبھی ہمیں بین الاقوامی فورمز پر روس کی مخالفت کا سامنا نہ ہو اور چین روس پاکستان کی ترقی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مل کر کام کریں۔ اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی کو ڈائینیمک بنا کر روس، فرانس اور دوسرے اہم ممالک کی طرف پروفیشنل انداز میں آؤٹ ریچ کریں تو کامیابی یقینی ہے۔ مجھے یقین ہے ہم یہ کرسکتے ہیں۔