کسے وہ خوش ذہن نغمہ سرا اچھی نہیں لگتی
چمن میں کس کو بلبل کی صدا اچھی نہیں لگتی
دم گلگشت جانے کیوں مری بیکل نگاہوں کو
چمن میں پھول سے تتلی جدا اچھی نہیں لگتی
مری سانسوں میں خوشبو اک نگار گلبدن کی ہے
یہ نکہت بیزی بادِ صبا اچھی نہیں لگتی
اسی کے حسن کی میری نگاہوں میں بہاریں ہیں
وہ جانِ آرزو مجھ سے خفا اچھی نہیں لگتی
محبت میں نہ جانے کیوں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
وفا اچھی نہیں لگتی، جفا اچھی نہیں لگتی
مریض نامرادی ہوں، طبیعت پوچھتے کیا ہو
دوا اچھی نہیں لگتی، دُعا اچھی نہیں لگتی
گزر جاتا ہوں بے کھٹکے وہ صحرا ہو کہ دریا
مری ہمت کو توہینِ وفا اچھی نہیں لگتی
لہو عشاق کا لہرا کے چھا جاتا ہے آنکھوں میں
حسینوں کی ہتھیلی پر حنا اچھی نہیں لگتی
کروں کیا عرض مکمل کر شاعرات شہر کی بابت
نہ ہو جس میں بھی نسوانی حیا اچھی نہیں لگتی
کسی کے سامنے اظہارِ مطلب کیوں کروں کاوشؔ
مرے دل کو محبت بے اَنا اچھی نہیں لگتی
کاوشؔ عمر