ایک تعلیم یافتہ عورت اپنا مافی الضمیر آسانی سے دوسروں تک پہنچا سکتی ہے، اپنی رائے کا بہتر طریقے سے
اظہار کرسکتی ہے، ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے
ماہا سیف گجر
دینِ اسلام نے علم حاصل کرنے کا ناصرف حکم دیا بلکہ اس کی اہمیت و فضیلت کو بھی بہترین طریقے سے واضح کیا، حصولِ علم کو ایک مہتم اور بالشان عمل قرار دیا گیا اور اس میں مرد اور عورت کی تفریق و تخصیص نہیں، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ”اللہ ان لوگوں کو درجات میں بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا اور اللہ تعالیٰ اس سے جو تم کرتے ہو باخبر ہے“۔ تعلیم کے ذریعے ایک نسل اپنا تہذیبی اور تمدنی ورثہ دوسری نسل کو منتقل کرتی ہے، علم کا عمل تعلیم ہی سے مکمل ہوتا ہے۔ دینِ اسلام حصولِ عمل پر ہرممکن زور دیتا ہے۔
قرآن کریم میں تقریباً پانچ سو مقامات پر بلاواسطہ یا بالواسطہ حصولِ عمل کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ لہٰذا مرد کی طرح ہی عورت کے لئے بھی عمل کا حصول لازم ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ”پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا“۔ اسلام وہ واحد دین ہے جس نے عورتوں کو ان کے تمام حقوق دیئے، ان حقوق میں سے ایک عظیم حق تعلیم و تربیت کا ہے۔ اس کو لکھنے، پڑھنے اور تعلیم و تربیت دینے پر ابھارا اور اس کی اہمیت کو بھی واضح کیا۔ بقول الطاف حسین حالی ؎
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
کسی بھی معاشرے کی تعمیر و تخریب میں عورتوں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہیں اور باقی کے نصف حصے کی پیدائش و پرورش کی ذمہ دار بھی، اگر عورت تعلیم یافتہ ہو، اسلامی احکامات کا اسے علم ہو، توحید کو جانتی ہو، شرک کی قباحت کو اور اس کے چور دروازوں کو سمجھتی ہو تو پورا معاشرہ دین پر عمل درآمد ہوگا۔
اگر خواتین دینِ اسلام کے صحیح عقائد و اعمال سے آراستہ ہوں تو ہی وہ اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں سماج کی تعلیم و ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے اہم کردار ادا کرسکیں گی۔ حضرت انس بن مالکؓ کی والدہ ماجدہ حضرت ام سلیم رمیصاءؓ نے دینِ اسلام قبول کیا، ان کے شوہر کفر پر ہی تھے، ام سلیمؓ اپنے بچے کو توحید اور اسلام سکھانے لگیں، باپ نے کہا بچے کو خراب نہ کرو، جواب دیا میں اس کی اصلاح کر رہی ہوں، بالآخر ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ بعد میں حضرت طلحہؓ نے حضرت امِ سلیمؓ کو نکاح کا پیغام دیا، ام ِ سلیمؓ نے حضرت طلحہؓ سے کہا تم ایسے آدمی ہو جس کا رشتہ ٹھکرایا نہیں جاتا، لیکن تم کافر ہو اور میرے لئے مشرک سے نکاح کرنا جائز نہیں، اور تم غور نہیں کرتے کہ تم ایک پتھر کو پوجتے ہو جو نفع پہنچاتا ہے اور نہ نقصان، یا پھر لکڑی کو جسے بڑھئی تراشتا ہے، اگر تم اس میں آگ لگاؤ تو وہ جل جائے گا، کیا وہ تمہیں نقصان یا نفع پہنچا سکتا ہے؟ حضرت امِ سلیمؓ نے کہا کہ اگر تم ایمان لے آؤ تو یہی میرا مہر ہوگا۔
حضرت طلحہؓ جب لوٹے تو امِ سلیمؓ کی بات دل میں گھر کر گئی تھی، چنانچہ دوبارہ آئے اور دین اسلام کو دل و جاں سے قبول کرلیا، یہی ان کا مہر تھا، ثابت کہتے ہیں کہ میں نے آج تک ام سلیمؓ نے بہتر کسی عورت کا مہر نہیں سنا۔ ہر دور کی ضرورت ہے کہ خواتین کو دینِ اسلام کی تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کیا جائے، انہیں لکھنا اور پڑھنا سکھایا جائے، تعلیمی مجال میں ان پر خطیر رقم خرچ کی جائے اور ان کی تعلیم و تربیت، تشذیب و تہذیب کے لئے علیحدہ انتظام کیا جائے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ”اور کہو کہ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما“۔ ماں کی گود ہی وہ درس گاہ ہے جس سے کسی بھی قوم اور معاشرے کے عروج و زوال کا فیصلہ ہوتا ہے۔ جب تک سماج کی مائیں تعلیم کی روشنی سے بے بہرہ ہوں گی تب تک ان کی گود میں پلنے والی نسل کا مستقبل سیاہ رہے گا۔
نپولین بونا پارٹ کا قول ہے ”تم مجھے ایک تعلیم یافتہ ماں دو میں تمہیں ایک تعلیم یافتہ قوم دوں گا“۔ ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ مرد کی تعلیم فقط ایک فرد کی تعلیم ہے جبکہ عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے۔ عورت ہی ہے جو انسانی وجود کو سنوارنے میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ جب حضرت آدمؑ کو تخلیق کیا گیا تو انہوں نے جنت کی تمام نعمتوں کے باوجود بھی تنہائی اور کمی محسوس کی تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت حواؑ کو پیدا فرمایا۔ گویا عورت ہی کا وجود کائنات کی تکمیل کا باعث ہے۔ وجودِ زن کائنات کا جمال و شاہکار ہے، گردشِ لیل و نہار کا ایک حسین اور پُرکیف نغمہ ہے۔ اسی کے دم پر حیات قائم ہے، اس کے بغیر انسانی نسل کا استحکام اور نشوونما ناممکن عمل ہے۔
دینِ اسلام نے عورت کو مرد کے برابر مقام و مرتبہ عطا فرمایا، اس کا مقام اور حقوق متعین کئے، اسے انسان سمجھتے ہوئے عزت کے ساتھ جینے کا حق دیا۔ تاریخِ اسلام میں خواتین کی ہمت و جرأت تدبر و فراست سے بڑے بڑے انقلاب ظہور پذیر ہوئے۔ جیسے حضرت آسیہؓ نے حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھ کر اپنی آغوش میں پروان چڑھایا۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنی تمام دولت کو اسلام کے لئے وقف کردیا تھا، ایسے ہی بنتِ رسول حضرت فاطمہؓ نے اپنی آغوش میں حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ جیسی عظیم ہستیوں کو پروان چڑھایا۔ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت زینبؓ، ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جنہوں نے اپنے علم و دانش کی بدولت انسانیت کی فلاح کے لئے بے حساب خدمات انجام دیں۔ عالمِ اسلام کی جلیل القدر شخصیت حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی ماں کی تربیت کا اثر تھا کہ بچپن ہی میں آپؒ کے دستِ مبارک پر ڈاکوؤں نے توبہ کی۔
”اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہلِ علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں“ ایک تعلیم یافتہ عورت اپنا مافی الضمیر آسانی سے دوسروں تک پہنچا سکتی ہے، اپنی رائے کا بہتر طریقے سے اظہار کرسکتی ہے، ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ عورتوں کی تعلیم کا مقصد حصولِ ملازمت ہرگز نہیں، تعلیمِ نسواں کا بنیادی مقصد عورتوں میں قابلیت پیدا کرنا اور انہیں قابل بنانا ہے کہ وہ گھریلو زندگی کو صحیح خطوط پر استوار کرے۔ عورت کی اولین ذمہ داری اس کا گھر ہے، وہ ایک پڑھی لکھی ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ بہتر طریقے سے نبھا سکتی ہے۔ بقول شاعر ؎
وہ قوم کسی شان کی حقدار نہیں ہے
جس قوم کی عورت ابھی بیدار نہیں ہے