Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکا چین سے خوفزدہ کیوں ہے؟

چین کی اقتصادی اور فوجی قوت اور دُنیا بھر میں اس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر نظر رکھنے اور اس کو محدود کرنے کیلئے امریکی انٹیلی جنس سی آئی اے نے ایک نیا گروپ تشکیل دیا ہے جس کا نام چین مشن سینٹر رکھا گیا ہے
ایس انجم آصف

چین کی اقتصادی اور فوجی قوت اور دُنیا بھر میں اس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر نظر رکھنے اور اس کو محدود کرنے کے لئے امریکی انٹیلی جنس سی آئی اے نے ایک نیا گروپ تشکیل دیا ہے جس کا نام چین مشن سینٹر رکھا گیا ہے۔ سی آئی اے کا یہ نیا مشن صرف چین سے امریکا کو درپیش اسٹریٹجک چیلنج پر اپنی توجہ مرکوز رکھا کرے گا۔ سی آئی اے کے ذرائع کے مطابق چائنا مشن سینٹر چین سے پیدا کردہ عالمی چیلنجز کے سدباب کے لئے تشکیل دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ نیا گروپ سی آئی اے کے تحت پہلے ہی سے قائم شدہ ایک درجن سے زائد مشن سینٹروں میں ایک نیا اضافہ ہے۔ اس مشن کے قیام کا بنیادی مقصد چین سے متعلق سی آئی اے کی اسٹرٹیجی اور ہم آہنگی کو بہتر بنانا ہے، جس کے لئے اس مشن کا ڈائریکٹر کی سطح پر ہر ہفتے ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ سی آئی اے کے مطابق یہ نیا گروپ امریکی مسابقت کے لئے اہم ترین عالمی امور کا تدارک کرے گا، جن میں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، اقتصادی، سیکورٹی، موسمیاتی تبدیلیاں اور صحت کے شعبوں کو درپیش مسائل شامل ہیں۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنر کے مطابق سی آئی اے کا یہ نیا سینٹر اکیسویں صدی کے اہم ترین جغرافیائی اور سیاسی خطرات کے سامنے امریکا کی اجتماعی کوششوں کو مزید مضبوط کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ آخرکار امریکا کو سی آئی اے کے لئے ایک خاص اغراض و مقاصد کے لئے نیا گروپ تشکیل دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آخرکار امریکا کو چین سے اپنی سلامتی کے حوالے سے یکدم خطرات میں اضافہ ہوتا کیوں محسوس ہوا؟ جبکہ چین کے کسی قسم کے عالمی توسیع پسندانہ عزائم بھی نہیں اور نہ ہی چین نے آج تک کسی ملک کے خلاف کوئی جارحیت کی ہے۔ اس کے برعکس امریکا نے دُنیا کے 30 سے زیادہ ملکوں میں نہ صرف مداخلت کی ہے بلکہ کئی لاکھ لوگوں کو ہلاک بھی کیا ہے جس کے لئے اس نے آج تک کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار بھی نہیں کیا جبکہ معافی مانگنا تو امریکا غرور و تکبر کے یکسر خلاف ہے۔ چین کی پالیسیاں امریکا کی طرح جارحانہ کبھی نہیں رہیں، کیونکہ چین ایک امن پسند ملک ہے، جو دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ اور پُرامن تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس امریکا ایک جارحانہ اور شیطانی پالیسیوں کا حامل ملک ہے، جس نے پوری دُنیا میں اپنی فوجی قوت کے زور پر بھرپور بدمعاشیاں کی ہیں اور درجنوں ملکوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکا نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دُنیا بھر میں بے مقصد، بلاجواز اور غیرقانونی جنگیں لڑیں ہیں، مگر ان جنگوں میں اس کو سوائے شکست اور ذلت کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اس کے مقابلے میں چین نے اپنی توجہ اقتصادی ترقی پر مرکوز کی، دُنیا بھر میں تجارت کو فروغ دیا اور آج چین دُنیا کا سب سے امیر و کبیر ملک ہے، جس نے اپنے ملک میں غربت کا عملاً خاتمہ کردیا ہے اور یہ وہ عظیم کام ہے جو امریکا آج تک نہیں کرسکا۔ چین دُنیا کے جس ملک میں جاتا ہے، ایک دوست کی حیثیت سے جاتا ہے، اپنی مشینری لے کر جاتا ہے، تجارتی منصوبے اور ترقیاتی پیکیج لے کر جاتا ہے، نہ صرف اپنی تجارت کو بڑھاتا ہے بلکہ اس ملک کو بھی تجارت کے مواقع فراہم کرکے اس کی خوش حالی کی راہ ہموار کرتا ہے، جس کے باعث چین کا سیاسی اثرورسوخ بڑھتا ہے اور اس کی عالمی حمایت میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس سے امریکا بُری طرح خائف ہے۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ کا منصوبہ شروع کرکے نہ صرف دُنیا کے تمام ملکوں کو آپس میں جوڑنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے بلکہ دُنیا بھر سے غربت کا خاتمہ بھی اس کا اہم ترین منصوبہ ہے، جسے دُنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ امریکا جس ملک میں بھی جاتا ہے اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر اپنے ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں، توپوں، جنگی بحری بیڑے اور جنگی طیاروں کے ساتھ جاتا ہے، جس سے اس کا عالمی امیج خراب ہوتا ہے اور بتدریج ہوتا جارہا ہے، کیونکہ دُنیا بھر میں امریکا کو ایک جارح اور شیطانی طاقت کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔ امریکا کے جارحانہ اور جنگی مزاج کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رواں برس اس کا دفاعی بجٹ گزشتہ برس کے مقابلے میں پانچ فیصد اضافے کے ساتھ 770 ارب ڈالرز رکھا گیا ہے، جس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے دفاع کے لئے مانگی گئی رقم سے بھی زیادہ یعنی 25 ارب ڈالرز کی اضافی رقم امریکی کانگریس نے منظور کی، اس طرح مجموعی طور پر فوج کو گزشتہ برس کے مقابلے میں اضافی رقم دی گئی ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ امریکا اپنی جارحانہ اور جنگی روش کو تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہے۔ چین نے اپنی تیز رفتار اقتصادی ترقی کے باوجود اپنے دفاعی بجٹ کو امریکا کے مقابلے میں بہت کم رکھا ہے۔ حالانکہ چین اگر چاہے تو اپنے دفاعی بجٹ کو امریکا کے دفاعی بجٹ سے کہیں زیادہ کرسکتا ہے، لیکن چین کو اس کی ضرورت اس لئے نہیں کہ اس کی فوجی منصوبہ بندی صرف دفاعی نوعیت کی ہے جارحانہ نہیں، مگر امریکا اس کے باوجود چین سے خائف اور خوف زدہ ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا نے اپنے حالیہ دفاعی بجٹ میں چین کے حوالے سے 10.9 ارب ڈالرز کی رقم مختص کی ہے اور وہ یہ رقم بحرالکاہل میں چین کو روکنے اور تائیوان کی مدد کے لئے استعمال کرے گا، لیکن امریکا کا ایسا سوچنا ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں، کیونکہ چین کی موجودہ فوجی قوت اور خاص طور پر بحرالکاہل میں اس کی فوجی قوت امریکا کو روند دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور امریکا اس علاقے میں تائیوان کا دفاع تو دور کی بات ہے اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتا۔ امریکا نے اپنے موجودہ دفاعی بجٹ میں 300 ملین ڈالرز کی رقم روس سے یوکرائن کے دفاع کے لئے بھی مختص کی ہے اور یہ وہ سب چیزیں ہیں جن سے امریکا کی جنگی ذہنیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی چین سے خائف ہونے کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں اس کی طالبان کے ہاتھوں عبرت ناک شکست بھی ہے، جس کے بعد اس کے ایک سپر پاور ہونے کا طلسم پاش پاش ہوگیا اور جس کے بعد امریکا کے سب سے بڑے اتحادی برطانیہ کا وزیر دفاع یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ افغانستان میں امریکا کی شکست کے بعد وہ اب ایک سپرپاور نہیں رہا بلکہ اب وہ محض ایک فوجی قوت ہے۔ برطانیہ ہی کیا اب تو پوری یورپی یونین جو 27 عدد ممالک کا اتحاد ہے، امریکا کو سپرپاور ماننے پر تیار نہیں اور یہ پہلے اپنے دفاع کے لئے امریکا پر بھروسہ کرتا تھا، مگر افغانستان میں امریکا کی شکست کے بعد اپنی علیحدہ سیکورٹی فورس کے قیام پر غور کررہا ہے، جس کی تجویز برسوں قبل جرمنی نے دی تھی، مگر یورپی یونین نے اس پر غور نہیں کیا تھا، اب یورپی یونین کے دو اجلاس منعقد ہوچکے ہیں، جن میں اپنی ایک علیحدہ سیکورٹی فورس کے قیام پر سنجیدگی سے غور کیا گیا ہے، جو نیٹو کی طرز پر ہوگی اور نہ صرف طاقتور ہوگی بلکہ جدید ترین ہتھیاروں، جنگی بحری جہازوں اور لڑاکا طیاروں پر مشتمل ہوگی۔ اگر یورپی یونین اس قسم کی ایک طاقتور سیکورٹی فورس کھڑی کر دیتی ہے تو یہ امریکا کے لئے ایک زبردست جھٹکا ہوگا، کیونکہ اس علیحدہ فورس کے قیام کا مطلب یورپی یونین کا امریکا حلقہ اثر سے اخراج ہوگا۔ واضح رہے کہ یورپی یونین کو امریکا سے بہت سے تحفظات اور گلے شکوے ہیں جن کو دور کرنے کے لئے امریکا نے کبھی کوشش ہی نہیں کی اور امریکا کا یہ متکبرانہ رویہ یورپی یونین کو اس سے روزبروز دور کررہا ہے۔ یورپی یونین کو امریکا سے جو گلے شکوے ہیں ان میں اوکوس کے قیام میں یورپی یونین کو نظرانداز کرنا، فرانس کی آسٹریلیا سے آبدوزوں کی ڈیل کو یکدم ختم کرکے فرانس کو اقتصادی جھٹکا دینا اور روس کے معاملے پر یورپی یونین کے خدشات کو اہمیت نہ دینا سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ چین کے حوالے سے یورپی یونین کو امریکی دباؤ کا مسلسل سامنا ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ چین کو روکنے اور دیوار سے لگانے کے لئے یورپی یونین اس کا غیرمشروط طور پر ساتھ دے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین کے چین سے کسی قسم کے مسائل نہیں، بلکہ ان کے تعلقات خوشگوار ہیں، یورپی یونین کی چین کے ساتھ اچھی خاصی تجارت ہے، جس میں سال بہ سال اضافہ ہی ہورہا ہے۔ امریکا کی توجہ اس وقت چین کی طرف ہے، جسے وہ اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے اور ساتھ ساتھ امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ ساری دُنیا اس کی ہم نوا بن کر چین کو دبائے اور امریکا کے ایجنڈے میں اس کی شراکت دار بن جائے۔ اسی طرح کی توقعات امریکا نے یورپی یونین سے بھی وابستہ کر رکھی ہیں کہ وہ ماضی کی طرح غیرمشروط طور پر اس کی ہمنوا اور سپورٹر بنے اور امریکا کے چین کے خلاف منصوبے کا حصہ بنے، لیکن یورپی یونین اس مرتبہ امریکی ایجنڈے میں اس کی مددگار بننے پر تیار نہیں اور وہ امریکا کے لئے چین سے اپنے تعلقات کو بگاڑنے پر بھی تیار نہیں اور یہ عقل مندی بھی نہیں کہ یورپی یونین امریکا کے کہنا پر چین سے اپنے تعلقات بگاڑے جو یورپی یونین کے لئے نہ صرف ایک اچھا تجارتی پارٹنر ہے اور اس کے خلاف کسی قسم کی پرخاش بھی نہیں رکھتا۔ یورپی یونین کو امریکا سے ایک بڑا شکوہ اس کی سیکورٹی کے حوالے سے امریکی کردار کے بارے میں بھی ہے۔ یورپی یونین یہ سمجھتی ہے کہ امریکا نے اس کے دفاع اور سیکورٹی کے حوالے سے وہ سنجیدگی اور سرگرمی نہیں دکھائی جو اس کو دکھانی چاہئے تھی۔ یورپی یونین یہ کہتی ہے کہ اس کے کسی ملک پر حملہ تمام ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے، چنانچہ ایسی صورت میں تمام یورپی یونین اس حملہ آور کے خلاف صفِ آرا ہوگی، لیکن امریکا اس کے اس دعویٰ کو مسترد کرتا ہے، امریکا کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ یورپی یونین کا یہ تصور غلط ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ تمام یورپی یونین پر حملہ تصور کیا جائے گا اور ایسے کسی واقعہ کی صورت میں امریکا بھی بھرپور شدت سے اس حملے کا جواب دے۔ امریکا کا یہ بیان یورپی یونین اپنے مفادات اور سب سے بڑھ کر اپنی سیکورٹی اور دفاع کی ڈاکٹرائن کے خلاف تصور کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب یورپی یونین نے جرمنی کی برسوں پرانی تجویز پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے مطابق یورپی یونین اپنی ایک علیحدہ طاقتور سیکورٹی فورس کھڑی کرنے جارہی ہے۔ اگر یورپی یونین یہ فورس کھڑی کر لیتی ہے تو اسے نہ امریکا کی دفاعی چھتری کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی وہ امریکا، چین سرد جنگ کا حصہ ہوگی۔ وہ چین کے ساتھ اپنے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ اس اقدام سے یورپی یونین اور چین کے درمیانی قربتوں میں بھی اضافہ ہوگا اور یورپی یونین اپنے فیصلے کرنے میں امریکی دباؤ سے آزاد بھی ہوگی۔ یورپی یونین کے ایک اہم طاقتور اور یورپی یونین کے بانی ملک اٹلی، چین کے روڈ بیلٹ منصوبے میں شمولیت کا اعلان بھی کررہا ہے، جو اس بات کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ اب یورپی یونین اپنے فیصلے آزادانہ طور پر اور اپنے مفادات کے مطابق کرنے کے لئے تیار ہے۔ یورپی یونین امریکا کو چھوڑ نہیں رہی اور نہ ہی اس سے اپنے تعلقات خراب کررہی ہے بلکہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ امریکا کی سرد جنگ سے دور رہ کر وہ چین سے زیادہ بہتر انداز میں ڈیل کرسکتی ہے اور وہ اب امریکا سے اپنے تعلقات کی قیمت پر چین سے اپنے پہلے سے بہتر تعلقات کو خراب کرنے پر تیار نہیں۔ گزشتہ دنوں برسلز میں یورپی یونین کا جو اجلاس ہوا وہ بڑی اہم نوعیت کا تھا اور اس اجلاس میں یورپی کمیشن کی صدر اور یوپین کونسل کے صدر نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی عدم استحکام، پیچیدہ اسٹرٹیجک مسابقت اور سلامتی کے خطرات سے زیادہ بہتر انداز میں نمٹنے اور یورپی یونین کے مفادات کے تحفظ کے لئے یورپی یونین اب کسی دوسرے پر انحصار اور بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی سیکورٹی فورس تشکیل دے گی۔ یورپی یونین 27 ملکوں کا اتحاد ہے، جس میں طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں، ان کی معیشت بھی اچھی اور مضبوط ہے اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ نیٹو کی طرز پر ایک مضبوط اور طاقتور فورس کھڑی کرسکتے ہیں، جو مستقبل میں ان کی حفاظت کا فریضہ بھی انجام دے گی جبکہ ان ممالک کا امریکا پر انحصار بھی ختم ہوجائے گا۔

مطلقہ خبریں