دمہ میڈیکل سائنس میں پھیپھڑوں کی دائمی بیماری کو کہتے ہیں، اس میں سانس کی نالیاں تنگ ہوجاتی ہیں
ڈاکٹر عطیہ وقار
ہر سال مئی کے پہلے منگل کو دُنیا میں دمہ کے مرض سے آگاہی اور اس کی روک تھام کے لئے عالمی دن منایا جاتا ہے۔ رواں برس یہ دن 2 مئی کو منایا گیا اور اس کا عنوان “Asthma Care for All” رکھا گیا۔ دمہ میڈیکل سائنس میں پھیپھڑوں کی دائمی بیماری کو کہتے ہیں۔ اس میں سانس کی نالیاں تنگ ہوجاتی ہیں، یوں مریض کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس بیماری میں خاص طور پر پھیپھڑوں کی دو بڑی نالیاں جو سانس لینے میں مددگار ہوتی ہیں، سوجن کا شکار ہوجاتی ہیں۔ چونکہ دمہ ہوا کی نالیوں میں تنگی سے ہوتا ہے جس کے سبب سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، یوں سانس لینے میں سیٹی کی آواز نکلتی ہے اورکھانسی ہوتی ہے۔ ان تکالیف کا سبب دوسری بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں، اس لئے شیرخوار بچوں میں اس کی تشخیص ذرا مشکل ہوجاتی ہے۔ دمہ بچے کو ہوجائے تو اس کے پھیپھڑوں کو عمر بھر کے لئے متاثر کرسکتا ہے۔ جب بچوں کو دمہ کا مسئلہ ہوتا ہے تو ان کی بھی سانس کی نالیاں بہت سکڑ جاتی ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو بچے کو اپنے پھیپھڑوں سے سانس اندر باہر لے جانے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ دمہ کے مسئلہ کی صورت میں درج ذیل چیزیں سانس کی نالیوں کے سکڑنے کا سبب بنتی ہیں:
سانس کی نالیوں کی تہہ موٹی ہوجاتی ہے اور سوج جاتی ہیں یعنی سوزش ہوجاتی ہے۔
سانس کی نالیوں کے گرد عضلات سخت ہوجاتے ہیں، اس کو ہوا کی نالیوں کا کھنچاؤ یا برونکو کنسٹرکشن کہتے ہیں۔
سانس کی نالیاں بہت سا صاف، گاڑھا، مائع بناتی ہیں جسے بلغم کہتے ہیں۔ یہ بلغم نارمل سے زیادہ گاڑھا ہوتا ہے جس سے سانس کی نالیوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
بچوں میں یہ بیماری بعض دفعہ بڑھتی عمر تک جاری رہتی ہے۔ دمہ کی کچھ علامات الرجی سے ملتی جلتی ہیں تاہم کچھ لوگ دمہ کی علامات اور الرجی کی علامات میں فرق نہیں کر پاتے۔ بلاشبہ اس بیماری کی بہت سی وجوہات تو موجود ہیں مگر آگاہی کی کمی کے باعث اور وقت پر علاج نہ ہونے کی وجہ سے مرض شدت اختیار کر جاتا ہے۔
دمہ کیا ہے؟:
سانس کی دشواری مستقل علامت ہے۔ الرجی اور دمہ میں سب سے واضح فرق یہی ہے۔ دمہ میں مریض سانس لینے میں بہت زیادہ دشواری کا سامنا کرتا ہے، اس کے علاوہ بہت سی علامات الرجی سے ملتی جلتی ہیں۔ کچھ مریضوں میں دمہ کا حملہ دیر تک رہتا ہے مگر شدت اختیار نہیں کرتا جبکہ کچھ مریضوں میں دمہ ایک بار شدت سے حملہ کرتا ہے۔
علامات:
اس مرض کی سب سے پہلی اور بڑی علامت کھانسی ہے۔ مرض معمولی کھانسی سے شروع ہوتا ہے اور یہ کھانسی شدت اختیار کرلیتی ہے۔
سانس لینے میں شدید تکلیف کا سامنا۔
سانس کا پھولنا۔
مسلسل کھانسی کے دورے پڑنا۔
پیشاب میں زیادتی۔
رات میں کھانسی زیادہ ہونا۔
نیند میں دشواری اور بے چینی۔
خواہ یہ علامات الرجی سے ملتی جلتی ہیں مگر شدید کھانسی قابل تشویش ہے۔ کچھ مریضوں میں یہ سب علامات ایک ہی ساتھ ظاہر ہوجاتی ہیں جبکہ کچھ مریضوں میں علامات کم ظاہر ہوتی ہیں۔ بروقت علاج مرض کو بڑھنے سے روک سکتا ہے۔
وجوہات:
اس مرض کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے تاہم مختلف افراد میں درج ذیل وجوہات کی بنا پر دمہ کا مرض پایا جاسکتا ہے: سانس کی نالیوں میں تنگی یا خرابی، نالیوں کا سکڑنا، پھیپھڑوں کی نالی میں تنگی، ان کے علاوہ دمہ ماحولیاتی آلودگی اور ماحولیاتی وجوہات اور عادات کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ سگریٹ نوشی، نشہ آور ادویات، فضائی آلودگی اور قوتِ مدافعت کی کمزوری سے بھی یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
یہ مرض مختلف بیماریوں کی وجہ سے بھی لاحق ہوسکتا ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں: ٹانسلز، دل کے امراض، بدہضمی یا معدے کے امراض، قبض، ذہنی کمزوری یا ڈپریشن۔
اقسام: دمہ ایک طویل اور ممکنہ طور پر جان لیوا بیماری ہے جہاں پھیپھڑوں میں سوجن، بلغم میں اضافہ سانس میں رکاوٹ، سینے کا سخت ہونا، کھانسی وغیرہ کا سبب بنتا ہے جبکہ زیادہ تر دمہ بچپن میں ہی شروع ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ الرجی اور دمہ دونوں کسی بھی عمر میں ہو اور بڑھ سکتے ہیں۔
الرجک دمہ: جب دمہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو اس قسم کا ہوتا ہے۔ جس چیز کے کھانے سے انسان کو الرجی ہو وہ بھی جسم میں جا کر زہر کا کام کرتی ہے اور دمہ کو بڑھا دیتی ہے۔ جو لوگ بلی کو بہت زیادہ قریب رکھتے ہیں، انہیں بھی دمہ کا مرض ہوسکتا ہے کیونکہ بلی کے بال سے دمہ ہوتا ہے۔ دودھ اور پنیر میں پروٹین کے مابین مضبوط تعلق ہے جو دمہ کو متحرک کرسکتی ہے۔ گلوٹین خمیر اور شکر بھی زہر قاتل ہوسکتے ہیں۔ سب سے پہلے ڈاکٹر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مریض کس کھانے سے الرجک ہے، اس سے احتیاط کروائی جاتی ہے، یہ مریض خود بتا سکتا ہے کہ کون سی غذا کھانے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے۔
بغیر الرجی کے دمہ: ان لوگوں کو بھی دمہ ہوسکتا ہے جو الرجی سے متاثر نہیں ہیں، عام دمہ میں بعض لوگوں کو سانس کا انفیکشن ہوجاتا ہے۔ جن مریضوں کو بغیر الرجی کا دمہ ہو انہیں چاہئے کہ وہ مختلف پھل، سبزیاں، گری دار میوے اور صاف ستھری غذا کھائیں۔ اس سے انہیں اندازہ بھی ہوجائے گا کہ ان پر کوئی فرق پڑتا ہے کہ نہیں۔ اگر فرق پڑتا ہے، تکلیف بڑھتی ہے تو پھر یہ الرجی والا دمہ ہے۔
اسپرین سے بڑھتی ہوئی سانس کی بیماری: اس قسم کو اسپرین کے ذریعے متحرک کیا جاتا ہے۔ مریضوں کو ناک بہنے، چھینکنے اور اسپیرین حساسیت کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ جب وہ اسپرین لیتے ہیں تو چھینک آتی ہے اور ناک بھر جاتی ہے جس سے گڑگڑاہٹ اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔
ورزش سے متاثرہ دمہ: کسی بھی طرح کی جسمانی مشقت یا کھیل دمہ کی تکلیف کو بڑھاتے ہیں جس سے کھانسی، سانس لینے میں دشواری اور سینے میں تنگی کا باعث بنتے ہیں۔ جیسے ہی وہ مشقت روکتے ہیں بہتری محسوس کرتے ہیں۔
کھانسی کی مختلف حالتیں: وہ دمہ جو خشک کھانسی کی خصوصیت ہے۔ یہ جاگتے یا سوتے دونوں صورتوں میں ہوسکتا ہے۔ یہ بالغوں اور بچوں دونوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس قسم کے دمہ کی تشخیص مشکل ہوتی ہے۔ کھانسی کے علاوہ کوئی علامت نہیں ہوتی۔
پیشہ ورانہ دمہ: جب ملازمت کے ماحول میں کوئی ایسی چیز ہو جو دمہ کا سبب بنتی ہو تو دمہ کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ جلد متاثر ہوتی ہے، یہ عام طور پر دھواں یا کلورین جیسی سانس لینے والی جلن سے ہوتا ہے۔ اس کا تعلق الرجی سے نہیں ہوتا۔ ایسے پیشے جو پینٹ یا لیبارٹری میں جانوروں جیسے چوہوں یا چوہوں کے جیسے کیمیائی مادوں پر کام کرتے ہیں، اس سے مریض میں تکلیف شروع ہوجاتی ہے۔ ان علامات سے بچنے کے لئے ایسی چیزوں، ایسے پیشوں سے دور رہیں۔
دمہ کی چند اور اقسام بھی ہیں، جیسے “Childhood Onset-Asthma”۔ اس قسم کا دمہ عموماً بچپن میں شروع ہوتا ہے۔ اس کی وجہ عام طور پر فضا میں پائی جانے والی مختلف چیزوں سے الرجی ہوتی ہے۔ بچوں کو جن چیزوں سے عام طور پر الرجی ہوتی ہے وہ بلی کے بال، دھول مٹی، زردانے، مچھر مارنے والے کوائل وغیرہ شامل ہیں۔ “Adulthood Onset-Asthma”، 20 سال کی عمر کے لوگوں میں دیکھنے میں آتا ہے اور عام طور پر خواتین میں زیادہ عام ہے۔ اس کی وجوہات بھی مختلف قسم کی الرجی ہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات کیمیکل اور بعض ادویات بھی اس قسم کے دمہ کی وجہ ہوسکتی ہیں۔ “Noctural Asthma” عام طور پر درمیانی رات سے شروع ہو کر تقریباً 8 بجے تک جاری رہتا ہے۔ یہ دھول، مٹی، بلی کے بال یا سانس کی بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مریض رات کے وقت خرخراہٹ یا سانس کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے اور تقریباً ساری رات ہی دمہ کی وجہ سے بے چین رہتا ہے خاص طور پر دو سے چار بجے کے دوران۔
وجوہات اور عوامل: ایک اندازے کے مطابق پوری دُنیا میں تقریباً 30 کروڑ لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ اس مرض کو پھیلانے والے عوامل میں ہوا، ماحولیاتی و فضائی آلودگی، دھواں، دھول مٹی، کاکروچ، زردانے، سرد ہوا، ایکسرسائز، پھیپھڑوں یا ہوا کی نالی کا انفیکشن، سگریٹ، یا مچھر مارنے والے کیمیکل کا دھواں، حیوانی فضلہ، پرفیوم، ایئر فریشنر، پینٹ، بعض ادویات، ڈپریشن اور ایسی غذا کا استعمال جن میں سیلفائیڈ موجود ہو شامل ہے۔
دمہ کا حملہ: دمہ کی وہ حالت جس میں مریض کی علامات بُری طرح بگڑ جاتی ہیں۔ یہ حملہ اچانک ہوتا ہے، اس کی شدت کم، درمیانی یا زیادہ ہوسکتی ہے۔ بعض دفعہ دمہ کے حملوں میں ہوا کی نالیاں پوری طرح بند ہوجاتی ہیں اور ہوا کی آمدورفت بالکل رک جاتی ہے جس کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار جسم میں بڑھ جاتی ہے اور آکسیجن کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔
تشخیص: دمہ کی تشخیص کے تین بنیادی طریقے ہیں:
میڈیکل ہسٹری: میڈیکل ہسٹری کے ذریعے دمے کی تشخیص، الرجی کی معلومات مثلاً ناک کا بہنا، سانس کا انفیکشن، نفسیاتی دباؤ وغیرہ کا پتا چلتا ہے۔
جسمانی معائنہ: طبی معائنے میں عام طور پر سانس کی نالی، سینے اور جلد کا معائنہ کیا جاتا ہے اس کے علاوہ ناک کا بہنا، ناک کی سوجن، جلد کی بیماری، ایگزیمہ وغیرہ جو دمہ سے تعلق رکھتی ہیں اس کا معائنہ کیا جاتا ہے۔
ٹیسٹ: دمہ کی تشخیص کے لئے لیور فنکشن ٹیسٹ، الرجی ٹیسٹ اور Spirometry ٹیسٹ تجویز کئے جاتے ہیں۔
میڈیکل سائنس، ہومیوپیتھی وغیرہ میں دمہ کے مختلف علاج رائج ہیں، جوکہ تجربہ کار ڈاکٹر مریض کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تجویز کرتا ہے لیکن اس مرض سے آگاہی اور ضروری احتیاط سے مرض کی شدت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
(ایکسپریس، 4 مئی)