Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چین کی بڑھتی فوجی قوت سے مغربی اتحاد خوفزدہ

دفاعی اخراجات کے خودساختہ اعدادوشمار دیئے جانے لگے، ہائپر سونک میزائل کے تجربے کا بھی واویلا، چینی بحریہ دُنیا کی سب سے بڑی نیول فورس بن گئی، پروپیگنڈا رپورٹ، امریکا کی طرح تھانیداری کا شوق نہیں، چینی عسکری حکام
محمد علی
چین کی اقتصادی قوت کے بعد اب اس کی فوجی طاقت نے بھی امریکا کی سرپرستی میں قائم مغربی اتحاد کو خوفزدہ کردیا ہے۔ اس ضمن میں چین کے دفاعی اخراجات کے خودساختہ اعدادوشمار پیش کئے جانے لگے ہیں اور واشنگٹن میں بیٹھے عالمی امور کے ماہر چائنیز ڈیفنس بجٹ کا تخمینہ اصل سے کئی گنا زیادہ بتا رہے ہیں۔ دوسری جانب بیجنگ کی جانب سے ہائپر سونک میزائل کے تجربے کا بھی شدومد سے واویلا کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے متضاد قیاس آرائیاں ہیں کہ چین نے ہائپر سونک کا تجربہ جنوبی بحر چین میں اکتوبر کے مہینے میں کیا، جس کے باعث آواز سے بھی پانچ گنا تیز رفتار کے حامل اس میزائل کا تذکرہ چھڑ گیا۔ جبکہ بعض بین الاقوامی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ جدید میزائل خلائی جہاز سے فائر کیا گیا۔ پروپیگنڈا رپورٹس میں چین کی بحریہ کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ہے جبکہ چین کے عسکری حکام نے واضح کردیا ہے کہ بیجنگ کو امریکا کی طرح تھانیداری کا شوق نہیں۔ پیپلز لبریشن آرمی کے سابق سینئر کرنل ژاؤ کا کہنا ہے کہ چین کی سمندری حدود میں ممکنہ امریکی اشتعال انگیزی ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی بحیرہ چین کے بیشتر حصے پر چین اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ بیجنگ میں سنگ ہوا یونیورسٹی سے منسلک ژاؤبو کے مطابق اس وقت چین کو جس طرح کے سمندری خطرات کا سامنا ہے۔ ایسے خطرات سے نمٹنے کے لئے اس کے لئے اپنی بحریہ کو مضبوط کرنا انتہائی اہم ہے۔ ادھر امریکی بحریہ نے اندازہ لگایا ہے کہ 2040ء تک چینی بحریہ کے جہازوں کی کُل تعداد میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ہوجائے گا، جبکہ کرنل ژاؤ نے مغربی خدشات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق چین، امریکا کے برعکس دُنیا کی تھانیداری کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ اگر چین ایک دن بہت زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے، تو وہ اپنی بنیادی پالیسیوں کو برقرار رکھے گا۔ دوسری جاب کنگز کالج لندن کے ڈاکٹر زینولیونی نے بیجنگ کے حوالے سے روایتی مغربی موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی بھی چین کا طریقہ ”لڑے بغیر جیت“ حاصل کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مستقبل میں کسی وقت اس حکمت عملی کو تبدیل کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر لیونی کے بقول چین کو معلوم ہے کہ وہ اب بھی بہت پیچھے ہیں۔ اس لئے وہ دوسری طاقتوں سے آگے نکلنے کے لئے بڑی پیش رفت کرنے کی کوشش میں ہے۔ ہائپر سونک میزائلوں کی تیاری اُن کی ان کوششوں میں سے ایک قدم ہے۔ ڈاکٹر لیونی کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہائپر سونک میزائل خود سے گیم چینجر نہیں ہوسکتے، لیکن وہ کچھ اہداف کو آسانی سے ہدف بنا سکتے ہیں۔ ہائپر سونک میزائل خاص طور پر طیارہ بردار بحری جہازوں کا دفاع کرنا زیادہ مشکل بنا دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ڈاکٹر لیونی یہ تجزیہ بھی پیش کررہے ہیں ”ہوسکتا ہے کہ چینی ہائپر سونک میزائلوں کے خطرے کو کچھ مغربی حکام نے بڑھاچڑھا کر پیش کیا ہو، جو فوجی خلائی ٹیکنالوجی کی مالی معاونت کے بارے میں ایک مضبوط کیس بنانے کے خواہاں ہیں۔“ ان کے مطابق خطرہ تو حقیقی ہے مگر پھر بھی یہ ممکن ہے کہ اسے بڑھاچڑھا کر پیش کیا جارہا ہو۔ مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین امریکا کو پیچھے چھوڑ کر دُنیا کی سب سے بڑی بحریہ والا ملک بن گیا ہے۔ تاہم یہ قوت جہازوں کی مجموعی تعداد کے حوالے سے جانچی گئی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے رجحانات کا جائزہ مفید ہوسکتا ہے، مگر فی الحال امریکا بہت سی بحری صلاحیتوں میں ایک مضبوط برتری کو برقرار رکھے ہوئے ہے، جس میں چین کے دو طیارہ بردار جہازوں کے مقابلے میں اس کے پاس ایسے 11 جہاز ہیں۔ اسی طرح امریکا کے پاس جوہری آبدوزیں، کروز اور تباہ کن جہاز یا بڑے جنگی جہاز بھی ہیں۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ امریکا نے اپنی آخری جنگ کچھ ماہ قبل ہی افغانستان میں شرمناک شکست کے بعد ختم کی ہے جبکہ چین نے باقاعدہ طور پر پچھلے 32 برس میں کوئی جنگ نہیں لڑی۔ چین نے ویتنام کے ساتھ آخری جنگ 1979ء میں لڑی تھی۔ مغربی ممالک کے مبصرین کا اس موازنہ پر استدلال ہے کہ چین کی زیادہ تر فوجی صلاحیتیں اب تک آزمائی نہیں گئی ہیں جبکہ امریکا دُنیا کے مختلف خطوں میں طبع آزمائی کرچکا ہے۔

مطلقہ خبریں