Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان کا حربی دائرہ اثر

دفاع انسانی فطرت کا تقاضا ہے، دشمن طاقتور ہو تو انسان اپنے دفاع کے انتظامات اُسی کے مطابق کرتا ہے، اگر دو قبائل میں رسہ کشی ہو، تناؤ ہو، تصادم ہوتا رہے تو وہ بھی ایک دوسرے کے خلاف دفاعی حکمت عملی منظم انداز سے ترتیب دیتے ہیں، اگر یہی تناؤ ملکوں کے درمیان انتہا پر پہنچ جائے تو وہ بھی وسائل کے مطابق اور دشمن کی حربی طاقت کو مدنظر رکھ کر اپنا دفاعی نظام تشکیل دیتے ہیں، تقسیم برصغیر کے بعد سے بھارت کے جارحانہ اقدامات جدید ہتھیاروں کے حصول کی پالیسی نے پاکستان کو بھی اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنے دفاعی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق بنائے، 11 مئی 1998ء کو بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرکے خطے میں اپنی بالادستی ثابت کرنے کی کوشش کی، اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو دباؤ میں لے کر چین کو یہ پیغام دیا جائے کہ خطے میں بھارت بھی ایک قوت ہے، اس سے قبل 1974ء میں بھارت نے پوکھران کے پہاڑوں پر ایٹمی ہتھیاروں کا ٹیسٹ کرکے پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کیا تھا جس پر اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ہر حال میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنوا دیا، اس میں منیر احمد خان اور ہر اُس پاکستانی کا کردار ہے جو ایٹمی پروگرام سے منسلک رہا، 1960ء میں یہ خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں کہ بھارت جوہری تنصیبات کے تجربے کے قریب پہنچ چکا ہے، وہ جوہری اسلحہ کی تیاری کی صلاحیت حاصل کرنے کے قریب ہے، ان خبروں کے باوجود اُس وقت کی پاکستانی قیادت نے جوہری اسلحہ کے میدان میں قدم رکھنے سے انکار کیا، ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیرخارجہ کابینہ کے اجلاس میں اس حوالے سے تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان کو جوہری صلاحیت کے حصول کی کوشش کرنا چاہئے لیکن صدر ایوب خان نے پرو امریکی وزیرخزانہ محمد شعیب اور دوسرے وزراء کے مشورے سے یہ تجویز مسترد کردی بلکہ ان کا موقف تھا کہ ضرورت پڑنے پر ایٹم بم عالمی مارکیٹ سے خرید لیں گے، 1968ء میں صدر ایوب خان فرانس کے دورے پر گئے تو فرانسیسی صدر چارلس ڈیگال نے پاکستان میں جوہری پراسیسنگ پلانٹ لگانے کی پیشکش کی جسے صدر ایوب خان نے اپنے چیف آف اسٹاف جنرل یحییٰ اور سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام کے مشورے سے ٹھکرا دیا، 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستانی قیادت کو یہ احساس ہوا کہ انہوں نے جدید ہتھیاروں کے حصول کے دوڑ سے باہر رہ کر نقصان اٹھایا، جب ذوالفقار علی بھٹو صدر بنے تو انہوں نے ایران، ترکی، مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا، مصر اور شام کا طوفانی دورہ کیا، جس کا مقصد تعلقات کی تجدید کے ساتھ جوہری منصوبے کے لئے مالی تعاون حاصل کرنا تھا جوکہ پورا ہوا، 1973ء میں جوہری صلاحیت حاصل کرنے کے پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا، بھٹو نے اعلیٰ سائنسی مشیر عبدالسلام کو جوہری توانائی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے ہٹا کر ہالینڈ سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو لا کر ذمہ داری دی، عملی طور پر پہلا کام فرانس کو جوہری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر پر دوبارہ راضی کیا، پاکستانی سائنسدانوں نے 1974ء میں کہوٹہ میں یورینیم کی افزودگی کا کام شروع کیا، ماہرین کی محنت سے 1982ء میں 90 فیصد افزودگی کی صلاحیت حاصل کرلی گئی تھی اور 1984ء تک جوہری بم تیار کرنے کی اہلیت حاصل کرلی تھی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اُس وقت اس کا اظہار کرنے کی تجویز ضیاء الحق کو دی مگر امریکی نواز وزیرخارجہ اور دیگر وزراء نے سخت مخالفت کی، بالآخر 28 مئی 1998ء کو اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس کام کو پایہئ تکمیل تک پہنچا دیا۔ جدید اسلحہ کے حصول کی اہمیت سانحہ مشرقی پاکستان سے ثابت ہوگئی، اگر اس وقت پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو جواہر لال نہرو مکتی باہنی کے ذریعے سازش کو کامیاب نہیں کرسکتے تھے، ماضی میں اس کی مثال جاپان کی ہے، اگر اس کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہوتا تو 6 اگست اور 9 اگست 1945ء کو ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرنے سے قبل امریکی نیویارک اور واشنگٹن کے بارے میں سوچتے اور جوابی اقدام کے خوف سے حملہ کرنے سے باز رہتے لیکن انہیں اطمینان تھا کہ جاپان کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے، حالیہ دنوں میں اِس کی ایک اور مثال یوکرین کی ہے جسے ایٹمی ہتھیار سے محروم کرکے بے دست وپا کردیا گیا، امریکا کی کالونی بننے کی سزا روس نے حملہ کرکے دی، اگر یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیار باقی رہتے تو روس حملہ کرنے سے قبل 100 بار سوچتا، دشمن کو کمزور سمجھنا یا دوسروں کے بل بوتے پر تحفظ کا نظام بنانے کی احمقانہ پالیسی کا یہی انجام ہوتا ہے جس سے اس وقت یوکرین دوچار ہے۔ 1974ء میں پاکستان کی سیاسی قیادت نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر 28 مئی 1998ء کو چاغی کے پہاڑوں پر پوری ہوئی، جب 11 مئی کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے 6 نیوکلیئر ٹیسٹ کرکے دشمن کو ہوش میں رہنے کا پیغام دیا، بھارتی نیوکلیئر بم ٹیسٹ کے بعد دُنیا کے تمام ممالک کی نظریں پاکستان پر تھیں، خصوصاً اسلامی ممالک بھی پاکستان کے ردعمل کے منتظر تھے کیونکہ کچھ دوست برادر اسلامی ممالک پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی مالی مدد کرتے رہے تھے، انہیں پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کا شدت انتظار تھا مگر امریکا ممکنہ ردعمل کو روکنے کے لئے پیشکش کررہا تھا، اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے امریکی صدر بل کلنٹن کی معاشی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کا فیصلہ کیا، چاغی کے سنگلاخ پہاڑوں کے غار میں پاکستان نے دشمن کی بالادستی کا خواب چکناچور کردیا، اس ایٹمی صلاحیت کے حاصل ہونے پر اسلامک ورلڈ نے بے انتہا جوش کا اظہار کیا بلکہ پاکستان کے ایٹم بم کو اپنا اثاثہ سمجھا کیونکہ گزشتہ 500 سال کی تاریخ میں جدید ہتھیار کا یہ پہلا حصول تھا، قدیم دور میں مسلمانوں کے پاس آخری جدید ہتھیار منجنیق تھا جب سے جرمنی اور سوئیڈن نے بارود کا دور شروع کیا اُس وقت سے لے کر 1998ء تک مسلمان جدید ہتھیاروں کے معاملے میں پیچھے رہے، امام شامل بھی تمام تر جہادی جذبے کے ساتھ تقریباً 25 سال تک روسیوں کے سامنے ڈٹے رہے لیکن جدید ہتھیاروں کی تباہ کاریوں اور مکروفریب کے باعث بالآخر اپنے لوگوں کی جان بخشی کے لئے روسیوں کے سامنے پیش ہوگئے، کثیر فوج اور جدید ہتھیاروں کے سامنے ٹھہرنے کے لئے جدید ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے، جدید دور کی ایک مثال سابق اسرائیلی وزیراعظم گولڈامیئر کی ہے کہ جب وہ امریکا سے بھاری تعداد میں جدید ہتھیاروں کے حصول کا معاہدہ کررہی تھیں اور ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود بڑی تعداد میں اسلحہ جمع کررہی تھیں تو ان کی اپنی پارلیمنٹ نے ان کے قدام پر تنقید کے ساتھ مخالفت بھی کی لیکن تمام مخالفتوں کے باوجود گولڈامیئر نے اسرائیل کے لئے ہتھیار حاصل کرلئے، اس پر ایک امریکی صحافی نے اس کی وجوہات جاننے کے لئے گولڈامیئر تک رسائی حاصل کرکے ان کا انٹرویو کیا اور یہ پوچھا کہ کیوں وہ اتنی بھاری تعداد میں جدید ہتھیار حاصل کررہی ہیں تو گولڈامئر نے نہ چھاپنے کی شرط پر یہ بتایا کہ میں نے مسلمانوں کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پڑھی ہے، ان کے پاس وسائل کی نایابی تھی، غربت کا سامنا تھا لیکن ان کے گھر میں 9 تلواریں لٹکی ہوئی تھیں، اُس دور میں تلوار سب سے مہلک ہتھیار تھا اور وہ ہتھیار ان کے پاس بڑی تعداد میں موجود تھا، اس سے میں نے نتیجہ اخذ کیا کہ دشمن کے خلاف آپ کے پاس ہتھیار ہر وقت اور بھاری تعداد میں ہونے چاہئیں، اس امریکی صحافی نے یہ بات اپنے صحافی دوست سے شیئر کی، جب اس کا انتقال ہوگیا تو دوسرے صحافی نے یہ بات پبلش کردی، غرضکہ جدید ہتھیاروں کا حصول نہایت ضروری ہے، پاکستان کے پاس اس وقت تک دُنیا کا جدید ہتھیار موجود ہے، اُسے اپنا ایٹمی دائرہ اثر بڑھانا چاہئے، خصوصاً عرب ممالک کو اپنے دفاعی حصار میں لینے کی کوشش کرنا چاہئے، اب دُنیا ایٹمی ہتھیاروں سے آگے سیکنڈ اسٹرائیک کیپبلیٹی کی طرف بڑھ چکی ہے، تمام طاقتور ممالک اس صلاحیت کے حامل ہیں، پاکستان بھی اس صلاحیت کو حاصل کرچکا ہے لیکن اس کا اظہار نہیں کیا ہے جو مناسب وقت آنے پر کیا جائے گا جیسا کہ ایٹمی صلاحیت کا اظہار بھی وقت آنے پر کیا گیا، پاکستان کو حربی صلاحیت کو انڈیا پیسفک سے آگے بڑھانا ہوگا، حربی لحاظ سے ناقابل تسخیر پاکستان کا خواب پورا ہوا جس میں 1974ء سے لے کر 1998ء تک کی تمام حکومتوں کا حصہ شامل رہا، ضیاء الحق نے تو اس صلاحیت کے حصول کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ماتھا چوما تھا، ایٹمی صلاحیت کا حصول اتنا اہم تھا کہ جب ایٹمی دھماکے کے بعد میاں محمد نواز شریف سعودی فرمانروا کی دعوت پر ریاض گئے تو بادشاہ ان کا ہاتھ بہت دیر تک تھامے رہے، نوازشریف صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ایٹمی طاقت کے حامل ملک کا وزیراعظم ہونا مختلف احساس ہے، سعودی بادشاہ کا رویہ انتہائی اپنائیت کا تھا جو ماضی سے بالکل مختلف تھا، پاکستان میزائل ٹیکنالوجی میں بھی بہت ایڈوانس ہے، اس کی جدید خطوط پر استوار بری اور فضائی فوج دشمن کی کسی بھی بے وقوفی پر سبق سکھانے کے لئے مستعد ہے جیسا کہ 27 فروری 2019ء اور مارچ 2019ء میں دیکھا جا چکا ہے، پاکستان کو دفاعی میدان کے بعد معاشی میدان میں بھی اپنی صلاحیت کا اظہار کرنا ہوگا، دُنیا اب معاشی جنگ کی جانب ہے اس شعبے میں پاکستان کو اپنی سمت اور اہداف کا تعین کرنا ہوگا، دیرپا معاشی پالیسی کی تشکیل انتہائی ضروری ہے۔ بڑا زرعی رقبہ رکھنے کے باوجود اجناس کی درآمد انتہائی تکلیف دہ ہے، زراعت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے، صادق آباد سے لیہ تک دُنیا کی سب سے بڑی کپاس کی کاشت کی پٹی سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا، ٹیکسٹائل کی صنعت کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا، ویلیو ایڈیڈ مصنوعات کی پروڈکشن پر توجہ دینا ہوگی، صنعتوں کو نئے انداز سے استوار کرنا ہوگا، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بڑے مواقع ہیں، بس آئی ٹی کے شعبے کی طرف خصوصی توجہ دینے اور ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی دیر ہے، اس شعبے میں بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ پڑوسی ملک حاصل کررہا ہے، اس شعبے کے ذریعے برآمدات کو معجزاتی طور پر بڑھایا جاسکتا ہے، اسی طرح توانائی کے حصول کے دیگر سستے ذرائع کی طرف جا کر قیمتی زرمبادلہ بچانا ہوگا، دُنیا توانائی کے دیگر ذرائع پر بھرپور توجہ دے رہی ہے، ہمیں بھی اس پر انقلابی انداز سے کام کرنا ہوگا، حربی کے ساتھ معاشی طاقت بھی بننا ہوگا، چین کی مثال سامنے ہے وہ جدید ہتھیاروں کے ساتھ جدید معاشی تقاضوں کے مطابق اپنی معیشت کو مستحکم کرچکا ہے، اس وقت دُنیا کے تمام ملکوں میں معاشی لحاظ سے سب سے زیادہ طاقتور ہے، پاکستان کو اپنے چائنیز بھائیوں کے تجربے سے استفادہ کرنا ہوگا، سی پیک منصوبہ ایک موقع لے کر آیا ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے اقدامات ہونے چاہئیں، گزشتہ دنوں گوادر سے کاشغر تک ریلوے ٹریک بچھانے کے 58 بلین ڈالر کے معاہدے کا اعلان ہوا جو پاکستان کی بحران زدہ معیشت کے لئے آکسیجن جیسا ہے۔ یومِ تکبیر پر ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ آئندہ 10 سال میں پاکستان کو معاشی طاقت بنائیں گے، اس ہدف کے حصول کے لئے جو کچھ کرنا ہوا جتنی معاشی قربانی دینا پڑی دیں گے لیکن اپنے ملک کو معاشی لحاظ سے اس قدر مضبوط و مستحکم کردیں گے کہ کسی کے سامنے کشکول لے کر نہ کھڑا ہونا پڑے، خصوصاً آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات کا ہدف مقرر کرنا ہوگا، اگر حربی کے ساتھ معاشی طاقت بھی حاصل ہوجائے گی تو بھارت کیا کسی بھی ملک کی مجال نہ ہوگی کہ پاکستان کی جانب بُری نگاہ سے دیکھے۔

مطلقہ خبریں