نصرت مرزا
جمی کارٹر جو 70 کے عشرے میں امریکا کے صدر تھے اور برزنسکی اُن کے سلامتی امور کے مشیر رہے ہیں، پھر صدر ریگن انتظامیہ میں بھی سلامتی امور کے مشیر کے عہدے پر فائز رہے، برزنسکی ایک انتہائی مدبر اور عملی سیاست کے ماہر مانے جاتے ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، وہ امریکا کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے انتہائی پُرعزم تھے، انہوں نے اپنی کتاب ”دی گرینڈ چیس بورڈ“ میں لکھا ہے کہ امریکا نے اپنی دانائی اور طاقت کے ذریعے سو برس تک ملکوں کو جنگیں لڑاتا رہا اور طاقت کے مراکزوں کو توڑتا یا کمزور کرتا رہا، یہاں تک کہ 1989ء میں سوویت یونین کو پاکستان کی مدد سے شکست دینے کے بعد طاقت کے محور جو ازل سے یوریشیا میں رہا پہلی مرتبہ براعظم امریکا لے آئے اور اب وہ اس طاقت کے محور کو ہر صورت میں امریکا میں رکھنا چاہیں گے، اس کے لئے چاہے حکومتیں تبدیل کرنا پڑے یا جنگ کرنا پڑے یا کسی حکمران کو قتل کرنا ہو، وہ گریز نہیں کریں گے، کیونکہ اس کے حصول کے لئے انہوں نے اسپین، ویت نام، کمبوڈیا اور مختلف جنگیں سو سال تک کرائی ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ اُن کے مخالفین میں روس، چین، فرانس، ایران اور عین ممکن ہے کہ انڈیا بھی شامل ہو مگر وہ اُن کے بندوبست کا الگ الگ حل اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے، جب سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوگئی اور امریکا دُنیا کی واحد سپر طاقت بن گیا تو امریکی دانشوروں نے سارے دُنیا کے سیاسی مراکز کے چکر لگائے اور دُنیا بھر کے دانشوروں کو باور کرایا کہ امریکا اب دُنیا کی واحد سپر طاقت بن گیا ہے، اس کو تسلیم کرنا آپ سب کے لئے ضروری ہوگیا ہے، چنانچہ پاکستان میں بھی کئی امریکی دانشور آئے اور انہوں نے یہاں بھی باور کرایا کہ اب دُنیا کی واحد طاقت ہیں، کراچی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز جس کا میں لائف ممبر ہوں، تقریر کرتے ہوئے ایک امریکی مصنف و دانشور نے کہا تھا خیال رہے کہ اب ہم دُنیا کی واحد سپر طاقت بن گئے ہیں اس لئے ہمارا احترام اُسی انداز سے کیا جانا چاہئے۔ اِس کے بعد ایک عرصہ بیتا اُن کا خیال تھا کہ روس کو دوبارہ معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے تیس برس لگیں گے۔ اتنا عرصہ تو لگا مگر اب روس اس سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ بن گیا ہے، معاشی طور سے اور ملٹری طاقت کے اعتبار سے بھی۔ جب چین اور روس نے امریکا کی سپر طاقتی کو چیلنج کیا تو امریکی امراء، امریکی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور ملٹری کمپلیکس نے غوروخوص شروع کیا کہ امریکا کی بالادستی کو کیسے بحال کیا جائے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ چین و روس اور امریکا کے سامنے کھڑے ہیں کہ ان میں سے کون دُنیا کی سپر طاقت ہے، چین معاشی طور سے تو سپر طاقت بن چکا ہے، دونوں ممالک اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ وہ کس طرح اصل طاقت کے بنیادی ڈھانچے، تعداد اور عملی اقدامات سے اُن کے مفادات کا تحفظ اور اضافہ کا سبب بنے، نہ صرف اپنے ڈھانچہ کو پروان چڑھوائیں بلکہ اس کو برقرار رکھیں اور دُنیا پر اپنی بالادستی مسلّم کرالیں۔
مشکل یہ ہے کہ طاقت کا محور تبدیل ہوتا ہے تو اس میں خون خرابہ اور معاشی بدحالی اور ملکوں کی پامالی بھرپور ہوتی ہے، ملکوں کی سرحدوں کی نئی حد بندیاں ہوتی ہیں، جیسے کہ یونان سے رومن سلطنت کے دوران ہوئی یا رومن سے مسلمانوں میں منتقل ہوئی یا مسلمانوں سے برطانیہ اور برطانیہ سے امریکا کو سپر طاقتی کا حصول ہوا۔
آج کل کا دور قدرے مختلف ہے، عالمی نظام میں تبدیلی معیشت کی بنیاد پر آتی نظر آ رہی ہے اور ایشیا میں چین، جاپان اور بھارت بڑھتی ہوئی معاشی قوتیں ہیں، ماضی میں 19 ویں صدی یورپ کی تھی تو بیسویں صدی امریکا کے حصے میں آئی اور یہ صدی ایشیا کی ہے۔ البتہ اس صدی میں عین ممکن ہے کہ وہ ہمہ جہتی یا ملٹی پولر ورلڈ دُنیا ہی بن جاتے جو اب یک قطبی تھی۔ اس وقت چین، روس، ایران اور ترکی نے امریکا کی بالادستی کو چیلنج کیا ہوا ہے۔ برزنسکی نے ترکی کو اپنا مخالف نہیں سمجھا تھا مگر تاحال یہ ممالک الگ الگ اپنی موجودہ طاقت سے نبردآزما ہیں۔ اِن کے پاس امریکا سے لڑنے کے لئے محدود وسائل اور ہتھیار ہیں، البتہ اگر وہ مل کر کوئی طاقت کی گاڑی بنا لیں تو عین ممکن ہے کہ وہ امریکا کو کونے میں لگا دیں۔
دوسری طرف امریکا اپنی سی پوری کوشش کررہا ہے کہ وہ سپر طاقتی بحال کرے۔ اُس کے لئے اس نے جو اصول وضع کئے ہیں، اس میں برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ کرنا، ایشیائی اور افریقی باشندوں کو سفید فام ممالک سے نکالنا، دنیا بھر میں عام کساد بازاری اور ایک جنگ کرانے کا منصوبہ بنایا جو انسان دشمن منصوبہ تھا، اس نے یورپی یونین سے برطانیہ کو نکال لیا، بڑی تعداد میں یورپ اور امریکا سے ایشیائی اور افریقی باشندوں کی نقل مکانی کرا دی اور دُنیا میں کسادبازاری عروج پر ہے۔ اس نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کروا دی ہے۔ برزنسکی نے یہ بات 80 کے دہائی میں بتا دی تھی کہ تیسری عالمگیر جنگ یورپ سے اٹھے گی۔ سوال یہ ہے کہ اس نے برطانیہ کو یورپی یونین سے کیوں نکالا تو جواب یہ ہے کہ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ یورپی یونین بذات خود ایک طاقت کا محور بن جائے جو عین ممکن ہے کہ روس اور چین سے بھی زیادہ طاقتور ہو تو اس نے یورپی یونین کو کمزور کیا اور یورپ کو استعمال کرتا رہا ہے، اس کو غلام بنائے ہوئے یورپ کو شاید اتنی بھی آزادی نہیں جتنا پاکستان آزاد ہے، پھر ایشیائی اور افریقی ممالک کے افراد کو اس لئے نکالا کہ اُن کی اب ضرورت نہیں رہی تھی کہ وہ یورپ اور امریکا کے ممالک میں بے روزگاری بڑھ رہی تھی، دوسرے میں ایشیائی اور افریقی ممالک کے باشندوں کو نکال کر اُن کو معاشی طور پر کمزور کرنا مقصود تھا، کساد بازاری کرنے کا مقصد دُنیا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا تھا اور پھر جنگ کرکے ساری دُنیا پر اپنا تسلط جمانا مطمع نظر تھا، تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ ایشیائی ممالک کی ترقی دُنیا کا نقشہ میں تبدیلی کا سبب بنے گی۔ ابھی سے ان ممالک کے درمیان باہمی تعلقات بڑھ رہے ہیں، جس کے سبب پیسہ، تجارت، ٹیکنالوجی، انرجی کے استعمال سے نیا اسٹرٹیجک جغرافیہ قرار دیا ہے۔ اُس کی وجہ سے موجودہ بین البراعظمی نظام کو متاثر ہورہا ہے۔
پوری دُنیا میں تصادم کی کیفیت بڑھ رہی ہے، انتظامی معاملات میں تبدیلی رونما ہورہی ہے، نئے افکار جنم لے رہے ہیں، ادارے پہلے سے زیادہ بہتر اسمارٹ ہوگئے ہیں اور ماضی کی دوستی اور حصہ داری کمزور پڑ رہی ہے۔ بھارت آسیان اور چین امریکا سے کہیں بڑے خطے پر مشتمل ہیں، آسیان ممالک اور چین پہلے ایشیا اور بحراوقیانوس کا جو نظام تھا اس میں تبدیلی اس طرح سے رونما ہوگئی ہے کہ اس کی سرحدیں بحر ہند تک محدود نہیں رہی ہیں۔ امریکی جزیرہ اور بندرگاہ جو نن فریکٹ میسیجوٹ ریاست امریکا سے نیروبی تک کی سیکورٹی، ترقی اور تجارت تین براعظموں تک بڑھ گئی ہے اور اس سے تمام ریاستیں اور فعال ممالک سب متاثر ہورہے ہیں۔
دوسرا کام یہ ہورہا ہے کہ یورپ اور ایشیا ایک اسٹرٹیجک جغرافیائی نظام بنا چکے ہیں۔ یوریشیا ایک نئے انداز کے ساتھ ابھر رہا ہے اور وہ ایک نیا علیحدہ سے جغرافیائی براعظم بن گیا ہے، جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ ملاپ بڑھ گیا ہے اور ان ممالک کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ انحصار میں بھی اضافہ ہوا، یہ بات بھی واضح ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق بلامقصد نہیں ہے، چین یورپ میں دلچسپی رکھتا ہے اور روس نئے جوش و خروش کے ساتھ یوریشیا میں داخل ہورہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو امریکا اور یورپ سے منوانے پر تلا ہوا ہے۔ اس طرح تصادم کے خطرات بڑھ رہے ہیں تو نئے تعلق داری کے امکانات بھی روشن ہورہے ہیں اور نیا نظام بہرحال ابھر کر سامنے آ رہا ہے، تاہم اس نئے براعظم میں امریکا نے دخل اندازی کررہا ہے۔
موسم کی تغیر کی وجہ سے شمالی قطبی ممالک اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ جو عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ تاریخ میں شاید پہلے مرتبہ یہ ہوگاکہ اوقیانوسی اور قطبی سیاست یک جان دو قالب ہوجائیں، اگرچہ اوقیانوس اور شمالی قطبی ریاستیں ایک صفحہ پر نہیں ہے، ان میں بہت تضادات ہیں اور یہ متصادم رہتے ہیں مگر معروضی حالت میں شاید ان سے صرف نظر کیا جائے۔ شمالی قطبی سمندر کا نیا راستہ کھل جائے اور اس طرح ان قطبی ریاستوں کی دولت کی ریل پیل ہوجائے گی جس سے ان ممالک میں مخاصمت خودبخود بڑھے یا بڑھا دی جائے یا بیٹھا دی جائے، یہ عالمی طاقتوں کے مفادات پر منحصر ہوگا۔