Sunday, June 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سال 2022ء میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلموں کا جائزہ

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فلم کو صرف تفریح کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ صنعت کا درجہ دیں تاکہ یہ ترقی کرسکے
خرم سہیل
پاکستان کی فلمی صنعت میں گزشتہ سال 2022ء ایک تاریخی سنگِ میل کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس سال ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ”دی لیجنڈ آف مولا جٹ“ نے پاکستان میں باکس آفس پر تمام پاکستانی فلموں کے بزنس کا ریکارڈ توڑ دیا۔ اس فلم نے دُنیا بھر میں بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور تاحال اس فلم کی مقبولیت کا سفر جاری ہے۔ یہ سال ”دی لیجنڈ آف مولا جٹ“ کا سال کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان سے فلمی دنیا کے معروف ترین ”آسکر ایوارڈز“ کے لئے ایک انتہائی سطحی فلم ”جوائے لینڈ“ کو نامزد کیا گیا ہے۔
پاکستان میں 2022ء کی ابتدا میں فلموں کی ریلیز کا معاملہ کافی سست روی کا شکار رہا۔ جنوری میں واحد پاکستانی فلم ”جاوید اقبال“ ریلیز ہوئی جس کے ہدایت کار ابوعلیحہ ہیں۔ یہ فلم چند دن نمائش پذیر رہی، پھر تنازعات کا شکار ہوئی اور اس پر پابندی لگ گئی۔ اس فلم کی کہانی ایک سیریل کلر کی ہے جو بچوں کا جنسی استحصال کرکے ان کو قتل کرتا تھا اور آخرکار ایک دن خود ہی گرفتاری دے دیتا ہے۔ فلم پر پابندی کی بڑی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ جاوید اقبال نے خود کیوں گرفتاری دے دی، پولیس اس کو کیوں نہ ڈھونڈ سکی۔ پاکستان میں پولیس کے فرسودہ نظام کی عکاسی کرتی یہ فلم پاکستان میں تو پابندی کا شکار ہوگئی لیکن دنیا کے کئی فلم فیسٹیولز میں اس فلم نے کئی ایوارڈ اپنے نام کئے۔ اصولی طور پر اور موضوع کے اعتبار سے یہ وہ فلم ہے جسے پاکستان کی طرف سے آسکر ایوارڈ کی نامزدگی کے لئے بھیجا جانا چاہئے تھا لیکن اس کی لابنگ جوائے لینڈ جیسی نہ تھی، اس لئے اب اس فلم پر مکمل خاموشی ہے اور راوی چین لکھتا ہے۔ فروری کے مہینے میں کوئی پاکستانی فلم ریلیز نہیں ہوئی جبکہ مارچ کے مہینے میں 3 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان میں سب سے زیادہ جس فلم کا انتظار تھا وہ ”عشرت میڈ اِن چائنہ“ تھی۔ اس کے ہدایتکاروں میں سے ایک محب مرزا بھی تھے۔ بطور ہدایتکار یہ ان کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں مگر اس فلم کو باکس آفس پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جس کی عکس بندی چین میں ہوئی۔ اس کے علاوہ تھائی لینڈ اور پاکستان میں بھی اس کو عکس بند کیا گیا۔ اسی مہینے جو 2 دیگر فلمیں ریلیز ہوئیں ان کے نام ”تھوڑی لائف تھوڑی زندگی“ اور ”چھو لے آسماں“ ہیں۔ ان فلموں میں پہلی فلم کے ہدایتکار خالد قدوائی تھے اور دوسری فلم کی ہدایتکاری کے فرائض خاور ملک نے سرانجام دیئے تھے۔ اپریل کا مہینہ بھی خالی رہا اور کوئی نئی پاکستانی فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ مئی کا مہینہ عیدالفطر کا تھا جس پر متعدد نئی پاکستانی فلمیں ایک ساتھ ریلیز ہوئیں۔ ان میں ہدایتکار ثاقب خان کی ”گھبرانا نہیں ہے“، یاسر نواز کی ”چکر“، محمد احتشام الدین کی ”دم مستم“ اور وجاہت رؤف کی ”پردے میں رہنے دو“ شامل ہیں۔ ان چاروں فلموں میں سے کامیاب ترین فلم ”گھبرانا نہیں ہے“ رہی جبکہ باقی فلمیں پاکستانی فلم بینوں کو کچھ خاص متاثر نہیں کرسکیں۔ اسی مہینے کے وسط میں ایک اور فلم ”رشتے“ بھی ریلیز ہوئی اور بُری طرح باکس آفس پر ناکام رہی۔ اس فلم کے ہدایت کار ملک ایم نواز خان تھے۔ جون کے مہینے میں مزید 6 نئی فلمیں ریلیز ہوئیں، جن کے نام بالترتیب کچھ یوں ہیں۔ ہدایت کار ظلِ عاطف کی ”کھیل“، فیاض ادریس کی ”تھوڑی سیٹنگ تھوڑا پیار“، سرمد سلطان کھوسٹ کی ”کملی“، سید عاطف علی کی ”پیچھے تو دیکھو“، امین اقبال کی ”رہبرا“ اور عظیم سجاد کی ”چوہدری“ شامل ہیں۔ ان فلموں میں سے اگر کسی کو مکمل فلم کہا جائے تو وہ رومانوی فلم ”کملی“ ہے جس کو دیکھ کر فلم کے بجائے کسی پینٹنگ کا گمان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مزاحیہ فلم ”پیچھے تو دیکھو“ نے بھی متاثر کیا اور اس کی بنیادی وجہ اس کی کہانی اور خصوصی بصری تاثرات تھے لیکن یہ فلم باکس آفس پر ناکام رہی۔ جولائی کے مہینے میں عیدالاضحی کے موقع پر 3 فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں ندیم بیگ کی ”لندن نہیں جاؤں گا“، نبیل قریشی کی ”قائدِاعظم زندہ باد“ اور عبدالخالق خان کی ”لفنگے“ شامل ہے۔ ان میں سے پہلی 2 فلموں کے مابین مقابلے کی فضا قائم رہی اور ان دونوں کو باکس آفس پر کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ اگست میں ایک فلم ہی ریلیز ہوئی، اس کا نام ”انتظار“ تھا جس کی ہدایتکارہ سکینہ سموں تھیں، جو معروف اداکارہ بھی ہیں۔ یہ فلم بھی فلم بینوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکی حالانکہ یہ اپنے موضوع اور اداکاری کے اعتبار سے ایک بہتر فلم تھی۔ ماہِ ستمبر میں ایک ہی اردو فلم ریلیز ہوئی، جس کا نام ”کارما“ تھا۔ اس کے ہدایتکار کاشان ادمانی تھے۔ یہ فلم ایکشن فلم ہونے کے باوجود باکس آفس پر ناکام رہی۔ اس کی کاسٹ بھی اچھی تھی لیکن فلم کو توجہ نہیں مل سکی۔ اکتوبر کے مہینے میں ایک عام سی تاریخ پر پاکستان کی سب سے مہنگی بننے والی فلم ”دی لیجنڈ آف مولا جٹ“ ریلیز ہوئی اور اس نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کردیئے۔ اس فلم کے ہدایتکار بلال لاشاری تھے۔ نومبر میں 3 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں صائم صادق کی ”جوائے لینڈ“، شان شاہد کی ”ضرار“ اور قاسم علی مرید کی ”ٹچ بٹن“ شامل ہے۔ ”ٹچ بٹن“ تمام تر پروموشن کے باوجود وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی جیسی اس سے امید کی جارہی تھی۔ باکس آفس پر ”ضرار“ نے کچھ بزنس کیا لیکن بہت زیادہ کامیابی نہ سمیٹ سکی جبکہ ”جوائے لینڈ“ کو باکس آفس پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ فلم سال بھر کی ایک متنازع فلم ہے جس کو پاکستان کی آسکر کمیٹی کی طرف سے سینما میں فلم کو ریلیز ہوئے بغیر پاکستان کی بہترین فلم تصور کرتے ہوئے آسکر کے لئے نامزد کردیا گیا۔ بہت پاپڑ بیلنے کے بعد یہ فلم اپنی نامزدگی کے کافی دنوں بعد پاکستانی سینماؤں میں ریلیز ہوئی اور بُری طرح ناکام رہی۔ بہرحال اب یہ فلم آسکر ایوارڈز دینے والی فلم اکادمی کی طرف سے باضابطہ طور پر شارٹ لسٹ کرلی گئی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اگلے مرحلے میں یہ فلم مزید انتخاب حاصل کرپاتی ہے یا نہیں اور پھر اس کے بعد مرحلہ ہوگا فاتح فلم کا۔ ایسا لگتا ہے (اس فلم کی لابنگ دیکھتے ہوئے) کہ اس فلم کو آسکر ایوارڈ دیئے جانے کا امکان ہے۔ اس فلم کے ہدایتکار اس سے پہلے بھی ایک شارٹ فلم بنا چکے ہیں جس کا موضوع اس فلم کے مساوی تھا۔ شاید وہ پاکستان میں منخث فلم سازی کے بانی بننا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں پروپیگنڈا فلموں میں اس فلم کا شرمناک اور اصولوں سے ہٹا ہوا طور طریقہ فلم بینوں کو یاد رہے گا۔ دسمبر کے مہینے میں منیش پور کی فلم ”یارا وے“ ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر بُری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اس کے علاوہ کوئی پاکستانی فلم اس ماہ ریلیز نہیں ہوئی البتہ ماضی قریب میں جن فلموں کا تذکرہ رہا کہ وہ گزشتہ برس ریلیز ہونا تھیں، ان میں سرمد کھوسٹ کی ”زندگی تماشا“، جلال رومی کی ”کہے دل جدھر“، کاشف خان اور اسد صدیقی کی فلم ”ریکارڈ“ شامل ہے۔
باکس آفس کی فاتح پاکستانی فلمیں
پاکستان میں گزشتہ برس جن فلموں نے باکس آفس پر سب زیادہ کامیابیاں سمیٹیں، ان میں ”دی لیجنڈ آف مولاجٹ“ کے بعد دوسرے نمبر پر ”لندن نہیں جاؤں گا“ رہی۔ تیسرے نمبر پر ”قائدِاعظم زندہ باد“ اور چوتھے نمبر پر ”گھبرانا نہیں ہے“ موجود ہے۔ اس کے بعد بالترتیب ”ضرار“، ”دم مستم“، ”کملی“، ”پردے میں رہنے دو“ اور ”چکر”شامل ہیں جنہوں نے باکس آفس پر کمائی کی ہے۔
دیگر مقامی زبانوں میں بننے والی پاکستانی فلمیں
پاکستان میں اردو کے بعد سب سے زیادہ فلمیں پنجابی اور پشتو میں بنائی جاتی ہیں۔ سندھی اور بلوچی میں فلمیں بنانے کا فقدان ہے۔ گزشتہ برس پنجابی کی سب سے بڑی اور عالمگیر شہرت کی حامل فلم ”دی لیجنڈ آف مولاجٹ“ ہے۔ اس کے علاوہ 3 نئی پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں ”تیرے باجرے دی راکھی“، ”گوگا لاہوریا“ اور ”کنڈی نہ کھڑکا“ شامل ہیں۔ اس سال چند بی گریڈ فلمیں بھی ریلیز ہوئیں جن کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ بلوچی زبان میں پہلی بار سینما میں ریلیز ہونے والی فلم ”دودا“ تھی جس کو محدود پیمانے پر ریلیز کیا گیا۔ اس وجہ سے یہ بہت زیادہ کامیابی نہ سمیٹ سکی۔ پشتو زبان میں 7 نمایاں فلمیں نمائش کے لئے پیش کی گئیں جن میں ”دازخمو نوحاب“، ”کثر خان بہ نہ چیڑے“، ”عشق یولیو نتوب دے“، ”خانہ بدوش“، ”غلامی نہ منم“، ”اعلان جنگ“ اور ”دا مرگ لو بغاڑی“ شامل ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ سال ریلیز ہونے والی غیرملکی زبانوں کی فلمیں
پاکستان میں غیرملکی فلموں کی ایک بڑی تعداد بھی ریلیز ہوئی، جن کی تعداد 50 سے زیادہ ہے۔ ان فلموں کا تعلق امریکا، برطانیہ، روس، چین، بھارت اور دیگر کئی ممالک سے ہے۔ بہت ساری پرانی فلموں کو بھی دوبارہ ریلیز کیا گیا۔ پاکستان میں ریلیز کی گئی نئی فلموں میں درجن بھر فلمیں اینیمیٹیڈ بھی ہیں جن کو تسلسل سے پورے سال ریلیز کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ سال 8 بھارتی پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں جبکہ ایک ہندی زبان میں بننے والی نیپالی فلم ”پریم گیت تھری“ بھی نمائش کے لئے پیش کی گئی۔

مطلقہ خبریں