نصرت مرزا
چین کی معاشی صورتِ حال پر غور کیا جائے تو مغربی اور بھارتی ذرائعوں کا خیال ہے کہ وہ چین کی معاشی ترقی کی رفتار گھٹی ہے، اُن کے حساب سے چین کی انرجی کی ضروریات سالانہ 30 فیصد بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس برق رفتاری سے ترقی کررہا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کو دُنیا میں متعارف کرا رہا ہے اس کی وجہ سے وہ اپنی تیل کی بڑھتی ہوئی ضرورت ایک نہ ایک روز اس مقام پر پہنچ جائے گی کہ اس کی ضرورت کو پورا نہیں کیا جاسکے گا، ابھی سے چین نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تیل کی خریداری کے معاہدات کرنے شروع کردیئے ہیں۔ یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ چین کے پاس انرجی کے ذخائر اس کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں مگر چین بہ وقت ضرورت ان کو استعمال میں لا سکتا ہے۔ امریکا کے پاس تیل کے ذخائر موجود ہیں مگر وہ اُن کو محفوظ رکھتا ہے اور مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کے تیل سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے۔ یہی طریقہ چین اپنا چکا ہے مگر تیل کی اس خریداری کی وجہ بھاری قیمت اد اکرنے پر مجبور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چین نے 120 ملین ٹن تیل 40 فیصد زائد قیمت ادا کرکے خریدا ہے۔ یہ سلسلہ 2003ء سے تاحال جاری ہے اور اگر دوسری طرح سے دیکھا جائے اور انرجی کی ضرورت گھریلو ذخائر سے پوری کی جاتی تو صرف 2 فیصد کا اضافہ ہوتا۔ اس طرح چین 38 فیصد زیادہ ادا کرکے تیل خرید رہا ہے اور اپنے تیل کے ذخائر کو محفوظ رکھ رہا ہے، اسی طرح گیس کی شرح خرید میں 3 سے 4 گنا اضافہ ہوا ہے۔ 1993ء میں چین کی گیس کی ضرویات 13.7 کیوبک فٹ تھی جو اب بڑھ کر 60.6 ملین کیوبک فٹ ہوگئی ہے۔ یہ ضرورت وہ اپنے ذخائر سے پورا کرسکتا تھا مگر وہ گیس بھی مڈل ایسٹ یا مشرق وسطیٰ سے خرید رہا ہے۔ یہ بھی ہم 2007ء کی بات کررہے کررہے ہیں، اب تو یہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
چین کی بڑھتی ہوئی تیل کی ضرورت اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اُس کے تیل کی آمدورفت میں رکاوٹ پر رخنہ نہ پڑے، اس طرح وہ اپنی معیشت کو خطرہ محسوس کرتا ہے، چنانچہ اس نے خلیج ملاکا اور اُس کے اطراف اپنی موجودگی کو بڑھا دیا ہے اور اس کو جغرافیہ کا جبرقرار دیتا ہے کہ اگر خلیج ملاکا کے راستے میں خلل پڑ جائے تو اُن کا ملک بیٹھ جائے گا، اگرچہ امریکا چین کے ان خطرات کو جھوٹا قرار دیتا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ اُس کے پاس کئی اور آپشن موجود ہیں، چاہے وہ کچھ زیادہ اخراجات کے حامل ہوں گے مگر ایسا نہیں ہے کہ چین کی سیکیورٹی یکسر خطرہ میں پڑ جائے۔ خلیج ملاکا کی چوڑائی 2.8 کلومیٹر ہے۔ اب اِس خلیج پر بہت سارے ممالک اپنی فوجیں اور آبدوزیں سمندر کی گہرائیوں چھپائے بیٹھے ہیں، ایک امریکی آبدوز کو جنوبی بحرچین میں کچھ برسوں پہلے نقصان بھی پہنچا تھا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ امریکی بحری بیڑھ دُنیا کے تمام ممالک سے بڑا ہے اور امریکی جنگی جہازوں، آبدوزوں اور طیارہ بردار طیارے ہر سمندر میں یا دُنیا کے ہر اہم مقام پر موجود ہوتے ہیں، اسی وجہ سے امریکا اپنے آپ کو ایک بالادست ملک سمجھتا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے چینی غبارہ کی امریکی فضائی حدود پر تبصرہ کرتے ہوئے 8 فروری 2023ء کو کہا تھا کہ اگر چین نے ہماری خودمختاری یا ہماری دُنیا پر بالادستی کے معاملے میں مداخلت کی تو ہم چین کو سبق سکھا دیں گے اور اپنی دُنیا پر بالادستی پر آنچ نہیں آنے دیں گے، جس طرح ہم نے کا غبارہ تباہ کرکے ظاہر کیا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا چین کا غبارہ بڑی ٹیکنالوجی سے مزین تھا اور چین اس سے امریکا میں جاسوسی کرنے کا کام لے رہا تھا یا پھر اس نے امریکا کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی بالادستی کو چیلنج کیا اور 11 فروری 2023ء کو الاسکا میں ایک چھوٹی سی چیز اڑتی ہوئی دیکھی گئی جسے مار گرایا گیا۔ الاسکا وہ جگہ ہے جہاں موسمی تغیراتی نظام لگا ہوا ہے، وہاں پر کسی چیز کی موجودگی اِس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کوئی ملک اِس جگہ کی نشاندہی کرنا چاہتا ہے جہاں سے زلزلے، سیلاب اور سونامی لائے جاتے ہیں یا پھر امریکا نے خود ہی اس پر زور دینے کے لئے ایسا کیا ہو کہ دُنیا کو دھمکائے، دیکھو جس نے بھی اس طرف دیکھا ہم اس پر زلزلہ یا سیلاب یا سونامی سے حملہ آور ہوں گے۔ اب دُنیا میں یہ بات عام کی جارہی ہے کہ ترکی و شام کا زلزلہ مصنوعی تھا اور امریکا نے ترکی جو ایک طاقتور ملک بننے جارہا ہے اور جس پر سو سالہ جو پابندیاں لگی تھیں وہ اٹھنے والی ہیں، اس لئے ترکی کو سبق سکھانے یا اس کی ترقی کو پیچھے لے جانے یا اُس کو پتھروں کے دور میں لے جانے کے لئے ایسا کیا گیا۔ تاہم امریکا اس وقت یوکرین کے جنگ میں مشغول ہے اور روس کو تھکا کر مارنا چاہتا ہے جبکہ روس، امریکا اور یورپ کا رومانس ختم کرنے کے درپے ہے۔ دوسری طرف امریکا چین کو الجھائے ہوئے تو ہے مگر چین نے اس سے چھیڑچھاڑ اس لئے شروع کردی ہے کہ دُنیا میں مزید تباہی لانے کی کوشش نہ کرے اور خصوصاً چین کی طرف تو دیکھے بھی نہیں کہ وہ غباروں اور چھوٹی سی چیز اُس کو تباہ کرسکتا ہے۔ اگر آبنائے ملاکا کی طرف آئیں تو آبنائے ملاکا گیارہ سو کلومیٹر طویل اور اس کی تنگ سے تنگ عرض 2.8 کلومیٹر ہے، امریکیوں کا کہنا ہے کہ چین خوامخواہ آبنائے ملاکا کو ہوا بنایا ہوا ہے اور اس کو اپنی تحفظ کے نظام کا حصہ اس لئے بنایا ہوا ہے تاکہ بحرجنوبی چین میں اس کا سکہ جما رہے، اگرچہ اس کے آبنائے ملاکا کے علاوہ اور کئی راستے چین کا راستہ روکا جا سکتا ہے ان میں ایک آبنائے ہرمز دوسرا آبنائے سنڈا ہے تو تیسرا آبنائے لومبوک اور چوتھا مسکاسر کے علاقہ جات ہیں جہاں سے سمندری ننگ ہے اور وہ چین کے لئے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں۔ آبنائے ہرمز تو بحر عرب میں ایران کے سمندر میں ہے جبکہ آبنائے سنڈا انڈونیشیا کے جزائر جاواورسماترا کے درمیان ہے، آبنائے لمبوگ وہ آبنائے ہے جو انڈونیشیا کے ذریعے جاوا اور بحرہند کے درمیان ہے اور یہ بھی بہت تنگ جگہ ہے۔ مکاسر بھی سمندری تنگ گزرگاہ ہے، یہ بھی انڈونیشیا میں واقع ہے، یہ تینوں مقامات چین کے لئے کسی نہ کسی وقت مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ امریکا اور بھارتیوں کو اعتراض ہے کہ وہ ان آبناؤں کی بات کیوں نہیں کرتا اور کیوں اُن سے خوفزدہ نہیں ہوتا کہ وہ یہ آبنائے کبھی تو اس کا راستہ روک سکتے ہیں۔ جغرافیائی طور پر یہ بات اہم ہے، خطہ بحرہند میں اور آبنائے ہرمز چینی لبریشن آرمی نیوی کے لئے اتنی اہم نہیں ہے اور اس لئے کہ ان علاقوں میں امریکا اور بھارت مضبوطی سے اِس مقامات پر اپنا اثر بڑھا چکے ہیں۔ چین ملاکا آبنائے کو اپنے لئے تین وجوہات کی بنا پر اہم سمجھتا ہے پہلی بات تو یہ کہ آبنائے ملاکا کے گرد انڈونیشیا، ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ممالک ہیں جو نہ امریکا کی طرف ہیں اور نہ چین کی طرفداری کرتے ہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ اس معاملے میں ان تینوں ممالک کا اتفاق نہیں ہے، آبنائے ملاکا ایک دوسرے کے خلاف تحفظات رکھتے ہیں اور تیسرے یہ کہ امریکا ملاکا کے مقاملے میں آبنائے ہرمز کو زیادہ اہمیت دے گا، اگر اُس کو چین کی سپلائی لائن کو روکتا ہوا۔ چین آبنائے ملاکا اس لئے بھی اہمیت دیتا ہے کہ یہاں سے اس کی سرزمین قریب ہے اور یہاں دہشت گردی یا قدرتی یا اسمگلنگ آسانی سے اُس کی سرزمین میں ہوسکتی ہے، اس لئے وہ اس کو اپنے لئے اہمیت کا حامل سمجھتا ہے اور اس کے ہاتھ سے نکل جانے کو اپنے لئے المیہ کے طور پر لیتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ چین کے لئے وہ جگہ ہے جو اس کے لئے سب سے زیادہ کمزور ہے اور اس لئے وہ اس پر اپنی خاص توجہ رکھتا ہے اور اُس کو اپنی ملکیت کے طور پر لیتا ہے جبکہ امریکا کا یہ موقف ہے کہ وہ گزرگاہ عالمی جہازرانی و تجارت کے لئے کھلا رکھے۔ اس معاملے پر اس کے اردگرد کے ممالک انڈونیشیا، ملائیشیا اور سنگاپور بھی امریکا کے ساتھ کھڑے ہیں تاہم چین اُن کی پرواہ کئے بغیر اس جگہ کی اہمیت اور اس پر اپنا تسلط یا حق کو قائم رکھنے کے لئے ہرممکن کوشش کررہا ہے جس میں وہ تاحال کامیاب ہے۔