Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

مالِ غنیمت

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ امریکی ہتھیاروں کی ایک اچھی خاصی مقدار طالبان کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے اور ہمیں یقین نہیں ہے کہ وہ ہمیں واپس کردیں گے
ضیاء چترالی
حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ جہادِ مقدس کی برکت سے دشمن پر فتح کے ساتھ مجاہدین کو مالِ غنیمت سے بھی نوازتا ہے۔ طالبان مجاہدین کو بھی امریکی اور نیٹو افواج سے بھاری مقدار میں مالِ غنیمت ملا ہے، جس میں جدید ترین ہتھیار بھی شامل ہیں۔ جس پر امریکی حکام پریشان ہیں۔ امریکی سینیٹ کے پندرہ ارکان نے وزیردفاع لائیڈ آسٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکا اور نیٹو کی جانب سے افغانستان میں چھوڑے ہوئے اسلحے کی تفصیلات سامنے لائی جائیں۔ ڈیموکریٹ ارکان نے افغانستان میں موجود امریکی اسلحے کا طالبان مجاہدین کے ہاتھ لگنے پر سخت تشویش کا شکار ہیں۔ ان ہتھیاروں میں جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹرز بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جدید ترین ہتھیار دہشت گردی کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ طالبان یہ ہتھیار امریکی حریف روس اور چین یا پاکستان کو دے دیں۔ مذکورہ ارکان کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت ان ہتھیاروں کو واپس یا تلف کرنے کے حوالے سے کیا اقدامات کررہی ہے، وزارت دفاع اس بارے میں قوم کو آگاہ کرے۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ امریکی ہتھیاروں کی ایک اچھی خاصی مقدار طالبان کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے اور ہمیں یقین نہیں ہے کہ وہ ہمیں واپس کردیں گے۔ طالبان نے ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں وہ قندھار ہوائی اڈے پر بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کے گرد جشن منا رہے ہیں۔ سلیوان نے کہا کہ امریکا نے طالبان کو بلیک ہاک ہیلی کاپٹر نہیں دیئے۔ یہ افغان فورسز کو بھگوڑے صدر اشرف غنی کی درخواست پر دیئے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ہیلی کاپٹروں کے طالبان کے ہاتھ لگنے کے خطرے کے باوجود صدر جوبائیڈن نے افغان فوج کو دینے کی منظوری دی تھی۔ امریکی کانگریس کی خارجہ کمیٹی کے رکن مائیکل ماکول نے خبر رساں ادارے ”رائٹرز“ سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ہم نے مختلف ویڈیوز میں دیکھا ہے کہ طالبان کے پاس بڑی مقدار میں امریکی اسلحہ ہے، جو انہوں نے افغان فوج سے قبضے میں لے لیا ہے۔ یہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لئے بڑے خطرے کی بات ہے۔ امریکی حکام کو یہ بھی خدشہ ہے کہ یہ ہتھیار داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے بھی ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ روئٹرز نے ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان کے ہاتھ لگنے والے اسلحے کی مکمل تفصیلات تو معلوم نہیں لیکن طالبان اب تک دو ہزار سے زائد ہموی (ہموی) سمیت جدید بکتربند گاڑیوں پر قبضہ کرچکے ہیں۔ چالیس طیارے بھی ان کے ہاتھ لگے ہیں، جن میں بلیک ہاک (بلیک ہوک یو ایچ-60) اور اسکان ایگل (اسکین ایگل) جہاز بھی شامل ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق 2002ء سے 2017ء تک امریکا نے افغان فوج کو تقریباً 28 ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا۔ دیگر اتحادی ممالک کی جانب سے ملنے والا اسلحہ اس کے علاوہ ہے، جن میں بھارت بھی شامل ہے۔ جس نے افغان فوج کو ہیلی کاپٹر سمیت متعدد اقسام کے چھوٹے بڑے ہتھیار گفٹ کئے تھے۔ گزشتہ دنوں بھارت کے فراہم کردہ ہیلی کاپٹر پر طالبان کے قبضے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ قندوز ایئرپورٹ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں ایم آئی-35 ہیلی کاپٹر کے اردگرد طالبان موٹرسائیکل پر گھوم رہے ہیں اور کچھ اس ہیلی کاپٹر کے ساتھ تصویریں بنوا رہے ہیں۔ انڈیا نے 4 ہیلی کاپٹرز افغانستان کو 2019ء میں دیئے تھے، جن میں سے 2 مئی میں افغانستان کے حوالے کئے گئے اور باقی 2 اسی سال اکتوبر میں۔ امریکی ادارے گاؤ (جی اے او) کے مطابق امریکی حکومت نے 2003ء سے 2016ء تک افغان فوج کو 208 طیارے دیئے۔ ایک امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ 40 سے 50 طیارے افغان ایئرفورس کے اہلکار فرار ہوتے ہوئے اپنے ساتھ ازبکستان لے گئے۔ امریکی ریٹائرڈ جنرل جوزف فوٹیل 2016ء سے 2019ء تک افغانستان میں نیٹو آپریشنز کے سربراہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک جتنے طیارے طالبان کے ہاتھ لگے ہیں، ان میں سے بیشتر حساس امریکی ٹیکنالوجی سے خالی ہیں۔ ان میں سے بعض شاید آپریشنل حالت میں بھی نہیں ہیں، تاہم ہلکے اور آسان استعمال کے قابل بے شمار ہتھیاروں پر طالبان کا قبضہ ضرور ہوا ہے۔ جیسے مختلف اقسام کی گنیں اور اندھیرے میں دکھانے والے چشمے اور دوربینیں۔ 2003ء سے انخلا تک امریکا نے افغان فوج کو 6 لاکھ مختلف ہتھیار دیئے، جن میں ایم-16 جیسی جدید گنیں بھی شامل ہیں جب کہ ایک لاکھ 62 ہزار مواصلاتی آلات اور 16 ہزار اندھیرے میں دکھانے والے آلات بھی فراہم کئے۔ جنرل فوٹیل کا کہنا ہے کہ جو ہتھیار طالبان کے ہاتھ لگے ہیں، وہ ان کی مدد سے کسی بھی قوت سے لڑ سکتے ہیں۔ کوئی علاقائی قوت جیسے شمالی اتحاد کے پنج شیریوں سمیت کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ طالبان اس اسلحے سے سب کو باآسانی کچل سکتے ہیں۔ دوسری جانب طالبان قیادت کا کہنا ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر نیٹو ہتھیار ان کے ہاتھ لگے ہیں۔ جس کی گنتی کرکے اعدادوشمار کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ اب تک جتنے ہتھیاروں کا طالبان کے ہاتھ لگنے کا پتہ ہے، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے: 2000 بکتر بند گاڑیاں بشمول ہمویز اور ایم آر اے پی ٹوٹل 75 ہزار 989 گاڑیاں، 45 عدد بلیک ہاک یو ایچ-60 ہیلی کاپٹرز، 50 عدد ایم ڈی530جی اسکاؤٹ اٹیک ہیلی کاپٹرز اور اسکین ایگل ملٹری ڈرون، 30 فوجی ورژن سیسناس، 4 عدد سی-130، 29 عدد برازیلین اے-29 سپر ٹو کانو جہاز، ٹوٹل 208 ہوائی جہاز، کم از کم 6 لاکھ چھوٹے ہتھیار بھی ملے ہیں۔ علازیں 61 ہزار ایم203 راؤنڈ، 20 ہزار 40 دستی بم، ہاؤٹزر مارٹر ایک ہزار راؤنڈ، ملٹری کمیونی کیشن گیئر ایک لاکھ 62 ہزار، 16 ہزار نائٹ ورژن چشمے اور ریکولیسنس آلات (آئی ایس آر)، دھماکہ خیز مواد سی-4، سیمٹیکس، ڈیٹونیٹرز، سائز شدہ چارجز، تھرمائٹ، آگ لگانے والے اے پی/ اے پی آئی/ اے پی آئی ٹی، 2520 مختلف بم، بڑی مقدار میں سیل فون اور لیپ ٹاپ، لاکھوں ڈالرز کی پیلیٹس، گولی بارود کے لاکھوں راؤنڈ بشمول 62.7 ملی میٹر کے 2 کروڑ سے زائد راؤنڈ، پلیٹ کیریئرز اور باڈی آرمر کا بڑا ذخیرہ، امریکی ملٹری، ہینڈ بیلڈ انٹراجنسی شناخت کا پتہ لگانے کے آلات، بھاری ڈیوزر، بیک ہوز، ڈمپ ٹرک، کھدائی کرنے والے بھاری سامان بھی مالِ غنیمت میں شامل ہیں۔ العربیہ کے مطابق امریکی ڈیفنس نیوز ویب سائٹ نے انسپکٹر جنرل برائے افغانستان کی تعمیرنو کے دفتر (سیگار) کے تازہ ترین اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا نے افغان فضائیہ کو 211 فکسڈ ونگ یا ہیلی کاپٹر فراہم کئے گھے، لیکن ان میں سے رواں برس 30 جون تک صرف 167 اڑنے کے قابل تھے۔ خصوصی میگزین جینز ڈیفنس کے سیٹلائٹ تصاویر شائع کی ہیں، جن میں افغان ایئرفورس کے تقریباً 40 طیارے دکھائے گئے، جوکہ طالبان کے ہاتھوں میں آنے سے روکنے کے لئے گزشتہ چند دنوں میں ازبکستان پہنچائے گئے تھے۔ جون تک افغان فضائیہ اے-2923 لڑاکا طیارے، چار سی-130 کارگو طیارے اور مجموعی طور پر 33 سیسنا کارواں فوجی نقل و حمل اور ہلکے لڑاکا طیارے چلا رہی تھی۔ افغان فضائیہ نے تقریباً 150 ہیلی کاپٹر بھی چلائے، جن میں امریکی ساختہ یو ایچ-60 بلیک ہاک اور ایم ڈی-530ایس اٹیک ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں، جو مشین گنوں اور میزائلوں سے لیس ہیں۔ طالبان کے قبضے میں آنے والے بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں میں زبردست جارحانہ خصوصیات ہیں، کیونکہ وہ دو انجنوں سے لیس ہیں اور ان کا مقصد افغانستان کی سخت آب و ہوا کے دوران استعمال کرنا ہے۔ ہیلی کاپٹر انخلا اور لینڈ لینڈنگ میں مدد کرتا ہے۔ یہ گیارہ سپاہیوں کو لے جانے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے اور مشین گن سے لیس ہے۔ بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود A-29 ہلکا جنگی طیارہ زیادہ مہلک اور زیادہ ہتھیاروں سے لیس ہے۔ A-29 زمینی افواج کو فضائی مدد فراہم کرتا ہے۔ لیزر گائیڈڈ بم لانچ کرسکتا ہے۔ وسیع پیمانے پر ہتھیار لے جاسکتا ہے اور کم لاگت والے جنگی طیارے کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، جو کم خطرے والے ماحول میں کام کررہا ہے۔ لڑاکا طیاروں کے برعکس جو تیزی سے اڑنے اور جنگی مشقیں کرنے کے لئے تیار کئے گئے ہیں، افغانستان میں A-29s میں تبدیلی کی گئی ہے، جس کی وجہ سے وہ زمین پر اہداف کو نشانہ بنانے کے لئے آہستہ اور کم سطح پر اڑنے کے قابل ہیں۔ انہیں ناتجربہ کار پائلٹوں کے لئے بھی چلانے کے قابل بنایا گیا ہے۔ واشنگٹن میں فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسی میں سینٹر فار ملٹری اینڈ پولیٹیکل پاور کے سینئر ڈائریکٹر بریڈلی بوومن کا خیال ہے کہ طیاروں کو آپریٹ کرنا طالبان کے لئے ناممکن کام نہیں ہوسکتا۔ بوومن نے ڈیفنس نیوز کو بتایا کہ ایسے منظر کا تصور کرنا ناممکن نہیں ہے جہاں انہیں پائلٹ ملیں۔ شاید وہ افغان ایئرفورس کے سابق پائلٹوں کو اپنی صفوں میں شامل کریں۔ غیرملکی افواج جو امریکا کے ساتھ اتحادی نہیں ہیں، ان کی طرف سے بھی طالبان کو مدد فراہم کرنے کا امکان ہے۔ اسی تناظر میں جنرل کیلی نے کہا کہ اگر طالبان کو تجربہ کار پائلٹ مل بھی جائیں تو وہ امریکی مفادات یا خطے میں سلامتی کے لئے خطرہ نہیں بن سکیں گے، کیونکہ امریکا نے افغانستان میں جو ہتھیار چھوڑے ہیں وہ کافی ترقی یافتہ نہیں ہیں کہ علاقائی سلامتی کے لئے خطرہ بن سکیں۔

مطلقہ خبریں