Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بیلٹ اینڈ روڈ کے مقابل۔۔ امریکی بی 3 ڈبلیو منصوبہ

نیٹو سربراہ برسلز کانفرنس میں چین کی اقتصادی اور عسکری طاقت سے خائف
قادر خان یوسف زئی
جی سیون کانفرنس و نیٹو ممالک برسلز کانفرنس میں چین مخالفین صفِ آرا ہوچکے ہیں، گو کہ کھلے عام چین کو 30 ممالک سمیت جی سیون نے اپنا دشمن تو قرار نہیں دیا لیکن چین کے ”ون بیلٹ ون روڈ“ منصوبے اور عسکری طاقت و عالمی سطح پر اثرنفوذ کے مقابل ہونے والی صف بندیاں عالمی طاقت کا نظام تبیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ ”بلقان ریاستوں سے لے کر افریقہ تک چین کی عسکری موجودگی میں اضافہ ہورہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کو تیار رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ چین ہمارے قریب آتا جارہا ہے، چاہے وہ سائبر اسپیس ہو یا افریقہ۔ اس کے ساتھ چین ہمارے اہم انفرااسٹرکچر پر بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے۔“ اس سے قبل امریکا، چین کے عظیم منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کے مقابل نیا منصوبہ لانے کی منصوبہ بندی کرچکا تھا، چین کے عظیم راہداری منصوبے میں پاکستان ایک کلیدی شراکت دار کی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک منصوبے کے باقاعدہ آغاز کے ساتھ ہی سازشوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ امریکا کی نمائندہ خصوصی ایلس ویلز نے تو نومبر 2019ء میں کہہ دیا تھا کہ ”سی پیک منصوبے سے پاکستان کو نقصان ہوگا جبکہ 2017ء میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈانفورڈن نے سی پیک پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ متنازعہ علاقے سے گزر رہا ہے نیز امریکا نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں چینی ”اثرورسوخ“ پر تحفظات ہیں۔
پاک چین دوستی میں دراڑ ڈالنے اور عظیم اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان کے تین ہمسایہ ممالک میں ایک ایسا جال بنا گیا جو ون بیلٹ ون روڈ کی کامیابی میں حائل ہوتا، تاہم سیکورٹی فورسز نے تمام سازشوں کو ناکامی سے دوچار کیا اور دہشت گردوں کی جانب سے چینی سرمایہ کار، سفارت خانے سمیت پاک فضائیہ کے ہمراہ مصرف چینی انجینئرز و ٹیکنیشن کو نشانہ بنانے کی سازشوں کو ناکام بنایا۔ لندن میں چین کے سفارت خانے کے ترجمان نے کانفرنس پر ردعمل میں سات ممالک کے گروپ (جی سیون) کو واضح طور پر متنبہ کیا کہ ”وہ دن ختم ہوچکے ہیں جب ”چھوٹے“ ممالک کے گروپ دُنیا کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے۔ چین نے اپنے اس بیان کے ذریعے امیر ترین ممالک کو نشانہ بنایا، جنہوں نے بیجنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے اکٹھے کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ چینی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ”واحد جائز عالمی نظام اقوام متحدہ کے اصولوں پر مبنی بین الاقوامی آرڈر ہے، نہ کہ چھوٹے ممالک کے وضع کئے نام نہاد اصول۔ چین کی وزارتِ خاجہ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ ممالک کے بڑے یا چھوٹے، مضبوط یا کمزور اور غریب یا امیر ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ تمام ممالک برابر ہیں اور دُنیا کے معاملات مٹھی بھر ممالک کے بجائے تمام ممالک کی مشاورت سے چلانا چاہئیں۔“ یہ بیان ایک ایسے وقت آیا جب رکن ممالک کے علاوہ آسٹریلیا، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور بھارت کو بطور مہمان شریک کیا گیا لیکن چین اس کانفرنس میں شامل نہیں، اس کی بنیادی وجہ امریکی اہداف بتائے جاتے ہیں، جس کے مطابق صدر بائیڈن کے واضح اہداف میں چین کے بڑھتے اقتصادی اور سفارتی اثرورسوخ کے مقابلے کے لئے مغرب کو تیار کرنا، روس کو یورپی سرحدوں کے اندر مبینہ مداخلت اور انٹرنیٹ پر ہیکنگ سے باز رکھنا اور جمہوریت کے فروغ کے ساتھ آمریت کا مقابلہ کرنا شامل ہیں۔
امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے ایسے منصوبے لائیں گے جو چین کے ون بیلٹ اینڈ ون روڈ منصوبے کا مقابلہ کرسکیں۔ اس منصوبے کا نام ”بِلڈ بیک بیٹر فار دا ورلڈ“ (بہتر دُنیا کی دوبارہ تعمیر) رکھا گیا ہے۔ امریکی انتظامیہ بی3ڈبلیو منصوبے میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کرچکی ہے، تاہم اس کی لاگت اور آغاز کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، لیکن امریکی عزائم واضح ہوچکے کہ وہ چین کے اقتصادی منصوبے سے خائف ہے اور معاشی طور پر مضبوط جی سیون ممالک کے ساتھ مل کر اُن ترقی پذیر ممالک میں دخل اندازی کرے گا جہاں چین پہلے ہی کھربوں ڈالرز کے منصوبے کے مکمل و دوسرے فیز پر کام شروع کرچکا۔ مغرب و امریکا جانتا ہے کہ مستقبل کی سپرپاور وہ ہوگی جو دُنیا کے ہر کونے تک اپنی منصنوعات کو مارکیٹ دے کر مہنگی مصنوعات کا کڑا مقابلہ کرسکے اور چین پہلے ہی (سی پیک) پر کام شروع کر چکا تھا، اس لئے پہلے کلبھوشن یادیو کے ذریعے، پھر ملک دشمن خفیہ ایجنسیوں کے نیٹ ورک بنائے گئے، جنہوں نے بالخصوص پورے بلوچستان میں دہشت گردی کا دائرہ بڑھایا۔ تاہم پاکستانی سیکورٹی فورسز نے سندھ، خیبرپختونخوا کے سرحدی و حساس علاقے، پنجاب کے میدانی، پہاڑی و شہری علاقوں اور بلوچستان کے غاروں و دورافتادہ علاقوں میں انتہاپسندوں کے نیٹ ورک کا کھوج لگا کر تباہ کیا اور دہشت گردوں و نام نہاد قوم پرستوں کو اپنی جانیں بچانے کے لئے پڑوسی ممالک میں پناہ لینی پڑی۔
امریکی منصوبہ پر پاکستان کو مزید چاک و چوبند رہنے کی ضرورت ہے، دُنیا میں طاقت کا محور ہتھیاروں کا جمع کرنا اور جنگ یا شورش کروا کر دولت کمانے تک محدود نہیں رہا۔ صنعتی ترقی نے جہاں زراعت پر انحصار کرنے والے ترقی پذیر ممالک کی معاشی سمت کو بدل دیا، وہیں پرانے دشمن، نئے دوست بن رہے ہیں۔ دُنیا معاشی ضروریات کی وجہ سے کئی بلاکوں میں منقسم ہوچکی۔ حقیقت یہی ہے کہ جب بھی پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوا، اُسے عالمی قوتیں علاقائی تنازعات میں الجھا دیتی ہیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام و ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا کرکے معیشت کا پہیہ روکنے کی عالمی منصوبہ بندی پر بعض عناصر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزارتِ منصوبہ بندی کے 18 ویں گریڈ کا اہلکار، جو وزارتِ خارجہ میں چائنا ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کررہا تھا، مبینہ طور پر اہم راز و معلومات غیرملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ایف آئی ار کے متن میں ہے کہ ملزم سفارت کاروں اور غیرملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے عہدیداروں سے ملاقات کرتا رہا اور ریاست کے تحفظ اور مفادات کے حوالے سے خفیہ معلومات، دستاویزات ان کو فراہم کرتا رہا ہے۔ معاملہ صرف کسی ایک ملک کے ساتھ دوستی کا نہیں رہ جاتا بلکہ کئی عالمی قوتوں کے ساتھ تعلقات میں اتارچڑھاؤ ترقی پذیر ممالک کے لئے سخت امتحان بن جاتے ہیں۔ ایسے ممالک کو تو قرضوں کے جال میں پھنسا کر من مانی شرائط پر عمل کرانے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ ہم قرضوں کا سود اتارنے کے لئے بھی قرضے لیتے ہیں، جس سے بے روزگاری، مہنگائی و توانائی کے منصوبوں سمیت مفاد عامہ کے کئی اداروں کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔ بالآخر ایسے منصوبے جو مملکت میں معاشی انقلاب لا سکتے ہین، جمود کا شکار ہوجاتے ہیں اور فائدہ کے بجائے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ عالمی مفادات کی جنگ میں ترقی پذیر و غریب ممالک کو معاشی غلام بنانے کے لئے عالمی مالیاتی ادارے ایسے تمام منصوبوں کو گروی رکھ لیتے ہیں تاکہ یہ ممالک اپنے پیروں پر کبھی کھڑا نہ ہوسکیں۔
پاکستان بھی اسی نازک دور سے ایک بار پھر گزر رہا ہے۔ مملکت کو دباؤ میں لانے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی و سخت شرائط، خطے میں سیاسی عدم استحکام، ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارم سے دباؤ بڑھانا، تجارت کے بجائے بھاری شرح سود پر امداد کے نام پر قرضے اور عالمی قوتوں کے ”ڈومور“ کے مطالبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ عالمی طاقتوں کے مفادات و منصوبوں کے اثرات سے پاکستان براہ رات متاثر ہوسکتا ہے، مضبوط معیشت کے لئے مضبوط سیاسی استحکام و حزب اقتدار و اختلاف میں اہم ایشوز پر متفق و اتفاق رائے ہونا ملک و قوم کے حق میں بہتر ہوگا۔

مطلقہ خبریں