Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چین اور تائیوان کے درمیان شدید کشیدگی

ظفر محی الدین
چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنے حالیہ خطاب میں کہا ہے کہ ”چین صدیوں سے ایک عظیم ملک اور چینی قوم ایک عظیم قوم ہے، ہم ایک زندہ قوم، ہمارا ماضی بہت شاندار رہا ہے، ہم نے ہمیشہ علیحدگی پسندوں کو ناپسند کیا ہے، علیحدگی پسند تائیوان کو اس کی مادرِوطن سے جوڑنے میں رکاوٹ ہے، چین کے حوالے سے کوئی غلط فہمی نہ رہے۔ چین کو، چینی عوام کو کوئی طاقت اس کے مقصد سے، مشن سے ہٹا نہیں سکتی۔ چین کے غیور عوام اپنی مادرِ وطن کا دفاع کرنا خوب جانتے ہیں“۔ چینی صدر کے خطاب کے جواب میں تائیوان کے سرکاری ترجمان نے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ ”تائیوان ایک آزاد خودمختار ملک ہے جو جمہوری اصولوں پر کاربند ہے، تائیوان کے عوام اپنا دفاع کرنا خوب جانتے ہیں“۔ ابتدا سے تائیوان جمہوریہ چین کہلاتا ہے، گزشتہ ایک ہفتے سے چینی طیاروں کی مسلسل پروازوں میں اضافہ ہورہا ہے، اس حوالے سے تائیوان کے وزیردفاع نے ایک بیان میں شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر ایک بم غلطی سے بھی گرگیا تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے“۔
آج کے دور کا چین نہ صرف آبادی میں سب سے زیادہ ہے بلکہ عالمی تجارت اور سرمایہ کاری میں بھی آگے ہے۔ معیشت کے میدان میں اس کا دوسرے نمبر پر شمار ہوتا ہے، جس کی مجموعی دولت 27 ٹریلین سے زائد ہے اور سالانہ اوسط آمدنی 12 ہزار ڈالر کے قریب ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اس سال اپنی صد سالہ سالگرہ منائی ہے۔ 1949ء میں چین کی کمیونسٹ پارٹی نے انقلابی حکومت قائم کی۔ انقلابی جدوجہد کے دوران چین کی آبادی کا ایک بڑا دھڑا انقلاب کے خلاف لڑ رہا تھا۔ وہ انقلاب کی کامیابی کے بعد فرار ہو کر چین کے مشرقی جنوبی سمندر میں واقع جزیرہ میں پناہ گزیں ہوگیا، جس کو انگریز نوآبادکار ”فارموسا“ کہتے تھے، جو اب تائیوان کہلاتا ہے۔ چین اور تائیوان کا آپس کا تنازع شروع سے چلا آرہا ہے۔ چین میں کمیونسٹ انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکا اور اس کے تمام مغربی اتحادیوں نے کمیونسٹ چین کا بائیکاٹ کیا اور تائیوان کو چین کی جگہ تسلیم کرلیا، نہ صرف یہ بلکہ مغربی طاقتوں نے اقوام متحدہ میں چین کے بجائے تائیوان کو نمائندگی دلوا دی اور تائیوان چینی عوام کانام نہاد نمائندہ بن کر اپنا کردار ادا کرتا رہا۔
تائیوان کا رقبہ 36 ہزار مربع کلومیٹر ہے، آبادی 2 کروڑ 36 لاکھ کے قریب ہے، سالانہ اوسط آمدنی 32 ہزار ڈالر۔ تائیوان کی شمال مغربی سرحد سمندری پانیوں پر مشتمل ہے جو چین کا سمندری علاقہ ہے۔ شمال مشرقی سمندری سرحد جاپان جبکہ جنوب میں فلپائن کا سمندر ہے۔ تائیوان اپنے قیام سے ملک میں جمہوری روایات، انسانی حقوق اور آزادی اظہار و روایات کو فروغ دیتا رہا ہے۔ امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے بعد شکست خوردہ جرمنی اور جاپان مغربی روایات، ثقافت اور معاشی ترقی کے حوالے سے شوونڈو بنا کر پیش کیا۔ جرمنی سوویت یونین کیلئے اور جاپان چین کی کمیونسٹ حکومت کے شوونڈو بنے رہے۔ بلاشبہ امریکا کا یہ حربہ کئی لحاظ سے کامیاب رہا، ان دونوں شکست خوردہ ممالک نے مغرب کی مدد اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر نمایاں ترقی کی۔ مغربی کلچر کی چمک دمک جرمنی اور جاپانی معاشروں میں تیزی سے فروغ پارہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دونوں ممالک اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے اور مغرب کے قریبی اور بااعتماد حلیف بن گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا نے جرمنی اور جاپان میں فوجی اڈے تعمیر کرکے اپنے فوجی وہاں تعینات کردیئے، ایسے میں تائیوان کو بتدریج کام کرنے کا موقع مل گیا۔ مغربی جمہوریت اور آزاد سرمایہ دارانہ معیشت نے تائیوان کو خوشحال کردیا، پھر 1960ء میں ایک جست بھری اور مزید ترقی کے ہدف پورے کئے۔ 1971ء میں سرد جنگ کے عروج کے دور میں امریکا کی نئی خارجہ پالیسی کے معمار، ڈاکٹر ہنری کسنجر نے چین کی کمیونسٹ حکومت سے رابطے قائم کئے، بعدازاں اقوام متحدہ میں تائیوان کی جگہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت چین کو دلوا دی، ویسے بھی امریکا نے ہر موقع اور ہر مرحلے پر تائیوان کی مدد کی مگر وہاں اپنا فوجی اڈہ تعمیر نہیں کیا تھا اور نہ وہاں فوج تعینات کی تھی۔ اس طرح کمیونسٹ چین اور امریکا ایک دوسرے کے قریب آگئے لیکن دو الگ الگ نظریات کی حامل بڑی طاقتوں کے مابین جو فطری مخاصمت ہوئی، وہ دونوں کے درمیان رہی۔
چین نے 90 کی دہائی میں پہلی معاشی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کرکے آزاد معیشت اور کھلی منڈی کی تجارت کے میدان میں چھلانگ لگا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے محض پچیس تیس برسوں میں مغربی طاقتوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور عالمی تجارت و سرمایہ کاری کے شعبوں میں سرفہرست ہوگیا جبکہ تائیوان 80 کے عشرے میں سنگاپور، ملائیشیا، ہانگ کانگ کے ساتھ ایشین ٹائیگر بن کر ابھرا، ان میں سب سے زیادہ مستحکم معیشت تائیوان کی تھی۔ تائیوان دو بار اپنا فاضل سونا کھلی منڈی میں فروخت کرچکا ہے، چونکہ سونے کی وافر مقدار کی و جہ سے تائیوان کی کرنسی کی قدر میں نمایاں اضافہ ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے اس کی تجارت متاثر رہی تھی، لہٰذا سونا فروخت کرکے اپنی کرنسی کو اعتدال پر لے آیا۔ واضح رہے کہ اگر سونے کے ذخائر میں کمی آجائے تو کرنسی کی قیمت گر جاتی ہے اور اگر ملک میں سونے کے ذخائر میں نمایاں اضافہ ہوجائے تو سرپلس گولڈ کی وجہ سے کرنسی کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں چین اور تائیوان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی سے نہ صرف اس علاقہ کا امن مخدوش ہورہا ہے بلکہ بحرالکاہل بحر ہند کا پورا خطہ بڑے خطرات سے گھرا نظر آتا ہے، جس پر دنیا پریشان ہے۔ تائیوان کے وزیرخارجہ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ ”چین جنگ کی تیاری کررہا ہے، تائیوان پر مسلسل ایک ماہ سے زائد عرصہ سے چینی لڑاکا طیاروں کی پروازوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تائیوان کے سمندری علاقے کی بھی خلاف ورزیاں جاری ہیں“۔ دوسری جانب علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سبب تائیوان نے اپنی فوجی مشقیں شروع کردی ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی میڈیا میں یہ خبر بھی عام ہے کہ امریکا تائیوان کے فوجی دستوں کو خصوصی تربیت دے ر ہا ہے، اس ضمن میں پنٹاگون کے اعلیٰ افسر سے جب پوچھا گیا کہ کیا جنگ کی صورت میں اپنا عملی کردار ادا کرے گا؟ افسر نے کہا جنوبی بحیرہ چین میں جو مخدوش صورتِ حال ہے، اس پر امریکا کو شدید تشویش ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ مسئلہ مذاکرات سے حل ہوجائے، مگر امریکا کے بعض حلقوں کو چینی صدر شی جن پنگ کے ترش اور دھمکی آمیز بیانات پر سخت اعتراض ہے۔ امریکا اور بعض یورپی ممالک کو چین کی ون چائنا پالیسی اور اس نظریہ سے اختلاف ہے کہ تائیوان گزشتہ ایک طویل عرصے سے کبھی برطانیہ، فرانس اور جاپان کے تسلط میں رہا، وہاں حکومتیں بنتی رہیں ٹوٹتی رہیں، کبھی اس پر چین کا بھی تسلط رہا۔ 1895ء میں چین، جاپان جنگ میں جاپان فتح یاب ہوا۔ اس نے بھی تائیوان پر اپنا تسلط قائم کیا۔ اس عمل میں چین کی جنگ میں حکومت کا بڑا دخل تھا، اس نے خود تائیوان، جاپان کے حو الے کیا تھا۔ مگر دوسری عالمی جنگ میں جاپان کو بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا، ایسے میں جاپان نے تمام مقبوضہ علاقے واپس کردیئے اور تائیوان چین کے حوالے کردیا۔ چین نے امریکا اور برطانیہ کی اجازت سے تائیوان میں اپنی حکومت قائم کی، مگر کچھ عرصے بعد چین میں سول وار شروع ہوگئی۔ اس وار کے دوران چین کے قوم پرست رہنما جو کمیونسٹ غلبہ کے خلاف لڑ رہے تھے، مگر ماؤزے تونگ کی عوامی فوج نے چیانگ کائی شیک کو شکست دے دی۔ وہ اپنے حامیوں کے ساتھ چین کی مین نسیڈ سے فرار ہو کر تائیوان میں پناہ گزین ہوا، یہاں اس نے مغربی ملکوں کے تعاون سے کمیونسٹ چین کے خلاف قوم پرست چین کو کھڑا کیا۔ تائیوان میں جیانگ کائی شک ایک عرصے تک حکمراں رہا، کیونکہ مغربی کمیونسٹ چین کے مقابلے میں اس کی حمایت کرتا رہا۔ تائیوان میں پالیسی کے تحت جمہوری انسانی حقوق اور آزادی اظہار کو فروغ دیا گیا۔ آئین کے مطابق انتخابی عمل جاری کیا گیا۔ آزاد معیشت اور کھلی تجارت کی وجہ سے تائیوان جلد ہی خوشحال ہوگیا۔ مغرب تائیوان کو چین کی کمیونسٹ کے سامنے ایک شوونڈو کے طور پر پیش کرتا رہا۔ ظاہر ہے چین میں انقلاب کی اکھاڑ پچھاڑ نے معیشت کو نڈھال کردیا تھا، مگر اس کے مقابلے میں تائیوان پھل پھول رہا تھا، جمہوری قدریں توانا ہورہی تھیں، اس طرح دو چین میں دو نظریات کا سلسلہ دراز رہا، مگر چین نے ون چائنا ٹوسسٹم کے نظریہ پر بار بار اصرار کیا لیکن تائیوان نے چین کے اس نظریہ کو ہمیشہ مسترد کیا۔ اب جبکہ چین کے صدر نے اپنے خطاب میں ون چائنا پر زور دیا ہے، اس کا مطلب ہے چین اپنے پچھلے موقف سے ہٹ کر تائیوان کو اپنے میں ضم کرنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے چین مالی، دفاعی اور سیاسی طور پر بہت اچھی پوزیشن میں ہے، وہ تائیوان کو اپنے میں ضم کرسکتا ہے، مگر غالباً عالمی دباؤ کی وجہ سے اور کچھ اپنے اندرونی معاملات کی وجہ سے تذبذب کا شکار معلوم ہوتا ہے، مگر بعض حلقوں کی ر ائے میں تائیوان چھوٹا ملک ہے، آبادی کم ہے، چین کی عسکری طاقت کے مقابلے میں پانچ فیصد بھی نہیں ہے، ایسے میں وہ چین کا کھل کر مقابلہ نہیں کرسکتا، البتہ چین کے حلق کی ہڈی ضرور بن سکتا ہے۔ اب چین کے ون چائنا پالیسی پر اصرار نے تائیوان کے عوام میں چین کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایک عوامی سروے میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں تائیوان کے عوام کی واضح اکثریت نے چین کے موقف کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا، ہم اپنی مادرِ وطن کا دفاع آخری گولی تک کریں گے۔ تائیوان میں آزادی کا سب سے اہم علمبردار ”چن شن بیاں“ کو مانا جاتا ہے۔ ہر چند کہ آزادی کے علمبردار رہنما اور بھی رہے اور ہیں، مگر چن شی چین کے شدید مخالف اور آزادی کے حامی رہنما زیادہ مشہور ہیں اور کہا جاتا ہے کہ چین، چن شی بیاں کی جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی علمبردار پالیسی سے خائف رہا تھا، جب چن شی سال 2000ء میں انتخابات جیت کر اقتدار میں آئے، کیونکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا جمہوریت کا نظریہ مغربی جمہوریت کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ تائیوان کی صدر اینگ وین نے 2016ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات کی تھی، ان کی فتح پر مبارکباد دی، ہتھیاروں کی خریداری اور دوطرفہ تعاون میں اضافہ کی بات کی تھی۔ اس پر فوری طور پر چین نے یہ حکم نامہ جاری کردیا کہ اگر کوئی کمپنی یا ادارہ تائیوان کو آزاد ملک کے طور پر برتاؤ کرے تو اس کو چین بلیک لسٹ کردے گا۔ تائیوان کی صدر سائی اینگ وین نے تائیوان کے قومی دن پر قوم سے خطاب میں کہا کہ تائیوان کسی کے آگے نہیں جھکے گا۔ چین ہمیں جھکانا چاہتا ہے، اس کا منصوبہ ہے کہ ہماری آزادی اور مستحکم جمہوری روایات کو ختم کرے۔ چین جمہوری اقدار سے خائف مگر یہ ہماری طاقت ہے، ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ صدر سائی اینگ نے مزید کہا کہ خلیج تائیوان میں روز بروز بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ اس مقصد کے لئے چین کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ چین کے ذرائع کے مطابق چین نے مذاکرات کی دعوت کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان ہمارا حصہ ہے، ہم اس کو ضم کرکے دم لیں گے، چین علیحدگی پسندوں سے مذاکرات نہیں کرتا جبکہ تائیوان کے وزیراعظم نے قومی دن کے پیغام میں کہا کہ ہمیں آزادی اور جمہوری اقدار بہت عزیز ہیں، اس کے لئے ہم ہر اقدام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ہمیں ہر لمحہ چوکنا رہنا چاہئے، چین کے تیور درست نہیں ہیں، مگر ہم ہر صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا کیا جواز ہے کہ چین کے ڈیڑھ سو سے زائد لڑاکا طیارے ہماری فضائی حدود پھلانگتے اڑ رہے ہیں۔ چین کے وزیردفاع نے تائیوان کی صدر اور وزیراعظم کے بیانات کو یکسر رد کرتے ہوئے کہاکہ تائیوان کسی غلط فہمی میں نہ رہے، تائیوان ہمارا علاقہ ہے اور ہم اس کو چین میں شامل کرکے رہیں گے۔ آسٹریلیا کے سابق وزیراعظم ٹونی ایبٹ نے حال ہی میں ایک بیان میں چین کو سخت الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ چین کو ہر مہم جوئی سے باز رہنا چاہئے، ورنہ اس کے سنگین نتائج ہوں گے اور چین ان نتائج کو شاید برداشت نہ کرسکے گا۔ اس پر چین کے سرکاری ترجمان نے آسٹریلیا کو کہا کہ اس پاگل شخص کو لگام دیں ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی صدر جوبائیڈن نے جاپان کے وزیراعظم سے خلیج تائیوان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے مسئلے پر بات کی ہے۔ اس حوالے سے جاپان نے بھی تشویش کا ا ظہار کیا۔ جنوبی بحیرہ چین میں، خلیج تائیوان، بحیرہ فلپائن شامل ہیں، اس کے علاوہ سمندری خطے میں جہاں کشیدگی بڑھ رہی ہے، تائیوان سمیت ہانگ کانگ، فلپائن، ویت نام، کمبوڈیا، ملائیشیا اور سنگاپور واقع ہیں۔ اس سمندری خطے سے دنیا ایک تہائی تجارت کرتی ہے۔ ایک لحاظ سے یہ خطّہ مشرق بعید کا معاشی حب اور تجارتی حب ہے، جب سے چین کے صدر نے دوٹوک انداز میں تائیوان کو خبردار کیا ہے اور اس جزیرہ کو چین میں ضم کرنے پر اصرار کیا ہے، خطے کے سب ہی ممالک تشویش میں مبتلا ہیں۔ گلوبل ٹائمز نے خلیج تائیوان میں ہونے والی فوجی مشقوں کی خبریں اور تصویروں کو نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ جنوبی بحیرہ چین کی سمندری گزرگاہوں سے لگ بھگ 3.40 ٹریلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے جو مجموعی عالمی تجارت کا چالیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔
اس سمندر میں چین نے بہت بڑے بحری اڈے تعمیر کرنے کے علاوہ مصنوعی جزیرہ بھی تعمیر کئے، جہاں بحری بیڑے کے علاوہ لڑاکا طیارے بھی کھڑے ہیں۔ اس خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیوں پر امریکا کو شدید تشویش ہے۔ امریکا کا موقف ہے کہ سمندر میں تجارتی سرگرمیاں آمدورفت بلا رکاوٹ ہونا چاہئے، مگر چین کی پالیسی اس تصور کی نفی کرتی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا نے بھی اپنا بحری بیڑہ یہاں لاکھڑا کیا۔ طیارہ بردار امریکی جہاز سے اڑنے والے طیارے اس سمندری علاقے کی چوبیس گھنٹے ریکی کرتے ہیں کیونکہ دن رات چینی لڑاکا طیارے سمندر پر پرواز کرتے ہیں۔ اس ضمن میں بیشتر مبصرین کا کہنا ہے کہ اتنے لڑاکا طیاروں کی پروازوں سے پورا علاقہ گونجتا رہتا ہے اور اگر غلطی سے طیارے ٹکرا گئے تو پھر بعد کا منظر بہت بھیانک اور خطرناک ہوسکتا ہے۔ درحقیقت جنوبی بحرہ چین کے جاری حالات اور چین کی عسکری پالیسی نے پوری دنیا کی دفاعی لائن تبدیل کردی ہے اس لئے بحرالکاہل بحر ہند کے خطے حساس ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں چین اور تائیوان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی، تلخ و ترش دھمکی آمیز بیانات نے دنیا کو مزید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چین کی دفاعی صلاحیتوں، بیس لاکھ سے زائد پیپلز لبریشن آرمی، لڑاکا طیاروں کا بیڑہ، مختلف جدید دور مار میزائل، جدید راکٹ، ہوا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل سسٹم، جدید آبدوزیں، خلائی، لیزر سسٹم اور دیگر جدید ہتھیاروں کے انبار کے ساتھ چین مقابلہ پر کھڑا ہوگا تو تائیوان کب اور کہاں تک چین کے حملے سہہ سکے گا۔ چین کی فائر پاور بہت زیادہ ہے۔ بعض تجزیہ نگار تو چین کو امریکا پر فوقیت دیتے ہیں جبکہ بعض دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سائی اینگ وین 2016ء میں تائیوان کی صدر منتخب ہوئی تھیں، تب سے انہوں نے ترجیحی بنیادوں پر تائیوان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا شروع کیا اور گزرے پانچ برسوں میں تائیوان کی مسلح افواج کے پاس جدید کروز میزائل، سام میزائل، چار بحری جہاز، F-16 طیارے، ایئر ڈیفنس اور دیگر ہتھیاروں کا اضافہ کیا۔ ہر چند کہ چین کا فائر پاور بہت بڑا ہے مگر پھر بھی تائیوان اتنا کمزور بھی نہیں ہے، وہ ان ہتھیاروں کا صحیح موقع پر استعمال کرتا ہے، درست حکمت عملی اپناتا ہے اور میدان یا سمندر میں، ہوا میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے، یہ چین کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے، تاہم یہ دفاعی تجزیہ نگاروں کے اپنے اپنے تجزیے ہیں۔ بہتر صورت یہ ہے کہ اس مسئلے پر جنگ نہ ہو۔ معاملہ پُرامن طور پر طے پائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین کی لبریشن آرمی شاید چین کے جدید ہتھیاروں کے استعمال میں زیادہ ماہر نہ ہو، کیونکہ آرمی کی تربیت رسمی انداز کی ہے۔ بلاشبہ تعداد میں دنیا کی کسی بری فوج کا مقابلہ نہیں، چین کی آرمی بہت بڑی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ چین نے کوئی بڑی لڑائی نہیں لڑی ہے، اسی حوالے سے چینی افواج کو جنگ کا عملی تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے وہ صرف تربیت پر انحصار کرتی ہے، جبکہ امریکا کی افواج کا تجربہ بہت زیادہ ہے، اس نے دوسری جنگ عظیم سے لے کر افغان وار تک میں حصہ لیا ہے، اس لئے امریکی کمانڈوز تائیوان کے فوجیوں کی خفیہ طور پر تربیت کررہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چین ابھی تائیوان سے جنگ نہیں کرے گا، اس کو مزید چند سال درکار ہوں گے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں امریکا نے آسڑیلیا کو ایک ایٹمی آبدوز دی ہے، جس پر چین نے شدید احتجاج کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جاپان نے اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کے لئے جدید ہتھیاروں کی خریداری کی ہے اور مزید کی خریداری متوقع ہے۔ اس حوالے سے بحرالکاہل میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوچکی ہے۔ جاپان نے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کشیدگی کم کرنے پر زور دیا۔ فلپائن اور ویت نام کا چین سے سمندری حدود پر پرانا تنازع چلا آرہا ہے، اب جبکہ چین نے جنوبی بحیرہ چین میں بڑے بڑے فوجی اڈے اور مصنوعی جزیروں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس مسئلے پر بھی چین کا چھ ممالک سے سرحدی تنازع چل رہا ہے۔ اس پر دنیا کے بیشتر مغربی مبصرین نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا اور چین تائیوان کے مسئلے پر خطرناک ترین موڑ پر آگئے ہیں۔ خلیج تائیوان کی صورتِ حال یہ ہے کہ 25 فائٹر جیٹ بمبار طیارے، 2 درجن لڑاکا طیارے تائیوان کی فضائی حدود کی مسلسل خلاف ورزی کررہے ہیں۔ تائیوان نے ان طیاروں کو فضائی حدود سے نکل جانے کو کہا مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اب خطہ بہت مخدوش ہوتا جارہا ہے جبکہ اس مسئلے پر امریکا اور چین کو آمنے سامنے نہیں آنا چاہئے تھا، تاہم امریکا نے کھلے لفظوں میں چین کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس خطے میں اشتعال انگیز کارروائیوں سے گریز کرے، مگر چین کی طرف سے کوئی نرمی نظر نہیں آرہی ہے۔ بہت سے غیرملکی سفارتکار دم سادھے بیٹھے ہیں۔ بعض سینئر مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کے انداز بتلا رہے ہیں وہ بتدریج جنگ کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ چین کے دفاعی تجزیہ نگار چینی صدر کی حمایت کررہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکا کوئی فوجی کارروائی نہیں کرے گا، اگر امریکا نے ایسا کیا تو لبریشن آرمی منہ توڑ جواب دے گی۔ روس کی طرف سے تاحال خاموشی ہے۔ چین کے صدر کی تیسری صدارتی ٹرم سال 2022ء سے شروع ہورہی ہیم وہ چاہتے ہیں تائیوان فتح کرکے اس کا تاج اپنے سر پر سجا لیں اور تاریخ میں نام کرجائیں۔

مطلقہ خبریں