Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ستائیس فروری۔۔ عسکری تاریخ کا ایک روشن باب

دو بھارتی طیارے گرانے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کرنے پر آج کے دن کو آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے
ونگ کمانڈر (ر) محبوب حیدر سحاب
27 فروری 2019ء کو پاک فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کے دانت کھٹے کرکے ایسی دھول چٹائی تھی کہ وہ آنے والے کئی برسوں تک اپنے زخم چاٹتا رہے گا اور جب بھی 27 فروری آئے گا اُس کے زخم پھرسے ہرے ہوجائیں گے۔ پرچمِ ستارہ و ہلال کی سربلندی کے لئے پاک فضائیہ کے افتخارِ وطن شاہینوں نے اُس روز جس عزم عالی شان کا مظاہرہ کیا وہ داستانِ جرأت و شجاعت، تاریخِ اقوامِ عالم میں آبِ زر سے رقم کرنے کے قابل ہے۔
اُس عہد ِ وفا کی تجدید کرتے ہوئے، 30 دسمبر 2020ء کو پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرچیف مارشل مجاہد انور خان نے فرمایا ”پاک فضائیہ ہمہ وقت مادرِ ملت کی فضائی سرحدوں کے دفاع کے لئے تیار ہے۔ آج جے ایف 17 بی ماڈل کے ڈبل سیٹ 14 طیارے پاک فضائیہ میں شامل کئے جارہے ہیں اور آج ہی کے روز ہم جے ایف 17 بلاک 3 کی طرف بھی پیش رفت کررہے ہیں۔ ہم اس سنگِ میل کو عبور کرنے پر چین کے شکر گزار ہیں۔ جے ایف 17 تھنڈر نے 27 فروری 2019ء کے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ میں بھی بھارتی جارحیت کے خلاف اہم پلیٹ فارم کا کردار ادا کیا۔“ خبریں گرم تھیں کہ بھارت درپردہ پاکستانی سرحدی خلاف ورزی کا ڈرامہ رچانے کی تیاری کررہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل بابر افتخار نے بھارت کو متنبہہ کرتے ہوئے 3 دسمبر 2020ء کو کہا کہ ”بھارت کی طرف سے لاحق سیکیورٹی خطرات کے خلاف ہم نے مکمل تیاری کی ہوئی ہے۔“ اور اس سے قبل بھی ایک بار (13 اگست 2020ء کو) کہا کہ ”بھارت 5 کے بجائے اگر 500 رافیل طیارے بھی لے آئے تو ہم رات کی تاریکی میں کی جانے والی جارحیت کا جواب دن میں دینے کی ہمت و جرأت رکھتے ہیں۔“
بھارت نے 26 فروری 2019ء کو رات 3 بجے پاکستانی سالمیت کے خلاف شب خون مارا۔ ایئر ڈیفنس کے ریڈاروں پر بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو چار جگہوں پر دیکھا گیا۔ جنوب میں سرکریک کی جانب، رحیم یار خان کے علاقے میں، فاضلکہ سیکٹر میں اور شمال کی طرف بالا کوٹ آزاد کشمیر کے علاقے میں، آزاد کشمیر کے ایریا میں یہ کُل 20 طیارے تھے، جس میں 12 میراج 2000 لڑاکا طیارے اور 8 ایس یو 30 فائٹر طیارے شامل تھے، ایک درجن طیارے اندر کی طرف آئے اور اُن میں سے چار طیارے اپنا پے لوڈ گرا کر تیزی سے دُم دبا کر بھاگ گئے کیونکہ ان کی خبر لینے کے لئے پاک فضائیہ کے جہاز اُن کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔ مگر بھارتی فضائیہ کا رات کی تاریکی میں یہ بزدلانہ حملہ ”جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا“ کے مترادف رہا۔ کیونکہ اس حملے سے بنیادی ڈھانچے کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا اور نہ ہی کوئی شخص زخمی ہوا۔ انڈین ایئر مارشل آرجی کپور نے اْسی روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”بھارتی فضائیہ نے Surgical Strike کے طور پر بالا کوٹ میں جیشِ محمد کے دہشت گردوں کو تربیت دینے والے کیمپ کو تباہ کردیا۔ اس حملے میں منصوبے کے مطابق ہر چیز تباہ کردی گئی اور 300 سے زیادہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔“ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بے بنیاد خبر کی سختی سے تردید کی اور واضح کیا کہ کچھ بھارتی طیاروں نے بالاکوٹ کے علاقے پر حملہ ضرور کیا لیکن جب پاک فضائیہ کے طیارے مقابلے کے لئے فضا میں بلند ہوئے توبھارتی طیارے تیزی سے واپس جاتے ہوئے اپنے پے لوڈ جنگل میں پھینک کر فرار ہوگئے۔ وہاں کسی بھی قسم کا دہشت گردی کا کیمپ نہیں تھا لیکن اب پاکستان جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
پاک فضائیہ کے ڈپٹی چیف آف ایئر اسٹاف (آپریشن) ایئر کموڈور حسیب پراچہ نے کیا خوب کہا کہ ”پاک فضائیہ کی ہائی کمانڈ کے لئے بھارتی فضائیہ کا حملہ کسی بھی طرح ناگہانی نہیں تھا۔ بلکہ 2018ء سے اس کی توقع کررہے تھے اور ہم نے ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی کی صورت میں جوابی کارروائی کی مکمل اور بھرپور تیار کی ہوئی تھی لہٰذا اپنے منصوبے پر عمل درآمد کے لئے صرف وقت کا تعین کیا۔ دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا تھا لیکن ہم نے پسند کیا کہ دن کی روشنی میں اْسے تارے دکھائے جائیں۔ دشمن نے پاکستان کے سول علاقے کو نشانہ بنایا۔ لیکن ہماری قیادت نے بھارتی سور ماؤں کے ملٹری ٹارگٹس کا انتخاب کیا۔ کیونکہ یہ عدو کی ملٹری قیادت تھی جس نے پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو چیلنج کیا تھا۔ انتہائی احتیاط کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں 6نشانے چْنے گئے جو گیریژن علاقوں کے ڈپو وغیرہ تھے 27 فروری 2019ء کو صبح 9 بجے سورج کی چمکتی ہوئی سنہری روشنی میں ہمارے کچھ جے ایف تھنڈر طیارے، چند میراج طیارے اور ایئر بورن ارلی وارننگ طیارے صاب (ERIEYE) 2000 بردوشِ ہوا ہوگئے۔ پاک فضائیہ کے تمام ہوا باز اپنے سروں پر کفن باندھے محوِ پرواز تھے کیونکہ اُن کی نظر میں وطن کی حفاظت و حرمت سے بڑھ کر اور کوئی متاعِ حیات نہ تھی۔ ان تمام طیاروں کے ریڈار کنٹرولر گروپ کیپٹن الیاس تھے۔ جو سرحد پار کی صورتِ حال سے مسلسل آگاہ کررہے تھے۔ عمومی طور پر اس انتہائی خفیہ مشن میں نظم و نسق کے لحاظ سے خاموشی تھی۔ مگر جوں جوں لائن آف کنٹرول قریب آرہی تھی، سرحدی سرگرمیوں میں تیزی سے مسلسل اضافہ ہورہا تھا، ادھر ہمارے ہوا بازوں کی تیزی سے چلتی ہوئی انگلیاں، بڑی سرعت کے ساتھ کاک پٹ میں مختلف میٹرز اور آلات سے محوِ گفتگو تھیں۔ شاہینوں کی ہنر مندی اور خوداعتمادی بول بول کر، لڑاکا طیاروں کی برق رفتاری سے داد وصول کررہی تھی۔ ہمارے شاہینوں نے بڑے اعتماد سے اپنی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے، مقبوضہ کشمیر میں 6 ٹارگٹس کو لاک کیا جو سب کے سب ملٹری ٹارگٹس تھے اور ثبوت کے طور پر اُن کی ویڈیو بھی بنائی جو بعد میں چیدہ چیدہ غیر ملکی مبصروں اور صحافیوں کو بھی دکھائی گئی جب ٹارگٹس کو لاک کرکے فائٹر طیارہ اپنا ہتھیار اُس کی طرف لانچ کرتا ہے تو پھر طیارے ہی کے ذریعے اُسے ٹریک اور گائیڈ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے مطلوبہ ہدف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنا سکے اور تمام اہم اُمور صرف 15 سے 20 سیکنڈ میں مکمل کرنا اشد ضروری ہے۔ دشمن کا کسی بھی قسم کا جانی نقصان مقصود نہیں تھا صرف متنبہہ کرنا ضروری تھا، اس لئے منصوبے کے مطابق تمام ہتھیاروں کو اصلی ملٹری ہدف سے تقریباً ایک ہزار گز دْور گرایا گیا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے میراج III اور V سے NESCOM H-4/2 ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا، جن کی رینج 60- 120کلومیٹر ہے۔ جنہیں پاکستان خود تیار کرہا ہے۔ ایک ہتھیار H-4/2 کی قیمت تقریباً 70 سے 80 لاکھ پاکستانی روپے ہے۔ جبکہ بھارتی فضائیہ نے اسرائیل سے حاصل کئے ہوئے پینٹریڑ بم Spice-3 2000 استعمال کئے اُس ایک بم کی قیمت تقریباً پاکستانی 9 کروڑ روپے ہے۔ یعنی دشمن 36 کروڑ روپے کا اسلحہ ضائع کرکے بھی اپنا مقصد حاصل نہ کرسکا۔ جبکہ پاک فضائیہ نے بھارت کے مقابلے میں آٹھ گنا سے بھی کم خرچے میں دشمن کی صفوں پر لرزہ طاری کردیا اور عملی طور پر ثابت کر دکھایا کہ پاکستان اپنے دفاع کی مکمل قوت و صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن وہ جنگ کے بجائے امن کا خواہاں ہے۔ ہتھیاروں کو اپنے ہدف تک گائیڈ اور ٹریک کرنے کے اہم امور گروپ کیپٹن فہیم احمد خان سرانجام دے رہے تھے۔ پاکستانی ہوا بازوں کی کارروائی سے دشمن کی صفوں میں ایسا لرزہ طاری ہوا کہ پریشانی کے عالم میں، دشمن نے اپنا ہی MI-17 ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ اتنے میں ہمارے ہوا بازوں نے اپنے جہازوں کے ریڈار پر دیکھا کہ اُن کے مقابلے کے لئے بھارتی فضائیہ کے چار چار جہازوں کی فارمیشن میں کافی طیارے آرہے ہیں۔ ریڈار گراؤنڈ کنٹرولر اور (AEW&C) پلیٹ فارم بھی اس امر کی تصدیق کررہا تھا۔ فوراً ہی ہمارے شاہبازوں کی عقابی نگاہوں نے اپنے اپنے طیاروں کی شناختی لائبریری سے یہ اندازاہ کرلیا کہ اْن میں سے کچھ مگ۔21، کچھ میراج 2000 اور کچھ SU-30 ہیں۔ ہمارے فائٹرز کے مقابلے میں یہ تعداد چار گنا زیادہ تھی۔ اس نازک موقع پر وطن کے سرمایہئ افتخار شاہینوں نے کمالِ مہارت اور ہنر مندی سے کرگسوں کا مقابلہ شروع کردیا۔ یہ رزمِ گاہ جو آزاد کشمیر کے راجوڑی سیکٹر میں سجی ہوئی تھی اور اہم فضائی حربی معرکہ

۔ مدِمقابل آنے والے بڑی تیاری سے آئے تھے اور دشمن کے اکثر طیارے BVR میزائلوں سے لیس تھے۔ بی یونڈ ویڑوئیل رینج میزائل وہ ہوتے ہیں جو عمومی حدِ نگاہ سے بھی آگے یعنی 15 سے 75 کلو میٹر تک اپنے طیاروں کی مخصوص خوبیوں اور صلاحیتوں کے مطابق ہدف کو شکار کرسکیں۔ اس لئے ونگ کمانڈر نعمان نے اپنے ٹیم ممبر سے کہا کہ جو طیارہ سرحد پار کرکے ہمارے ملک کے لئے خطرہ بنے اْسے فوراً نشانہ بنایا جائے۔ اس دوران پاک فضائیہ کے (EW) پلیٹ فارم نے دشمن کے جہازوں کے ریڈار اور آر ٹی کو جیم (Jam) کرنا شروع کردیا۔ جس سے اُن کی پریشانی میں حد درجہ اضافہ ہوگیا اور اب انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور انہوں نے اس گھمبیر صورتِ حال میں کیا کرنا ہے۔ اتنے میں فارمیشن لیڈر ونگ کماندڑ نعمان نے اپنے نپے تُلے الفاظ میں کہا کہ میں سرحد سے اندر آجانے والے (Mig-21) کا شکار کرتا ہوں اور (NO-3) جوکہ اسکواڈرن لیڈر حسن صدیقی تھے، سے کہا کہ تم دوسرے سرحد کی خلاف ورزی کرنے والے SU-30 کو ہدف بناؤ کیونکہ ان دونوں طیاروں کے تیور خطرناک نظر آرہے تھے۔ اسکوادڑن لیڈر حسن صدیقی نے جن کا فائٹر فلائنگ تجربہ تقریباً 2500 گھنٹے کا تھا، کمال پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے SU-30 کو تاک کر ایسا میزائل مارا کہ وہ قلابازیاں کھاتا ہوا زمین بوس ہوگیا لیکن میزائل کا شکار ہونے کے بعد اُس کا منہ مقبوضہ کشمیر کی طرف پھر گیا اس لئے اُس کا ملبہ سرحد سے دوسری طرف گرا۔ ونگ کمانڈر نعمان جن کا فائٹر جہاز اڑانے کا تجربہ تقریباً 3000 گھنٹے تھا، انتہائی سرعت کے ساتھ مگ 21 کو لاک کیا اور ساتھ ہی میزائل داغ دیا جو ٹھیک نشانے پر لگا۔ زمین سے لوگوں نے دیکھا کہ مگ 21 شعلوں میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا ہے اور ساتھ ہی اْس کے پائلٹ نے جہاز سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی اور جہاز کا ملبہ سرحد سے اس طرف گرا۔ پائلٹ بھی ملبے کے بالکل قریب گرا۔ اُس نے اپنے ریوالور سے فائر کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی مگر مجروح جذبات، ناراض کشمیریوں نے اُسے پکڑ کر مارنا شروع کردیا۔ بہت جلد ہی پاک آرمی کے ایک کیپٹن نے اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچ کر اْسے مشتعل ہجوم سے چھڑایا اور اپنی یونٹ میں لے آئے۔ جہاں عمدہ چائے سے اُس کی تواضع کی گئی جسے سراہتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے قیدی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن نے یادگار فقرا کہا “Tea is fantastic”، وزیرِاعظم پاکستان کی ہدایت کے مطابق ابھینندن کو یکم مارچ 2019ء کو رہا کردیا گیا تاکہ اقوامِ عالم میں بھارت کو احساس ہوسکے کہ پاکستان خطے میں جنگ نہیں، بلکہ امن کا خواہاں ہے۔ اس موقع پر انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی نے یہ کہہ کر اپنی جھینپ مٹانے کی کوشش کی کہ اگر ہمارے پاس رافیل ہوتے تو نتائج مختلف ہوتے۔
27 فروری 2019ء کے یادگار فضائی حربی معرکے میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ہمارے ہوا باز اگر چاہتے تو دشمن کے تین سے چار جہاز مزید بھی گرا سکتے تھے مگر عدو کو سبق سکھانا مقصود تھا کہ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے لہٰذا دونوں ممالک کی سیاسی لیڈر شپ کو مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کا حل تلاش کرنا چاہئے کیونکہ جنگوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔
ونگ کمانڈر نعمان علی خان کو یومِ آزادی پاکستان 14 اگست 2019ء کے پُرمسرت موقع پر صدرِ پاکستان کی طرف سے 27 فروری 2019ء کو بہترین فضائی معرکہ لڑنے پرستارۂ جرأت سے نوازا گیا، گروپ کیپٹن فہیم احمد خان اور اسکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی کو بھی اس معرکے میں شاندار کارکردگی دکھانے پر تمغہئ جرأت سے نواز گیا۔
افلاک پہ گونجا ہے مرا نعرۂ تکبیر
محفوظ فضا میں ہے مری حرب کی تصویر

مطلقہ خبریں