اوڑھ لیتا ہے کوئی تیرگی شب سے پہلے
رونما ہوتے ہیں اثرات سبب سے پہلے
سب سے اونچا تھا زمانے میں تخیل میرا
حادثے مجھ پہ گرا کرتے تھے سب سے پہلے
ایک دوجے سے نمو پاتی ہیں ساری چیزیں
پیاس کا نام کہاں ہوتا تھا لب سے پہلے
وہ جو دن رات کی ترتیب لگاتا ہے ابھی
جانے کیا کرتا تھا اس کارِ عجب سے پہلے
شعر نے حسن کی ترویج کا سامان کیا
رائگاں جاتی تھی ہر چیز ادب سے پہلے
صبح کا بھولا ہوا آ تو گیا ہے واپس
مسئلہ یہ ہے کہ آیا نہیں شب سے پہلے
ہم کہاں عشق کی معراج کو جا پائیں گے
وہ ہمیں چھوڑنے والا ہے رجب سے پہلے
اس طرح دنیا کی ترتیب الٹ سکتی ہے
کیوں میسر ہوئے جاتے ہو طلب سے پہلے
آج کچھ اور ہی مقصد ہے چراغوں کا عقیلؔ
روشنی اتنی کہاں ہوتی تھی اب سے پہلے
عقیل عباس چختائی