اگر یوکرائن نیٹو میں چلا گیا تو اس کی سرحد کے بالکل قریب نیٹو کے فوجی اڈے اور میزائل وغیرہ نصب ہوجائیں گے، یوں روسی سیکورٹی کو سنگین مسائل درپیش ہوسکتے ہیں، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن
محمد عامر خاکوانی
بطور پاکستانی ہمارے لئے سب سے اہم یہ نکتہ ہے کہ ریاست پاکستان کو روس یوکرائن تنازع میں کیا پوزیشن لینی چاہئے اور عام پاکستانی اپنی کیا رائے بنائیں؟ اس حوالے سے ضروری ہے کہ اس تنازع کے پس منظر اور مختلف پہلوؤں کو سمجھ لیا جائے۔
یوکرائن ان بدقسمت خطوں میں سے ہے جن پر ہمیشہ آس پاس سے حملے ہوتے رہے ہیں، کئی صدیوں تک وہ قبضہ میں رہے اور ان کی جدوجہد کا عرصہ کئی نسلوں پر محیط ہے۔ تاریخی طور پر یوکرائنی روسیوں سے مختلف ہونے کے باوجود کئی صدیوں تک روسی سلطنت کا حصہ رہے۔ زار روس کے ادوار اور سوویت انقلاب کے بعد بھی یوکرائنی عوام کی قسمت نہ بدلی، وہ بدستور قبضے میں رہے۔ کلاسیکی روسی لٹریچر کے کئی شاہکار ناولوں میں یوکرائنی لینڈ اسکیپ کے گرد کہانیاں بنی گئیں۔
بعض قارئین ممکن ہے سوویت یونین (یو ایس ایس آر) اور روس میں فرق نہ سمجھ پائیں۔ یو ایس ایس آر یا سوویت یونین سے مراد ”یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلکس“ ہے، جوکہ 15 ممالک کا مجموعہ تھا، سوویت انقلاب کے بعد یہ وجود میں آیا اور 1922ء سے لے کر 1991ء تک رہا، 91ء وہ سال تھا جب مختلف وجوہات کی بنا پر سوویت یونین ٹوٹ گیا اور اس کا حصہ رہنے والے یا کہہ لیں قبضے میں رہنے والے ممالک الگ الگ ملک بن گئے۔ چونکہ سوویت یونین کا سب سے بڑا حصہ روس تھا اور درحقیقت یہ روسی اشرافیہ اور روسی قوم کی آہنی گرفت تھی جو سوویت یونین پر قائم رہی، اس لئے تب بھی بہت سے لوگ سوویت یونین کو روس کہہ دیتے تھے، تکنیکی طور پر مگر وہ تب سوویت یونین ہی تھا۔
الگ ہوجانے والے ممالک میں سب سے نمایاں روس تھا، اس کے علاوہ یوکرائن، بیلاروس، سینٹرل ایشیائی ریاستیں (قازقستان، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، کرغستان، آذربائیجان)، آرمینیا، مالدووا اور بالٹک ریاستیں لٹویا، لیتھوانیا، ایسٹونیا وغیرہ شامل تھے۔ یہ سب اب الگ ممالک بن چکے ہیں، البتہ داغستانی علاقہ چیچنیا اپنی آزادی کی جنگ لڑنے کے باوجود ابھی تک روس کا حصہ ہی ہے۔ یہ تمام ممالک جو سوویت یونین سے الگ ہوئے، ان پر روسی اثرورسوخ اور کلچرل اثرات بڑے گہرے تھے۔ سوویت یونین کی حکومت نے پلاننگ کے تحت ان علاقوں کے خام مال کو تو خوب استعمال کیا، مگر یہاں پر انڈسٹری لگانے سے گریز کیا۔ یہاں روسی زبان بولنے والے لوگ بھی دانستہ پلاننگ کے تحت بسائے جاتے رہے، مقامی ذریعہ تعلیم بھی روسی میں تھا تو ان تمام ممالک میں بڑی حد تک روسی زبان سمجھی، بولی جاتی ہے۔
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد ابتدائی چند برسوں میں یہ علاقے مختلف قسم کے بحرانوں کا شکار ہی رہے۔ پون صدی تک جبر اور آمریت میں پلے تھے، جمہوریت کی کچی پکی شکل ہی یہاں پر آئی اور کئی ممالک میں آج بھی سویلین آمر ہی قابض ہیں۔ روس معاشی طور پر مضمحل تھا تو فطری طور پر ان ممالک میں سے کچھ یورپ اور مغربی دُنیا کے زیادہ قریب ہوئے۔
روس کی زندگی میں بہت اہم موڑ تب آیا جب ایک سابق کے جی بی (سوویت یونین کی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی) ایجنٹ ولادی میر پیوٹن روس کا سربراہ بنا۔ پیوٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی زندگی اور نفسیات میں 1991ء کے سوویت یونین زوال اور شکست وریخت کے گہرے اثرات ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ روس کو پھر سے عروج پر لے جائیں اور سوویت یونین کے زمانے والی طاقت، اثر اور دُنیا میں اس کی اہمیت بنے۔ انہوں نے روس کی معیشت کو بھی سنبھالا، ترقی کے نئے راستے کھولے، نئی جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائی اور عملی طور پر ملک میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا ماڈل نافذ کیا جس کے مطابق برائے نام سیاسی آزادی، کنٹرولڈ میڈیا اور اپوزیشن کو سختی سے کچلنے کی پالیسی اپنائی۔ یہی وجہ ہے کہ پیوٹن طویل عرصے سے حکمران ہیں۔ انہوں نے حکومت میں رہنے کے لئے ایک سے زائد بار روسی آئین میں ترامیم کیں۔ 2004ء سے 2012ء تک وہ روس کے صدر رہے۔ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص دو بار سے زیادہ صدر نہیں بن سکتا، پیوٹن نے تب ایک سیاسی چال چلی اور وزیراعظم بن گئے۔ اس کے بعد وہ پھر چھ سال کے لئے صدر بنے اور 2018ء میں چوتھی بار روسی صدر بن چکے ہیں۔ امکانات ہیں کہ اگلے کئی برسوں تک وہ روس کے مرد آہن بن کر رہیں گے۔
پیوٹن کے ادوار میں روس نے اپنی سابقہ ریاستوں میں رسمی، غیررسمی مداخلت اور اثرورسوخ بڑھانے کی کوششیں کیں۔ اس کے کئی مظاہر اور مثالیں موجود ہیں۔ ان کو اس بات سے نفرت ہے کہ ان علاقوں میں امریکی یا مغربی اثرورسوخ پیدا ہو۔ اس کی وہ ہر حال میں مزاحمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیوٹن کی شدید خواہش ہے کہ ماضی میں سوویت یونین کا حصہ رہنے والے ممالک مغربی اتحاد نیٹو میں ہرگز شامل نہ ہوں۔ یاد رہے کہ ”نیٹو “ مغرب کا اینٹی سوویت یونین اتحاد ہے جو 1949ء میں قائم ہوا تھا، اس میں امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک شامل ہیں، ترکی بھی نیٹو کا حصہ ہے۔ مشرقی یورپ کے ممالک ہنگری، چیکوسلواکیہ، پولینڈ، آسٹریا وغیرہ تب سوشلسٹ ممالک تھے اور یہ سوویت یونین کے گہرے اثرورسوخ تلے دبے اور اس کے اتحادی تھے۔ سوویت یونین ختم ہوا، مگر نیٹو ختم نہیں ہوا کیونکہ مغربی دُنیا کے خیال میں روس کی شکل میں ایک بڑی طاقت ابھی موجود ہے جس کے پاس ہزاروں ایٹمی میزائل اور دُنیا کی تین چار بڑی افواج میں سے ایک ہے۔
حالیہ روس یوکرائن تنازع کے پس منظر میں نیٹو اتحاد میں شمولیت کا معاملہ بھی موجود ہے۔ یوکرائن روس کا پڑوسی ملک ہے۔ یوکرائن کی خواہش ہے کہ وہ نیٹو کا حصہ بنے، اس حوالے سے خاصی پیش رفت ہوچکی ہے، مگر ابھی تک یوکرائن باضابطہ طور پر نیٹو کا حصہ نہیں بنا۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ نیٹو اتحاد کی بنیادی شق ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ ہوا تو نیٹو کے تمام ممالک مل کر اس کا مقابلہ کریں گے، یعنی ایک پر حملہ پورے نیٹو پر حملہ تصور ہوگا۔ یوکرائن کے لیڈر روس کے جارحانہ عزائم سے پریشان ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح نیٹو میں شامل ہوجائیں تاکہ اپنا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ ادھر روس کو یہ لگتا ہے کہ اگر یوکرائن نیٹو میں چلا گیا تو اس کی سرحد کے بالکل قریب نیٹو کے فوجی اڈے اور میزائل وغیرہ نصب ہوجائیں گے، یوں روسی سیکورٹی کو سنگین مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔ یہ بات پیوٹن پچھلے کچھ عرصہ میں بار بار کہہ چکے ہیں۔
یاد رہے کہ پولینڈ، لٹویا اور ایسٹونیا بھی نیٹو میں شامل ہوچکے ہیں، ان پر بھی روس معترض اور برہم ہے لیکن وہ یوکرائن جیسی اسٹرٹیجک جغرافیائی اہمیت کے حامل نہیں ہیں، اس لئے وہاں روس نے اتنا شدید ردعمل نہیں دیا۔ روسی حکمران پیوٹن البتہ یوکرائن اور جارجیا کو کسی بھی صورت میں نیٹو میں شامل نہیں ہونے دینا چاہتے۔ نیٹو کا جوابی موقف ہے کہ روس کو یہ دباؤ ڈالنے کا کوئی حق نہیں اور کوئی بھی آزاد ملک اپنی مرضی سے جس چاہے اتحاد میں شامل ہو، روس روکنے والا کون ہے؟
یوکرائن کا یہ بحران کئی سال پرانا ہے۔ 2013ء میں یوکرائن میں روس نواز حکومت قائم تھی، تب یوکرائنی صدر وکٹر یانوکووچ کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوئے، جو شدت پکڑ گئے۔ یوکرائنی دارالحکومت کئیو میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے صدر کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ تب بھی ایشو نیٹو ہی بنا۔ یوکرائن میں بڑے عوامی حلقے مغرب اور نیٹو میں جانے کے حامی تھے، جبکہ روس نواز عوامی، سیاسی، صحافتی حلقوں کی پوزیشن ان سے مختلف تھی۔ خیر احتجاجی تحریک شدید ہوئی تو حکومت نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی، خاصا خون خرابا ہوا، خونریز ہنگامے تب تھمے جب فروری 2014ء میں روس نواز صدر وکٹر یوکرائن سے فرار ہوگئے، انہوں نے روس میں پناہ لی۔ اس کے بعد سے یوکرائن میں پرو یورپ حکومتیں چلی آ رہی ہیں۔ موجودہ یوکرائنی صدر بھی پرو یورپ، پرو نیٹو الائنس ہیں۔
یوکرائن کے چند علاقوں میں روسی زبان بولنے والی اکثریت آباد ہے، روس ان علاقوں کے حوالے سے خاصا حساس ہے۔ کریمیا ایسا ہی ایک علاقہ ہے، جس کو صدر پیوٹن نے باقاعدہ فوجی قوت استعمال کر کے یوکرائن سے الگ کرلیا۔ کریمیا کی مقامی حکومت اور عوام بھی یوکرائن کا حصہ بننے کی مخالف تھی اور وہاں روس کے ساتھ ملنے کی خواہش قوی نظر آتی ہے۔ اسی طرح یوکرائن کے دو اور اہم علاقوں دونستک اور لوہانسک میں روس نواز یوکرائنی علیحدگی پسندوں کا کنٹرول چلا آرہا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے یہ علاقے عملاً الگ ہیں، ان پر روس نواز یوکرائنی علیحدگی پسندوں کا کنٹرول ہے جنہیں بھرپور روسی سپورٹ حاصل ہے مگر انہیں کسی نے الگ ملک تسلیم نہیں کیا تھا۔ اب اچانک سے روس نے ان ممالک کو آزاد علاقہ تسلیم کرلیا اور وہاں اپنی فوج بھی بھیج دی ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ یوکرائن کی اہمیت روسیوں کی نفسیات میں رچی بسی ہے، بہت سے تاریخی، ثقافتی، لسانی مشترک رشتے ہیں۔ آج کے صدر پیوٹن کی بات نہیں بلکہ انقلاب روس کے سب سے اہم لیڈر لینن کا 70 سال پرانا فقرہ ہے کہ یوکرائن کی حیثیت روس کے سر جیسی ہے۔ سوویت یونین کے آخری سربراہ گوربا چوف نے کہا تھا کہ یوکرائن کے بغیر سوویت یونین نہیں اور یونین کے بغیر یوکرائن کچھ نہیں۔ صدر پیوٹن تو بار بار کہہ چکے ہیں کہ یوکرائنی اور روسی ایک ہیں، ان کی تاریخ، ثقافت سب کچھ ایک ہے۔ یوکرائن روس کے بعد مشرقی یورپ کا رقبے کے حساب سے دوسرا بڑاملک ہے۔ روس کے ساتھ اس کی ہزاروں میل لمبی سرحد ملتی ہے۔ یوکرائن پر روسی گرفت مضبوط ہو تو مشرقی یورپ کے دیگر اہم ممالک پولینڈ، ہنگری، رومانیہ وغیرہ تک رسائی آسان ہوجاتی ہے۔ یوکرائن کا نقشہ دیکھا جائے تو کئی باتیں سمجھ آ جاتی ہیں۔ جنہیں نقشہ پڑھنے میں دلچسپی نہیں، وہ ایک سادہ نکتہ یاد رکھیں کہ نقشے میں اوپر کی طرف شمال اور نیچے کی طرف جنوب جبکہ دائیں طرف مشرق اور بائیں مغرب ہے۔ یوکرائن کے شمال میں بیلاروس واقع ہے۔ یوکرائن کے مشرق کی خاصی طویل سرحد جو کہ شمال مشرق سے جنوب مشرق تک چلی جاتی ہے، یہاں روس ہے۔ یوکرائن کے جنوب میں یعنی نقشہ کے حساب سے نچلی طرف کریمیا کا جزیرہ نما ہے۔ یاد رہے کہ جزیرہ نما تین اطراف سے پانی میں گھرا جبکہ چوتھی طرف زمینی علاقہ سے جڑا ہوتا ہے، روس آٹھ سال قبل کریمیا کو یوکرائن سے الگ کر کے اپنے ساتھ شامل کرچکا ہے، ویسے یہاں روسی اکثریتی آبادی تھی جسے کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ یوکرائن کے مغرب میں سب سے بڑا ملک پولینڈ ہے جبکہ ہنگری، رومانیہ، سلوواکیا کے ساتھ بھی یوکرائن کی سرحدیں ملتی ہیں۔ روس کی سرحد ان ممالک کے ساتھ نہیں ملتی، درمیان میں یوکرائن آ جاتا ہے۔البتہ یوکرائن کے شمال میں بیلاروس سے تھوڑا اوپر چھوٹی چھوٹی بالٹک ریاستیں اسٹونیا، لٹویا، لتھووینیا ہیں، ان کے ساتھ روس کی براہ راست سرحد ملتی ہے۔ روس اگر یوکرائن کو اپنا حصہ بنا لیتا ہے یا وہاں پر اس کی کنٹرولڈ /زیرنگیں حکومت ہو تو اس کے لئے پولینڈ، ہنگری، رومانیہ اور دیگر مشرقی یورپی ممالک پر دباؤ ڈالنا، اپنی فوجی کارروائی سے ڈرانا دھمکانا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یوکرائن سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے، بے شمار معدنیات کے علاوہ بہت اہم زرعی مرکز۔ یہاں دریا، نہروں کا بہترین نظام ہونے اور زرخیز زمین کے باعث شاندار فصلیں ہوتی ہیں، جن میں گندم اور مکئی سرفہرست ہیں۔ یوکرائن پر کنٹرول ہر لحاظ سے منافع بخش سودا ہے۔ روس نے یوکرائن پر حملہ کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچا اور پلان کیا ہوگا، یقینی طور پر یہ کیلکولیٹڈ اٹیک ہے کیونکہ روس یوکرائن تنازع آج کا نہیں بلکہ آٹھ سال سے چل رہا ہے۔ دراصل 2013ء میں پرو روسی یوکرائنی صدر کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کے بعد وہاں پر اینٹی روس اور پرو مغرب حکومتیں آئیں۔ روس نے 2014ء میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے یوکرائن کے جنوبی جزیرہ نما علاقہ کریمیا کو الگ کرکے اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس کے ساتھ یوکرائن کے مشرقی علاقہ میں جہاں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے، وہاں بھی ڈونباس علاقہ کو ایک طرح سے الگ کرا دیا، جہاں دونتسک اور لوہانسک یا لوگانسک شہر موجود ہیں۔ پچھلے آٹھ برسوں سے یہ عملاً آزاد ہیں اور روسی مدد کے ساتھ وہاں علیحدگی پسند معاملات چلا رہے تھے۔ روس نے پچھلے ایک دو برسوں میں ان علاقوں میں کئی لاکھ افراد کو روسی پاسپورٹ بھی تقسیم کئے۔ اب حملہ کرنے سے پہلے صدر پیوٹن نے دونتسک اور لوہانسک کو آزاد ملک تسلیم کرلیا۔ اس تفصیل کا مقصد یہ بتانا تھا کہ یہ آگ اچانک نہیں بھڑکی بلکہ کئی برسوں سے تنازع چلا آرہا تھا جو رفتہ رفتہ بڑھتا گیا اور اب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حملے کا دھماکہ کر ڈالا۔ لگتا ایسے ہے کہ صدر پیوٹن نے نیٹو کی عملی کمزوری اور موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کا گہرا تجزیہ کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا۔ صدر پیوٹن کو اندازہ ہوگیا کہ افغانستان سے بمشکل نکلنے کے بعد امریکا اور نیٹو سردست کوئی عملی جنگ لڑنے کے قابل نہیں۔ امریکی صدر بائیڈن بڑی شدت سے اس کے حامی ہیں کہ امریکی فوجی کسی اور ملک کی جنگ لڑتے ہوئے اپنی جانیں نہ دیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے یوکرائن کے دفاع کے لئے فوج بھیجنے سے صاف انکار کردیا ہے، یہی نیٹو کے ممالک نے کیا۔ دوسرا یوکرائن چونکہ ابھی تک نیٹو کا ممبر نہیں ہے، اس لئے اس کا دفاع کرنا نیٹو کی قانونی، اصولی، اخلاقی ذمہ داری نہیں بنتی۔ ہاں اگر روس لٹویا، استھونیا وغیر پر حملہ آور ہوا یا فرض کریں یوکرائن پر کنٹرول کرنے کے بعد پولینڈ، ہنگری، رومانیہ وغیرہ میں چھیڑچھاڑ کی گئی تو معاملہ مختلف ہوگا کیونکہ نیٹو کے چارٹر کے مطابق اس کے ایک رکن ملک پر حملہ سب پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ عسکری اعتبار سے روس کے سامنے یوکرائن ترنوالہ تھا، جسے روس نے مزے سے منہ میں ڈال لیا۔ اس وقت امریکا اور نیٹو صرف اقتصادی پابندیاں لگانے کی پوزیشن میں ہیں۔ امریکا اور برطانیہ اس حوالے سے بہت جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں، یورپی یونین کے ممالک بھی پابندیاں لگا رہے ہیں، مگر ان کا رویہ قدرے نرم ہے۔ برطانیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ روس کو سوئفٹ بینکنگ سسٹم سے بھی نکال دیا جائے مگر جرمنی وغیرہ اس کے مخالف ہیں۔ دراصل یورپی یونین کے ممالک اس وقت بھی روس سے گیس لے کر اپنا کام چلا رہے ہیں، وہ یہ نہیں چاہتے کہ معاملات ان کے اپنے لئے پریشان کن ہوجائیں۔ روس نے ویسے اپنا معاشی نظام بنایا ہے، وہ ضرورت پڑنے پر چین کی مدد بھی لے سکتا ہے، جس کا بڑی حد تک اپنا معاشی نظام موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر پابندیاں لمبا عرصہ چلیں تو روس کے لئے خاصی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کا جواب یوکرائنی عوام اور ان کی فوجی مزاحمت پر ہے۔ روس کی تقریباً دو لاکھ فوج حملہ آور ہوئی ہے، یوکرائن کے پاس اس سے کم فوج ہے (تقریباً سوا لاکھ)، یہ ممکن ہے کہ دارالحکومت کیؤ یا کیف پر جلد قبضہ ہوجائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ملک کے قلب میں نہیں بلکہ روسی/بیلاروسی سرحد سے صرف ساٹھ میل کے فاصلے پر ہے، اسی وجہ سے روسی فوجیں جلد اس کے سر پر جا پہنچیں۔ عسکری ماہرین کے خیال میں اگر یوکرائنی حکومت اپنے ملک کے کچھ حصے پر حکومت قائم رکھے اور بڑے شہروں میں گوریلا جنگ اور عوامی بغاوت کے ذریعے مزاحمت جاری رکھے تو روس کے لئے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ شہروں میں خاص کر گلی محلے کے اندر مزاحمت کچلنا آسان نہیں ہوتا۔ تب جانی نقصان زیادہ ہوگا اور جنگ بھی طویل ہوتی جائے گی۔ روس کی کوشش ہوگی کہ جلد از جلد یوکرائنی حکومت کو ختم کرکے اپنا کنٹرول قائم کرے اور پھر معاملات نارمل ہوجانے کا تاثر دے۔ اب یہ یوکرائنی فوج اور عوام پر ہے کہ وہ کس جذبے کے ساتھ اپنی سرزمین کا دفاع کر پاتے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر یوکرائنی مزاحمت جاری رہی تو اسے امریکا اور یورپ کی جانب سے اسلحہ، مالی مدد اور مکمل اخلاقی سپورٹ ملے گی۔ انہیں سب کچھ مل سکتا ہے مگر جانیں یوکرائنی عوام کو خود دینا ہوں گی، ان کی لڑائی لڑنے کے لئے کوئی اور تیار نہیں۔ یوکرائنی عوام اور فوج کا ردعمل بتائے گا کہ ان کا مقدر ویت نام اور افغانستان جیسا ہے یا یہ ڈھیر ہوجانے والی قوم ہے۔ پاکستانی حکومت نے ابھی تک مثبت طرزعمل کا مظاہرہ کیا ہے، ہمیں اس جنگ میں غیرجانبدار رہنا چاہئے۔ روس کی باقاعدہ مذمت سے بچتے ہوئے جنگ ختم ہونے، امن کی خواہش کا اظہار۔ ہماری مجبوری ہے کہ ہمارا سب سے قریبی دوست چین اس وقت روس کے بہت قریب ہے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا چاہئے۔ البتہ انفرادی طور پر ہمیں ماننا چاہئے کہ روسی جارح ہیں۔ انہوں نے ایک آزاد خودمختار ملک پر حملہ کیا اور جو جواز روسی صدر پیوٹن نے پیش کئے وہ سب کمزور، ہلکے اور غیرمعتبر ہیں۔ یوکرائن جیسے ملک سے روس کی سالمیت کو کیا خطرہ لاحق ہوسکتا تھا؟ اگر وہ روسی سرحد کے ساتھ میزائل لگا دے، تب بھی کئی ہزار ایٹمی ہتھیاروں کے مالک روس کا کیا بگاڑا جاسکتا ہے؟ پاکستان کو اپنے پڑوس میں ایک نہایت جارح، طاقتور، ضدی اور کم وبیش اسی انداز کی انا اور عزائم رکھنے والے ملک کا سامنا ہے۔ روسی حکومت کے دلائل سن کر بھارتی شدت پسند ہندو لیڈروں کے دلائل اور بیانیہ یاد آجاتا ہے۔ ان میں بہت کچھ مشترک ہے۔ ہم پاکستانیوں کو ہر معاملے میں مظلوم کا ساتھ دینا چاہئے کیونکہ ہماری اپنی حیثیت ہی ایسی ہے۔ اگر کسی مجبوری کے باعث ہم ظالم کی کھل کر مذمت نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کے ساتھی تو نہ بنیں۔