Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چین کے بارے میں تباہ کن امریکی پالیسی

تیس سال بعد امریکی پالیسی ساز الائنس، قوانین اور اداروں کے ادغام سے سردجنگ جیسا بنیادی ڈھانچہ
تیار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ ”چین کے گرد تزویراتی دائرہ“ قائم کیا جاسکے
سینیٹر مشاہد حسین سید

امریکی تاریخ کی طویل ترین تباہ کن جنگ، جو افغانستان سے شرمناک فوجی انخلا پر تمام ہوئی، کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں بائیڈن انتظامیہ چین کی طرف سے اٹھنے والے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیزی سے نئی خارجہ پالیسی ترتیب دے رہی ہے، ایک نئی سرد جنگ کے آثار ہویدا ہیں، لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ امریکا چین کو محدود کرنے کے لئے ایک پرانا حربہ اور دقیانوسی طریق کار اختیار کر رہا ہے، جو سوویت دور کی سرد جنگ تھی۔ چونکہ اشتراکیت مخالف نظریات اب بھی پذیرائی رکھتے ہیں، یہی پرانا حربہ استعمال کرتے ہوئے چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کو ایک جابرانہ سفاک جماعت کے طور پر اس طرح پیش کیا جارہا ہے جو سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے بارے میں کئے گئے پروپیگنڈے کی یاد دلاتا ہے۔ اس جماعت کی قیادت میں سوویت یونین تحلیل ہوگیا تھا۔ ایک مرتبہ جب دشمن ”تخلیق“ کرلیا جاتا ہے تو پھر اس ”خطرے“ سے نمٹنے کے لئے جوابی اقدامات کرنا قدرتی بات ہے۔ اس کے لئے سب سے اہم قدم ہم خیال اتحادیوں کا الائنس قائم کرنا ہے، جیسا کہ سرد جنگ میں کیا گیا تھا۔ اسی طرح نظریاتی محاذ پر تصادم کو ”جمہوریت بمقابلہ آمریت“ کے تصور کے طور پر پذیرائی ملتی ہے کیونکہ یہ ”اچھائی“ اور ”بُرائی“ کی اخلاقی کشمکش دکھائی دیتی ہے، تاہم امریکی پالیسی ساز یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ چین کوئی سوویت یونین نہیں۔ سوویت یونین اور چین کے درمیان واحد قدر مشترک ان کی حکمراں جماعتوں پر لگا ہوا لیبل ہے۔ درحقیقت چینی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کی تعداد 9 کروڑ ہے اور یہ وسیع ریاستی مشینری کے ذریعے حکومت کرتی ہے، اگرچہ رسمی طور پر یہ مارکسی شناخت رکھتی ہے لیکن اس کی فعالیت آزاد مارکیٹ پر مبنی ایشیا کی جاندار اور اختراع پذیر معیشت کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ اس کے تصورات کی روح رواں ڈینگ شیاؤ پنگ کا مشہور مقولہ ہے:
”دولت مند ہونے میں ہی عظمت ہے“
ماضی میں ”سب کے لئے ایک ہی نسخہ“ سرد جنگ کا طرزِعمل ایشیا کے حوالے سے امریکا کو بہت مہنگا پڑا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس کے پاس اس ذیل میں تخیلات کا فقدان ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ایشیا میں آزادی کے مجاہدوں، بشمول ماؤزے تنگ اور ہوشی من نے نوآبادیاتی دور کے بعد امریکا سے جوش و جذبے کی تحریک چلی تھی۔ جنوری 1945ء میں ماؤ اور ذو این لائی نے واشنگٹن آکر صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہ صدر روزویلٹ کو سراہتے تھے۔ ہوشی من بھی جیفرسن کے تصورات سے اتنے متاثر تھے کہ انہوں نے امریکی آزادی کے اعلامیے کے کچھ اقتباسات کو ویت نام کی آزادی کے اعلامیے میں شامل کیا تھا۔ ویت نام نے یہ آزادی فرانسیسی نوآبادیاتی نظام سے حاصل کی تھی لیکن نظریاتی سیاست کے داؤ پیچ کی ایک اپنی دنیا ہوتی ہے۔ یہاں دونوں کا ہاتھ ”دشمن“ کہہ کر جھٹک دیا گیا۔
شی جن پنگ کے دور میں نظریات سے زیادہ چینی کمیونسٹ پارٹی کا سیاسی جوہری عنصر دو تاریخی صدمات سے کشید کیا گیا ہے۔ ان کی جھلک شی جن پنگ کی تقاریر اور اُن کے مضامین ”چین کی گورننس“ میں ملتی ہے۔ پہلا جوہری عنصر ”توہین آمیز صدی“ کا تصور ہے۔ اس سے مراد 1840ء سے لے کر 1949ء تک کا دور ہے جب کمزور چین پر غیرملکی تسلط تھا اور چین کی خودمختاری کا عملی طور پر کوئی وجود نہ تھا۔ شنگھائی کی سیر کرنے والوں کو اکثر مختلف عجائب گھروں میں لے جایا جاتا ہے، جہاں 1930ء کی دہائی کے شنگھائی کی یادیں محفوظ ہیں۔ اس وقت یہ غیرملکی تسلط کی لکیروں سے منقسم تھا، جیسا کہ فرانسیسی علاقہ، امریکی علاقہ، برطانوی علاقہ اور جرمن علاقہ۔ اُن کے اپنے ملک پر قابض قوتوں کے اپنے اپنے قوانین نافذ تھے۔ ان کے کلبوں پر یہ توہین آمیز جملہ رقم ہوتا تھا: ”کتوں اور چینیوں کا داخلہ منع ہے۔“ اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے سرحدوں کی حفاظت اور چین کی خودمختاری اور اتحاد پر چینی قیادت کے شدید نظریات قابل فہم ہیں۔ شی جن پنگ کے سیاسی تصور کا دوسرا حصہ ”سوویت ماڈل ہے“ کہ کس طرح بدعنوان اور مفاد پرست سیاست دانوں کی قیادت میں زوال پذیر کمیونسٹ پارٹی سوویت یونین کی تباہی کاباعث بنی۔ اس لئے سوویت انہدام کا خوف چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو مخائل گورباچوف کی ”منفی مثال سے سبق سکھاتا ہے“ کہ کیا کچھ نہیں کرنا ہے۔ اس لئے چینی کمیونسٹ پارٹی اس عزم پر کاربند ہے کہ ناکام مثال کی کبھی پیروی نہیں کرنی۔ ناکام ماڈل اپنا کر ملک کو گھن زدہ نہیں کرنا۔ یہ دو عناصر چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی سوچ کا تعین کرتے ہیں۔ اس لئے چینی گورننس اور بیرونی ممالک سے ڈیل کرتے ہوئے وہ چینی مفاد کا ہرممکن طریقے سے تحفظ کرنے اور اسے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بنیادی مفادات کیا ہیں جو چینی قیادت کے نزدیک ان کے استحکام اور خوشحالی کی بنیاد ہیں؟ اتحاد، علاقائی سا لمیت اور چین کی خودمختاری کا مطلب اس کی سرحدوں کے تقدس کا تحفظ ہے۔ اس میں کچھ سرخ لکیریں بھی ہیں، جیسا کہ تائیوان، تبت، سنکیانگ ، ہانگ کانگ اور جنوبی چینی سمندر۔ انڈیا اور بھوٹان کے سوا اپنے 14 ہمسایہ ممالک کے ساتھ چین نے سرحدی معاہدوں پر دستخط کررکھے ہیں۔ اس کے بعد چین کی ”پُرامن اٹھان“ کو ایک فطری ارتقا کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ عالمی اسٹیج پر اس کا مقام اس کا تاریخی حق قرار دیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اس کا حوالہ صدر شی جن پنگ نے اکتوبر 2017ء کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے انیسویں اجلاس میں عوامی طور پر دیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”دنیا صدی کی اہم ترین تبدیلی کی گواہ بن رہی ہے۔“ صدر شی جن پنگ کے مطابق ”چین دنیا کی عظیم طاقت بن کر انسانی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے… وقت آگیا ہے جب ہم دنیا کے مرکزی اسٹیج پر موجود ہوں۔“ چین کے مرکزی مفادات میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی بالادستی شامل ہے کیونکہ اس پر ملک کے اتحاد، استحکام اور خوشحالی کا انحصار ہے۔ شی جن پنگ اور ان کے قریبی رفقا کو یقین ہے کہ گورباچوف جیسی کھلی پالیسی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ اس کے نتیجے میں چین بھی سوویت انجام سے دوچار ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتا ہے۔ دیوارچین تعمیر کرنے اور ملک کو بیرونی جارح قوتوں سے بچانے والی مڈل کنگڈم کے وارث ہونے کے ناتے چینی کمیونسٹ پارٹی بخوبی جانتی ہے کہ موجودہ فالٹ لائنز کو ابھارنا چین کے لئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جس دوران امریکیوں کی یادداشت بہت مختصر مدت کے لئے کام دیتی ہے اور وہ اپنے خارجہ تعلقات تبدیل کرتے رہتے ہیں، چینی تاریخ کو گہری نظر سے دیکھتے اور اسے اپنی سوچ کا حصہ بنائے رکھتے ہیں۔ چند سال پہلے سوچ سمجھ رکھنے والے ایک چوٹی کے چینی پالیسی ساز سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ”چین کے خلاف امریکی عزائم“ پر بات کرتے ہوئے بہت شائستگی سے لسلائی جلب کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جو 13 نومبر 1991ء کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا تھا اور یہ وہ دور تھا جب سوویت یونین منہدم ہورہی تھی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس مضمون کا عنوان تھا، ”چین کے حصے بخرے کرنا۔“ لسلائی جلب نے بہت قطعی لہجے میں کہا کہ ”اگر بیجنگ کے لیڈر دنیا کے معمول کے رویے کو مسترد کرتے رہے تو امریکا کو انتہائی پابندیاں لگانا ہوں گی جو مڈل کنگڈم کی جغرافیائی سا لمیت کو تحلیل کردیں گی۔“ جلب نے نیویارک ٹائمز میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر چینی سرگرمیاں ناقابل قبول ہوتی دکھائی دیں تو امریکا اور دیگر ممالک اسے روکنے کے لئے انتہائی اقدامات اٹھا سکتے ہیں، جن میں علیحدگی کی تحریکیں شروع کرنا بھی شامل ہے۔ بیجنگ کے لیڈر کچھ اور سوچنے کی مہلک غلطی نہ کریں، اس لئے یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ سنکیانگ، تبت یا ہانگ کانگ میں پھوٹنے والی شورش یا تائیوان کے بارے میں بیان بازی کو چین ”علیحدگی پسندی کی ریاستی پالیسی“ کے طور پر دیکھتا ہے۔
تیس سال بعد امریکی پالیسی ساز الائنس، قوانین اور اداروں کے ادغام سے سردجنگ جیسا بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ ”چین کے گرد تزویراتی دائرہ“ قائم کیا جاسکے، جیسا کہ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ ماہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں اپنی چین پالیسی تقریر میں کہا تھا۔ یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ صدر رچرڈ نکسن کے چین کے تاریخی دورے کے اس پچاسویں سال چین میں امریکی سفیر، نکولس برنز کہتے ہیں کہ ”امریکا اور چین کے تعلقات 50 سال میں کم ترین سطح پر ہیں۔“ یوکرین جنگ کسی بھی یورپی ملک پر گزشتہ ربع صدی میں ہونے والا پہلا حملہ ہے، لیکن سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے واضح طور پر کہا ہے کہ سی آئی اے کی ”اولین ترجیح ابھرتا ہوا چین ہے۔“ امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت پر مشتمل کواڈ کو دوبارہ فعال کردیا گیا ہے۔ ایک نئی اینگلوسیکسن گروہ بندی، اوکس بھی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں امریکا، برطانی اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ چین کو تزویراتی طور پر محدود کرنے کے لئے امریکی کانگریس نے سالانہ 300 ملین ڈالر سے ”چینی اثر کا تدارک“ کرنے والا فنڈ قائم کردیا ہے۔ اگرچہ چین بحر اوقیانوس سے 3500 میل دور ہے، نیٹو اپنی رسائی اب ایشیائی بحرالکاہل تک بڑھائے گا۔ میڈرڈ میں نیٹو کے حالیہ سربراہی اجلاس میں امریکا کے چار ایشیائی اتحادیوں کے رہنماؤں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا: آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور جنوبی کوریا۔ بائیڈن انتظامیہ نے یورپی یونین کے ساتھ مل کر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کی نقل کرتے ہوئے ایک پروگرام بھی شروع کیا ہے جس کے اہداف بھی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے جیسے ہیں، تاہم امریکا کی خارجہ پالیسی کا بنیادی زور عسکری اور سکیورٹی جہت ہے، جہاں چین کی طاقت کو فوجی اصطلاح میں ایک ملٹری چیلنج کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ صدر باراک اوباما کی ”ایشیا پر ارتکاز“ کی پالیسی کے گیارہ سال بعد بائیڈن نے نافذ کیا ہے۔ اب ایشیائی بحرالکاہل کو انڈین بحرالکاہل کہا جارہا ہے اور اس کے پیچھے یہ اعلان کارفرما ہے کہ بحرہند اور بحرالکاہل اب ”امریکی جھیلیں“ ہوں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ کھلے سمندروں پر اپنا اثر قائم کرنے کی کوششوں میں تیزی دکھائی دے گی۔ جس دوران ایسا لگتا ہے کہ امریکا پر چین کی اٹھان کی حقیقت یک لخت آشکار ہوئی ہے اور وہ اس کا راستہ روکنے پر کمربستہ ہے، پانچ بنیادی نکات نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکا ایک لاحاصل کوشش کرنے جارہا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے اہداف میں ناکام رہے گا بلکہ چین کو روکنے کی کوشش میں اس کے اپنے مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا۔ پہلا، امریکی اور چینی معیشتوں کے بندوبست کے درمیان موازنہ سامنے آئے گا۔ سرمایہ کاری اور کھلی تجارت جیسی معاشی پالیسیاں اپناتے ہوئے چین نے دنیا کا دل جیت لیا ہے۔ نیز چین نہ کسی کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے اور نہ ہی سوالات پوچھتا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور اس کے مالیاتی بازو، ایشین انفرااسٹرکچر بینک نے اپنے کچھ معیار طے کئے ہیں۔ امریکا کو جس وقت ہوش آیا تو وہ یہ حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ چین نے تجارت، سرمایہ کاری اور علاقائی روابط کا وسیع وعریض انفرااسٹرکچر قائم کرلیا ہے۔ اس کے ذریعے توانائی، معیشت، بندرگاہیں، پائپ لائنز، سڑکیں اور ریلوے لائنز تعمیر ہورہی ہیں۔ سولومن جزائر سے لے کر سعودی عرب تک اور پانامہ سے لے کر پاکستان، اسرائیل اور انڈونیشیا تک تمام خواہش مند پارٹنر ان میں شریک ہوسکتے ہیں۔ دنیا کے 193 ممالک میں سے 130 کی چین کے ساتھ تجارت اُن کی امریکا کے ساتھ تجارت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ چین کے ساتھ امریکی اقتصادی بندوبست کا موازنہ کریں تو امریکی اعلانات کے درمیان ایک وسیع فرق ہے۔ امریکی اعلانات پر عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری طرف چین اپنی عملی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصادی منظرنامے کی ایک سست لیکن یقینی تبدیلی کو اپنے فائدے کے لئے آگے بڑھا رہا ہے جو نتیجہ خیز ثابت ہورہی ہے۔ امریکی اقتصادی سفارت کاری کے ماضی کا ریکارڈ بھی سبق آموز ہے۔ 2006ء میں بش انتظامیہ کے دوران امریکا نے بہت دھوم دھام سے، تعمیرنو کے زونز کے آغاز کا اعلان کیا۔ ان کا مقصد پاک افغان سرحد پر رہنے والے لوگوں کے لئے اقتصادی مواقع پیدا کرنا تھا۔ کہا گیا کہ یہ اقتصادی زون جنگ کی جگہ امن اور خوش حالی لائیں گے، بے روزگار جہادیوں کو معاشی مراعات پیش کریں گے، سامان تیار کر کے اور خصوصی امریکی فنڈ سے چلنے والے صنعتی زونز میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور علاقے کو دہشت گردی کے مرکز سے امن، ترقی اور خوشحالی کے اقتصادی زون میں تبدیل کریں گے۔ ان ا علانات کو امریکی کانگریس کی حمایت نہ مل پائی اور یہ منصوبہ دم توڑ گیا۔ اوباما انتظامیہ کے دوران سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن نے جولائی 2011ء میں چنائی، انڈیا سے نیو سلک روڈ کے آغاز کا اعلان کیا۔ اس پر چینی خوش نہیں تھے۔ ہیلری کے اعلان کے کئی ماہ بعد وہ جنوری 2012ء میں پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے بیان دیا، ”صرف ایک شاہراہ ریشم ہے، جو 2000 سال پہلے چین سے شروع ہوئی تھی اور ہمارے سامنے کسی نئی شاہراہ ریشم کا کوئی تصور نہیں۔ اس کا تو ہرگز نہیں جو امریکی سرپرستی میں انڈیا سے شروع ہوئی ہے۔“ اس نئی شاہراہ ریشم کا یہ تصور کبھی عملی جامہ نہ پہن سکا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکا نے بلڈ ایکٹ شروع کیا جس کا مقصد سرمایہ کاری کا بہتر استعمال تھا جس کے نتیجے میں ترقی کے مواقع پیدا ہوں۔ اس کے علاوہ ایک نئی تنظیم ڈیویلپمنٹ فنانس کارپوریشن (ڈی ایف سی) بھی قائم کی گئی۔ ان منصوبوں کا مقصد محض شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا توڑ کرنا تھا۔ ڈی ایف سی کے پاس ساٹھ بلین ڈالر کے فنڈز تھے لیکن ان منصوبوں سے بھی کچھ برآمد نہ ہوا۔ بائیڈن انتظامیہ میں امریکا نے جون 2021ء میں برطانیہ میں ہونے والے جی-7 کے اجلاس میں ”بلڈ بیک بیٹر ورلڈ“ (بی3ڈبلیو) متعارف کرایا۔ ایک سال بعد اس بی3ڈبلیو کا عملی طورپر کہیں وجود تک نہیں تھا۔ اب اسی منصوبے کا نام تبدیل کرکے ”پارٹنر شپ فار گروتھ انفراسٹرکچر“ رکھ دیا ہے۔ ایک سال بعد نام کی تبدیلی ہی واحد پیش رفت ہے۔ بہرکیف امریکی پالیسیوں نے چین اور روس کو ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے۔ اس کے برعکس سرد جنگ میں چین امریکا کا اتحادی تھا۔ بیسویں صدی کی سرد جنگ میں سوویت یونین پر امریکی فتح کا ایک اہم عنصر چین کی ٹھوس حمایت تھی۔ پچاس سال قبل صدر نکسن کے چین کے لئے تاریخی افتتاح کے بعد، چین زیادہ تر عالمی مسائل پر امریکی اتحادی بنا رہا، چاہے امریکا سوویت یونین کا سامنا کر رہا تھا، چاہے وہ افغانستان ہو یا سوویت حمایت یافتہ ویتنامی حملہ اور کمبوڈیا پر قبضہ یا افریقہ میں سوویت توسیع پسندی کا مقابلہ۔ اس سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے امریکی پالیسی سازوں کو ایک ایسے حریف کے خلاف نئی سرد جنگ میں جانے سے پہلے دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے جسے وہ پوری طرح سے نہیں سمجھتے۔ خاص طور پر موجودہ پیچیدہ ماحول میں جہاں امریکا اب واحد عالمی طاقت ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔

دوسرا عنصر موجودہ عالمی ماحول میں امریکا کی کشش اور درحقیقت، اس کی طاقت ”نرم طاقت“ کا میدان ہے جہاں اسے بے مثال سبقت حاصل ہے۔ امریکا کی کشش، امریکی زندگی کی چمک دمک اور اس کی فطری حرکیات اور تخلیقی صلاحیت، ایک مقناطیس کا کام کرتی ہے جو دنیا کے بہترین اور ذہین ترین لوگوں کو امریکا میں تعلیم حاصل کرنے، قیام کرنے اور آباد ہونے پر آمادہ کرتی ہے۔ اسے مواقع کی سرزمین کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں میرٹ کی اہمیت ہے۔ یہ اب بھی عالمی سطح پر امریکا کا سب سے مضبوط سیلنگ پوائنٹ ہے۔ اس کی طاقت خوفزدہ کرکے اور ڈرا دھمکا کر فوجی اتحاد بنانے میں نہیں، کیونکہ وہ ایشیا کے میدان جنگ میں مسلسل ہارتا رہا ہے۔ چین پر قابو پانے کی کوشش کا آغاز کرنا، جب چین بنیادی امریکی مفادات کے لئے براہ راست خطرہ نہیں، ایک آزمودہ اور ناکام فارمولا ہوگا۔ اس کا نتیجہ وہی ہوگا جس طرح 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساڑھے چھ ٹریلین ڈالر جھونک دیئے گئے لیکن کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔
تیسرا، شی جن پنگ اور جوبائیڈن، دونوں کو اپنے اپنے ممالک میں اہم تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ صدر شی چینی کمیونسٹ پارٹی کے انتہائی اہم اجلاس کی صدارت کرنے جارہے ہیں۔ یہ اجلاس 1978ء کے بعد سب سے اہم قرار دیا جارہا ہے جب ڈینگ شیاؤ پنگ نے انتہائی اہم اصلاحات نافذ کرتے ہوئے ماؤ کے نظریات سے رجوع کرکے مارکیٹ اکانومی، یعنی آزاد تجارت، کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ اس تبدیلی کو سیاسی طور پر ”چینی خدوخال کے ساتھ سوشلزم“ قرار دیا گیا تھا۔ جو بائیڈن کے لئے نومبر میں ہونے والے وسط مدت کے انتخابات فیصلہ کن موقع ہوں گے۔ ان کے نتائج اس بات کا تعین کردیں گے کہ کیا 2024ء کے بعد بائیڈن کا سیاسی مستقبل باقی ہے یا نہیں۔ اس وقت بائیڈن کو شی جن پنگ کی ضرورت ہے تاکہ امریکی معیشت کو سہارا مل سکے۔ دوسری طرف شی بھی جانتے ہیں کہ ”سر پر تباہی منڈلا رہی ہے“جو چین کو عدم استحکام سے دوچار کرتے ہوئے کوویڈ کے تین سال کے لاک ڈاؤن اور کرانٹائن سے نکلنے کی کوشش کو زک پہنچا سکتی ہے۔ اس لئے دونوں رہنماؤں کو اپنے اپنے ممالک میں سیاسی استحکام، معاشی نمو اور تناؤ زدہ دنیا میں تناؤ کم کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے ملتی جلتی کسی شراکت داری کی ضرورت ہے۔ محاذ آرائی، گھیراؤ یا ایک نئی سرد جنگ کا خبط ان مشترکہ اہداف کی منزل کھوٹی کردیں گے اور ان کا حصول دشوار تر ہوتا جائے گا۔ چوتھا، ہاورڈ کے اہم مطالعے ”عظیم ہائی ٹیک رقابت“ میں پروفیسر گراہم الیسن کہتے ہیں، ”چین اور امریکا کے درمیان ہائی ٹیک دنیا میں رقابت سے پتا چلتا ہے کہ چین پہلے ہی ہائی ٹیک مصنوعات میں امریکا پر سبقت حاصل کرتا جارہا ہے۔
پچیس برسوں میں پہلی بار، چین، بھارت اور پاکستان نے عالمی مسئلے پر ایک جیسا موقف اختیار کیا۔ انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت بہت سے دوسرے ممالک کی طرح یوکرین پر ووٹنگ سے گریز کا انتخاب کیا۔ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے امریکی اتحادی بھی یوکرین مسئلے پر ایک طرف ہوگئے۔ اس منظرنامے کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ چین کا مقابلہ کرنے اور اس پر قابو پانے میں جلدی کرنے کی بجائے ماضی کے تجربے اور عصری جغرافیائی سیاسی حقائق سے حاصل کردہ دانائی چین کے بارے میں امریکی سوچ پر نظرثانی کا مطالبہ کرتی ہے۔ ”کھیل کے اصولوں“ کے بارے میں کچھ وسیع تفہیم بھی درکار ہے، دونوں عالمی طاقتیں ایک دوسرے کی رقابت اور مقابلہ اس طرح کریں کہ نظام درہم برہم نہ ہونے پائے، اور نہ ہی ان کی خطرناک محاذ آرائی کی نوبت آئے۔ اس وقت نہ تو یہ دونوں ممالک اور نہ ہی دنیا معاشی، سیاسی یا عسکری طور پر اس محاذ آرائی کی متحمل ہوسکتی ہے۔

مطلقہ خبریں