ء 1857کی جنگِ آزادی میں ان گورکھا دستوں نے کمپنی کی فتح میں بڑا کردار ادا کیا
عبدالحمید
جون 1757ء کی جنگِ پلاسی کے نتیجے میں بنگال پر قبضے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کے اردگرد کے علاقوں میں پیش قدمی کرنی شروع کی۔ سکم، دارجلنگ اور ملحقہ علاقے نیپال کی عملداری میں تھے۔ انگریزوں نے متعدد چھوٹی بڑی لڑائیوں میں نیپالی فوج کو بہتر حکمتِ عملی سے مار بھگایا اور ان علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ 1816ء میں انگریزوں نے اپنے مقاصد حاصل ہوجانے کے بعد نیپال کے ساتھ سوگالی معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے مطابق انگریزوں نے نیپال کے مقبوضہ علاقوں کو اپنی عملداری میں شامل کرکے باقی نیپال کی ریاست کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرلیا تاکہ یہ خودمختار ریاست برٹش انڈیا اور چین کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ کا کام دے۔ وہ سارے علاقے جن کو نیپال سے ہتھیا کر انگریز عملداری میں شامل کیا گیا، انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھارتی ریاست کا حصہ بن گئے۔
نیپال ان علاقوں پر اپنا حقِ ملکیت جتاتا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ بھارت یہ علاقے نیپال کو واپس کرے۔ نیپال سے ہتھیائے گئے علاقوں میں بھی گورکھا قبیلے آباد ہیں جو بھارتی گورکھا کہلاتے ہیں۔ 1816ء کے سوگالی معاہدے کے بعد انگریزوں نے نیپال سے دوستی کرلی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے نیپالی گورکھا افراد کو بڑے پیمانے پر اپنے فوجی دستوں میں شامل کرنا شروع کردیا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی میں ان گورکھا دستوں نے کمپنی کی فتح میں بڑا کردار ادا کیا۔ میرٹھ اور دہلی میں آزادی کے متوالوں کو کچلنے کے لئے گورکھا دستوں کو بھی استعمال کیا گیا۔ ان دو شہروں میں تو قابو پا لیا گیا لیکن لکھنؤ میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔ لکھنؤ میں کمپنی افواج محاصرے میں تھیں اور کمپنی کی تمام چالیں ناکارہ ثابت ہورہی تھیں۔ ایسے میں نیپال کا حکمران اپنی 11 رجمنٹس گورکھا فوج لے کر انگریزوں کی مدد کے لئے خود آ گیا۔ یہ گورکھا بہت بہادری سے لڑے اور لکھنؤ کا میدان کمپنی کے ہاتھ رہا۔ 1857ء کے بعد ہندوستان براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت ہوگیا۔ انگریزوں نے گورکھا فوجیوں کی ریکروٹمنٹ جاری رکھی اور انہیں برٹش انڈین آرمی کا مستقل بازو بنا دیا۔
بھارتی پیدل فوج یعنی انفنٹری میں گورکھا رجمنٹس بھارتی انفنٹری کا سب سے بڑا حصہ ہیں جو سات گورکھا رجمنٹس پر مشتمل ہے۔ ان سات رجمنٹس میں 39 بٹالین ہیں۔ 39 بٹالین انفنٹری کے علاوہ ایک گورکھا آرٹلری رجمنٹ بھی ہے۔ اس طرح کل ملا کر 40 گورکھا بٹالین بھارتی فوج میں شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ گورکھا بہت اچھے لڑاکا ہیں۔ ان کا ڈسپلن بھی مثالی ہے اور یہ تنخواہ کے عوض اپنی جان کی بھی بازی لگا دیتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے ملک نیپال میں ان کے لئے ملازمت یا روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ 1947ء میں بھارت کی آزادی کے موقع پر ایک ٹرائی پار ٹائیٹ یعنی سہ فریقی معاہدہ ہوا جس میں نیپال کی حکومت، برطانوی حکومت اور حکومتِ ہند فریق تھے۔ اس معاہدے میں نیپال نے اس بات کا اقرار کیا کہ نیپالی گورکھا، برطانوی اور بھارتی افواج کا حصہ بنتے رہیں گے۔ اسی معاہدے کے مطابق برٹش آرمی کی گورکھا رجمنٹس کو اختیار دیا گیا کہ وہ چاہیں تو یو کے میں برطانوی افواج کا حصہ بنیں اور چاہیں تو بھارتی افواج کا حصہ بنیں۔ آزادی کے وقت 10 گورکھا رجمنٹس تھیں اور ہر رجمنٹ دو بٹالین پر مشتمل تھی۔ دس میں سے 4 گورکھا رجمنٹس نے برطانوی فوج کا حصہ بننے اور 6 رجمنٹس نے بھارتی افواج کا حصہ بننے کو ترجیح دی۔ برطانوی فوج میں شامل ہونے والے گورکھوں کو وہ تنخواہ اور مراعات نہ ملیں جو برطانوی شہریوں کو فوج میں ملازمت کرنے پر ملتی ہیں، اس لئے برطانوی گورکھا رجمنٹس میں ریکروٹمنٹ کم ہوتی چلی گئی اور اب دو بٹالین پر مشتمل صرف ایک گورکھا رجمنٹ برطانوی فوج کا حصہ ہے۔
2019ء تک گورکھا رجمنٹس بھارتی انفنٹری کا سب سے اہم حصہ تھیں۔ 2019ء کے آخر میں بھارتی افواج یعنی بری، بحری اور فضائی افواج میں نئی بھرتیاں بند کردی گئیں۔ کہا گیا کہ یہ کرونا وبا کے سرعت سے پھیلنے پر حفظِ ماتقدم کے طور پر کیا گیا ہے۔ 14 جولائی 2022ء کو بھارتی افواج میں بھرتی کے لئے ایک نئی اسکیم جسے ”اگنی پت“ کا نام دیا گیا، کی منظوری دی گئی اور اسے ستمبر 2022ء کو لاگو کردیا گیا۔ ”اگنی پت اسکیم“ کے مطابق کمیشنڈ آفیسرز سے نیچے تمام بھرتیاں صرف چار سال کے لئے ہوں گی اور بھرتی ہونے والے افراد اگنی وِیر کہلائیں گے۔ ان میں سے ہر ایک 6 مہینے کی ٹریننگ لے کر مزید ساڑھے تین سال سروس کرے گا۔ 4 سالہ سروس کے اختتام پر وہ فوج میں مستقل فوجی بننے کے لئے اپلائی کرسکے گا۔ ہر اگنی ویر کو یک مشت 11 لاکھ 70 ہزار ادا کئے جائیں گے، البتہ اسے پنشن یا دیگر مراعات نہیں ملیں گی۔ فوج میں بھرتی کے لئے عمر ساڑھے 17 سے 21 سال کے درمیان درکار ہوگی۔ اس طرح بھارتی فوج بہت جوان، تنومند، پھرتیلے اور جفا کش مرد و زن پر مشتمل ہوگی۔ بھارتی اپوزیشن کی جماعتوں نے اس اسکیم پر شدید تنقید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ابھی اس اسکیم کو ملتوی رکھا جائے اور اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے۔بھارتی فوج کے 50 سے 60 ہزار فوجی ہر سال ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ اس طرح پچھلے تین سال میں کوئی ڈیڑھ لاکھ افراد ریٹائر ہوچکے ہیں جن کی جگہ اگنی پت اسکیم کے تحت بھرتی ہونی ہے۔ بھارتی اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ صرف چار سال کے لئے بھرتی ہونے والے فوجیوں میں قوم کے لئے جان لڑانے کا جذبہ مفقود ہوگا اور فوج کا مورال گرے گا۔
”اگنی پت اسکیم“ کے لاگو ہوتے ہی بھارتی افواج کے لئے نیپالی گورکھا کی بھرتی ناممکن بن گئی ہے۔ بھارتی حکومت نے 1947ء کے سہ فریقی معاہدے کا سہارا لیتے ہوئے نیپالی حکومت سے بات چیت کی ہے۔ گفتگو کے کئی دور ہوئے جو تاحال ناکام رہے ہیں۔ نیپالی حکومت کا کہنا ہے کہ ”اگنی پت اسکیم“ 1947ء کے معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جو گورکھا جوان اس اسکیم کے تحت بھارتی گورکھا رجمنٹس کا حصہ بنیں گے اور صرف چار سالہ سروس کے بعد فارغ ہوجائیں گے وہ باقی ساری زندگی کس سہارے گزاریں گے۔ نیپال کی معیشت اس قابل نہیں کہ بھارتی افواج سے فارغ ہونے والوں کو روزگار دے سکے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو ابھی اوائل عمری میں ہوں گے۔ انہوں نے لڑائی کی بہترین تربیت حاصل کی ہوگی۔ ان کو ہر قسم کے جدید مہلک ہتھیار استعمال کرنے آتے ہوں گے۔ وہ بے روزگاری کی وجہ سے شرپسندوں کے ہاتھ چڑھ کر نیپالی ریاست کی سیکیورٹی کے لئے مسئلہ بن سکتے ہیں۔ نیپال نے ابھی ابھی ماؤ باغیوں سے جان چھڑائی ہے، ایسے میں وہ کوئی نیا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
نیپالی وزیرِاعظم کے پچھلے دنوں بھارت کے دورے میں بھارتی وزیرِاعظم نے انہیں اپنا فیصلہ واپس لینے کا کہا لیکن نیپالی وزیرِاعظم نے ہاں نہیں کی۔ گزشتہ تین سال میں 12، 13 ہزار گورکھا ریٹائر ہوئے ہیں۔ بھارتی گورکھا رجمنٹس کی نفری کم ہوچکی ہے۔ اگر جلدی تازہ بھرتی نہ ہوئی تو بھارتی افواج میں گورکھا رجمنٹس کو فعال رکھنا محال ہوجائے گا۔ اگنی پت اسکیم تمام بھارتیوں اور گورکھا قبائل پر یکساں لاگو کی گئی ہے۔ بھارتی حکومت نے اس تجویز کو رد کردیا کہ گورکھا کو اس اسکیم سے Exception دے دی جائے۔ کہا گیا کہ فوجی بھرتی کے لئے دہرا معیار نہیں اپنایا جا سکتا۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا گورکھا رجمنٹس بھارتی انفنٹری کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان رجمنٹس نے 4 بھارتی آرمی چیفس اور 2 چیف آف ڈیفنس اسٹاف پیدا کئے ہیں۔ فیلڈ مارشل مانک شا 12 ایف ایف کے تھے جنہیں 8th گورکھا رجمنٹ سے وابستہ کیا گیا۔ 26ویں بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ 5ویں گورکھا رجمنٹ سے تھے، جب کہ جنرل راوت اور موجودہ سی ڈی ایس جنرل انیل چوہان کا تعلق 11ویں گورکھا رجمنٹ سے ہے۔ گورکھا اور سکھ بھارتی آرمی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
بھارت سکھوں پر اب پورا اعتماد نہیں کرتا اور گورکھا دستیاب نہیں۔ گورکھا کی غیرموجودگی میں بہترین لڑاکا رجمنٹس کے لئے اپنے وجود کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ریاستِ پاکستان خاص طور پر پاکستانی افواج کو ان تمام ڈویلپمنٹ پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔