Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بقاء اور بالادستی کیلئے جنگ میں توازن نہیں۔۔

نینسی پلوسی کا دورۂ تائیوان اتنا اشتعال انگیز تھا اسکو ساری دُنیا کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کے مترادف کہا جاسکتا ہے اور ایسا لگتا تھا کہ امریکا میں مڈٹرم انتخابات کو جیتنے کے لئے یہ خطرہ مول لیا گیا۔جو کہ غلط توجیح دی جارہی ہے اسکی اصل وجہ ہم اپنے کسی اور کالم تفصیل سے بیان کریں گے نینسی پلوسی چین پر نکتہ چینی کرتی رہی ہیں مگر اس دفعہ وہ حد سے بڑھ گئی ہیں اور خود تائیوان کے دورے پر نکل پڑیں۔ ان کا یہ عمل امریکا اور اُس کے اتحادیوں پر واضح کرنا تھا کہ سیاسی و خارجی معاملات کو مطلق النان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نینسی پلوسی ڈیموکریٹ ہیں اور امریکی صدر جوبائیڈن بھی ڈیموکریٹ ہیں۔
جلتی پر تیل کا کام امریکی صدر جوبائیڈن نے یہ کہ کرکیا کہ وہ تائیوان کا دفاع ہر حال میں کریں گے جب چین نے اس کو ضرورت سے زیادہ سنجیدہ لیا اور سخت رویہ استعمال کرنے کے لئے تیار ہوگیا تو امریکی وزارت ِخارجہ اور وزیر دفاع پیچھے ہٹے اور انہوں نے کہا کہ وہ ایک چین کو مانتے ہیں اور تائیوان کو ایک الگ ملک تسلیم نہیں کرنے کا بیان دیا تو معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا۔ اس طرح انہوں نے ایک ابہام پیدا کیا، تاہم چین نے اِس سے پہلے یہ واضح کردیا تھا کہ وہ نینسی پلوسی کے جہاز کو تائے پے میں اترنے نہیں دیں گے اور اس کے لئے اس نے اپنے جیٹ طیاروں کو فضا میں اُڑائے رکھا اور ٹینکوں کی بڑی تعداد متحرک کردی تھی۔ یہاں پر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ امریکا کی سوچی سمجھی اسکیم تھی۔ وہ چین کے عزم کا امتحان لینا چاہتے تھے، وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ جنگ کی صورت میں چین کا کیا ردعمل ہوسکتا ہے، چین نے جب جارح انداز اختیار کیا تو امریکیوں نے ابہام کی پالیسی کو اُسی طرح اپنایا جس طرح روس کے معاملے میں اٹھایا تھا کہ یوکرائن میں روس کو ہارے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس میں وہ فیل ہوتے نظر آتے ہیں۔
یوکرائن کے معاملے میں دیکھنا چاہتے ہیں اور شاید سمجھتے ہیں کہ روس یوکرائن میں ایک حد سے آگے نہیں جاسکتا ہے۔ اگر وہ آگے چلا گیا تو پھر وہ کیا ہوگا کیا وہ ایٹمی جنگ کی طرف بڑھے گا۔ روس یوکرائن کے معاملے میں تحمل سے کام لے رہا ہے کیونکہ اس کا اور یوکرائن کے ساتھ بڑا قریبی رشتہ رہا ہے، روسیوں کے مذہبی مقامات یوکرائن میں ہیں، اس لئے وہ عام یوکرینیوں کو مارنے سے گریز کررہا ہے، البتہ وہ اپنی گیس اور تیل کی سپلائی جو امریکا نے پابندیاں لگا کر یورپ کو روسی تیل سے محروم کررکھا ہے اس کو وہ طول دینا چاہتا ہے تاکہ یورپی ممالک اور امریکی اتحادکا خاتمہ ہوجائے۔ اس پر آوازیں اٹھنا شروع ہوچکی ہیں، روس کو اس جنگ کی وجہ سے تیل کی آمدنی میں بھی 30 فیصد سے زائد منافع ہوا ہے تاہم امریکا، برطانیہ، پولینڈ اور دیگر ممالک یوکرائن کی بلین ڈالرز کی امداد دے رہے ہیں، تاکہ وہ روسیوں کو الجھائے رکھے اور روسی انتہائی اطمینان کے ساتھ اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں امریکا پر واضح کردیا ہے کہ اگر امریکا نے جنگ پر نیٹو کے ذریعے ڈائریکٹ مداخلت کی تو وہ ایٹمی جنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے، اس لئے نیٹو ممالک توجہ دے رہے ہیں مگر ایٹمی جنگ کا خطرہ مول نہیں ہے رہے ہیں۔1945ء سے ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے روس اور امریکا نے کسی بڑی جنگ سے گریز کیا ہے۔ پہلا واقعہ 1962ء میں کیوبا میں ہوا، جب روس نے پسپائی اختیار کی۔ دوسرا واقعہ 1983ء میں جب ایک غلطی سے میزائل کا الارم بج گیا۔ مگر اس وجہ سے ہوا کہ اس وقت روس اور امریکا کے درمیان رابطہ کی ہاٹ لائن موجود تھی جو اب موجود نہیں ہے، اب امریکا کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ روس اور چین کی بقا کا معاملہ ہے جبکہ امریکا کی بالادستی کا معاملہ ہے یعنی وہ دُنیا پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں روس اور چین اپنی بقا پر تو سمجھوتہ نہیں کریں گے اور امریکا کو دُنیا پر اپنی بالادستی کی روش اور اس کے لئے ایٹمی جنگ کے خطرے کو مول لینے سے گریز کرنا چاہئے، اس لئے بقا کی جنگ اور بالادستی کی جنگ میں کوئی مقابلہ نہیں ہے، اس معاملہ میں تو ترکی اور ایران دونوں مملک بظہر روس اور چین کے ساتھ ہے کہ وہ اپنی بقا کی جنگ میں ایٹم بم کے استعمال میں پہل کرسکتے ہیں اور امریکا دیکھتا رہ جائے گا اور دُنیا یکسر تباہ ہوجائے گی۔ اگر یہ بات امریکا کے سمجھ میں آجائے تو دُنیا میں اس وقت جنگ کا بگل بج رہا ہے یا امریکا نے مصنوعی طور پر یہ بگل بجایا ہوا ہے۔ وہ البتہ دھیما پڑ جائے اور شاید پھر بند بھی ہوجائے مگر امریکا نہ مانا تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ روس اور چین اپنی بقا کے لئے کسی بھی حد تک چلے جائیں گے چاہے وہ ایٹمی جنگ ہی کیوں نہ ہو۔
اس بات کو امریکی ضرور جانتے ہوں گے مگر وہ اس کے مقابلے میں اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ روس اور چین کو معاشی طور پر اتنا کمزور کردیا جائے کہ وہ جنگ کے قابل ہی نہ رہیں۔ یعنی اس وقت روسی معیشت کو چین نے اس کا تیل خرید کر سہارا دیا ہوا ہے، اگر امریکا اس سہارے کو توڑ دے تو روس کو بھی شکست دے سکتا ہے اور چین کو بھی۔ اسی لئے امریکا آہستہ آہستہ تائیوان کے معاملے کو اچھالا ہے اور گرم کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکی معیشت چین پر کتنا انحصار کرتی ہے، اس کے اثرات امریکا پر بھی پڑیں گے، اس لئے امریکا انتہائی احتیاط سے کام لے رہا ہے۔ اس نے پاکستان میں حکومت تبدیل کرا کر چین اور روس کے بلاک میں خلیج حائل کردی ہے، پاکستانی سیاستداں اس قابل نہیں کہ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر اپنی معیشت کو سنوار لیں، تاہم یہ کھیل کافی نازک اور گھمبیر ہے اور خوفناک اور خطرناک بھی، جس سے ساری دُنیا متاثر ہونے جارہی ہے۔ جب معاملات سیاست سے نکل کر فوج کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں تو توپوں کی گھن گرج اور طیاروں کی گونج سنائی دیتی ہے اور جنگ کرنے والے یا اس میں حصہ لینے والے اپنا سینہ پھیلائے پھرتے ہیں اور جو سوجھ بوجھ کی آواز ہے وہ دب جاتی ہے، جیسا کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ عالمی بالادستی اور تضاد کی جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور جن کی بقا کو خطرہ لاحق ہورہا ہے اُن کے پاس امریکا سے زیادہ اچھے ہتھیار ہیں، جیسا کہ خود امریکی فوجی حکام کہہ رہے ہیں کہ ہمیں فریب کا حصہ نہیں بننا چاہئے کیونکہ امریکا کی بالادستی ختم ہوچکی ہے، اس کی شہنشاہیت کا افغانستان میں شکست کے بعد خاتمہ ہوگیا ہے، مناسب ہوگا کہ وہ اب ”جیو اور جینے دو“ کی پالیسی کو اپنائے۔

مطلقہ خبریں