Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ء2025 تک الیکٹریکل وہیکلز کی بڑی تعداد روڈ ہر ہوگی

ای وی موٹر سائیکل 70 فیصد مہنگی یوں گی، حکومت 20 سالہ معاشی منصوبہ پیش کرے، 100 ارب ڈالر ایکسپورٹ کا ہدف پورا کرسکتی ہے، آئی ٹی، حلال میٹ، ٹیکسٹائل میں بڑے مواقع ہیں،
چیمبر آف کامرس کے سابق صدر عمر اشرف مغل کی نصرت مرزا کے ساتھ آر ایف آئی ڈیجیٹل ٹی وی پر گفتگو
نصرت مرزا: الیکٹریکل وہیکلز پر کیا کام ہورہا ہے؟
عمر اشرف مغل: ہمیں اس کے لئے چارجنگ نیٹ ورک قائم کرنا ہوگا جس میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر ضروری ہے، اس کی چارجنگ گھروں میں بھی کی جائے گی، الیکٹریکل وہیکلز پیٹرول، ڈیزل کے مقابلے میں 70 فیصد سستی پڑے گی، پاکستان میں موٹربائیکس پر کام ہورہا ہے، بہت جلدی ہماری وہیکلز ای وی ٹیکنالوجی پر آنے لگے گی۔
نصرت مرزا: مہنگی بجلی کے اس پر کیا منفی اثرات پڑیں گے؟
عمر اشرف مغل: بجلی مہنگی ہوتی جارہی ہے، اس کے باوجود یہ ٹیکنالوجی سستی پڑے گی اور قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری بھی ہوگی کہ اس پر کام کریں۔
نصرت مرزا: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن بھی ماحول دوست بجلی کی پیداوار پر کام کررہا ہے؟
عمر اشرف مغل: ای وی کے ساتھ سولر ٹیکنالوجی پر بھی کام ہورہا ہے، لوگ اپنے گھروں میں لگا رہے ہیں، اگرچہ وہ پینل بیٹری کو الیکٹرک سے بھی چارج کرتے ہیں، اس کے باوجود سولر پینل بھی بجلی حاصل کرنے کا سستا ذریعہ ہے۔
نصرت مرزا: الیکٹریکل وہیکلز کی قیمت کا تعین کیسے ہوگا، کیا یہ عام آدمی کی قوتِ خرید میں ہوگی؟
عمر اشرف مغل: ای وی میں کٹ اور بیٹری مہنگی ہوتی ہے، اگر ایک موٹرسائیکل کی قیمت اس وقت سوا لاکھ روپے ہے تو ای وی ٹیکنالوجی میں یہ تقریباً 2 لاکھ سے سوا دو لاکھ اور مختلف ویرنٹس میں 3 سے 4 لاکھ ہوگی۔ اس کی بیٹری کی ٹائپ کے حساب اور اس کی رینج کے مطابق ویلیو لگے گی کہ لیتھیم کی بیٹری ہے تو تھوڑی مہنگی ہوگی، یہ سب آئٹیمز امپورٹ ہوگا۔
نصرت مرزا: کیا پرانی ٹیکنالوجی کی موٹرسائیکل کارآمد نہیں رہیں گی؟
عمر اشرف مغل: نہیں ایک متوازی نظام چلتا رہے گا، فیول اور ای وی کی اپنی اپنی مارکیٹ ہے، دیہی علاقوں میں چارجنگ کا انفرااسٹرکچر بننا مشکل ہوگا تو وہاں آٹوموبل کی ڈیمانڈ رہے گی، اگر ہم لاہور سے اسلام آباد یا کراچی جارہے ہیں تو بیٹری کے چارجنگ کی ایک حد ہوتی ہے، ایک چارج پر 200 کلومیٹر چل رہی ہے تو اس کے بعد آگے کے سفر کے لئے اُسے چارج کرنا پڑے گا، پھر راستے میں رک کر چارج کررہے ہیں تو اس میں کتنا وقت لگے گا، یہ سب خاصا اہمیت کا حامل ہوگا، اسپیڈی چارجنگ کے اسٹیشنز بنانے ہوں گے۔
نصرت مرزا: 1300 سی سی سے 1600 سی سی کی ایک گاڑی کی بیٹری کتنی دیر میں چارج ہوسکے گی؟
عمر اشرف مغل: ای وی میں سی سی کے بجائے بیٹری اور موٹر کی پاور کے مطابق انجن کی صلاحیت بنتی ہے، اگر کار کی بیٹری کو گھر میں چارج کررہے ہیں تو 7 سے 8 گھنٹے درکار ہوتے ہیں، کمرشل چارجنگ اسٹیشنز پر 20 منٹ سے 75 منٹ میں چارج ہوجاتا ہے۔
نصرت مرزا: پاکستان میں ای وی ٹیکنالوجی کا انقلاب کب تک آجائے گا؟
عمر اشرف مغل: 2024ء تک ہمارے پاس تقریباً 10 سے 15 فیصد الیکٹریکل وہیکلز ہوسکتی ہیں، یہ بھی ہوجائے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔
نصرت مرزا: گاڑیوں کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوسکتا ہے؟
عمر اشرف مغل: اس کا انحصار ماڈل اور بیٹری پر ہوگا، چھوٹی سے چھوٹی گاڑی جو اس وقت پاکستان میں ای وی ٹیکنالوجی پر ہے، اس کی قیمت ایک سے سوا کروڑ تک ہے، مرسڈیز، OD اور دیگر برانڈ پر چلے جائیں تو وہ اور مہنگی ہوں گی، ہماری کوشش ہے کہ میڈیم رینج تک رکھا جائے، حکومت نے سہولیات دیں تو ملک میں ای وی کے پلانٹس لگنے لگیں گے، ہمارے ملک میں ہائی برڈ گاڑیوں پر کام ہورہا ہے، ہیول اور سازگار ہائی برڈ گاڑیاں بنا رہے ہیں، ٹویوٹا نے بھی پروجیکٹ شروع کردیا ہے۔
نصرت مرزا: پاکستان کی برآمدات اور درآمدات میں بہت بڑا فرق ہے، حکومت نے رواں سال 100 ارب ڈالر کا برآمدی ہدف رکھا ہے، کیا یہ پورا ہوسکے گا؟
عمر اشرف مغل: یہ ہدف حاصل ہوسکتا ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر تو 30 ارب ڈالر کا ہدف طے کرچکا ہے، رائس کا شعبہ 2 سے 3 ارب ڈالر کرتا ہے، وہ بھی 5 ارب ڈالر تک جاسکتا ہے، آٹوموبل اور انجینئرنگ انڈسٹری کو سہولت دی جائے تو وہ بھی اس میں بڑا حصہ ڈال سکتے ہیں، آئی ٹی سیکٹر میں ویلیو ایڈیڈ کے ذریعے بڑے مواقع ہیں، سعودی عرب کے آئل کی ایکسپورٹ 115 سے 120 ارب ڈالر ہے، بھارت کی صرف آئی ٹی کی ایکسپورٹ 1500 ارب ڈالر ہے، اس پر ہم توجہ دیں اور اپنے ماہرین کو سسٹم اور انفرااسٹرکچر فراہم کردیں، ان کی ادائیگی اور وصولی کے مسائل کو حل کردیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے، 100 ارب ڈالر کا ہدف اتنا مشکل نہیں ہے، آئی ٹی میں کام کرنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں تو بہت آگے جاسکتے ہیں۔
نصرت مرزا: پاکستان آگے جاتے جاتے اچانک پیچھے آنے لگتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
عمر اشرف مغل: پالیسی کا تسلسل ہو تو سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے، ایک حکومت تعمیرات کے شعبے کو اہمیت دیتی ہے، دوسری آنے والی حکومت رئیل اسٹیٹ کو مافیا سمجھنے لگتی ہے اس لئے کام خراب ہوتا ہے، سیاست اور ذاتی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر معاشی پالیسی کم از کم 15 سال کے لئے بنائیں اور اس پر سختی سے کاربند رہیں تو کامیاب ہوسکتے ہیں، حلال میٹ اور پولٹری پر توجہ دیں تو 100 ارب ڈالر کا ہدف اتنا زیادہ نہیں ہے، حلال میٹ کی عالمی مارکیٹ تقریباً 500 ارب ڈالر کی ہے جس میں ہمارا بہت معمولی حصہ ہے۔

مطلقہ خبریں