Tuesday, December 3, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

تائیوان تنازع پر چین اور امریکا میں بڑھتی کشیدگی

چین کو ظاہری طور پر ہر سطح میں تائیوان پر سمندری، فضائی اور زمینی افواج کی عددی فوقیت حاصل ہے، چین کے پاس روایتی و غیرروایتی جنگ کے لئے تمام ہتھیار و فوجی قوت موجود ہے، اگر ایک اجمالی جائزہ لیا جائے تو اس وقت چین کے پاس دُنیا کی سب سے بڑی بحریہ ہے جس میں قریباً 360 جنگی جہاز ہیں
، قادر خان یوسف زئی

دُنیا اس وقت امریکا اور چین کے درمیان تائیوان کے تنازع پر شدید تحفظات کا شکار ہے۔ تائیوان کو اس امر پر اکسایا جارہا ہے کہ وہ اپنی آزادی کا اعلان کردے لیکن تائیوان کے عوام کی بڑی تعداد اس وقت اپنی صدر تاسائی ون سے متفق اور اعلانِ آزادی سے اجتناب کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ تائیوان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے (تائیوان اقوام متحدہ کا رکن ملک نہیں)، خیال رہے کہ چین، تائیوان جس کا پرانا نام فارموسا (سرکاری نام ری پبلک آف چائنا) کو اپنی سرزمین کا حصہ قرار دیتا اور الحاق چاہتا ہے جبکہ چین نے امریکا کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ون چائنا پالیسی کی خلاف ورزی اور ان کے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے سے باز رہے۔ وہ تائیوان سے پُرامن طریقے سے دوبارہ الحاق چاہتا ہے تہم تائیوان کو آزاد اور علیحدہ کرانے کی کوشش کی گئی تو اس کا اس وقت سخت ردعمل دیں گے۔ امریکا اور چین کے درمیان روایتی بیان بازی میں حالیہ شدت اس وقت آئی جب چین نے تائیوان کی فضائی حدود میں اپنے جنگی جہاز بھیجنے میں اضافہ کیا اور گزشتہ ماہ ہی چین نے اپنے جنگی جہازوں کی ایک بڑی فارمیشن تائیوان کی فضائی حدود میں بھیجی جبکہ اس کے ردعمل میں امریکا نے تائیوان کے پانیوں میں اپنے جنگی بحری جہاز اتار دیئے۔ امریکا نے اپنے قانون کے مطابق تائیوان کو دفاعی طور پر مضبوط کرنے کا عمل جاری رکھا ہو اہے۔
عالمی تنازعات میں پہلے ہی روس، یوکرین کے درمیان تنازع ایک خطرناک جنگ کی صورت میں وارد ہوچکا اور توقعات کے برعکس روس کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکا اور یورپ نے یوکرین کو نیٹو کا حصہ تو نہیں بنایا لیکن اسے وہ تمام تر جنگی سازوسامان، کرائے کے فوجی مہیا کئے جو روس کے خلاف جنگ میں کام آ رہے ہیں۔ بھاری جنگی سازوسامان و اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود یکے بعد دیگرے یوکرین اپنے اہم شہر کھوتا جارہا ہے۔ امریکا نے روسی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے بڑھ چڑھ کر امداد دی، نیٹو ممالک بالخصوص یورپ نے یوکرین کے کندھے پر بندوق رکھ کر روس کو اس جگہ لے گئے جہاں سے محفوظ راستے کے لئے اسے موثر یقین دہانی کی ضرورت ہے۔ روس، یوکرین کی جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ دوسری جانب سر اٹھاتا چین، تائیوان سنگین تنازع میں صدر جوبائیڈن اب تک تین مرتبہ چین کو دھمکی دے چکے ہیں کہ تائیوان کے دفاع کے لئے ہر موثر کارروائی کی جاسکتی ہے۔ ان دونوں ممالک کی کشیدگی نازک مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ دفاعی ماہرین اب تک تائیوان اور چین تنازع کے کسی ممکنہ جنگ کے پس منظر میں ان دونوں ممالک کا موازنہ یوکرین، روس جنگ سے کرنے لگے ہیں کہ کیا روس جیسی طاقتور فوج اور دُنیا کے جدید ترین میزائل و ہتھیار رکھنے والا ملک کے ہونے کے باوجود وہ یوکرین کے ابھی تک گھٹنے نہیں ٹیک سکا تو کیا چین کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ اگر اس نے تائیوان کے انضمام کے لئے کسی فوجی کارروائی کا آغاز کیا تو اس سے دُنیا کو کتنے بدترین نتائج کا سامنا ہوگا۔
چین کو ظاہری طور پر ہر سطح میں تائیوان پر سمندری، فضائی اور زمینی افواج کی عددی فوقیت حاصل ہے۔ چین کے پاس روایتی و غیرروایتی جنگ کے لئے تمام ہتھیار و فوجی قوت موجود ہے۔ اگر ایک اجمالی جائزہ لیا جائے تو اس وقت چین کے پاس دُنیا کی سب سے بڑی بحریہ ہے جس میں قریباً 360 جنگی جہاز ہیں، خیال رہے کہ چین کا بحری جنگی جہاز امریکا کے مقابلے میں بڑا ہے، امریکا کے پاس اس وقت 300 سے کم جنگی بحری بیڑے ہیں۔ چین کو اس کے ساتھ غیرسرکاری طور پر بھی بحری طاقت حاصل ہے۔ بیجنگ اپنے پاس دُنیا کا جدید ترین تجارتی بیڑہ بھی رکھتا ہے، بحری ملیشیا میں سیکڑوں اضافی جہاز و ماہی گیروں کی کشتیاں بھی منسلک ہیں جنہیں نقل و حرکت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، بالخصوص رسد کی فراہمی کے لئے، پیپلز لبریشن آرمی کے ہزاروں ٹینک، توپ خانے، بکتر بند گاڑیاں، راکٹ لانچر، ایندھن کی ترسیل اور فوجیوں کی منتقلی کے لئے چین کو بھرپور کمک فراہم کرتے ہیں۔ دوسری جانب اسکاٹ لینڈ کی سینٹ اینڈ ریوز یونیورسٹی میں اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے پروفیسر فلپس اور برائن کے مطابق چینی بحری طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے تائیوان سستے اور موثر زمینی جہاز شکن میزائلوں کا ذخیرہ کررہا ہے۔
چین فضائی طاقت میں تائیوان پر برتری رکھتا ہے۔ وہ تائیوان کے خلاف فضائی کاررائیاں کرسکتا ہے۔ خیال رہے کہ تائیوان کا امریکا کے ساتھ اسٹنگر اینٹی ایئرکرافٹ میزائل اور پیٹریاٹ میزائل دفاعی بیٹریاں فراہم کرنے کا معاہدہ ہے اور جینز کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ پچھلے تین سالوں میں ایک پروجیکٹ میں اپنی میزائل پیداواری سہولیات میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کررہا ہے، جو اس موسم گرما میں مکمل ہوجائے گا، تو اس کی میزائل پیداواری صلاحیت تین گن بڑھ جائے گی۔ امریکا کے جرمن مارشل فنڈ میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر بونی گلیزر کے مطابق ”آج چین کی فوج کا جنگی تجربہ نہیں ہے، اور اگر اس نے واقعی تائیوان پر حملہ کیا تو اسے بہت زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔“ تائیوان زمینی فوجی طاقت میں قریباً ڈیڑھ لاکھ فوجی اور ڈھائی ملین ریزرو رکھتا ہے۔ ماہرین زمینی جنگ کو یوکرین سے موازنہ کررہے ہیں کہ ان کے مقابلے میں چینی فوجی اگر تائیوان میں اترتے بھی ہیں تو انہیں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے، ماہرین کے مطابق تائیوان کے اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل 14 ساحلی پوائنٹ ہیں نیز ملین لینڈ اور تائی پے جیسے اسٹرٹیجک شہر کی بندرگاہیں اور ہوائی اڈے چینی ہدف کا نشانہ بن سکتے ہیں تاہم ماہرین کی اکثریت اس خیال پر متفق نظر آتے ہیں کہ چین کا تائیوان پر حملہ کرنے کا امکان نہیں۔

امریکا بھی تائیوان کے دفاع کے طور پر براہ راست جنگ میں ملوث نہیں ہوسکتا، چین اور امریکا میں براہ راست ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے امکانات کم بتائے جاتے ہیں تاہم امریکا کی جانب سے تائیوان کو مسلح کرنے کے لئے ہر قسم کا تعاون جاری رکھنا چین کے اشتعال کو بڑھا رہا ہے۔ سمجھا جاسکتا ہے کہ چین کی اس وقت تمام تر توجہ اپنے معاشی ویژن کو ون بیلٹ ون روڈ کے عالمی معاشی منصوبے کو آگے بڑھانا ہے۔ وہ یقینی طور پر نہیں چاہے گا کہ خطے میں ایک ایسی جنگ میں الجھ جائے جس میں وسائل کا توازن بگڑ جائے تاہم وہ تائیوان کے معاملے پر کسی قسم کا سمجھوتہ بھی نہیں کرنا چاہتا اور خاص کر امریکی مداخلت کے جواب میں چین کا سخت ردعمل سامنے آ چکا ہے۔ امریکی وزیردفاع لائیڈ آسٹن نے شنگریلا ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ہم نے حالیہ دنوں میں چین کی جانب سے تائیوان کے قریب مسلسل اشتعال انگیز اور عدم استحکام پیدا کرنے والی فوجی سرگرمیاں دیکھی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں چینی فوج کے طیارے تائیوان کے قریب ریکارڈ تعداد میں بلکہ ہر روز پرواز کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا، ”ہم اس تناؤ کو ذمہ داری سے سنبھالنے، تنازعات کو روکنے اور امن اور خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔“ اس کے جواب میں ہم منصب چینی وزیردفاع وائی فینگی نے کہا کہ چین امریکا سے ڈرنے والا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کسی کو بھی اپنی علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لئے چینی مسلح افواج کے عزم اور صلاحیت کو کم تر نہیں سمجھنا چاہئے۔ امریکا کو چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنا ہوگی۔ دوطرفہ تعلقات اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتے جب تک امریکا ایسا نہیں کرتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات نازک موڑ پر ہیں۔ تصادم سے نہ تو دونوں ملکوں میں سے کسی کو اور نہ ہی دُنیا کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے مزید متنبہ کرتے ہوئے کہا جو لوگ چین کو تقسیم کرنے کی کوشش میں تائیوان کی آزادی کا ساتھ دے رہے ہیں، ان کا انجام یقینا اچھا نہیں ہوگا۔ تزویراتی ابہام کی پالیسی کے باوجود امریکا نے کئی دہائیوں سے تائیوان کی حمایت اور چین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو نازک موڑ تک لے جانے میں توازن کا مظاہرہ کیا ہے لیکن امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکا کی ماضی میں اختیار کی گئی پالیسی کو رد کرتے ہوئے کئی بار کہا کہ اگر چین نے حملہ کیا تو امریکا تائیوان کا دفاع کرے گا۔ بعدازاں وائٹ ہاؤس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر نے ماضی کی پالیسی رد نہیں کی ہے تاہم صدر کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کس طرح جواب دیا جائے۔ بعض کانگریس اراکین نے بائیڈن کے بیانات کا خیرمقدم کیا تھا کہ چین کے خلاف واضح پالیسی کی ضرورت ہے تاہم دیگر ماہرین نے ان سے اختلاف کیا۔ چین اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں بالخصوص اس لئے اضافہ ہوا ہے کہ چین نے تائیوان کے ایئر ڈیفنس آئیڈینٹیٹی فیکیشن زون میں اپنے فوجی طیاروں کی سرگرمیاں کافی بڑھا دی ہیں۔ صدر بائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو جاری رکھا ہے۔ وہ پہلے امریکی صدر بھی ہیں جنہوں نے تائیوان کے نمائندوں کو صدارتی حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ انڈوپیسفک میں اعلیٰ امریکی فوجی کمانڈر نے 2021ء میں خبردار کیا تھا کہ چین اگلی دہائی میں تائیوان پر حملہ کرسکتا ہے جس کی وجہ سے خطے میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ خیال رہے کہ صدر شی اور ان کے پیش رو بھی اس صدی کے دوران چین کے تسلط سے نکلنے والے اہم علاقوں کو 2049ء میں عوامی جمہوریہ چین کی 100 ویں سالگرہ تک واپس اپنے دائرۂ اختیار میں لانے کا منصوبہ رکھتے ہیں گو کہ تائیوان کے پاس بیرونی حملے کو غیرملکی مداخلت کے بغیر زیادہ دیر تک روکنے کی صلاحیت نہیں ہے، تاہم 2022ء میں تائیوان نے دفاع پر اگلے پانچ برسوں میں 8 اعشاریہ 6 بلین ڈالر اضافی اخراجات کی منظوری دی ہوئی ہے۔ اس توسیع شدہ بجٹ میں کروز میزائلوں کی خریداری، بحری بارودی سرنگیں اور جدید نگرانی کے نظام کا حصول شامل ہے۔ تائیوان کی معیشت چین کے ساتھ تجارت پر انحصار کرتی ہے، جو جزیرے کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے تاہم حالیہ برسوں میں ان کے اقتصادی تعلقات میں خلل پڑا ہے، جس کی ایک وجہ جزیرے پر بیجنگ کا دباؤ اور تائیوان کے حکام کا چین کے ساتھ تجارت پر حد سے زیادہ انحصار کم کرنے کی پالیسی بھی ہے۔ 1949ء میں خانہ جنگی کے بعد تائیوان اور چین الگ ہوگئے تھے تاہم چین تائیوان کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو طاقت کے زور پر بھی اسے ملک میں ضم کیا جاسکتا ہے۔ گو کہ امریکا بھی ون چائنا پالیسی کا پابند ہے اور بیجنگ کو باضابطہ تسلیم کرتا ہے لیکن اس نے تائی پے کے ساتھ بھی غیررسمی اور دفاعی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ ملک کی معیشت کو بہترین رکھنا ہے تو اپنے دفاع کو بھی بہترین بنانا ہوگا، اس مفروضے کے تحت جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ دُنیا بھر میں جاری کشیدگیوں اور تنازعات کی وجہ سے عالمی دفاعی بجٹ میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ صرف 2021ء میں کل عالمی فوجی اخراجات 0.7 فیصد بڑھ کر 2113 بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کی طرف سے 25 اپریل 2022ء کو شائع ہونے والے عالمی فوجی اخراجات کے نئے اعدادوشمار کے مطابق 2021ء میں سب سے زیادہ خرچ کرنے ولے پانچ ممالک امریکا، چین، بھارت، برطانیہ اور روس تھے، جو کل دفاعی اخراجات کا 62 فیصد خرچ کرتے ہیں۔ دُنیا کو اس وقت بدترین غذائی اور معاشی بحران کا سامنا ہے، متعدد ممالک میں قحط اور خوراک کی کمی جیسے بحرانوں سے انسانی زندگی کو خطرات لاحق ہیں تو دوسری جانب ہزاروں بلین ڈالر دفاع کے نام پر خرچ کئے جارہے ہیں۔ یہ اس لئے ہورہا ہے کیونکہ خطوں میں بالادستی کی جنگ اور مفادات نے تنازعات کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ انہیں اس کے لئے بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ عراق، مشرق وسطیٰ، افغانستان، یمن، ایران سمیت کئی ممالک میں جنگوں سے اور اس کے بعد عوام کو جن تکالیف کا سامنا ہے یہ عالمی برادری پر سوالیہ نشان بھی ہے کہ انسانی وسائل سے حاصل کردہ اثاثوں کو اپنی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے مہلک جنگی سامان خریدنے اور اسے انسانوں پر آزمانا، کیا معیشت کی ترقی کے لئے ناگزیر ہے؟ آج جس ملک کو بھی دیکھیں وہاں ایسے گھمبیر مسائل ہیں جن سے نمٹ لیا جائے تو ان کے آدھے مسائل ویسے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب عالمی قوتیں اپنی اجارہ داری کے لئے چھوٹے ممالک کو تختہ مشق بنانے سے گریز کریں۔ تائیوان اور چین بدترین کشیدگی سے بچ سکتے ہیں۔ اگر ایسی قوتیں اپنی مداخلت ترک کردیں جو خطے میں کسی سنگین تنازع کا باعث بن سکتی ہیں۔

مطلقہ خبریں