Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بین الاقوامی کانفرنس عالمی نظام میں تبدیلی کے دوران پاکستان روس تعلقات

اسٹرٹیجک ویژن انسٹی ٹیوٹ (ایس وی آئی) اسلام آباد میں لیفٹیننٹ جنرل (ر)خالد احمد قدوائی این آئی, ایچ آئ ایچ آئی(ایم) کا کلیدی خطاب

ڈاکٹر نعیم احمد سالک، ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسٹرٹیجک ویژن انسٹی ٹیوٹ (ایس وی آئی)، معزز مہمانوں اور روس کے ماہرین تعلیم، خواتین و حضرات، السلام علیکم اور صبح بخیر۔
سب سے پہلے میں اپنے روسی مہمانوں کا آج صبح ہمارے ساتھ ہونے پر پُرتپاک استقبال کرنا چاہوں گا۔ ہم شکرگزار ہیں کہ آپ نے پاکستان کے لئے اپنے انتہائی مصروف شیڈول سے وقت نکالا۔ آپ کی موجودگی سے ہمیں فخر ہے۔ مجھے امید ہے کہ دو روزہ کانفرنس میں شرکت کے سنجیدہ کام کے علاوہ SVI آپ کو پاکستان کے کچھ حصوں، پاکستانی ثقافت، پاکستانیوں میں زندگی کا ایک لمس، اور بہت سارے پاکستانیوں سے ملنے پاکستان کے کچھ علاقہ جات کو دیکھنے اور پاکستان کے کھانوں سے لطف اندوز ہونے کا کافی موقع فراہم کرے گا۔ مہمان نوازی اور کھانا پاکستان کا طرۂ امتیاز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پاکستان میں اپنے قیام کی خوشگوار یادیں اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔ اگر آپ بار بار آئیں تو ہم بار بار آمد پر آپ کا خیرمقدم کرتے رہیں گے۔ میں اس اہم کانفرنس کے انعقاد کے لئے اسٹرٹیجک وژن انسٹی ٹیوٹ کو بھی اپنی مخلصانہ تعریف و توصیف کے علاوہ مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا۔ اس کا نفرنس میں چار اعلیٰ درجہ کے روسی تھنک ٹینکس کی نمائندگی ہورہی ہے۔ ڈاکٹر نعیم احمد سالک کی شاندار قیادت میں، SVI نے پاکستان کے معروف تھنک ٹینکس میں سے ایک کے طور پر خود کو قائم کرنے میں ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ اس طرح کی مشترکہ تقریبات اور کانفرنسیں جن میں دونوں ممالک کے ماہرین اور اسکالرز شامل ہوں، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے لئے اچھی علامت ہیں اور باہمی دلچسپی اور دلچسپی کے مختلف امور پر ایک دوسرے کے نقطہئ نظر اور عالمی نقطہئ نظر کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملے گا۔ میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان اور روس کے ماہرین تعلیم اور دانشوروں کے درمیان یہ میل ملاپ دونوں اطراف کے دوروں کے تبادلے کا باعث بنے گا۔ کانفرنس کا تھیم یا موضوع ”پاکستان روس ریلیشنز امڈ ٹرانسفارمنگ گلوبل آرڈر کو تیز رفتاری سے بدلتے ہوئے اور اسی طرح تیز رفتاری سے تیار ہوتے عالمی نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے چنا گیا ہے۔ بڑے عالمی واقعات جیسے یوکرین اور فلسطین میں جاری جنگیں، Quad، BRICS، SCO اور AUKUS جیسی اہم تنظیموں کا ابھرنا، ڈالر کے استعمال میں کمی کی مہم، صدر شی جن پنگ اور صدر جوبائیڈن کی حالیہ ملاقات میں برف پگھلنا، صرف چند ایسے واقعات ہیں جو ابھرتی ہوئی عالمی ترتیب میں تبدیلی کے ایجنٹ بن رہے ہیں۔ دُنیا میں ہمارا خطہ جنوبی ایشیا، ان پیش رفتوں سے ہمیشہ متاثر ہوتا ہے، خاص طور پر جب سے صدر اوباما کی ایشیا کو محدود بنانے کی پالیسی نے جڑ پکڑی اور ہمارے خطے میں اسٹرٹیجک اثرات پیدا کرنا شروع کئے ہیں۔ اس سے پہلے بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے ساتھ تجارت پر آزادانہ تعلقات بڑھانے میں چھوٹ دینے کی امریکی پالیسیوں نے پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کو بڑھا دیا اور پاکستان کے اسٹرٹیجک ردعمل کے اختیارات پر دباؤ ڈالنا جاری رکھا۔
بدلتے ہوئے عالمی نظام کی اس بڑی تصویر میں پاکستان اور روس کے تعلقات کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ہمارے تعلقات نے اتار چڑھاؤ کے کی چکر دیکھے ہیں، حالانکہ میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت اور کچھ سالوں سے تعلقات پختہ ہوچکے ہیں اور ایک مثبت موڑ کے ساتھ محکم ترقی کی رفتار پر ہیں۔ اگرچہ یہ رشتہ ایک مثبت تعلق سے شروع ہوا لیکن پھر کہیں راستے میں، بدقسمتی سے یہ نیچے کی طرف ڈوب گیا۔ اس کی وجہ اس وقت کے موجود جغرافیائی سیاسی اور سلامتی کے ماحول اور بعض اوقات غلط فہمیاں رہی ہوں۔ تاہم 1965ء میں ایک نسبتاً اونچا مقام آیا جب اس وقت کی سوویت یونین نے 1965ء کی جنگ کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کی نگرانی کی، جس کے نتیجے میں تاشقند میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک قسم کا امن معاہدہ ہوا۔ اس کی وجہ سے اگلے چند سالوں تک تعلقات میں گرمجوشی دیکھنے میں آئی، یہاں تک کہ 1971ء میں پاکستان اور بھارت کی جنگ کے دوران اور اس سے پہلے کے درمیان تیز ہواؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم 1972ء میں پاکستانی حکومت نے ایک بار پھر تعلقات کو بحال کیا۔ اس دور کی علامت سوویت یونین کی طرف سے کراچی میں پاکستان اسٹیل مل کی تعمیر تھی، اور دفاع سمیت دیگر شعبوں میں بھی تعاون تھا۔ مجھے پیشہ ورانہ جوش و خروش یاد ہے جب میں 1973ء میں ایک نوجوان کپتان تھا، حال ہی میں ہندوستان میں 2 سال جنگی قیدی رہنے کے بعد وطن واپس آیا تھا، اور میری در رجمنٹ کا میڈیم توپ خانہ روسی 130 ایم ایم آرٹلری گن سے لیس تھا۔ یہ اس وقت پاکستان کی سب سے لمبی شوٹنگ آرٹلری گن تھی جس کی زیادہ سے زیادہ رینج تقریباً 30 کلومیٹر تھی، اور رجمنٹ کو اس حقیقت پر بہت فخر تھا۔ بندوق میں بڑے پیمانے پر کر از گن ٹاورز اور گاز جیپیں بھی شامل کی گئیں۔ سول سیکٹر میں اسکوڈا کار کافی مقبول ہوئی۔ یہ سب پاکستان اور روس کے مثبت تعلقات کی خوشگوار یادیں ہیں حالانکہ 1971ء کی جنگ میں یو ایس ایس آر نے ہندوستان کی حمایت کی تھی۔

یہ مثبت رجحانات ایک بار پھر افغانستان میں 1979ء سے 1989ء تک جاری رہنے والی دہائیوں کی جنگ سے متاثر ہوئے۔ افغان جنگ کے بعد کے اثرات نہ صرف سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں اندرونی عدم استحکام کی وجہ سے برقرار رہے۔ بلکہ پاکستان میں بھی افغان مہاجرین کی آمد کے اثرات کے ساتھ، منشیات اور ہتھیاروں کے عام استعمال سے متاثر ہوا۔ پاکستان آج بھی ان مسائل سے دوچار ہے۔
اس صدی کے آغاز میں پاکستان اور روس کے تعلقات نے ایک بار پھر مثبت رُخ اختیار کیا اور یہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری کا اب تک کا طویل ترین دور رہا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک میں اس مثبت موڑ پر آگے بڑھنے کی حقیقی خواہش ہے۔ اس کا زیادہ تر کریڈٹ یقیناً صدر ولادیمیر پیوٹن کو جاتا ہے کہ ان کی ذاتی دلچسپی اور پاکستان روس تعلقات کی بہتری کے لئے کردار ادا کیا۔ صدر پیوٹن کی نگرانی میں پاکستان، روسی اور چینی تعاون سے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا رکن بنا۔ پاکستان کی نظر میں یہ بھی تھا کہ پاکستان کو جب بھی غذائی عدم تحفظ کے دور میں گندم درآمد کرنے کی ضرورت پڑی تو روس سے فوری جواب ملا۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کو روس سے تیل کی دو کھیپیں موصول ہوئی ہیں اور ایسی مزید کھپوں کے معاہدے جاری ہیں۔ مستقبل قریب میں طے پانے والا اگلا اہم معاہدہ روس سے ایل پی جی کی خریداری کا ہوگا۔ دونوں فوجوں کے درمیان تعاون بھی بڑھ رہا ہے جب دونوں اطراف کے فوجی مشترکہ تربیتی مشقوں کے لئے ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کررہے ہیں۔ صرف 2021ء میں پاکستان کے 1600 فوجی اہلکاروں نے مختلف مشترکہ مشقوں میں شرکت کے لئے روس کا دورہ کیا۔ روس کے لئے بڑھتے ہوئے خیرسگالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کوئی ایسی خبریں نہیں چلاتا، دکھاتا یا چھاپتا ہے جس سے روس کو منفی روشنی میں پیش کیا جاسکے۔ روس یوکرین تنازع کے آغاز کے بعد سے پاکستان نے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود روس کے خلاف اقوام متحدہ کی کسی بھی قرارداد کے حق میں مخالف دباؤ کے باوجود ووٹ نہیں دیا۔ اقوام متحدہ کے ووٹنگ پیٹرن کا ریکارڈ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان ان سرفہرست ممالک میں شامل ہے جنہوں نے مختلف بین الاقوامی معاملات پر روس کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ ووٹ دیا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان سوچ اور پالیسیوں میں ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ مشاورتی عمل مسلسل اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے ساتھ مضبوطی سے جاری ہے۔ اسی طرح کی بات چیت بھی دونوں فوجوں کے درمیان باقاعدگی سے ہوتی رہتی ہے۔
پاکستان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ روس وسطی ایشیا میں سلامتی اور استحکام کی ذمہ داری لیتا ہے جو پاکستان کا قریبی پڑوسی ہے اور وسطی ایشیا میں استحکام وسیع تر علاقائی استحکام پر بھی مثبت اثر ڈالتا ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام کے اہم معاملے پر روس، پاکستان اور چین کے درمیان پالیسیوں میں بھی ہم آہنگی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے نفاذ کے پیش نظر، یوریشیائی خطے کے درمیان سڑک اور ریل نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان کو روس سے ملانے کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔ اس سے پورے خطے میں تجارت اور اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا، یوریشیائی خطے کی صلاحیت کے پیش نظر بین الاقوامی اقتصادی ترقی کے لئے ایک متحرک اقتصادی مرکز بن سکتا ہے۔ عالمی سطح پر روسی صدر پیوٹن نے اسلاموفوبیا کے خلاف دوٹوک موقف اختیار کیا اور اسکینڈے نیویا کے بعض ممالک میں مسلمانوں اور انسانیت کی فلاح کی حامل اللہ، کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات پر اسلام پر روسی صدر پیوٹن کے مثبت ردعمل کو پاکستانی دل کی گہرائیوں سے سراہتے ہیں۔ یہ بیان کرکے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی بھی کچھ ایسے شعبے ہیں جن پر مناسب توجہ نہیں دی گئی ہے اور انہیں تعلیم اور طلباء کے تبادلے کو شامل کرنے کے لئے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہورہی ہے کہ اس کانفرنس میں اسے مطلوبہ شعبہ جات کو اہمیت دی جارہی ہے جیسا کہ اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ اس مسئلے پر بحث کے لئے ایک پینل کو وقف کردیا گیا ہے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ ایسی کانفرنس، سیمینارز کی تعداد بڑھائی جائیں تاکہ باہمی ربط اور ایک دوسرے کے درمیان تبادلہ خیال ہوتا رہے۔ باہمی تعاون کے ساتھ تحقیقی منصوبوں کو فروغ دینے اور اسکالرز اور ماہرین کے درمیان بات چیت کو بڑھایا جاتا ہے، تاکہ زیادہ باہمی افہام و تفہیم کو فکری تعاون فراہم کیا جاسکے، جس کے نتیجے میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں مثبت کردار ادا کیا جائے گا۔
روس اور پاکستان کے سب سے قریبی اسٹرٹیجک پارٹنرز چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تزویراتی وابستگی بھی پاکستان میں مثبت جذبات پیدا کرتی ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ روس پاکستان کی خودمختاری اور اسٹرٹیجک خودمختاری کا احترام کرتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان ہمارے پڑوس میں کچھ ممالک کے ساتھ روس کے دیرینہ اسٹرٹیجک تعلقات سے کوئی خاص پریشان نہیں ہے۔ تاہم، ہم امید کرتے ہیں کہ روس ان ممالک کو اعلیٰ فوجی سازوسامان فراہم کرتے وقت پاکستان کی سلامتی اور علاقائی استحکام پر پڑنے والے ممکنہ اثرات پر بہت احتیاط سے غور کرے گا۔

مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہورہی ہے کہ اس کانفرنس میں جوہری توانائی اور جوہری خطرات کے وسیع تر پہلوؤں پر اس دو روزہ کانفرنس میں ایک ایک سیشن مقرر کیا گیا ہے۔ ایک کا عنوان ہے ”جوہری توانائی اور پائیدار ترقی۔ روسی اور پاکستانی تجربہ“ اور دوسرا ”تصادم میں اضافے کے وقت جوہری خطرات کو کم کرنا“ ہے۔ چونکہ میں پاکستان کے وسیع تر جوہری پروگرام سے وابستہ رہا ہوں، اس لئے میں دونوں موضوعات پر چند الفاظ کہنا چاہوں گا جو شاید پینل کے بحث و مباحثہ کے لئے پیش لفظ کے طور پر کام آئے۔ پاکستان کے لئے ابھرتے ہوئے چیلنجز کیا ہیں، خاص طور پر اس کے قومی سلامتی کے مفادات کے تناظر میں جن کا اندازہ اقتصادی لحاظ سے ہو جس میں پُرامن مقاصد کے لئے جوہری توانائی کی شراکت بھی شامل ہے، یا فوجی لحاظ سے اس کی صلاحیت ہو جس میں جوہری ہتھیاروں کو طاقت کے اظہار کے طور پر سامنے لائی گئی ہو، پاکستان کی یہ صلاحیت اسٹرٹیجک خوف (Strategic Detterrence) ایک آلہ کے طور پر سامنے ہے۔ پاکستان کے اسٹرٹیجک ماحول کی دو باتیں یہ ہیں: ایک یہ کہ پاکستان اپنے جغرافیائی اسٹرٹیجک محل وقوع کی وجہ سے ایک ممکنہ تجارتی اور محفوظ راستہ کے طور پر نسبتاً فائدہ مند پوزیشن کا حامل ہے اور دوسرا پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ہتھیاروں کی طاقت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اضافی خواہشات اور صلاحیتوں سے بھرپور پُرامن مقاصد کے حصول کے لئے بصیرت انگیز جوہری توانائی پروگرام موجود ہے۔ کسی ملک کی جوہری صلاحیتوں کے مختلف امکانات پر بحث کرتے ہوئے، میں اعتماد کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے لئے، خواہ اقتصادی لحاظ سے ہو یا سیکیورٹی کے لحاظ سے، دُنیا کی ساتویں جوہری طاقت کے طور پر جوہری صلاحیت کا حصول ایک بڑا اسٹرٹیجک فائدہ رہا ہے۔ اور سول اور ملٹری دونوں شعبوں میں پاکستان کے بہت سے خدشات کو دور کرنے کے لئے اچھی طرح سے کام کیا ہے۔
عسکری لحاظ سے پاکستان کی جوہری صلاحیت شک و شبہ سے بالاتر ثابت ہوئی ہے کہ وہ ڈیٹرنس یعنی خوف کے ذریعے سیکیورٹی فراہم کرنے اور پاکستان کی نسبتاً روایتی قوتوں کی عدم توازن یعنی اس کے دیرینہ مخالف کے مخمصے کو تسلی بخش طریقے سے طے کرنے کے لئے ایک قابل عمل اسٹرٹیجک حل ہے۔ اسے جوہری ہتھیاروں کی مضبوط صلاحیت کی وجہ سے فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کی پالیسی کے ذریعے بیان کیا گیا اور یوں پاکستان اپنے بڑے پڑوسی کی ممکنہ جارحیت سے محفوظ ہے۔ میں نے متعدد مواقع پر یہ بات کہی ہے اور اس بات پر زور دینے کے لئے دہرانا چاہوں گا کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت، عظیم توازن کے طور پر، جنوبی ایشیا میں امن کے نفاذ کا ایک آلہ ثابت ہوئی ہے۔ اس لئے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو امن کا ہتھیار قرار دیا جاسکتا ہے۔ تنازعات میں اضافے کے وقت جوہری خطرات کو کم کرنے کے موضوع پر اگلے اجلاس میں بحث کی جائے گی، تاہم جنوبی ایشیا میں تنازعات کی موجودگی میں جوہری خطرہ طویل عرصے سے پایا جاتا ہے، اس لئے تنازعات کے حل کے نظام کی عدم موجودگی کی صورت میں، غلط حساب کتاب، غلط فہمیوں یا غلط بات چیت کی وجہ سے جوہری خطرات میں کمی نہیں آسکتی۔
جنوبی ایشیا فروری 2019ء اور مارچ 2022ء میں دو جوہری خطرات سے دوچار ہوا۔ یہ دونوں خطرات بھارت کی طرف سے کئے گئے اقدامات کی وجہ سے ہوئے۔ جس نے انتہائی خطرے کی غیرذمہ دارانہ مہم جوئی کی۔ یہ صورتِ حال پاکستان اور بھارت کے درمیان خطرے کو کم کرنے کے لئے ایک پختہ اور ذمہ دارانہ طریقہ کار کی ضرورت کو اُجا گر کرتی ہے۔ یہ طریقہ کار جتنا جلد وضع ہوجائے اتنا ہی اچھا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کو کبھی بھی جوہری خطرات میں کمی کی بہت سی تجاویز دینے میں ناکام نہیں پایا گیا، ان تجاویز میں اچھی طرح سے تصور شدہ اور اچھی طرح سے بیان کردہ طویل عرصے سے اسٹرٹیجک تحمل عمل (Strategic Restraint) شامل ہے۔
میں اس موضوع کو یہاں چھوڑ دیتا ہوں۔ معاشی لحاظ سے، پاکستان کا سول نیوکلیئر انرجی پروگرام اپنے نیوکلیئر انرجی ویژن۔2050ء کے ساتھ ممکنہ طور پر ٹیک آف اسٹیج یعنی محو پرواز کی حالت میں ہے، جسے پاکستان کی نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے 2011ء میں مکمل طور پر منظور کیا ہے۔ یہ پروگرام 42000 میگاواٹ، تقریباً 10 کالا باغ ڈیموں کے مساوی، صاف، محفوظ اور نسبتاً سستی توانائی سے پاکستان کی اقتصادی ضروریات کے لئے کافی ہوسکتا ہے۔ اس پروگرام سے پورے ملک میں جوہری پاور پلانٹس کی ترتیب وار تنصیب کے ذریعے پوری طرح متوازن چاروں صوبوں کو توانائی فراہم کرے گا۔ نیوکلیئر انرجی ویژن۔ 2050ء کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ جوہری پاور پلانٹس کے پہلے چند جوڑوں کی تنصیب کے بعد بہت جلد یہ پروگرام اپنے لئے کمانے اور سیلف فنانسنگ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے تاکہ محدود سرکاری وسائل پر کوئی مالی بوجھ نہ پڑے، پاکستان کے سات نیوکلیئر پاور پلانٹس جن میں چشمہ میں چار اور کراچی میں تین نیوکلیئر پاور پلانٹس نیوکلیئر انرجی ویژن۔ 2050ء کا اہم حصہ ہیں اور یہ پاکستان کی محفوظ، صاف اور موثر آپریشنز کی صلاحیت کو ثابت کرنے میں بہت آگے جاچکے ہیں۔ چشمہ۔ 5 اگلی لائن میں ہے اور اسے مناسب حکومتی مدد ملنے پر، یہ پروگرام پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں بہت آگے جاسکتا ہے۔ پابندیوں اور پابندیوں کی عالمی سیاست نے کئی سالوں تک اس علاقے میں پاکستان کے منصوبوں کو 1- کینپ تک روکے رکھا، جب تک کہ چین جوہری توانائی کی ترقی میں پاکستان کا قابل اعتماد شراکت دار نہیں بن گیا۔ چشمہ میں چین کے تعاون سے 325 میگاواٹ کا پریشرائزڈ واٹر ری ایکٹر (پی ڈیبلو آر ) چشمہ۔ 1 قائم کیا گیا۔ چشمہ۔ 2، چشمہ۔ 3، چشمہ۔ 4، 2- کینپ اور 3- کینپ نے اسے مجموعی طور پر 3600 میگاواٹ بنایا۔ 2-کے اور 3-کے جدید جنریشن ||| پلانٹس ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا، چشمہ۔ 5 اگلی لائن میں ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کا سلگتا ہوا مسئلہ اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا خطرہ اب جوہری توانائی کے بچاؤ کے لئے سامنے آیا ہے جسے کچھ دہائیوں سے تھری مائکز آئی لینڈ (1979)، چرنوبل (1986)، اور فوکوشیما (2011) کے تین بڑے حادثات کی وجہ سے ایک ہائی رسک ٹیکنالوجی کے طور پر سمجھا جارہا تھا۔
پاکستان کا تجربہ اور اپنے جوہری پاور پلانٹس کو پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ چلانے کا صاف ستھرا ریکارڈ، آئی اے ای اے کے رہنما خطوط کے مطابق سختی سے عملدرآمد کے بعد یہ خواب دیکھنے کی اجازت دیتا ہے کہ پاکستان پُرامن مقاصد کے لئے جوہری توانائی کے قیام میں کامیاب ہوجائے گا، جو اس کیلئے بڑے فخر کی بات ہوگی اور دُینا بھر کیلئے مشعل راہ۔ اس تناظر میں اب یہ بات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ پاکستان نے پیشہ ورانہ طور پر مضبوط نیوکلیئر سیفٹی اور سیکیورٹی نظام قائم کرنے کیلئے سخت اقدامات کئے ہیں۔
میں نے جو کچھ کہا ہے اس کی روشنی میں، میں سمجھتا ہوں کہ دو روز کے لئے جوہری پہلوؤں پر دو سیشنز کے لئے منتخب کئے گئے موضوعات سب سے زیادہ مناسب، موزوں ہیں اور ان شعبوں میں روس اور پاکستان دونوں کے تجربات پر بات کرتے ہوئے بہت زیادہ دلچسپی پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ نامور شرکاء اور SVI کے زیراہتمام اس اہم کانفرنس کی کامیابی کے لئے میری نیک خواہشات۔ اور روس سے ہمارے مہمانوں کا ایک بار پھر پُرتپاک استقبال۔ خواتین و حضرات میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

٭٭٭

مطلقہ خبریں