معجزے یوں بھی محبت یہ دکھا دیتی ہے
دشت کی ریت کو گلزار بنا دیتی ہے
اُس کے ملنے سے کہاں دل کی طلب مٹتی ہے
وہ تجلی تو مری پیاس بڑھا دیتی ہے
زخم لگتے تو ہیں اس راہِ طلب میں اکثر
زندگی مرہمِ امید لگا دیتی ہے
کیسی انصاف پسندی ہے محبت کا مزاج
رنگ اور ذات کی تفریق مٹا دیتی ہے
کبھی تنہائی کبھی بزم میں آ کر اے دوست
مجھے اکثر یہ تری یاد رلا دیتی ہے
چھوڑتا دل بھی نہیں آس کا دامن جاذبؔ
روز آندھی بھی مرے دیپ بجھا دیتی ہے
———————–
اکرم جاذبؔ