تاحال کسی ملک کی جانب سے روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات، مکالمے اور مفاہمت کی کوئی تجویز نہیں پیش کی گئی
ڈاکٹر ریحان خان
روس کا کہنا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک اقوام متحدہ کے نظام میں بحران کے ذمے دار ہیں اور یہ صرف یوکرین کے مسئلے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ امریکا چاہتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات پر بھی اس کا تسلط قائم رہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ماہانہ صدارت اس وقت روس کے پاس ہے اور یہ میٹنگ اس کی مدت کار کی آخری میٹنگ تھی، جبکہ اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے یوکرین میں روسی حملے کی مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا۔
طاقت کی جنگ میں اخلاقیات نہیں دیکھی جا سکتیں۔ جنگ چاہے طاقت کی ہو، مظلوم اور ظالم کی ہو، سامراجی ہو یا پراکسی، جنگ میں رحم کا کوئی دخل نہیں ہوتا، جنگ بے رحم ہوتی ہے۔ تاریخی طور پر بھی دیکھیں تو تنازعات بالآخر بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوتے آئے ہیں، لیکن 14 ماہ گزرنے کے باوجود روس یوکرین جنگ جاری ہے، کیونکہ ایک طرف یورپ، برطانیہ اور امریکا جیسی بڑی طاقتیں روس کے خلاف لڑنے کے لئے یو کرین کی مدد کررہی ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے مطابق نیوکلیئر اسلحے پر کنٹرول کئے بغیر دنیا بے حد خطرناک اور غیرمستحکم ہوگئی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پچھلے سال بھی جوہری جنگ کی دھمکی دے چکے ہیں اس لئے ان کی دھمکی کو گیدڑ بھبھکی سمجھنا غیردانشمندی ہوگی۔ چین نے روس کو مکمل سفارتی اور اقتصادی حمایت دے رکھی ہے، اگر اب وہ اسے فوجی مدد بھی فراہم کردیتا ہے تو عالمی امن کے لئے بہت بڑا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔ دوسری جانب امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے جو بیانیہ تیار کیا ہے اس میں روس توسیع پسند جارح قرار پایا ہے جو کمزور ہمسایہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر مصر ہے اور امریکا مظلوموں کا وہ مسیحا اور جمہوریت کا وہ علمبردار ہے جو اپنے فرائض کی تکمیل کی خاطر یوکرین میں مداخلت پر مجبور ہے، لیکن کیا یہ پوری سچائی ہے؟ روس کو اس مقام تک پہنچانے والا کون ہے؟
یوکرین صدیوں سے روسی سلطنت کا اٹوٹ انگ رہا ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انتشار کے بعد جو 15 ریاستیں آزاد ہوئیں، ان میں یوکرین بے حد اہم تھی، چونکہ روس اور یوکرین کے دیرینہ تاریخی، جغرافیائی، لسانی اور ثقافتی رشتے رہے ہیں، اسی لئے روسی حکمراں اس بات کے خواہاں تھے کہ ہمسایہ ملک ان کے حلقہ اثر میں رہے۔ اسی لئے 1999ء میں جب نیٹو مشرقی یورپ میں پاؤں پھیلانے اور پولینڈ، ہنگری اور بلغاریہ جیسے ممالک کو اتحاد میں شامل کرنے لگا تو روس نے احتجاج کیا۔ اسٹونیا، لاٹویا اور رومانیہ جیسے ممالک کی نیٹو میں شمولیت روس نے گوارا کرلی لیکن جب امریکا اور مغربی اتحادی یوکرین پر جال بچھانے لگے تو ماسکو نے آسمان سر پر اٹھا لیا کیونکہ اپنے محل وقوع کی وجہ سے یوکرین روس کی سلامتی کے لئے اسٹرٹیجک اہمیت رکھتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں Sphere of Influence اس پالیسی کا نام ہے جس کے تحت کوئی ملک کسی قریبی ملک کے علاقے کو اپنے خصوصی کنٹرول میں رکھتا ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے پڑوس کو دشمن طاقت کی موجودگی سے پاک رکھنے کے لئے اس کا استعمال کرتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے علاقوں میں اپنا اسی طرح کا حلقہ اثر و رسوخ قائم کیا تھا۔ امریکا نے نہ صرف لاطینی امریکا میں بلکہ دور دراز میں واقع جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک تک پر اس طرح کی اجارہ داری قائم رکھی تھی۔ اگر سچ پوچھیں تو روس اور یوکرین کا تنازع امریکا اور نیٹو کے 30 رکن ممالک کے لئے کوئی حقیقی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ خصوصاً امریکا کا تو اس سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہونا چاہئے۔
امریکا سے یوکرین کا فاصلہ گوگل کے مطابق 9 ہزار کلومیٹر ہے۔ نیٹو میں یوکرین کی شمولیت کیا اتنی ضروری ہے؟ کیا یہ کوئی ایسا ایشو ہے جو امریکا کی قومی سلامتی یا اقتصادی مفاد کے لئے خطرہ ہو؟ اس کے برعکس یوکرین کو اپنی سرپرستی میں لینے کے مغرب کے اصرار کو روس اگر اپنی سلامتی کے لئے خطرہ تصور کرتا ہے تو اس کے خدشات کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ امریکا، روسی اثرورسوخ کے موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کررہا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ گزشتہ دو سو برسوں سے امریکا کا نظام اسی نظریے کے تحت چل رہا ہے کہ مغربی نصف کرہ میں مضبوط اور غالب طاقت کی حیثیت سے امریکا اپنا یہ حق سمجھتا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے ملک کے خلاف ایکشن لے جسے وہ اپنے حلقہ اثر میں دخل اندازی کا مرتکب مانتا ہے۔ اس نظریے کو امریکا میں Monroe Doctrine کہا جاتا ہے۔ اس تھیوری پر عمل کرتے ہوئے امریکا نے ماضی میں کئی حکومتوں کو گرایا بھی اور کئی پر اقتصادی پابندیاں بھی لگائیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک اور بڑے ممالک کے طور پر چین اور روس کے درمیان تعلقات اور اثرورسوخ، دوطرفہ دائرے سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اب امریکا اپنے موقف کے دفاع کے لئے کیا کرے گا۔ یہ بات واضح ہے کہ واشنگٹن اس تنازع کا خاتمہ نہیں دیکھنا چاہتا اور نہ ہی مستقبل میں ”دشمنوں“ کو ”دوست“ بننے کا موقع دینا چاہتا ہے، اسی لئے وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یوکرین کو فوجی امداد فراہم کررہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں دہائیوں سے افراتفری اور نفرت کا کاروبار کرنے والے امریکا پر سے جب اس خطے کے ممالک کا اعتماد اٹھ گیا تو نتیجہ ”ازلی دشمنوں“ کے ”دوست“ بننے کی صورت میں سامنے آیا اور اس خطے کے امریکی ”دوست“ اس سے کچھ کھنچ گئے، دوسری طرف جب روس یوکرین تنازع نے توانائی کا بحران پیدا کیا تو امریکا کے یورپی اتحادی بلبلا اٹھے اس پر طرہ یہ کہ اس بحران سے سب سے زیادہ مالی فائدہ بھی امریکا ہی نے اٹھایا اور اپنے دوستوں سے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر کر اپنی جیبیں بھریں۔ یورپی یونین میں ایل این جی کی طلب میں اضافہ ہوا تو امریکا سے یورپی یونین کو ایل این جی درآمدات میں 2021ء کے مقابلے میں 23.59 ملین ٹن کا اضافہ ہوا۔ امریکا کے اس رویے پر جرمنی اور فرانس نے امریکا کو آئینہ دکھایا اور شکوہ بھی کیا کہ ”کیا دوست ایسا کرتے ہیں؟“ لیکن کیا امریکا واقعی ”دوست“ ہے؟ امریکی تاریخ ہمدرد بن کر قبضہ کرنے اور افواہوں کی بنیاد پر معاملات چلانے بگاڑنے کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ چینی صدر نے جس تاریخ کو روس کے دورے کا آغاز کیا اسی تاریخ کو عراق پر امریکی حملے کے 20 برس بھی مکمل ہوئے۔ دو دہائیاں ہوگئیں، یہ اعتراف بھی سامنے آ گئے کہ ہاں یہ جان بوجھ کر غلط افواہ سازی اور میڈیا وار کے ذریعے ”مسلط کردہ“ جنگ تھی لیکن کیا آج تک امریکا نے اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی؟ یا اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے انسانی المیے سے کچھ سیکھا؟ مذاکرات کی میز پر آ کر معاملات کو سلجھانا امریکی ”مفادات“ میں ہے ہی نہیں وہ افراتفری پھیلا کر اپنے فائدے کی دکان چمکاتا ہے اور روس یوکرین تنازع میں جلتی پر تیل ڈالنا اس کا تازہ ثبوت ہے۔ دوسری طرف چین پُرامن مذاکرات، مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے معاملات کو سلجھانے اور اول دن سے روس اور یوکرین تنازع کو مذاکرات کے ذریعے پُرامن طور پر حل کرنے کی بات کررہا ہے۔ جبکہ امریکا سمجھتا ہے کہ تنازع کو طول دے کر وہ روس کو کمزور کرسکتا ہے، یورپ کو سلامتی کے معاملات میں امریکا پر مزید انحصار کرنے پر مجبور کرسکتا ہے اور اپنی بالادستی مزید بڑھا سکتا ہے۔ اس کی ان خواہشات کی تکمیل میں خوراک، توانائی اور مالی بحرانوں نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت یوکرین کے معاملے پر مسلسل ایک پُرامن اور استدلالی آواز بلند ہورہی ہے، زیادہ تر ممالک کشیدگی کم کرنے کی حمایت اور آگ کو ہوا دینے کی مخالفت کرتے ہیں۔ ابھی تک یہ جنگ پراکسی جنگ کے طور پہ لڑی جا ری ہے جہاں امریکا و یورپ کی جانب سے دیا جانے والا دفاعی سامان یوکرین کی سرزمین پر روس کے خلاف لڑنے کے لئے استعمال ہورہا ہے اور ممکن ہے چینی ساختہ دفاعی سامان روسی فوجیوں کے ہاتھوں میں آ جائے۔ یہ جنگ اب عالمی بنتی جا رہی ہے۔
یوکرین جنگ کی وجہ سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں ہر جگہ اضافہ ہوا ہے، مہنگائی ہر جگہ بڑھی ہے، خوراک کی فراہمی متاثر ہوئی ہے، عالمی امور کی خستہ حالی بھی نمایاں ہوئی ہے۔ اس جنگ نے اقوام متحدہ کی بے وقعتی، عالمی نظام کی نااہلی اور بین الاقوامی قوانین کی بے توقیری سب کو عیاں کردیا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں عالمی سطح پر ہتھیاروں کی ریس تیز ہوئی ہے اور عالمی امن کو خطرہ بڑھا ہے، پھر بھی کسی کو ہوش نہیں آرہا ہے۔ جنگ ختم کرنے کی راہ ڈھونڈنے کے بجائے جنگ کو طول دینے کی تدابیر ڈھونڈی جارہی ہیں۔ تاحال کسی ملک کی جانب سے روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات، مکالمے اور مفاہمت کی کوئی تجویز نہیں پیش کی گئی، ہر کوئی آگ میں اپنے اپنے حصے کا پیٹرول ڈالنے کا کام کررہا ہے۔ حکمرانوں کے برعکس ساری دنیا کے عوام جنگ سے پناہ مانگ رہے ہیں۔ واشنگٹن، لندن، پیرس اور بون میں یوکرین جنگ کے خلاف زبردست مظاہرے ہورہے ہیں۔ مغربی ممالک کے عوام اپنی حکومتوں سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی بند کریں اور مذاکرات کے ذریعہ امن کی راہ تلاش کریں۔