امریکی نائب وزیرخارجہ نے بھی اس معاہد ے کو خطرناک قرار دیا
معظم خان
کہتے ہیں کہ دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے والا کبھی کامیاب نہیں ہوتا، اس وقت تقریباً یہی صورتِ حال بھارت کی ہے۔ کسی زمانے میں وہ روس کا پکا اتحادی ہوا کرتا تھا اور سانس بھی اس سے پوچھ کر لیا کرتا تھا مگر پھر اس کا رجحان اپنے مفاد کے لئے امریکا کی طرف ہوگیا اور اس سے گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران کئی دفاعی معاہدے بھی کر لئے تاہم اب ایک بار پھر وہ روس سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے کیونکہ اسے روس سے ایس-400 میزائل سسٹم خریدنا ہے اور اگر ایسا ہوگیا تو امریکا سے اس کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں، جس کے بارے میں یہ کہاوت مشہور ہے: دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا
جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ روس انڈیا کا روایتی اتحادی رہا ہے۔ سوویت یونین کے وقت سے ہی انڈیا اور روس کے درمیان اعتماد کا ایک رشتہ ہے، مگر دوسری طرف امریکا اور انڈیا کے درمیان سیکیورٹی شراکت داری گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران بڑھی ہے، لیکن کیا انڈیا دونوں ملکوں کے ساتھ مساوی تعلقات برقرار رکھ سکے گا کیونکہ روس اور امریکا کے درمیان رقابت سوویت دور سے چلی آ رہی ہے۔ فوجی ساز و سامان کے لحاظ سے انڈیا اب بھی اپنا 80 فیصد زیادہ سامان روس سے خریدتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں اسرائیل اور امریکا بھی انڈیا کے دفاعی شراکت دار بن کر ابھرے ہیں۔ یہ روس کے لئے تکیگ دہ ہوگا، حال ہی میں روس نے اس وقت سخت اعتراضات اٹھائے جب انڈیا نے بحرہند میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے جاپان، امریکا اور آسٹریلیا کے ساتھ کواڈ بلاک میں شمولیت اختیار کی۔ روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ مغرب ایک ایک قطبی دُنیا کو بحال کرنا چاہتا ہے لیکن روس اور چین کے اس کے تابع ہونے کے امکانات کم ہیں۔ انڈیا اب بھی مغربی ممالک کی چین مخالف پالیسی پر عمل پیرا ہے جیسا کہ انڈوپیسیفک میں نام نہاد کواڈ اتحاد۔ روس کے اس بیان سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انڈیا کی امریکا سے بڑھتی قربت اسے پریشان کرسکتی ہے۔ دوسری طرف امریکا نے انڈیا کے روس کے ساتھ ایس-400 میزائل سسٹم کے معاہدے پر اپنی بے چینی کا اظہار کیا ہے۔ انڈیا کے دورے پر آنے والی امریکا کی نائب وزیرخارجہ وینڈی شرمن نے روس کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے کو خطرناک قرار دیا۔ امریکا نے اس دفاعی معاہدے پر ترکی پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ یہی خطرہ انڈیا کو بھی ہے۔ وینڈی شرمن نے اُمید ظاہر کی ہے کہ دونوں فریق اس مسئلے کو حل کریں گے۔ خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق وینڈی شرمن نے کہا کہ کسی بھی ملک جس نے ایس-400 استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، ان کے بارے میں ہماری پالیسی واضح ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ خطرناک ہے اور کسی کے سیکیورٹی مفاد میں نہیں۔ ہم انڈیا کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ اُمید ہے کہ یہ مسئلہ بھی بات چیت کے ذریعے حل ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ انہوں نے انڈیا کے سیکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا سے بھی اس معاہدے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔ وینڈی شرمن کا یہ تبصرہ انڈین فضائیہ کے سربراہ وی آر چوہدری کی جانب سے اس تصدیق کے بعد آیا کہ 5.43 ارب ڈالر کے ایس-400 میزائل سسٹم کا معاہدہ 2018ء میں طے پایا تھا اور اس سال کے آخر تک فوج کی جانب سے پہلی بار اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ امریکا نے اس معاہدے کے بارے میں ہمیشہ سخت موقف رکھا ہے لیکن امریکا نے ایسا صرف انڈیا کے ساتھ نہیں بلکہ ترکی کے ساتھ بھی کیا بلکہ امریکا نے ترکی کے ساتھ زیادہ سخت موقف اختیار کیا، 2019ء میں اسی وجہ سے امریکا نے ترکی کے ساتھ F-35 طیاروں کا معاہدہ منسوخ کردیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے ترکی پر سفری اور اقتصادی پابندیاں بھی عائد کیں۔ اب روس کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے انڈیا کو بھی امریکی پابندیوں کا خطرہ ہے۔ صدر رجب طیب اردگان روس سے ایس-400 کی دوسری کھیپ خریدنے کے لئے پُرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ صدر اردگان روس سے مزید ایس-400 میزائل سسٹم خریدنے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں اور یہ بائیڈن انتظامیہ کے لئے پریشان کن ہے۔ ایس-400 روس کا جدید ترین میزائل سسٹم ہے۔ اس کا موازنہ امریکا کے بہترین فضائی دفاعی نظام پیٹریاٹ میزائل سے کیا جاتا ہے۔ یہ وہی میزائل سسٹم ہے جس کے لئے ٹرمپ انتظامیہ نے دسمبر 2020ء میں ترکی پر کوئی معاہدہ کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ کہا جارہا ہے کہ اب انڈیا کی باری ہے۔ اگر امریکا پابندیاں عائد کرتا ہے تو دونوں ممالک کے باہمی تعلقات بُری طرح متاثر ہوں گے۔ امریکا کی مہم کو بھی ایک دھچکا لگنے کی بات ہورہی ہے، جس میں انڈیا کو چین کی مشکل سے نمٹنے کے لئے ایک اتحادی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ پابندی انڈیا کی وجہ سے نہیں بلکہ روس کی وجہ سے ہے۔
امریکا کے مخالفین سے پابندیوں کے ذریعے نمٹنے کا قانون یعنی سی اے اے ٹی ایس اے 2017ء میں منظور کیا گیا تھا تاکہ روس کو 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت کی سزا دی جاسکے۔ اس کے تحت روس سے فوجی ساز و سامان خریدنے والے کسی بھی ملک پر پابندی لگانے کی گنجائش موجود ہے، لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر بائیڈن انتظامیہ نے انڈیا پر پابندی عائد کی تو یہ امریکا کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔ سڈنی میں سینٹر فار انڈیپینڈنٹ اسٹڈیز کے اسکالو سالواتور بابونز نے رواں سال 16 فروری کو امریکی میگزین فارن پالیسی میں لکھا کہ امریکا کو انڈیا کے معاہدے کا خیرمقدم کرنا چاہئے۔ سالواتوربابونز نے اپنے مضمون میں لکھا کہ چین کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکا کو انڈیا کی زیادہ ضرورت ہوگی۔ امریکا انڈیا کے لئے ایک اہم دفاعی شراکت دار ہے لیکن زیادہ قابل اعتماد نہیں۔ دوسری طرف اس علاقے میں انڈیا امریکا کا واحد دوست ہے، جو امریکا کے لئے چین کو چیلنج دے سکتا ہے۔ روس کے ساتھ انڈیا کا دفاعی معاہدہ ایس-400 تک محدود نہیں بلکہ اس کی فہرست بہت طویل ہے۔ انڈیا سوویت یونین کے وقت سے ہتھیاروں کے سودے کرتا رہا ہے۔ انڈین فضائیہ روس کے مگ 29 اور سخوئی 30 اڑاتی ہے۔ انڈین بحریہ کے پاس روسی جیٹ اور جہاز بھی ہیں۔ انڈیا نے روس سے جوہری آبدوزیں بھی منگوائی ہیں۔ انڈیا روس کے ساتھ معاہدے کرتا ہے کیونکہ روس ایک قابل اعتماد تجارتی سپلائر ہے اور اس کے سامان کا معیار بہت اچھا ہے۔ انڈیا اب فرانس، اسرائیل اور امریکا سے فوجی سازوسامان بھی خرید رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا سی اے اے ٹی ایس اے کی وجہ سے روس کے ساتھ دفاعی تعاون ختم نہیں کرسکتا۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایس-400 سے نہ تو امریکا اور نہ ہی اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہے۔
انڈیا روس کے لئے فوجی سازوسامان کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اعدادوشمار کے مطابق روس نے 2010ء سے 2019ء تک اپنے ہتھیاروں کی برآمد کا ایک تہائی حصہ انڈیا کو فروخت کیا۔ پہلے چین بڑا خریدار تھا لیکن اب وہ اپنی ٹیکنالوجی تیار کرنے میں مصروف ہے۔ چین اور روس کے درمیان دفاعی معاہدہ 2019ء میں اس سے متاثر ہوا جب روس نے کہا کہ چین اس کی ٹیکنالوجی چوری کررہا ہے مگر یہ سب ماضی کی کہانیاں ہیں اور اب بھارت اس کے ساتھ نیا کھیل کھیلنے جارہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی بیک وقت امریکا اور روس سے دوستی نبھا سکے گا یا دونوں میں سے کسی ایک کی دوستی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔