صدر جوبائیڈن فیصلہ سازی میں ایک کمزور شخص ثابت ہوئے ہیں اور اُن کی نائب صدر بھی کوئی بہت متحرک خاتون نہیں، اس کے علاوہ خود امریکا میں سفید فام اور کالوں اور دوسری نسل کے لوگوں کے درمیان جو کشمکش ہے وہ کھل کر سامنے آگئی ہے، اس کی اقتصادی حالت بہت کمزور ہے، امریکا جیسے ملک میں اور دہشت گردی کے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں، امریکا خود عدم استحکام کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے، اگرچہ وہ دُنیا پر اپنی بالادستی کی جنگ آج بھی لڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے
نصرت نرزا
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے ایک تعجب خیز بیان جاری کیا ہے کہ ہمیں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ایک جائز نکتہ کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اگر نیٹو روس کے گھر کے دروازے پر آجائے اور وہاں اسلحہ لے کر کھڑا ہوجائے تو کیا روس کو خطرہ لاحق نہیں ہوگا اور اُس کو یا کسی کو بھی خطرہ لاحق ہو تو کیا وہ اپنی حفاظت کے لئے انتظامات نہیں کرے گا، کوئی بھی شخص یا ملک اپنی حفاظت کا فطری اور قدرتی حق رکھتا ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کے عین مطابق ہے۔ ساری دُنیا جانتی ہے کہ نیٹو روس کے خطرہ سے بچنے کے لئے بنایا گیا تھا، دوسرے معنوں میں یہ روس کے خلاف ایک فوجی اتحاد تھا، میکرون نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں نیٹو جو روس کے لئے خطرہ بنا رہا ہے اب یوکرین کو اپنا اڈہ بنانا چاہتا ہے تو اس پر روس کا ردعمل فطرت کے اصول کے عین مطابق ہے۔ سادہ سا سچ یہ ہے کہ مغرب روس کی جیوپولیٹیکل توہین کررہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پیوٹن ظالم ڈکٹیٹر نہیں ہے۔ میکرون نے یہ بیان جوبائیڈن سے ملاقات کے بعد دیا۔ یہ بیان ایک ایسی حقیقت ہے جو روس کو حق حفاظت دیتا ہے اور یوکرین پر حملہ کو جائز قرار دیتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے امریکی صدر جوبائیڈن کے بیانات کو سن کر اس بیان کو دینے کا ذہن بنایا ہو۔ اس کے علاوہ جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بات کی۔ اولاف شولز اگرچہ امریکا کے سخت دباؤ میں ہیں، وہ امریکی احکامات سے روگردانی نہیں کرسکتے مگر وہ کوشش ضرور کریں گے کہ جرمنی اور روس کے درمیان تعلقات زیادہ خراب نہ ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ جرمنی امریکا کے پنجوں میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے۔ ان پنجوں سے نکلنا اور کوئی آزادانہ رائے یا پالیسی اختیار کرنا جرمنی کے بس کی بات نہیں۔ امریکا کے کئی دانشور اور کالم نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ یوکرین کی پراکسی جنگ ہار رہا ہے اور جو نکات اس کے اظہاریہ کے طور پر بیان کئے گئے ہیں اُن میں ایک تو یہ کہ امریکا کو عالمی حمایت حاصل نہیں ہوئی، پہلے امریکا جو قدم اٹھاتا تھا اس کو عالمی حمایت حاصل ہوجاتی تھی یا وہ کسی دباؤ پر عملی یا رواداری میں دُنیا بھر سے حمایت حاصل کرلیتا تھا مگر اِس دفعہ کا معاملہ ذرا مختلف ہے کہ امریکا عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ دوسرے امریکا سے اس کا سب بڑا اتحادی یورپ خود امریکا سے ناخوش ہے، اس یورپ کو امریکا نے روس کا خوف دلاکر اپنے ساتھ باندھا ہوا تھا، وہ اب یوکرین کی جنگ پر امریکا کی حمایت کے معاملے میں کافی تقسیم ہے، برطانیہ تو ساتھ دے رہا ہے جبکہ یورپی یونین کے کئی ممالک خاموش ہیں یا پھر کھل کر امریکا کی مخالفت پر اتر آئے ہیں، جن میں فرانس، اٹلی، ہنگری اور زیک ری پبلک تو اب تک کھل کر سامنے آ گئے ہیں، اٹلی، فرانس، ہنگری کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ملک پہلے ہے اس کے بعد امریکا کے معاملات اور امریکا کی حمایت کرنا ہے۔ فرانس کے صدر نے جو اختلاف کا پنڈورا بکس کھول دیا ہے اس سے دوسرے یورپی ممالک کو امریکی مخالفت کے لئے مدد ملے گی۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ عالمی کساد بازاری اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ ہر طرف سے اس پر آواز اٹھ رہی ہے اور اس کا سارا الزام امریکا کے سر آرہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ عالمی کساد بازاری یا مہنگائی امریکا جان بوجھ کرا رہا ہے تاکہ وہ اپنی عالمی بالادستی کے منصوبہ کو کامیاب کرا سکے۔ یورپ کے تین لاکھ افراد کا سردی سے ہلاکت کا خطرہ اس لئے پیدا ہوگیا ہے کیونکہ روس سے اُس کو جو تیل و گیس ملتا تھا وہ امریکی پابندیوں کے باعث یورپ کو نہیں مل پا رہا ہے، اس لئے اگرچہ یورپ کا موسم اس قدر ٹھنڈا نہیں ہے جیسا کہ پہلے ہوا کرتا تھا، اس کے باوجود یہ کہا جارہا ہے کہ کئی لاکھ افراد سردی سے ٹھٹھر کر مر جائیں گے۔ اس سے بھی بڑا یہ کہ انڈسٹری تباہ ہورہی ہے، اس طرح لوگ بے روزگار ہورہے ہیں اور اگر لوگ بے روزگار ہوں گے تو یورپ اور دُنیا بھر میں بے چینی و اضطراب بڑھے گا اور لوگ امریکا کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس لئے کہا جارہا ہے کہ روس جیت رہا ہے، اگرچہ امریکا کا پروپیگنڈا اس سے مختلف ہے مگر امریکی دانشور اس کی تصدیق کررہے ہیں کہ امریکا یوکرین کی جنگ ہار رہا ہے، جنگ شروع ہونے سے پہلے امریکا یہ سمجھ رہا تھا کہ یوکرین کو ہرانا آسان ہے، اس پر حملہ کرواؤ، ڈر اور خوف سے عراق کی طرح بیٹھ جائے گا اور معاشی پابندیاں اسے تباہ کردے گی جو ممکن نہیں ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ روس نے اِس کی تیاری 2014ء سے شروع کردی تھی، اس نے تیل کی سپلائی کا رُخ ایشیا کی طرف موڑ دیا تھا، اب وہ چین اور بھارت کو تیل فراہم کررہا ہے بلکہ بھارت کو اس وقت روس سب سے زیادہ تیل فراہم کرتا ہے۔ روس کے روبل کچرے کا ڈھیر بن جانے کا امریکا سوچے بیٹھا تھا، اِس کے برعکس ہوا کہ روس کا روبل کی قدر پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی۔ اگرچہ اس پر سوالات ہیں کہ روس نے روبل کی قدر کیسے بڑھائی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے دوسری کرنسیوں میں لین دین کرکے روبل کو بچایا اور روبل کی قدر میں اضافہ کیا۔ امریکی منصوبہ میں یہ بھی تھا کہ روس کے مالدار لوگوں کے اثاثہ جات پر قبضہ کرلیں گے تو امریکا روس کو دبانے میں کامیاب ہوجائے گا، ایسا سوچا ضرور اور اس پر عملدرآمد بھی کیا مگر اِس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ روس کے مالدار لوگ کم تھے اور اپنا سرمایہ یا تو نکال کر لے گئے یا پھر اس نقصان کو سہہ گئے۔ امریکا کا یہ خیال بھی تھا کہ جب روس پر پابندیاں لگیں گی تو روس کے عوام میں بے چینی پھیلے گی اور روس کے عوام پیوٹن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، پیوٹن کو نکال دیں گے مگر ایسا نہیں ہوا، روس کے عوام اپنی حکومت کے ساتھ کھڑے رہے یا روس نے ایسے انتظامات کئے کہ وہ اٹھ نہ سکے۔ امریکا کا یہ خیال بھی تھا کہ روس کے ٹکڑے ہوجائیں گے، پھر وہ اٹھ نہیں سکے گا مگر ہوا اس کے برعکس، روس کے ٹکڑے نہیں ہوسکے وہ ثابت قدم رہا اور خاموشی سے یوکرین کو نقصان پہنچاتا رہا، روس یوکرین میں اس پوزیشن میں آ رہا ہے کہ یوکرین کو آہستہ آہستہ نقصان پہنچاتا رہے اور اس کو عدم استحکام کا شکار کردے، لگتا ایسا ہے کہ وہ یوکرین کی کمر توڑ دے گا، اس طرح کہ یوکرین کو کبھی اٹھنے کا موقع نہیں ملے گا۔
اگرچہ دوسری طرف یہ کہا جارہا ہے کہ اس میں ایک روسی کالم نگار ولادی میر میلوف یہ لکھتے ہیں کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ پیوٹن امریکی پابندیوں کو جھیل گیا ہے، اصل میں امریکی پابندیوں کے اثرات روس پر بُری طرح اثرانداز ہورہے ہیں، یہ پابندیاں پیوٹن اس وقت تک کامیابی سے برداشت کررہا تھا جب تک یوکرین سے جنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت روس نے کافی حد تک زرمبادلہ اور دولت جمع کرلی تھی۔ 2014ء سے روس نے اپنی تجارت کا دائرہ ایشیا تک پھیلا دیا۔ اس کی وجہ سے مغرب سے تجارت میں کمی واقع ہوئی۔ پیوٹن نے اپنے خلاف عوامی ردعمل کو بزور طاقت روک دیا۔ یہ عوامی ردعمل عوام کی غربت اور حالتِ زار کی وجہ سے ہورہا تھا۔ پیوٹن نے اپنے خلاف عوامی ردعمل کو روکنے کے لئے بہت اخراجات کئے اور مغرب کی پالیسی کو بے اثر کرکے رکھ دیا۔ اگر غلطی نہ کی جائے تو روس پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور اس طرح مغرب کی پالیسی بنانے والوں کو جھانسہ دے رہے ہیں۔ جیسے کہ اُن کی پالیسی ناکام ہوگئی ہو اور یوں وہ مغرب کو مجبور کرکے اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ روس کی GDP گری ہے اور بے روزگاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، روس میں بے روزگاری کی شرح 3.7 ہے جبکہ سرکاری طور پر 2.7 دکھائی گئی ہے، 2022ء کے تیسرے دورانیہ میں 50 لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے تھے۔ روبل کی طاقت ضرور بڑھی ہے مگر اس وجہ یہ ہے کہ روبل کی بجائے غیرملکی کرنسی استعمال کی جارہی ہے، تاہم جو یہ لکھاری بات کررہا ہے اگر اُس کی تصدیق بھی ہوجائے تب بھی اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ روس نے اپنے ملک میں مظاہروں یا بے چینی کو بڑھنے روکا ہے یا اس پر قابو پا لیا ہے کیونکہ جو کچھ یہ کالم نگار لکھ رہے ہیں اس کا اظہار روس کے شہروں میں نظر نہیں آتا، اس کے برعکس امریکی یوکرین کی فوجی اور مالی مدد تو کررہے ہیں مگر خود لڑنے کو آنے کو تیار نہیں۔ صدر جوبائیڈن فیصلہ سازی میں ایک کمزور شخص ثابت ہوئے ہیں اور اُن کی نائب صدر بھی کوئی بہت متحرک خاتون نہیں۔ اس کے علاوہ خود امریکا میں سفید فام اور کالوں اور دوسری نسل کے لوگوں کے درمیان جو کشمکش ہے وہ کھل کر سامنے آگئی ہے، اس کی اقتصادی حالت بہت کمزور ہے، امریکا جیسے ملک میں اور دہشت گردی کے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں، امریکا خود عدم استحکام کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ وہ دُنیا پر اپنی بالادستی کی جنگ آج بھی لڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے، سوال یہ ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوسکے گا؟