Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

علمی و تاریخی گفتگو میں سربستہ رازوں سے پردہ اٹھایا گیا

میں نے ایک ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں ہم میزوں یا کرسیوں کے بجائے بیٹھنے کے لئے ”ٹاٹ“ کا استعمال کرتے تھے، مجھے 9 ماہ کے کورس کے لئے میجر کے طور پر امریکا بھیجا گیا، جہاں سے میں آنرز گریجویٹ کے طور پر واپس آیا، اس وقت بلوچستان کی 60 فیصد آبادی پٹھانوں پر مشتمل ہے، آج پورے بلوچستان میں صرف شمالی بلوچستان، جسے پہلے برٹش بلوچستان کہا جاتا تھا، نسبتاً زیادہ بارشیں ہوتی ہیں، تربت اور مکران کے افراد کی پاک بحریہ میں شمولیت کی بنیادی وجہ جغرافیائی ہے، ان کے لئے کوئٹہ جانے کے مقابلے میں کراچی آنا بہت آسان ہے، کوئٹہ پہنچنے میں دو دن لگتے ہیں جبکہ کراچی پہنچنے میں ایک یا ڈیڑھ دن لگتا ہے، اس وقت فوج میں بلوچستان نوشکی سے تعلق رکھنے والا ایک بریگیڈیئرآفیسر بھی اچھی اور اہم جگہ پر تعینات ہے، فوج میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افسران چاہے وہ بلوچ ہوں یا پٹھان، انہیں بلوچستان سے ہی تصور کیا جاتا ہے، پاکستان کی سرحدوں کا جائزہ لیا جائے تو ایران یا چین کے ساتھ پاکستان کا کوئی مسئلہ نہیں البتہ تنازع کا بنیادی ذریعہ بھارت کے ساتھ ہے اور افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈلائن کے حوالے سے تنازع ہے، اسرائیل صرف فلسطین نہیں بلکہ ایران اور پھر پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے
بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک (بی ٹی ٹی این) کے سربراہ بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل کا
چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل (آر ایف آئی) نصرت مرزا کے ساتھ آر ایف آئی ڈیجیٹل ٹی وی کو انٹرویو

زاویہئ نگاہ کے اس شمارے میں بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل صاحب کا انٹرویو پیش کیا جارہا ہے۔ بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل صاحب کو پاکستان بالخصوص بلوچستان کے امور پر ایک ممتاز اتھارٹی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ یہ علمی و تاریخی گفتگو ناصرف یہ کہ ماضی میں نہ سنی ہوگی بلکہ یہ سربستہ رازوں سے پردہ اٹھائے گی بلکہ بلوچستان اور پاکستان کی تاریخ میں ہمارے قارئین کی دلچسپی کو بھی جنم دے گی۔
نصرت مرزا: بریگیڈیئر صاحب، آپ جیسے قابل ذکر شخصیت کی موجودگی میں ہمیں یقین ہے کہ اگر آپ کی دانشمندی کو بروئے کار لایا جائے تو ہم قائداعظم اور برصغیر کے مسلمانوں کے تصور کردہ بصیرت کی بلندیوں پر سرفراز کرکے پاکستان کو قائداعظم کے پاکستان کی طرف گامزن ہو کر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ میں آپ کو اپنے ادارے میں خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ اپنا قیمتی وقت ہمارے ساتھ بیش بہا گفتگو کے لئے تشریف لائے۔ انٹرویو کے آغاز میں ہی میری گزارش ہوگی کہ آپ براہِ کرم اپنی ابتدائی زندگی، تعلیم اور آپ کی عملی زندگی کو متاثر کرنے والے قابل ذکر عوامل پر روشنی ڈالیں؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: شکریہ نصرت صاحب، آپ نے میرے بارے میں جو الفاظ ادا کئے اس پر میں آپ کا شکریہ ادا کرتاہوں۔ پہلے میں اپنے تعلیمی سفر کے کچھ پہلوؤں کے بارے میں بتانا چاہوں گا۔ میں نے ایک ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں ہم میزوں یا کرسیوں کے بجائے بیٹھنے کے لئے ”ٹاٹ“ کا استعمال کرتے تھے، اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز میں نے کوئٹہ سے کیا جبکہ پانچویں جماعت ژوب میں مکمل کی، اس کے بعد میرا تعلیمی سفر سبی اور پھر زیارت میں جاری رہا جہاں اس وقت ہیڈکوارٹر واقع تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیارت میں صرف ایک کلاس روم تھا، جس میں چھٹی سے دسویں جماعت کے لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی جگہ پڑھتے تھے۔ بعد میں، میں نے کالج میں داخلہ لیا، ابتدا میں مجھے یہ علم نہیں تھا کہ پورے بلوچستان میں یہ واحد کالج ہے، جو 1948ء میں قائم ہوا تھا۔ میرے بچپن میں، برٹش بلوچستان، جسے اب شمالی بلوچستان کہا جاتا ہے، میں صرف 9 اسکولز تھے اور کالجوں کی بہت زیادہ کمی تھی۔ میں نے بی ایس سی کوئٹہ کالج سے کیا، جو اس وقت واحد کالج تھا اور پھر فوج میں شمولیت اختیار کی۔ فوج میں شمولیت کا جذبہ اس خیال سے تھا کہ وہاں پڑھائی کم ہوگی، اس کے علاوہ 1965ء کی جنگ کے پس منظر اور میڈم نورجہاں کے گیتوں سے پیدا ہونے والے جوش نے بہت سے لوگوں کو فوج میں شامل ہونے کی ترغیب دی، جن میں میرا بھی شمار کرلیں، تاہم فوج میں پڑھائی کے حوالے سے جو میرا تاثر تھا، اصل تجربہ اس سے مختلف ثابت ہوا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ فوج کے تعلیمی نظام نے تعلیم کے حوالے سے میرا نقطہئ نظر ہی بدل دیا۔ جب میں نے فوج میں شمولیت اختیار کی تو مطالعہ کی ضرورت اتنی شدید محسوس کی کہ اس نے مجھے کالج میں جو کچھ پڑھا تھا اس کی قدر پر سوالیہ نشان اٹھانے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد کالج میں جو پڑھا تھا وہ ایک طرح سے صرف وقت کا زیاں ہی لگا، تاریخ کے لئے میرا جنون فوجی ماحول میں پروان چڑھا، جہاں باقاعدگی سے امتحانات لئے جاتے تھے، ایک بندوقچی کے طور پر، مجھے بندوق سے متعلق مخصوص تجربات سے گزرنا پڑا۔ ایک امتحان میں صرف سات کپتانوں کو منتخب کیا گیا تھا اور میں نے ناکامی کے خوف سے اتنا زیادہ مطالعہ کیا کہ ٹیسٹ میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اس تجربے نے میرے اس تصور کو توڑ ہی دیا کہ فوج میں زیادہ نہیں پڑھنا ہوتا۔ ایک سال بعد، میں نے ایک اور انٹرویو دیا اور اس کے نتیجے میں، مجھے 9 ماہ کے کورس کے لئے میجر کے طور پر امریکا بھیجا گیا، جہاں سے میں آنرز گریجویٹ کے طور پر واپس آیا۔ اس کے بعد، میں نے اسٹاف کالج کے لئے ایک امتحان میں حصہ لیا، جہاں میں ٹاپ پانچ یا چھ میں شامل ہوا۔ پھر، میں اسٹاف کالج کوئٹہ میں استاد/لیکچرار بھرتی ہوا۔ یہ کالج انگریزوں نے 1907ء میں بنایا تھا، مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میں اس ادارے میں بلوچستان کا پہلا استاد تھا۔ اس کے بعد میں نیشنل ڈیفنس کالج میں بطور استاد تعینات ہوا اور وہاں تقریباً دو سال خدمات انجام دیں، پھر دو تین سال دوسری جگہ کام کرنے کے بعد مجھے جوائنٹ سروسز اسٹاف کالج کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ اب، میں سمجھتا ہوں کہ پڑھنے لکھنے کی کہانی یہیں ختم ہوجانی چاہئے تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جب میں ریٹائرڈ ہوا تو اس وقت کے گورنر ایم آر اویس غنی نے تجویز دی کہ یونیورسٹی آف بلوچستان ٹھیک سے کام نہیں کررہی، لہٰذا مجھے اس کا چارج لینا چاہئے۔ میں ایک شرط پر کام کرنے کے لئے راضی ہوا اور وہ یہ کہ کوئی میرے کام میں مداخلت نہیں کرے گا، کوئی بھی مجھے یہ حکم نہیں دے گا کہ کیا کرنا ہے یا کیسے کرنا ہے، میں میرٹ کی بنیاد پر کام کروں گا۔ ان دنوں یونیورسٹی کا چارج لینا ایک بہت بڑا چیلنج تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے دو سالوں میں ایک بھی ہڑتال نہیں ہوئی۔ ایک سال کے اندر، یونیورسٹی کی رینکنگ پاکستان کی 52 پبلک یونیورسٹیوں میں سے 38ویں سے 11ویں نمبر پر آگئی۔ اس کے بعد، میں نے فیصلہ کیا کہ میں مزید نوکری نہیں کروں گا کیونکہ سول نوکری اور آرمی کی نوکری میں بڑا فرق ہوتا ہے، فوج میں تو ہم اپنے سینئرز کو دلائل سے قائل کر لیتے تھے لیکن سویلین ملازمت میں ایسا نہیں تھا، سول نوکری میں جب اعلیٰ افسران کی طرف سے غیرمناسب مطالبات کا سامنا کرنا پڑتا تو میں یہ کہہ کر انکار کردیتا کہ یہ قواعد کے خلاف ہے، اس کے جواب میں ان کے جوابات بڑے ”معصومانہ“ ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ قوانین انسانوں نے بنائے ہیں اور پھر مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ میں ایک نیا اصول بھی تو بنا سکتا ہوں۔ نتیجتاً، میں نے خود کو سویلین ملازمت کے لئے غیرموزوں سمجھا۔ اس کے بعد، میں نے اس وقت کے گورنر کی جانب سے پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کے عہدے کے لئے کافی پیشکشیں ملنے کے باوجود اسے قبول کرنے سے گریز کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی صاحب، جو 45 سال سے میرے دوست ہیں اور ہم اب تک اس دوستی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، ہمارے یہاں یعنی فوج میں کہا جاتا ہے کہ 45 سے 50 دوست بنانا کوئی بڑا چیلنج نہیں لیکن 45 سے 50 سال تک ایک دوستی کو برقرار رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ خیر، جنوری 2021ء میں، لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی صاحب نے مجھ سے استفسار کیا کہ کیا بلوچستان میں کوئی تھنک ٹینک کام کررہا ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا، پھر انہوں نے بلوچستان میں ایک تھنک ٹینک کی ضرورت تجویز کی، جس سے میں نے اتفاق کیا جس پر انہوں نے مجھ سے ایک کانسیپٹ پیپر (تھنک ٹینک کے تصور) تیار کرنے کو کہا، جو میں نے کیا۔ کچھ ترامیم کے بعد، انہوں نے کانسیپٹ پیپر کی منظوری دی اور مجھے بلوچستان میں تھنک ٹینک قائم کرنے اور چلانے کا کہا۔ جس پر میں نے معذرت کرتے ہوئے ان سے کہا کہ میری تو ایک ٹانگ قبر میں ہے لہٰذا مجھے معاف کیا جائے مگر وہ نہ مانے اور کہا کہ آپ اپنی ٹانگ قبر سے نکال کر کام شروع کریں۔ اس وقت ہمارے ایک سابق ساتھی جناب فرخ بازئی، بی یو آئی ٹی یونیورسٹی بلوچستان کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ میں نے نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے تھنک ٹینک کے قیام کے ارادے کے بارے میں ان سے رابطہ کیا اور دریافت کیا کہ وہ کیا مدد دے سکتے ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ مجھے جو بھی مدد درکار ہو وہ فراہم کرسکتے ہیں۔ بازئی صاحب نے مجھے مختلف جگہیں دکھائیں۔ پہلی ہی جگہ کا معائنہ کرنے پر، میں نے اسے نہایت موزوں جانا کیونکہ یہ جگہ دو بڑے ہالوں پر مشتمل تھی، جہاں بعد میں ہم نے طریقے سے تھنک ٹینک قائم کیا، اس عمل میں تقریباً تین سے چار مہینے لگے اور پھر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی صاحب کی قیادت میں ایک اعلیٰ وفد آیا اور میں نے اپنی ٹیم کو اکٹھا کیا۔ ہم نے 100 فیصد میرٹ کی بنیاد پر پہلی ٹیم کا انتخاب کیا۔ ہم نے پہلے تقریباً 32 افراد کو شارٹ لسٹ کیا تھا، جن کے ہم نے صبح انٹرویوز شروع کئے اور میں اپنی ٹیم کی تعریف کرتا ہوں۔ اگرچہ وہ سب مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے لیکن شام تک بڑی لگن سے بیٹھے رہے، جب ہم نے انٹرویوز ختم کئے تو اندھیرا ہورہا تھا، ان ممبرز میں سے زیادہ تر اب بھی کام کررہے ہیں، جوکہ ایک کامیاب انتخاب کی نشانی ہے۔ پہلا کام جو ہمیں ملا وہ افغانستان کی صورت حال پر ایک مقالہ لکھنا تھا، کیونکہ افغانستان میں طالبان اقتدار سنبھالنے والے تھے، ہم سے تجویز لی گئی کہ پاکستان کو کیا کرنا چاہئے؟ میں نے جنرل خالد قدوائی سے کہا کہ محترم بھائی، حالات اتنے مشکل ہیں کہ افغانستان میں تین مہینوں میں ہونے والے واقعات کی پیشینگوئی کرنا اور ہماری حکومت کے لئے اقدامات کی سفارش کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے جواب دیا، ”یہ آپ کی پہلی اسائنمنٹ ہے،“ تو مجھے راضی ہونا پڑا۔ ہم نے اپنی 23 افراد کی ٹیم کو اکٹھا کیا، جس میں، میں خود بھی شامل ہوں، کیونکہ میں ان کا صدر نہیں بلکہ ان کا ساتھی ہوں۔ ہم نے کام شروع کیا اور ایک ماہ کی درخواست کی۔ ایک ماہ کے بعد جب میں نے مقالہ پیش کیا تو پالیسی کے آخری صفحات پر ہم نے یہ بات لکھی کہ ہم نے جو سفارشات پیش کی ہیں ان پر تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے تین ماہ بعد نظرثانی کی ضرورت ہوگی۔ تقریباً چار سے پانچ مہینے پہلے، جرمن سفیر نے بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک (بی ٹی ٹی این) کا دورہ کیا اور میں نے انہیں وہی پالیسی پیپر پیش کیا۔ میں نے اسے مطلع کیا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ ہم نے صرف تین ماہ کے لئے جن پالیسیوں کی ضمانت دی تھی ان میں سے 70 فیصد کافی مدت کے بعد بھی درست رہیں۔ اس کامیابی کے بعد مجھے اور میری ٹیم کو حکومت پاکستان کو قابل عمل سفارشات دینے پر بہت خوشی تھی اورحکومت پاکستان نے مجوزہ پالیسیوں میں سے تقریباً 70 فیصد پر عملدرآمد بھی کیا۔
نصرت مرزا: بریگیڈیئر صاحب، آپ نے امریکا بھیجے جانے کا ذکر کیا، یہ بتائے کہ جب آپ وہاں تربیت کیلئے تھے تو کیا انہوں نے آپ کو پھنسانے کی کوئی کوشش کی؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل
ہاں انہوں نے بالکل کی، میں آپ کو مختصراً بتاتا ہوں، امریکا کا ایک ”معصومانہ“ طریقہ تھا جیسا کہ وہ ہمیں کلب میں لے جاتے تھے، شام کو کچھ حضرات شراب پی رہے ہوتے تھے، انہوں نے شراب پیتے ہوئے ان کی تصویریں بھی کھینچی ہوں گی لیکن میں نے کہا کہ میں خود کو مسلمان سمجھتا ہوں اس لئے میں شراب اور سور کے گوشت سے پرہیز کروں گا، اس وقت ملک میں جنرل ضیاء الحق کا دور تھا، میں اس تربیتی کورس میں واحد پاکستانی تھا، باقی 67 دوسرے ممالک کے لوگ تھے، تو وہ ہمیں لے جاتے اور شراب پینے کا موقع دیتے، ایک دن ان کے ایک نمائندے نے کہا، ”آپ نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے اور ہمارے ایک سینئر ہیں جو تشریف لا رہے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“ میں اس آدمی سے ملاقات میں پانچ یا چھ منٹ کے بعد جب اس نے مجھ سے سوالات کئے تو میں نے کہا، ”رکو، کیا تم سی آئی اے سے ہو؟“ وہ چونک گیا، اس نے نہیں سوچا تھا کہ میں اتنی جلدی سمجھ جاؤں گا، پھر اس نے مجھ سے کہا، ”میں نے کچھ عرصہ سی آئی اے میں کام کیا، اب میں کاروبار کررہا ہوں اور میں تم سے کاروبار کے لئے سوالات پوچھ رہا ہوں۔ میں نے جواب دیا، ”دیکھو، میں 10 سال کی سروس کے ساتھ میجر ہوں اور میری مہارت کا تعلق جنگ سے ہے، کاروبار کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو؟“ انہوں نے کہا کہ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کیونکہ پاک فوج کا ایک افسر سب کچھ جانتا ہے، اب دیکھو، تمہارا صدر (ضیاء الحق) سپاہی تھا اور اب سویلین ہے۔“ میں نے کہا، ”نہیں، مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں۔ پھر اس نے کہا، ”ٹھیک ہے، ہم ایک اسشین کرنے جارہے ہیں جہاں ہماری کمپنی سے نامور لوگ آئیں گے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ آپ ویک اینڈ ہمارے ساتھ ہیوسٹن میں گزاریں۔“ پھر میرے تمام (الارم) بلب سرخ ہوگئے۔ میں نے کہا، ”میرا یہاں امتحان ہے، میں تمہارے ساتھ نہیں آسکتا۔“ مرزا صاحب، وہ مجھے اس طرح قائل کررہے تھے کہ آخر میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم امتحان کی فکر میں ہو، ٹھیک ہے ہم آپ کو ہفتہ کو لے جائیں گے، ایک خصوصی جیٹ آئے گا اور آپ کو یہاں سے لے جائے گا اور تم اتوار کی رات واپس آجانا۔ اب کچھ گھنٹیاں جو میرے دماغ میں نہیں بج رہی تھیں وہ بھی بجنے لگیں، یہ بالکل واضح تھا کہ وہ مجھے ایسی جگہ لے جانا چاہتے ہیں جہاں وہ مجھ سے سمجھوتہ کرسکیں، پھر میں نے بریگیڈیئر محمود کو فون کیا، وہ میری ملٹری اکیڈمی میں بھی میرے ساتھ تھے، میں نے انہیں ساری صورتِ حال سے آگاہ کیا، میں نے کہا، ”میں آپ کو سرکاری طور پر صورتِ حال کی اطلاع دے رہا ہوں۔“ انہوں نے کہا، ”یہ ٹھیک ہے آپ بہت محتاط ہیں اور آپ کو محتاط رہنا چاہئے۔“ لہٰذا میں محتاط ہی رہا، میں جانتا تھا کہ اگر میں نے کچھ کمزوری دکھائی تو وہ یا تو سمجھوتہ کرنے والی تصاویر کھینچیں گے یا میری سمجھوتہ کرنے والی صورتِ حال کو ریکارڈ کریں گے اور مجھے کسی اسٹیج پر بلیک میل کریں گے تو ہاں، انہوں نے مجھے پھنسانے کی کوشش کی۔

نصرت مرزا: اچھا، بریگیڈیئر صاحب، اب آتے ہیں بلوچستان کی طرف، سوال یہ ہے کہ بلوچستان ایک بڑا صوبہ ہے جس میں معدنیات بہت زیادہ ہیں، آبادی کم اور رقبہ بڑا ہے، پھر بھی بلوچستان پسماندہ کیوں ہے؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: یہ ایک بہت ہی رومانوی بیان ہے کہ بلوچستان معدنیات سے بھرپور صوبہ ہے۔ دیکھیں بلوچستان میں، پہلی چیز جسے آپ واقعی قیمتی اثاثہ کہہ سکتے ہیں وہ ڈیرہ بگٹی کے علاقے سے قدرتی گیس، میتھین تھی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ایک بہت بڑا، اثاثہ تھا، لیکن جب معدنیات باہر آتی ہیں تو وہ فوری طور پر کمرشل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، ان سے کمانے میں وقت لگتا ہے۔ سوئی گیس دراصل برما شیل نے دریافت کی تھی۔ بلوچستان میں لوگ اکثر کہتے ہیں کہ انہیں ان کی اپنی گیس نہیں دی گئی۔ اگر آپ کے پاس ادائیگی کے لئے رقم نہیں ہے یا اگر آپ چوری کرتے ہیں، جیسا کہ اب ہورہا ہے، تو بالآخر تمام علاقوں میں اس کی فراہمی کو یقینی بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔ جب میں SSGC میں تھا تو جنرل پرویز مشرف نے کہا، ”ان سے کہو کہ گیس چوری نہ کریں، ہم انہیں مفت دیں گے۔“ میں بگٹی صاحب سے بھی ملا۔ اللہ انہیں جنت میں جگہ دے اور میں نے ان سے کہا کہ جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ انہیں مفت گیس دیں گے۔ بگٹی صاحب نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ گیس چوری ہوئی ہے یا نہیں لیکن لوگوں کو مفت گیس دینا اچھی بات ہے۔ اس وقت، کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کا نام بہت مشہور تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ کارپوریشنوں کی معاشرے کو ادائیگی کی ذمہ داری تھی، لیکن 1952ء، 1962ء یا 1972ء میں یہ سرمایہ داری کا تصور نہیں تھا، سرمایہ داری کا اصول تھا کہ آپ پیسہ کمائیں، لیکن آپ اسے کیسے بناتے ہیں یہ سرمایہ داری کا مسئلہ نہیں ہے، تاہم یہ حکومت کے لئے تشویش کا باعث ضرور ہے۔ اس وقت، جب میں ایس ایس جی سی میں تھا، کوئی 16 سے 17 سال پہلے، صرف 15 فیصد گیس رہ گئی تھی، باقی تمام گیس سندھ سے آرہی تھی۔ پورے پاکستان میں گیس کی فراہمی کے تین ذرائع ہیں: بلوچستان، سندھ اور کوہاٹ میں بھی تھوڑا سا ہے جبکہ پنجاب میں گیس نہیں ہے۔ ہاں، ہم اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے LNG درآمد کرتے ہیں۔ باقی رہی بات سیندک اور ریکوڈک کی۔ ویسے یہ کہنا پھر بہت رومانوی بات ہے کہ ہر جگہ تانبے، سونے یا چاندی کے پتھر زمین پر پڑے ہیں۔ میں نے سیندک کی کان دیکھی ہے، یہ ایک کھلی کان ہے۔ یہ عمودی طور پر نیچے جارہی ہے، آسٹریلیا میں بھی ایسی کانیں موجود ہیں، اسے نکالنا، پھر اسے صاف کرنا، پھر اسے فروخت کرنے کے قابل بنانا، ان سب کے لئے بہت زیادہ رقم کی ضرورت ہے۔ میں وہاں 1999ء میں گیا تھا جب میں واپڈا بھی چلا رہا تھا۔ جنرل مشرف نے چین سے کہا کہ وہ اسے چلائے اور پاکستان کو 400 ڈالر سالانہ دے کیونکہ یہ بند تھا۔ چین نے اسے سنبھال لیا اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ اب کتنی رقم ادا کررہے ہیں۔ دراصل، تانبا نظر نہیں آتا اور عام آنکھ سے، یہ صرف ریت یا پتھر کی طرح لگتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ سیندک کوئٹہ سے مغرب کی طرف تقریباً 410 میل دور ہے، وہاں پینے کا پانی نہیں ہے، پانی بھی نیچے، ایران یا میر جاوا سے لانا پڑتا ہے، ایران وہاں سے 30 یا 35 میل دور ہے۔ آپ کو مزدوری بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔ اوور ہیڈز اتنے ہیں کہ لوگ صرف کہتے ہیں کہ تانبا نکلا ہے لیکن اوپر والے کہتے ہیں کہ تھوڑا سا تانبا نکلا ہے۔ اب ہم ریکوڈک کی طرف آتے ہیں، جہاں لوگ سونے اور تانبے کی موجودگی کا جشن منا رہے تھے۔ میں نے پہلے بھی اس کا ذکر کیا تھا اور میں اب بھی کہتا ہوں کہ جب لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچستان معدنیات سے مالا مال ہے، تو حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس پر غور کریں: آٹھ افریقی ممالک ہیں جو فرانس کے زیراثر رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں، ہیرے نکالے جاتے ہیں اور دیگر مقامات پر، سونا اور یورینیم بھی پائے جاتے ہیں، اگرچہ صرف کچی دھاتوں میں۔ ہیرے، جوکہ پتھر ہیں، سب کے سب تطہیر کو جاتے ہیں اور بیلجیئم میں تطہیر کے بعد، جن پتھروں کی ابتدائی قیمت بہت کم ہوتی ہے، وہ لاکھوں ڈالر میں فروخت ہوتے ہیں۔ کیا کوئی ان افریقی ممالک میں سے کسی ایک کی نشاندہی کرسکتا ہے اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ صرف اپنے معدنی وسائل کی وجہ سے دولت مند ہے؟ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ قومیں تجارت کے ذریعے حقیقی معنوں میں ترقی کرسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جنوبی افریقہ جنگی سامان کی تیاری میں ملوث ہے، جو اس کی دولت میں اضافے میں حصہ ڈال رہا ہے، تاہم پورے براعظم افریقہ میں غربت برقرار ہے، 56 ممالک اور 1.3 بلین کی آبادی کے ساتھ افریقہ کو بڑے پیمانے پر غربت کا سامنا ہے۔ اب بلوچستان کی باقی ماندہ معدنیات پر بات کرتے ہیں۔ ان میں کرومائٹ کی کانیں ہیں، جن کی اوسط پیداوار 25 فیصد کرومائٹ اور 75 فیصد مٹی اور بجری ہے۔ ترکی میں کرومائٹ معدنیات میں 72 سے 80 فیصد کرومائٹ مواد موجود ہے۔ مجھے اس بات پر زور دینا چاہئے کہ میں نے ذاتی طور پر تھوڑی دیر کے لئے اس کی کوشش کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس سے بہت زیادہ خطرہ ہے، کیونکہ مارکیٹ کسی بھی وقت کریش ہوسکتی ہے۔ پیسہ کمانے کے بجائے، غریب ہونے کی زیادہ توقع ہے۔ یہ خطرہ کسی مخصوص علاقے کے لئے منفرد نہیں ہے۔ آپ کو پوری دنیا میں چھوٹے معدنیات مل سکتے ہیں۔ بلوچستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ البتہ یہ ہمیں اس سوال کی طرف لے جاتا ہے، یہ قومی سطح پر تجارتی لحاظ سے کتنا قابل عمل ہے۔

نصرت مرزا: بریگیڈیئر صاحب، کیا آپ اس بارے میں اپنا نقطہئ نظر بتا سکتے ہیں کہ کیا بلوچستان کے لوگ، اپنی موجودہ ذہنی حالت میں، کمرشلائزیشن کے لئے تیار ہیں؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: میں بلوچستان کی تعریف کرتے ہوئے شروع کرتا ہوں۔ تاریخ کے طالب علم کے طور پر میں بلوچستان کے چار الگ الگ علاقوں کو جانتا ہوں۔ ان میں سے ایک وہ بلوچستان ہے جسے تاریخی طور پر بلوچستان کہا جاتا ہے۔ 326 قبل مسیح میں جب سکندراعظم وہاں سے گزرا تو اس نے اس کا نام رکھا جندوریشیا، ایک نام جو 326 سے 1730 تک قائم رہا۔ بعد میں، بلوچ مصر اور شام سے ہجرت کرکے آگئے۔ میرے کچھ بلوچ دوست دلیل دیتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اس خطے میں موجود رہے ہیں۔ میں ان کے دعوؤں اور انگریزوں کے لکھے ہوئے تاریخی بیانات کے درمیان تضاد پر سوال اٹھاتے ہوئے اس کا مقابلہ کرتا ہوں۔ میں برطانوی ریکارڈ پر خاصا بھروسہ رکھتا ہوں کیونکہ وہ تاریخ کے غیرجانبدارانہ اکاؤنٹس فراہم کرنے کے پابند حکمران تھے، ان ریکارڈوں کے مطابق پہلے بلوچ، بلوچیوں کے دادا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایران میں آباد ہوئے، اس کے بعد مکران کی طرف ہجرت کی اور پانچ سو سال تک مشکل حالات کو برداشت کیا، آج بھی مکران میں میٹھے پانی کی کمی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے زندہ رہے اور پھیلے؟ اس کا جواب نہ ان کے پاس ہے اور نہ ہی میرے پاس۔ البتہ میرا خیال ہے کہ وہ ممکنہ طور پر مکران میں ہی نہیں رہے۔ اگر آپ لفظ ”مکران“ پر غور فرمائیں تو یہ ”ماہی خوران“ یا ”مچھلی کھانے والے“ سے ماخوذ ہے۔ جیوانی، گوادر (مشرق میں 90 میل)، پسنی (مشرق میں 100 میل)، اورماڑہ (مشرق میں 150 میل) اور اورماڑہ سے آگے سومیانی تک کا علاقہ مچھلی کے استعمال پر انحصار کرتا رہا، جس کی وجہ سے اس خطے کا نام ماہی خوران رکھا گیا، جو بعد میں مکران میں تبدیل ہوا۔ میرا خیال ہے کہ بلوچوں نے صرف مکران کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ چنگیز خان کے حملوں کے دوران دوراندیشی رکھنے والوں نے بلوچستان میں رہنے کا انتخاب نہیں کیا۔ اس کے بجائے، وہ پنجاب یا سندھ چلے گئے جہاں پانی دستیاب تھا۔ میرے محدود مطالعے کی بنیاد پر، سرگودھا سے ساہیوال تک ایک لکیر کھینچنا اور جنوب کی طرف بڑھنا بحیرہ عرب کے ساتھ بلوچ بستیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ممتاز بلوچ شخصیات جن میں زرداری صاحب اور ہمارے سابقہ وزیراعظم بھی شامل ہیں، ان کا سلسلہ نسب اسی خطے سے ملتا ہے۔ یہ پہلے بلوچستان کی نمائندگی کرتا ہے۔ میں نے پہلے ذکر کیا تھا کہ 1730ء میں اس بلوچستان کو فتح کرنا وسیع غربت کی وجہ سے غیرضروری تھا، جو منظم شہروں کے بجائے خانہ بدوشوں جیسی چھوٹی بکھری بستیوں کے طور پر ظاہر ہوتا تھا۔ 1729ء میں نادر شاہ کی دہلی پر فتح کے بعد، 1739ء میں، یہ پورا خطہ رنگیلا کے نام سے مشہور محمد شاہ کے زیرتسلط آگیا۔ نادر کی فوج میں ایک اہم جنرل احمد شاہ ابدالی تھا۔ ابدالی نے بعد میں اپنے آپ کو شاہ دوراں کا خطاب دیا اور احمد ابدالی سے وہ احمد شاہ درانی بن گیا۔ 1739ء میں، نادر شاہ کی موت پر، احمد ابدالی نے ایران سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ مشرقی اور شمالی علاقہ جات بشمول دریائے آمو اور بحیرہ عرب جو پہلے کاچار صاحب کی حکومت میں تھے، اس کے زیرتسلط آگئے۔ 1738ء میں نادر شاہ کی موت سے پہلے، اس نے بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی، سیستان بلوچستان (مغربی) اور قلاتی بلوچستان (مشرقی)۔ قلات، جو ابتدائی طور پر ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ میر ناصر جوکہ ایک براہوی تھے ان کو خان آف قلات مقرر کیا گیا۔ اب میری گزارش ہے کہ لفظ ”خان“ نہ بلوچی لفظ ہے اور نہ براہوی لفظ ہے۔ پھر، یہ کہاں سے آیا؟ ”خان“ عام طور پر پٹھان، ترک، ترک منگول یا چینی استعمال کرتے ہیں، جو اسے ”خاقان“ کہتے ہیں۔ یہ علاقہ ان کی سلطنت میں تھا اور انہوں نے میرناصر کو ہدایت کی کہ وہ ہمارے نام پر حکومت کریں۔ اب دو بلوچستان ہیں، ایک سیستان بلوچستان اور ایک قلاتی بلوچستان۔ بلوچستان کا کچھ علاقہ سیستان کہلایا وہ ایران کے پاس چلا گیا تھا۔ انگریزوں نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے دریافت کیا کہ روس کے زار کا کیا منصوبہ تھا؟ پتہ چلا کہ زار کا خیال یہ تھا کہ وہ یورپ میں انگریزوں کو شکست نہیں دے سکتے کیونکہ ان کی دولت کا ایک بڑا حصہ ہندوستان سے آتا تھا، یہ بات 1828ء سے 1830ء کے آس پاس کی ہے، انگریزوں کی صفوں میں صرف 6,000 سفید فام تھے، باقیوں کی اکثریت مقامی تھی، جب ان کو معلوم ہوا کہ روس اپنی فوج کو اکٹھا کرکے ہندوستان پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کا مقصد ہندوستان کو فتح کرنا، جو اپنی دولتمندی کا دعویٰ کرتا تھا اور اس طرح برطانیہ کو یورپ میں روس کے ساتھ مزید تنازعات میں ملوث ہونے سے روکنا تھا، اس انٹیلی جنس تصدیق کے بعد، انگریزوں نے ایک ٹیم بولان پاس کے رستے سے روانہ کی، جسے اب کوئٹہ کہا جاتا ہے جبکہ پہلے شالکوٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پشاور کی طرف ایک اور فورس بھیجی گئی۔ اس دور میں پشاور پر رنجیت سنگھ کی حکومت تھی۔ انگریزوں نے رنجیت سنگھ کو بتایا کہ ان کا مقصد صرف اور صرف وہاں سے گزرنا ہے اور تنازع میں شامل نہیں ہونا ہے۔ رنجیت سنگھ کا راج دریائے سندھ سے لے کر دریائے بیاس تک، شمالی ملتان کے جنوب سے جمرود کے شمال تک پھیلا ہوا تھا اور اس کا بڑا مقصد افغانستان کو فتح کرنا تھا، بشمول ہری پور، ایک ایسا قصبہ جسے آپ چھوٹا سمجھ سکتے ہیں، تاہم انگریزوں نے اس علاقے میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا، کابل میں دونوں اطراف کی افواج کی آمد پر، ان کا سامنا کمزور اور غیرتیار افغان افواج سے ہوا، جس کے نتیجے میں افغانستان پر برطانوی فتح ہوئی، اس کے بعد ان کا خیال تھا کہ روسی افغانستان واپس نہیں آئیں گے اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو برطانیہ نے مداخلت کرنے کا وعدہ کیا۔ طویل کہانی کو مختصر کرتے ہوئے، 1879ء میں جب کابل میں روسی سفارت خانہ کھلا تو وائسرائے نے کابل کو روسی سفارت خانہ بند کرنے اور ایک برطانوی سفارت خانہ کھولنے کی ہدایت کی۔ ہمارے پٹھان بھائیوں نے سخت جواب دیا اور اس پیغام کی بے عزتی بھی کی۔ نتیجتاً وائسرائے نے افغانستان کو کامیابی سے فتح کرتے ہوئے افواج کو کابل ایک بار پھر بھیج دیا، اس دوران وہ کابل میں ہی رہے اور پیچھے نہیں ہٹے۔ اس کے بعد انہوں نے ہندوکش کے جنوب میں ”کاکڑ خراسان“ کے مقام پر اپنی سرحد قائم کی تاکہ گزرگاہوں سے روسی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکے۔ 1893ء میں افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈلائن کو دونوں ریاستوں کے درمیان سرحد کے طور پر دستخط کیا۔ ڈیورنڈ کی اصطلاح اس لئے استعمال کی جاتی ہے کیونکہ یہ لکیر انگریز سفارت کار مورٹیمر ڈیورنڈ نے کھینچی تھی۔
نصرت مرزا: بریگیڈیئر صاحب، آپ نے بڑ ی تفصیل سے اس پورے خطے کی تاریخ کو بیان کیا، اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ سرحدی انتظام ایران، تاجکستان اور آذربائیجان تک بھی پھیلا ہوا تھا؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: یہ واقعی ایک دلچسپ بیانیہ ہے اور میں آپ کے مناسب اور بروقت سوال کی تعریف کرتا ہوں، 1830ء میں برطانیہ نے روس کے زار کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس میں انہوں نے روس کے لئے افغانستان سے بالائی علاقہ خالی کرنے پر رضامندی ظاہر کی، اس شرط کے ساتھ کہ روس جوابی حملوں سے باز رہے گا۔ زار نے یہ شرط قبول کر لی اور اس کے نتیجے میں معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ 1880ء میں انگریزوں نے چار وسطی ایشیائی ریاستوں کرغزستان، ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کی سرحدیں بھی کھینچی۔ ایرانیوں نے بھی اس وقت برطانوی تجویز کردہ سرحد پر اتفاق کیا، ایران کے ساتھ قلاتی بلوچستان کی سرحدیں 1864ء میں قائم ہوئیں اور ایوب کے دور میں معمولی ایڈجسٹمنٹ کے بعد سرحدوں کو حتمی شکل دی گئی۔ اس وقت جب پاکستان کی سرحدوں کا جائزہ لیا جائے تو ایران یا چین کے ساتھ پاکستان کا کوئی مسئلہ نہیں۔ البتہ تنازع کا بنیادی ذریعہ بھارت کے ساتھ ہے اور افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈلائن کے حوالے سے تنازع ہے۔ مختلف سیمیناروں میں، میں نے ان کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ اگر وہ ڈیورنڈلائن کو مسترد کرتے ہیں تو کیوں نہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مطالبہ کریں کہ وہ پورا ملک ان کے حوالے کردیں، اس تاریخی دلیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ان کے آباؤاجداد یعنی احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان کو فتح کیا تھا؟ اگر مودی راضی ہوجائیں تو ہم بھی خوشی سے افغانستان کا حصہ بن جائیں گے، تاہم اگر آپ صرف پاکستان کے مغربی حصے کو اور دریائے سندھ کے مغرب کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں اور ڈیورنڈلائن کو ختم کرنا چاہتے ہیں، تو ایسا ممکن نہیں۔ ایسا کرنے سے پہلے آپ کو غور کرنا چاہئے کہ اس خطے کی آبادی تقریباً 10 کروڑ ہے جبکہ افغانستان کی کل آبادی 3 کروڑ 80 لاکھ ہے۔ پاکستان میں پشتونوں کی تعداد 7 سے 8 کروڑ ہے اور میں بھی پشتون ہوں۔ افغانستان کی کل آبادی میں مشکل سے 2 کروڑ پشتون ہیں۔ میں نے ان کے سامنے یہ سوال کیا ہے کہ کیا وہ دونوں علاقوں کو ملا کر، ڈیورنڈلائن کو ہٹا کر اقلیت ہونے پر راضی ہوں گے یا وہ اپنے ملک پر حکومت جاری رکھنے کو ترجیح دیں گے؟ ان کے پاس اس دلیل کا کوئی جواب نہیں تھا سوائے ڈیورنڈلائن کو تسلیم کرنے سے انکار کے۔ تاہم صحیح نقطہئ نظر تاریخ اور جغرافیہ کے فرمودات کو تسلیم کرنے میں ہی مضمر ہے، بائیں یا دائیں طرف ہٹے بغیر ان حدود کے اندر قبولیت اور بقائے باہمی کی ضرورت ہے۔

نصرت مرزا: بریگیڈیئر صاحب، مجھے یقین ہے کہ ہمارے قارئین کو خطے کی تاریخ کے بارے میں آپ کی عمیق اور دلچسپ تحقیق کافی پُرکشش لگے گی لہٰذا میں آپ سے درخواست کروں گا کہ براہ کرم بلوچستان کے حوالے سے اپنی بات کو مکمل فرمائیں۔
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: جی یقیناً، دراصل یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ برطانوی مورخین کا اس علاقے کو برٹش بلوچستان کا نام دینے کے پیچھے کیا دلیل یا تحقیق تھی کیونکہ تاریخی طور پر وہاں کوئی بلوچ باشندہ نہیں تھا، اس کی آبادی زیادہ تر پٹھانوں کی تھی، جنوبی افغانستان میں پٹھانوں کی سرزمین پر قبضے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ خیال کرنا منطقی معلوم ہوتا ہے کہ وہ برٹش بلوچستان کے علاوہ کوئی اور نام تفویض کرسکتے تھے۔ 1843ء میں لارڈ کرزن اور جنرل کرزن نے کامیابی کے ساتھ سندھ کو فتح کیا اور اپنا اثرورسوخ جیکب آباد تک پھیلا دیا، انہوں نے جیکب آباد سے آٹھ میل آگے ایک اضافی رقبہ حاصل کیا، جو پہلے جھٹ پٹ کا ایک مقام تھا اور قلاتی بلوچستان کے کچھ حصوں کو شامل کیا، احمد شاہ ابدالی کے دور میں 250 سال قبل میر ناصر کی کمان مری بگٹی کا علاقہ بنیادی طور پر ایک پہاڑی علاقہ تھا، خان آف قلات کے پاس اس کا انتظام چلانے کے لئے وسائل کی کمی تھی۔ مری اور بگٹی دونوں علاقے ابتدائی طور پر احمد شاہ ابدالی کے دور میں افغانستان کا حصہ تھے لیکن آخرکار خودمختاری حاصل کرلی گئی۔ رابرٹ سینڈیمین نے فوجی طاقت کا سہارا لئے بغیر پُرامن طریقے سے مری اور بگٹی علاقوں کے حصول کے لئے بات چیت کی، ان خطوں نے انگریزوں کے ساتھ غیرمتزلزل وفاداری کا مظاہرہ کیا، جس کی مثال یہ ہے کہ ایک مری وفد نے پٹھانوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے ژوب کا سفر کیا۔ ڈیرہ غازی خان کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر رابرٹ سنڈیمین نے فوجی کمک کے بغیر پیروی کی۔ مری وفد نے امن، صحت کی بہتری اور تنازعات کے حل کے حامیوں کے طور پر برطانیہ کی بہت تعریف کی۔ ان کے خلوص سے قائل ہو کر، ژوب میں پٹھانوں نے پُرامن طریقے سے برطانوی کاز کے ساتھ اتحاد کیا۔ نتیجتاً نومبر 1893ء میں شاہ عبدالرحمن، رابرٹ سینڈمین، اور مقامی نمائندوں کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد برٹش بلوچستان باضابطہ طور پر قائم ہوا۔ ہم نے بلوچستان کے نام سے دو الگ الگ علاقوں پر بات کی ہے، ایک برٹش بلوچستان اور دوسرا قلاتی بلوچستان۔ اگر 1947ء میں قیام پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں، اس اہم وقت میں خان آف قلات، جو قائداعظم سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور تقریباً 20 سے 25 سال تک ان کے قانونی مشیر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے، انہوں نئے پاکستان کے قیام پر خوشی کا اظہار کیا لیکن قلاتی بلوچستان کی آزادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ قائداعظم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ انگریز قلات کو اپنے ڈومین کا حصہ سمجھتے تھے۔ خان صاحب کی مسلسل کوششوں بشمول کنفیڈریشن بنانے کی تجویز پر بھی قائداعظم اپنے موقف پر ڈٹے رہے، چنانچہ 28 مارچ 1948ء کو خان نے الحاق کے معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ قائداعظم نے اس کا نام بدل کر بلوچستان اسٹیٹس یونین رکھنے کی تجویز دی، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ خان اپنا لقب برقرار رکھیں گے کیونکہ اس وقت پاکستان میں آئین نہیں تھا۔ برٹش بلوچستان کے بارے میں قائداعظم نے نام کی معمولی تبدیلی کی تجویز دی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ آئین حتمی نام کا حکم دے گا۔ قائداعظم کے علم میں نہیں تھا کہ آئین بنانے میں آٹھ سال کا عرصہ لگ جائے گا۔ خیر، قلات ڈویژن اور کوئٹہ ڈویژن قائم ہوئے جبکہ مغربی پاکستان ایک صوبے کے طور پر ابھرا جس کا دارالحکومت لاہور تھا۔ اب جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قلاتی بلوچستان زبردستی لیا گیا، میں اپنے بلوچ دوستوں کو یاد دلاتا ہوں کہ قائداعظم نے خان کو اپنے عہدے پر رہنے کی پیشکش کی تھی۔ اس کے علاوہ بعد کے گورنر جنرلوں، مجموعی طور پر پانچوں نے اس عمل کو جاری رکھا اور قائداعظم کے دور کے بعد بھی انہیں کسی نے نہیں ہٹایا۔ یہ بات فوجی جارحیت کے دعوؤں کی کھلی نفی کرتی ہے، کیونکہ نہ تو قائداعظم اور نہ ہی ان کے بعد کے گورنر جنرلوں نے ایسی کارروائیوں کی اجازت دی تھی۔ اس طرح یہ ملاپ تیسرا بلوچستان بناتا ہے۔ بلوچستان کے چار علاقوں میں سے صرف تین کے ہمارے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ بلوچستان پر بحث کرتے وقت سیاق وسباق کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہے، نیزمخصوص علاقے، سیاسی دور اور متعلقہ سال کی نشاندہی کرنا بھی لازمی ہے۔ مارچ 1956ء کو قراردادِ پاکستان کی سالگرہ کے موقع پر پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا۔ مشترکہ تجربے کی کمی کی وجہ سے ایک چیلنج پیدا ہوا۔ بنگال، تقسیم ہونے کے بعد، کچھ اضافی پیچیدگی پیدا کررہا تھا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے باشندے ایک ساتھ نہیں رہے تھے اور ناواقفیت کا دائرہ حکمرانی تک پھیل گیا۔ 1958ء میں دو سال بعد 6 اکتوبر کو ایک المناک واقعہ سامنے آیا جب ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں صدراسکندر مرزا نے 8 اکتوبر کو مارشل لاء کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ایوب خان نے 1962ء میں ایک نیا آئین بنایا، جس میں کچھ ترامیم کے ساتھ زیادہ تر صوبوں کو برقرار رکھا گیا۔ ون یونٹ کے خلاف تنقید سامنے آئی، خاص طور پر بلوچستان کے رہائشیوں کی طرف سے آواز اٹھائی گئی، جنہوں نے معمول کے کاموں کے لئے لاہور کا سفر کرنے والے چیلنجز کا سامنا کیا اور خود کو پسماندہ محسوس کیا، انہوں نے ون یونٹ کے نظام کو مسترد کردیا، انہوں نے برٹش بلوچستان اور قلاتی بلوچستان کی خودمختاری کی بات کی۔ 1970ء میں یحییٰ خان نے ون یونٹ کے ڈھانچے کو ختم کرکے بلوچستان کو صوبائی حیثیت دے دی، تاہم یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ قلاتی بلوچستان تاریخی طور پر ایک قبائلی بادشاہت کے ایک مخصوص طرزِحکمرانی کا ڈھانچہ تھا، غریب ہونے کے باوجود اس نے انگریزوں یا افغانستان کو جوابدہ ہو تے ہوئے آزادانہ طور پر کام کیا، البتہ غربت کی وجہ سے یہ علاقہ تعلیم اور صنعت سمیت تمام شعبوں میں پیچھے رہ گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بلوچستان کی بہتری پر توجہ دی گئی، ان کے دور میں بجلی کی بڑی ٹرانسمیشن لائنوں کا قیام سمیت اہم پیش رفت ہوئی، اسی طرح مجھ سے پہلے گورنر جنرل رحیم الدین خان واحد ذمہ دار شخص تھے جنہوں نے وہاں کا دورہ کیا، رحیم الدین خان کے بعد میں نے ایک وردی والے سپاہی کے طور پر خدمات انجام دیں، لوگ اکثر مجھے رحیم الدین خان سے تشبیہ دیتے تھے کیونکہ وہ اکثر یہاں کا دورہ کرتے تھے، البتہ یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے سویلین ہم منصبوں نے اس کوشش میں اپنا حصہ نہیں ڈالا۔ اب جب لوگ بلوچستان میں بدامنی کا ذکر کرتے ہیں تو میں ان سے استفسار کرتا ہوں کہ آپ کس بلوچستان کا ذکر کررہے ہیں؟ کیونکہ شمالی بلوچستان تو پُرامن رہتا ہے، کچھ واقعات میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ارکان شامل ہوتے ہیں جو آتے ہیں، تشدد کی چند کارروائیاں کرتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔ اگرچہ وہ ہمیشہ بھاگ نہیں پاتے اور اکثر اوقات موقع پر ہی ختم کردیئے جاتے ہیں، اسی طرح جنوبی بلوچستان بھی پُرسکون ہے۔ کیا آپ نے لسبیلہ میں کبھی کوئی مسئلہ دیکھا ہے؟ کیا سبی سے جیکب آباد تک قتل عام ہوا ہے؟ اس کا واضح جواب یقیناً نہیں میں ہے۔ صرف جنوب مغربی بلوچستان جوکہ غریب ترین علاقہ ہے، عسکریت پسندی سے متاثر ہے، ایک عقلمند آدمی سے بات چیت کے دوران میں نے مشورہ دیا کہ اگر ہم اس علاقے کے لوگوں کو گھر پر رہنے اور لڑائی بند کرنے کے لئے 25000 روپے ماہانہ فراہم کریں تو وہ اس پر عمل کریں گے۔ اس طرح ہمیں فی الحال سیکیورٹی پر لگائے گئے فنڈز کے نصف سے زیادہ مختص کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس منظرنامے پر غور کریں کہ ایک شخص جس کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہیں، اس کو دہشت گردی کی کوئی کارروائی کرنے کے لئے اگر رقم آفر کی جائے تو کیا وہ اس کو قبول نہیں کرے گا؟ زندہ رہنے کے لئے ہر فرد ممکنہ طور پر اس طرح کرنے کو تیار ہوسکتا ہے، ایسے میں یہ سوال غیرمتعلقہ ہوجاتا ہے کہ کیا یہ لوگ پاکستان کا حصہ نہیں ہیں؟ اہم بات بس یہ ہے کہ جو جتنا زیادہ غریب ہے، اتنا ہی وہ استحصال کا شکار ہوتا ہے۔

نصرت مرزا: بریگیڈیئر صاحب، میں ایک اور پہلو کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو پرویز مشرف اور جنرل کیانی کے دور میں سامنے آیا، بہت سے بلوچ افراد کو فوج میں بھرتی کیا گیا، بگٹی صاحب کے ساتھ ہمارے انٹرویو کے دوران بھی انہوں نے گوادر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بلوچوں کی بھرتی کی بات کی، حالانکہ اس وقت مقامی آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم سے محروم تھا، تاہم پرویزمشرف کے دور میں شروع کی گئی کوششوں نے شاید بلوچ عوام کی تعلیمی سطح کو بلند کیا، جس سے وہ اپنی اپنی فیلڈ میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوئے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان کوششوں کا کافی اثر ہوا؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: یقیناً کافی اثر ہوا تھا، پرویز مشرف کو اور اسٹاف کالج کے دیگر افراد بشمول اساتذہ اور طلباء کو پورے ملک کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا، انہوں نے ہر علاقے کا دورہ کیا، میں پرویز مشرف کے گوادر کے افتتاح کے موقع پر موجود تھا، لوگوں نے مشرف سے بندرگاہ کی تعمیر کے اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا، پرویز مشرف نے انہیں یقین دلایا کہ انہیں تعلیم دینے اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کی جائے گی، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔ پرویزمشرف کے طویل مدت تک غیرحاضر رہنے کے باوجود گوادر میں ایک یونیورسٹی، تربت میں دوسری اور پنجگور میں تیسری یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ ان کے درمیان فاصلہ 200 میل سے کم ہے، لیکن گریجویٹ بننا راتوں رات کا کام نہیں ہے، اس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور ساتھ ہی طالب علم کی دلچسپی بھی اہم ہے، بدقسمتی سے ہم اب بھی قبائلی ثقافت سے نبردآزما ہیں جو طلباء کو کم سے کم نمبروں سے پاس کرنے پر زور دیتا ہے۔ میرے دور میں ہائیکورٹ کے حکم کے تحت 75 فیصد حاضری ضروری تھی لیکن لوگ مجھ سے کم حاضری والے طلباء کو پاس کرنے کے لئے رجوع کرتے تھے اور میں انہیں کہتا تھا کہ میں ہائیکورٹ کے فیصلے کے آگے مجبور ہوں۔ جنرل مشرف نے کافی کام کئے، سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحانات کے لئے بھی عمر کی حد میں توسیع کرتے ہوئے مختلف اصلاحات نافذ کیں، پہلے عمر کی حد کم تھی لیکن اب یہ 38 سال ہے۔ یہ تبدیلی افراد کو 38 سال کی عمر تک اپنی گریجویشن مکمل کرنے کی اجازت دیتی ہے، چاہے ان کا تعلیمی سفر بتدریج ہی کیوں نہ ہو اور پھر امتحان دیں۔ آج اگر آپ بلوچستان کا سفر کریں تو آپ کو ہر شعبے میں مقامی پٹھان اور بلوچ افراد ملیں گے، فوج نے ان کی بھرتی کو آسان بنانے کے لئے معیارات میں بھی نرمی کی ہے۔
نصرت مرزا: 2016ء میں، میں نے تربت کا دورہ کیا اور مجھے ایک بلوچی کموڈور سے ملنے کا موقع ملا، جو میرے لئے انتہائی خوشی کا باعث تھا، انہوں نے پاک بحریہ میں شامل کئی بلوچ افسران کا تعارف کرایا، کیا آپ بحریہ میں شمولیت کے حوالے سے تربت کی اہمیت کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: تربت اور مکران کے افراد کی پاک بحریہ میں شمولیت کی بنیادی وجہ جغرافیائی ہے، ان کے لئے کوئٹہ جانے کے مقابلے میں کراچی آنا بہت آسان ہے، کوئٹہ پہنچنے میں دو دن لگتے ہیں جبکہ کراچی پہنچنے میں ایک یا ڈیڑھ دن لگتا ہے۔ مزیدبرآں کشتی کے ذریعے سفر کرنے کے آپشن پر غور کرنے سے سفر میں مزید وقت شامل ہوجاتا ہے، البتہ تربت کے لوگ ویسے بھی اپنی اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، اب بھرتی کے طریقوں کے بارے میں اگر بات کی جائے تو پرویز مشرف نے انٹر سروسز سلیکشن بورڈ میں فیل ہونے والے افراد کو تین ماہ کی ٹریننگ دینے کی پالیسی بنائی اور ٹریننگ کے بعد پاس ہونے والے افراد کو بھرتی کیا گیا۔ اس وقت فوج میں بلوچستان نوشکی سے تعلق رکھنے والا ایک بریگیڈیئرآفیسر بھی اچھی اور اہم جگہ پر تعینات ہے۔ فوج میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افسران چاہے وہ بلوچ ہوں یا پٹھان، انہیں بلوچستان سے ہی تصور کیا جاتا ہے اور یہ تاریخی مسئلہ دراصل ”بلوچستان“ کے نام کی وجہ سے پیدا ہوا، پہلے انگریزوں نے اس علاقے کا نام ”برٹش بلوچستان“ رکھا، جس سے الجھن پیدا ہوئی۔ 1970ء میں خان آف قلات، جو بعد میں پانچ سال تک بلوچستان کے گورنر رہے، نے پورے علاقے کا نام بدل کر بلوچستان رکھنے کی بات کی۔ اب وفاق کی سطح پر کسی کو تاریخ کا علم تھا اور نہ ہی یہ پتہ تھا کہ شمال میں تو سارے پٹھان ہیں، بلوچ نام رکھنے سے آپ ان کی شناخت جوکہ پشتو ہے اسے ختم کررہے ہیں، آبادکار جنہوں نے شمالی بلوچستان بنایا، آپ ان کی شناخت ختم کررہے ہیں؟ پشتونوں کے علاوہ وہاں 21 لاکھ ہزارہ لوگ بھی ہیں۔ آپ ان سب کو کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں؟ درحقیقت خان آف قلات نے حقائق سے آگاہ ہوتے ہوئے جان بوجھ کر ایسا کیا، ان کے بعد جنرل یحییٰ اور دیگر کو یا تو معلوم نہیں تھا یا وہ اپنے اعمال کے نتائج کو محسوس کرنے میں ناکام رہے۔ اب جب وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان آزادی چاہتا ہے تو ایک پٹھان یہ (RFI کے ریسرچ آفیسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) بھی کھڑا ہے۔ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ بلوچ قیادت میں کام کرنے کو تیار ہیں؟

بریگیڈیئر صاحب، میں ایک اور پہلو کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو پرویز مشرف اور جنرل کیانی کے دور میں سامنے آیا، بہت سے بلوچ افراد کو فوج میں بھرتی کیا گیا، بگٹی صاحب کے ساتھ ہمارے انٹرویو کے دوران بھی انہوں نے گوادر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بلوچوں کی بھرتی کی بات کی، حالانکہ اس وقت مقامی آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم سے محروم تھا، تاہم پرویزمشرف کے دور میں شروع کی گئی کوششوں نے شاید بلوچ عوام کی تعلیمی سطح کو بلند کیا، جس سے وہ اپنی اپنی فیلڈ میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوئے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان کوششوں کا کافی اثر ہوا؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: یقیناً کافی اثر ہوا تھا، پرویز مشرف کو اور اسٹاف کالج کے دیگر افراد بشمول اساتذہ اور طلباء کو پورے ملک کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا، انہوں نے ہر علاقے کا دورہ کیا، میں پرویز مشرف کے گوادر کے افتتاح کے موقع پر موجود تھا، لوگوں نے مشرف سے بندرگاہ کی تعمیر کے اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا، پرویز مشرف نے انہیں یقین دلایا کہ انہیں تعلیم دینے اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کی جائے گی، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔ پرویزمشرف کے طویل مدت تک غیرحاضر رہنے کے باوجود گوادر میں ایک یونیورسٹی، تربت میں دوسری اور پنجگور میں تیسری یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ ان کے درمیان فاصلہ 200 میل سے کم ہے، لیکن گریجویٹ بننا راتوں رات کا کام نہیں ہے، اس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور ساتھ ہی طالب علم کی دلچسپی بھی اہم ہے، بدقسمتی سے ہم اب بھی قبائلی ثقافت سے نبردآزما ہیں جو طلباء کو کم سے کم نمبروں سے پاس کرنے پر زور دیتا ہے۔ میرے دور میں ہائیکورٹ کے حکم کے تحت 75 فیصد حاضری ضروری تھی لیکن لوگ مجھ سے کم حاضری والے طلباء کو پاس کرنے کے لئے رجوع کرتے تھے اور میں انہیں کہتا تھا کہ میں ہائیکورٹ کے فیصلے کے آگے مجبور ہوں۔ جنرل مشرف نے کافی کام کئے، سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحانات کے لئے بھی عمر کی حد میں توسیع کرتے ہوئے مختلف اصلاحات نافذ کیں، پہلے عمر کی حد کم تھی لیکن اب یہ 38 سال ہے۔ یہ تبدیلی افراد کو 38 سال کی عمر تک اپنی گریجویشن مکمل کرنے کی اجازت دیتی ہے، چاہے ان کا تعلیمی سفر بتدریج ہی کیوں نہ ہو اور پھر امتحان دیں۔ آج اگر آپ بلوچستان کا سفر کریں تو آپ کو ہر شعبے میں مقامی پٹھان اور بلوچ افراد ملیں گے، فوج نے ان کی بھرتی کو آسان بنانے کے لئے معیارات میں بھی نرمی کی ہے۔
نصرت مرزا: 2016ء میں، میں نے تربت کا دورہ کیا اور مجھے ایک بلوچی کموڈور سے ملنے کا موقع ملا، جو میرے لئے انتہائی خوشی کا باعث تھا، انہوں نے پاک بحریہ میں شامل کئی بلوچ افسران کا تعارف کرایا، کیا آپ بحریہ میں شمولیت کے حوالے سے تربت کی اہمیت کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: تربت اور مکران کے افراد کی پاک بحریہ میں شمولیت کی بنیادی وجہ جغرافیائی ہے، ان کے لئے کوئٹہ جانے کے مقابلے میں کراچی آنا بہت آسان ہے، کوئٹہ پہنچنے میں دو دن لگتے ہیں جبکہ کراچی پہنچنے میں ایک یا ڈیڑھ دن لگتا ہے۔ مزیدبرآں کشتی کے ذریعے سفر کرنے کے آپشن پر غور کرنے سے سفر میں مزید وقت شامل ہوجاتا ہے، البتہ تربت کے لوگ ویسے بھی اپنی اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، اب بھرتی کے طریقوں کے بارے میں اگر بات کی جائے تو پرویز مشرف نے انٹر سروسز سلیکشن بورڈ میں فیل ہونے والے افراد کو تین ماہ کی ٹریننگ دینے کی پالیسی بنائی اور ٹریننگ کے بعد پاس ہونے والے افراد کو بھرتی کیا گیا۔ اس وقت فوج میں بلوچستان نوشکی سے تعلق رکھنے والا ایک بریگیڈیئرآفیسر بھی اچھی اور اہم جگہ پر تعینات ہے۔ فوج میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افسران چاہے وہ بلوچ ہوں یا پٹھان، انہیں بلوچستان سے ہی تصور کیا جاتا ہے اور یہ تاریخی مسئلہ دراصل ”بلوچستان“ کے نام کی وجہ سے پیدا ہوا، پہلے انگریزوں نے اس علاقے کا نام ”برٹش بلوچستان“ رکھا، جس سے الجھن پیدا ہوئی۔ 1970ء میں خان آف قلات، جو بعد میں پانچ سال تک بلوچستان کے گورنر رہے، نے پورے علاقے کا نام بدل کر بلوچستان رکھنے کی بات کی۔ اب وفاق کی سطح پر کسی کو تاریخ کا علم تھا اور نہ ہی یہ پتہ تھا کہ شمال میں تو سارے پٹھان ہیں، بلوچ نام رکھنے سے آپ ان کی شناخت جوکہ پشتو ہے اسے ختم کررہے ہیں، آبادکار جنہوں نے شمالی بلوچستان بنایا، آپ ان کی شناخت ختم کررہے ہیں؟ پشتونوں کے علاوہ وہاں 21 لاکھ ہزارہ لوگ بھی ہیں۔ آپ ان سب کو کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں؟ درحقیقت خان آف قلات نے حقائق سے آگاہ ہوتے ہوئے جان بوجھ کر ایسا کیا، ان کے بعد جنرل یحییٰ اور دیگر کو یا تو معلوم نہیں تھا یا وہ اپنے اعمال کے نتائج کو محسوس کرنے میں ناکام رہے۔ اب جب وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان آزادی چاہتا ہے تو ایک پٹھان یہ (RFI کے ریسرچ آفیسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) بھی کھڑا ہے۔ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ بلوچ قیادت میں کام کرنے کو تیار ہیں؟

نصرت مرزا: یہاں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ یعنی پشتون آبادی 40 فیصد ہیں یا 60 فیصد؟ یہ غیریقینی صورتِ حال کبھی کبھار غلط معلومات کی وجہ سے ہوتی ہے۔
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: میں کہتا ہوں کہ اس وقت بلوچستان کی 60 فیصد آبادی پٹھانوں پر مشتمل ہے، مثال کے طور پر لسبیلہ کو ہی لے لیں، اس میں جاموٹ آباد ہیں، اسی طرح براہویوں کے حوالے سے اگر بات کریں تو آپ اے کے براہوی کے نام سے واقف ہوں گے۔ 1960ء تک براہوی بڑے فخر سے اپنے نام کے ساتھ براہوی لکھتے تھے، اس وقت بلوچ افراد نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اگر براہوی اسی طرح اپنی الگ شناخت کراتے رہے تو اس سے ان کا یعنی بلوچوں کا ووٹ بینک ٹوٹ جائے گا، لہٰذا انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ براہوی بلوچ ہیں، چنانچہ اس کے بعد سے انہوں نے اپنے ناموں میں بلوچ شناخت کو اپنانا شروع کردیا۔ اصل میں براہویوں کا تعلق وسطی ایشیا سے ہے۔ ایک حقیقت جس کی تائید ڈی این اے سے ہوتی ہے، اس دور میں ایک سادہ ڈی این اے ٹیسٹ کسی کے پچھلے 50 آباؤاجداد کے جغرافیائی مقامات کا پتہ لگا سکتا ہے تو براہویوں پر سائنسی تحقیق ان کی وسطی ایشیائی اصلیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ بلوچ جن کی مثال نواب اکبر خان بگٹی جیسی شخصیات سے ملتی ہے، بلوچوں کی شناخت کی علامت ہے۔ بگٹی اپنے خوبصورت چہرے، پتلی ناک اور عام بلوچ ظاہری شکل کے ساتھ ایک بہترین مثال کے طور پر عام بلوچ تصور کئے جاتے ہیں۔ بلوچوں کی جڑیں بلوچستان کے اندر انہیں عربوں سے جا ملاتی ہیں۔ دوسری طرف میر حاصل بزنجو، اللہ انہیں جنت میں جگہ عطا فرمائے، موٹی ناک اور چھوٹے قد کے مالک، یعنی وہ ایک عام براہوی کی مکمل خصوصیات کے مالک تھے۔ اگرچہ اشخاص میں کچھ تغیرات ہوسکتے ہیں لیکن بزنجو براہوی شناخت کے مالک تھے۔ مختلف سیمیناروں میں ہماری بات چیت کے دوران اختلاف اس وقت پیدا ہوتا جب میں کہتا کہ براہوی ایک الگ کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں، اس پر بزنجو صاحب میرے بیان کی تردید کرنے میں پانچ سے دس منٹ لگاتے اور اصرار کرتے کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور وہ واقعی بلوچ ہیں۔
نصرت مرزا: بریگیڈیئر صاحب، اب میں ایک بار پھر پچھلے سوال کی طرف لوٹتے ہوئے، علیحدگی پسندوں کے نعرے کی اصلیت کے بارے میں وضاحت چاہوں گا؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: جی بالکل، جب خان آف قلات صاحب پاکستان کا حصہ بنے اور معاہدے پر دستخط کئے تو اس کے بھائی، عبدالکریم جو خود کو شہزادہ کہلواتے تھے حالانکہ یہ لقب کسی خان کے بیٹے یا بھائی پر درست طور پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ خان کے بیٹے کو خانزادہ کہا جانا چاہئے تھا۔ اس کے باوجود اس نے شہزادہ کہلوا کر مخاطب ہونے پر اصرار کیا۔ خان آف قلات کا کردار سنبھالنے کے بعد ابتدائی چار ماہ تک شہزادہ عبدالکریم نے اپنے طرزعمل پر غور کیا، اس مدت کے بعد اس نے کھلے عام پاکستان کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔ اس کے منصوبے میں افغانستان کا سفر کرنا اور بلوچستان پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے لئے پاکستان کے خلاف جدوجہد کرنا شامل تھا۔ تقریباً تین سال تک افغانستان میں رہنے کے بعد وہ بالآخر واپس آ گئے جبکہ ان کے بڑے بھائی رحمت یارخان اب بھی خان آف قلات کے عہدے پر فائز تھے۔ ہمارے کچھ بلوچ بھائیوں کا کہنا ہے کہ یہ پہلی شورش کا آغاز تھا، تاہم میں دلیل دیتا ہوں کہ شہزادہ عبدالکریم کا افغانستان جانا شورش کی تعریف پر پورا نہیں اترتا، کیونکہ تین سال کے بعد واپسی پر شہزادہ عبدالکریم تاریخ کے دھند میں کہیں کھو گیا، جس نے تاریخ پر کوئی اثر نہیں چھوڑا۔ اس وقت علیحدگی کا مطالبہ کرنے والے صرف اور صرف وہ لوگ تھے جو خان آف قلات کے نامزد کردہ وزراء تھے، ان کا حوصلہ اس یقین سے پیدا ہوا کہ ان کی حکومت ختم ہوچکی ہے اور ان کے علاوہ کسی اور نے اس مطالبے کی حمایت نہیں کی۔ تاریخی تناظر کا اگر ہم جائزہ لیں تو 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکا نے خود کو ایک ممتاز عالمی طاقت کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کی، ایٹم بم جو اس وقت ان کی منفرد صلاحیت تھی، انہوں نے دوسروں کی پیش قدمی کو روکنے اور روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے استعمال کیا، اس کے بعد ایک امریکی، جو مالی فائدے سے نہیں بلکہ عالمی توازن کو برقرار رکھنے کی خواہش سے متاثر ہوا تھا، اس نے جاکر روس سے رابطہ کیا اور ان پر زور دیا کہ وہ بھی ایٹم بم تیار کرے، اس کے نتیجے میں نیٹو کی بنیاد رکھی گئی جس میں ابتدائی طور پر 21 ممالک شامل تھے اور بعد میں 29 ہوگئے۔ اس نے حکمت عملی کے تحت سوویت یونین کو گھیرے میں لے لیا۔ اس کے بعد امریکا نے سینٹو قائم کیا، جس میں ترکی، ایران اور پاکستان شامل تھے، اس معاہدے کے ساتھ کہ امریکا پر حملے کی صورت میں یہ ممالک مدد فراہم کریں گے لیکن اگر ان ممالک پر حملہ ہوا تو امریکا آنکھیں بند کر لے گا۔ مزیدبرآں، سیٹو (جنوب مشرقی ایشیائی معاہدہ تنظیم) کی تشکیل نے سوویت یونین کے گرد گھیرا مزید سخت کردیا۔ 1970ء میں اس کے جواب میں KJB نے مشہور زمانہ لندن کانفرنس کا اہتمام کیا، جس نے ایک طرف ترکی میں نسلی کشیدگی سے فائدہ اٹھانے اور کردوں کو علیحدگی کے مطالبے پر اکسانے کا منصوبہ بنایا جبکہ دوسری طرف سیستان بلوچستان اور قلاتی بلوچستان جو اس وقت ایک ڈویژن کا درجہ رکھتا تھا اور بعد میں 1970ء کے انتخابات کے بعد صوبہ بنا، روس نے اس سے مختلف شخصیات جن میں اختر مینگل کے والد عطاء اللہ مینگل اور خیربخش مری، احمد رشید صاحب اور پنجاب سے کچھ لوگوں کو بلایا، البتہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بگٹی صاحب نے اس میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے قیام کو امریکیوں نے پاکستان میں روک دیا تھا لیکن ایک انڈر گراؤنڈ پارٹی پھر بھی برقرار رہی۔ سیستان بلوچستان کے کمیونسٹ نمائندوں نے لندن کے اس میٹنگ میں شرکت کے دوران علیحدگی کی خواہش کا اظہار کیا۔ ابتدائی طور پر علیحدگی کی کال جنوبی بلوچستان سے آئی، جس کا مقصد سیستان بلوچستان میں شامل ہونا اور گریٹر بلوچستان بنانا تھا۔ 1970ء کے الیکشن میں علیحدگی کی بات کرنے والی یہ جماعت اقتدار میں آئی، تاہم اقتدار میں آنے کے بعد صوبے کے چیلنجز کا سامنا رہا کیونکہ انہوں نے پنجابیوں اور غیرمقامی اساتذہ کو نکالنا شروع کردیا۔ عطاء اللہ مینگل نے اے اور بی ایریاز سے لوگوں کو نکالنے کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں 3,200 پولیس اہلکاروں اور 3,500 اساتذہ کو برطرف کیا گیا، جن میں 80 سے 85 فیصد تدریسی عملہ شامل تھا۔ مزیدبرآں انہوں نے صرف پانچویں جماعت کی تعلیم کے حامل مقامی افراد کو بطور استاد مقرر کیا۔ فروری 1973ء میں جاموٹوں پر حملے نے گریٹر بلوچستان بنانے سے توجہ اندرونی تنازعات کی طرف موڑ دی۔ جنوبی بلوچستان اور برٹش بلوچستان کو شامل کرتے ہوئے بلوچستان پہلے ہی نمایاں طور پر پھیل چکا تھا۔ اس دوران میڈیا نے روزانہ بدامنی کی خبریں دیں، صورتِ حال مزید خراب ہونے پر وفاقی حکومت سے مداخلت کی اپیل کی گئی جس پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بالآخر عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کردیا، جس کے نتیجے میں غوث بخش بزنجو اور ولی خان جیسی اہم شخصیات نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ یوں گویا بغاوت کا آغاز ہوا اور ایک حملے میں سبی میں 8 ایف سی سپاہیوں کو مار دیا گیا، جب وہ ریلوے لائن پر معمول کے گشت پر تھے۔ انہیں قتل کرنے کے بعد انہوں نے مستونگ کے قریب ہر گزرنے والی شہری گاڑی پر فائرنگ شروع کردی۔ اس کے بعد بولان پاس میں ریلوے لائن کے ڈرائیوروں کو نشانہ بنایا گیا، فوج کا غصہ بڑھ گیا، 1973ء میں جب اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ معاہدہ ہوا تو میں فرنٹ لائن سے واپس آیا۔ اس وقت پوری فوج کو تعینات کیا گیا تھا اور 60 بریگیڈ کو پہلی بار کوہلو کے لئے بھیجا گیا تھا، جس میں تقریباً ڈیڑھ سال لگے۔ جنرل نعمان صاحب اس وقت کورکمانڈر تھے۔ جب علیحدگی پسندوں کو پکڑا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ تعداد میں بہت کم تھے۔ فضل حق صاحب جوکہ اس وقت کے ایک بریگیڈیئر تھے، نے کہا کہ صورتِ حال کنٹرول میں ہے اور آپریشن کی ضرورت نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد وہ گورنر بھی بنے۔ مختصر یہ کہ جنوب میں کسی بڑے آپریشن کی ضرورت نہیں تھی اور یہ سب ڈیڑھ سال کے اندر مکمل ہوگیا۔ علیحدگی پسندوں کی سدرن فورس کا کمانڈر اور چیف، خیرجان، میرے چھوٹے بھائی کے ہم جماعت، سب کچھ ختم ہونے کے بعد ایک دن مجھ سے ملنے آیا۔

۔ اس نے انکشاف کیا کہ وہ جنوب میں کل 325 اور شمال میں 1500 افراد تھے۔ خیربخش مری نے انہیں ماسکو بھیج دیا، اب مثلاً بالاچ مری کو لے لیں، بڑا شاندار جوان تھا، ان کی تمام تعلیم ماسکو میں مکمل ہوئی۔ اسی طرح اپنے آپ کو مری کا شیر کہلوانے والے شیر محمد مری سے بھی ہماری اچھی دعا سلام تھی، بلکہ ہم پہلے انہیں اپنا بڑا بھائی کہتے تھے۔ 1973ء کے بعد سے 1975ء تک بغاوت کا خاتمہ ہوا، جس سے بلوچستان میں مکمل امن قائم ہوا۔ 1975ء سے 2006ء تک، 30 سال کا عرصہ، مکمل امن تھا جس میں علیحدگی کا کوئی مطالبہ نہیں تھا، تاہم 2006ء کے بعد حالات بدل گئے۔ سوویت یونین 1989ء میں ٹوٹنا شروع ہوئی اور 1991ء میں مکمل طور پر ٹوٹ گئی۔ گورباچوف نے استعفیٰ دیا۔ نیوکانز New Conservatives) (کے نام سے مشہور امریکیوں نے سوویت یونین کے شکست و ریخت کے بعد کسی بھی ممکنہ حریف کو روکنے کے لئے کوششوں کا آغاز کردیا۔ PNSC جسے پروجیکٹ فار اے نیو امریکن سنچری کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی قیادت وولفوِٹز نے کی۔ انہوں نے عالمی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے پرل ہاربر کے مشابہ کچھ ترتیب دیا اور یوں 9/11 کے واقعات سامنے آئے جس سے امریکا نے اپنی توجہ اپنے دشمن ممالک کی طرف مبذول کرائی، جس میں چین سرفہرست تھا۔ چین کو گھیرنا امریکا کی اولین خواہش تھی، اسی طرح ان کا مقصد روس پر قابو پانے کے لئے وسطی ایشیا کے تیل اور گیس کے وسائل سے فائدہ اٹھانا بھی تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایران کے جوہری عزائم کو ناکام بنانے کا کام وہاں بغاوت شروع کروانا تھا اور ساتھ ہی پاکستان ان کا نشانہ تھا جیسا کہ اسرئیلی وزیراعظم نیتن یاہو مسلسل کہتا آیا ہے کہ ان کا سب سے بڑا دشمن پاکستان ہے۔ لہٰذا ان تمام مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے 7 اکتوبر 1999ء کو افغانستان پر حملہ کیا اور افغانستان میں کوئی ایسا نہیں تھا جو ان سے لڑ سکے۔ وہ اپنی کلاشنکوف کے ساتھ ڈیزی کٹر بم کا مقابلہ کیسے کرسکتے تھے جوکہ ایک کار کے سائز کا تھا۔ 9/11 کرانے کے بعد انہوں نے پرویز مشرف پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ وہ انہیں فوجیں تعینات کرنے کی اجازت دیں۔ جب مشرف راضی نہیں ہوئے تو انہوں نے بالآخر ایک تحریک چلائی اور انہیں ہٹوا دیا۔ اب یہ سوال کہ پاکستان کو یہ کیوں کچھ نہ کرسکے؟ تو جواب یہ ہے کہ پاکستان کا ایٹمی ہتھیار اتنا طاقتور ہے کہ اسے اگر ایک طرف کھڑا کردیا جائے اور دوسری طرف پاکستان کی پوری مسلح افواج کھڑی ہو۔ تو یہ پھر بھی برابر نہیں۔ اب یہ اتنا بڑا فرق ہے کہ صرف فوجی ذہن ہی اسے پوری طرح سمجھ سکتا ہے۔ مثلاً ہماری پوری مسلح افواج، جن کی تعداد تقریباً 850,000 ہے، نیویارک پر حملہ نہیں کرسکتی یعنی اسے تباہ نہیں کرسکتی، لیکن آپ کا ایک جوہری ہتھیار نیویارک کو ختم کرسکتا ہے۔
نصرت مرزا: اچھا، اب ذرا دوسری طرف دیکھتے ہیں، غزہ کے معاملے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ کوئی سرپرائز ہے؟ کیا سی آئی اے سمیت ان کی تمام انٹیلی جنس ناکام ہوچکی ہے اور اس تمام تر صورتِ حا ل میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: مرزا صاحب، اس بارے میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ میرے خیال میں کچھ بھی ناکام نہیں ہوا بلکہ انہوں نے حماس کو خود بنایا، حماس سے کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ ”کیا تم اتنے طاقتور ہو کہ انہیں سبق سکھا سکو؟“ جواب یقیناً نہ میں ہے، تو یہ جو بھی ہوا وہ دوسرا 9/11 ہے۔ ان بے چاروں کے پاس یا تو چند بم باقی ہیں یا لاٹھیاں، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ دو طیارہ بردار بحری جہاز بحیرہ روم میں آ چکے ہیں، وہ یہاں کیا کررہے ہیں؟ وہ دراصل کچھ اور نہیں بلکہ ایران اور پھر پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں۔
نصرت مرزا: بریگیڈیئر صاحب، میں بلوچستان کی معاشی حالت کے بارے میں بھی دریافت کرنا چاہتا ہوں، وہاں کے کیا وسائل اور حالات ہیں؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: دیکھئے، آج پورے بلوچستان میں صرف شمالی بلوچستان، جسے پہلے برٹش بلوچستان کہا جاتا تھا، نسبتاً زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ مون سون کے موسم میں ژوب، زیارت اور کبھی کبھی کوئٹہ جیسے علاقوں میں بارشیں ہوتی ہیں لیکن سردیوں میں شمالی بلوچستان میں شدید بارش اور برف باری ہوتی ہے جس سے کاکڑ خراسان کے پہاڑ برف سے ڈھانپ جاتے ہیں اور جنوبی بلوچستان کے برعکس یہاں زیرزمین پانی کی سطح قدرے ری چارج ہوجاتی ہے لیکن شمالی اور جنوبی بلوچستان میں دریاؤں، آبی ذخائر اور جھیلوں کی عدم موجودگی زراعت کیلئے ایک چیلنج ہے۔ خوشحالی کا زراعت سے گہرا تعلق ہے، جیسا کہ موہنجو داڑو، ہڑپہ اور میسوپوٹیمیا جیسی قدیم تہذیبوں میں دیکھا جاسکتا ہے، یہ سب خوشحال تہذیبیں دریا کے کنارے پروان چڑھی تھیں، پانی کے بغیر خوشحالی کا تصور بھی ممکن نہیں اور دوسری بات یہ کہ پانی کی ریزرویشن بھی ایک چیلنج ہے، اس کیلئے کچھ قدرتی جغرافیائی حالات اور بہت سارے ریسورسز درکار ہوتے ہیں۔
نصرت مرزا: اچھا جناب، اسں سلسلے میں، میں کچھ عرض کروں، میں نے پاکستان اٹامک کمیشن پر تحقیقی کی ہے، جس میں بتایا گیا کہ جب بہت زیادہ گرمی ہوتی ہے تو زمین کے نیچے چار سے پانچ فٹ پر ایک تہہ بن جاتی ہے، وہ تہہ پانی کو اندر جانے نہیں دیتی، اس میں راستہ بنانے کیلئے آپ کو اس پرت میں ڈرل کرنا پڑے گا یا پانی کو نیچے جانے کیلئے جو کچھ بھی کرنا پڑے، کرنا چاہئے؟ اور میرا خیال ہے کہ یہ طریقہ بلوچستان کے معاملے میں کام کرسکتا ہے کیونکہ دو سال سے یہ ہورہا ہے کہ زیادہ بارش کی وجہ سے بلوچستان ڈوب رہا ہے۔
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: یہ حقیقت ہے مرزا صاحب کہ پچھلے سال 22 اگست کو ہونے والی بارشوں میں کوئٹہ الگ تھلگ ہوگیا تھا اور اسی طرح کی بارشیں 1986ء میں ہوئی تھیں۔ اس وقت میں سبی میں بیٹھا تھا کیونکہ بولان پاس کی سڑک بہہ گئی تھی اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ 1986ء کے بعد پچھلے سال ہی ایسی بارشیں ہوئیں، اب آپ کے پچھلے سوال کی طرف آتا ہوں، اگر آپ بلوچستان کے 2023-24ء کے بجٹ کی بات کریں تو یہ 750 ارب روپے ہے جس میں سے 80 فیصد وفاقی حکومت سے لینا ہے۔ حکومت پاکستان نے بھی پانچ کھرب کا خسارہ رکھا ہوا ہے۔ خسارے کی رقم کہاں سے آئے گی؟ پانچ کھرب کا مطلب پانچ ہزار ارب، یہ کہاں سے آئے گا؟ اسی طرح گزشتہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت بھی اپنے دورِاقتدار کے آخری مرحلے میں پاکستان کو ایسے ہی تحفے دے گئی ہے۔ الغرض بلوچستان کی صوبائی حکومت کی ریونیو جنریشن جو وہ استعمال کرسکتی ہے، 20 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ پچھلے سال یعنی 2021-22ء میں وفاقی حکومت کو جو ریونیو دیا گیا تھا وہ پاکستان کے چاروں صوبوں کا 1.6 فیصد تھا۔ اس سال جو 2022-23ء میں 1.4 فیصد ہے، پچھلے سال سے بھی کم ہے۔

نصرت مرزا: آپ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ان کا کچھ مالی تعاون اسمگلنگ سے بھی ہوجاتا ہے، کیا آپ کے کئی ادارے بھی اسمگلنگ میں ملوث نہیں ہیں؟
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل: دیکھئے نصرت صاحب، بہتی گنگا میں بہت سے لوگ ہاتھ دھونے کی کوشش کرتے ہیں، ایماندار لوگ نایاب ہوتے جارہے ہیں، میں آپ کو اپنا ایک واقعہ سناتا چلوں کہ جب میں نے بلوچستان میں واپڈا کو ٹیک اوور کیا تو ریونیو 1.8 بلین روپے تھا، جب میں نے ساڑھے تین سال بعد اسے چھوڑا تو ریونیو 12.4 بلین تھا، اب ان دونوں رقوم کا کوئی موازنہ نہیں، کہاں 1.8 بلین اور کہاں 12.4 بلین۔ میں لوگوں سے کہتا تھا کہ کرپشن لائن سپرنٹنڈنٹ سے شروع ہوتی ہے اگر وہ رشوت مانگے تو مجھے اطلاع دیں۔ میں تمہیں مفت لائن دوں گا اور میں نے واقعی یہ کیا۔ ایک دن ممبر فنانس نے مجھ سے کہا کہ بریگیڈیئر صاحب، آپ کو ریونیو بڑھانے کے لئے بھیجا گیا تھا لیکن آپ بل معاف کر رہے ہیں؟ میں نے کہا جس کے پاس ایک کمرہ ہے اس کا دو لاکھ روپے کا بل آتا ہے۔ وہ واپڈا کو دو لاکھ روپے کا بل کیسے دے سکتا ہے؟ ہوتا کیا ہے کہ میرا لائن سپرنٹنڈنٹ اس سے 50 روپے لے کر اسے ہر ماہ فری بجلی دیتا ہے۔ میں نے یہ کیا تھا کہ میں نے ایک ٹیم بنائی جو ایسے لوگوں سے پوچھتی کہ آپ بقایاجات میں سے کتنے پیسے دے سکتے ہیں؟ اب اگر کوئی شخص کہتا کہ میں غریب ہوں، میں دو ہزار دے سکتا ہوں۔ ہماری ٹیم کہتی کہ نہیں، آپ اسے تھوڑا سا بڑھا دیں، جب وہ چار ہزار دینے پر راضی ہوجاتا، لیکن قسطوں میں تو ہم اسے قبول کر لیتے۔ یوں پاکستان کے نام پر ہم نے ایک لاکھ 96 ہزار کا رائٹ آف کرتے اور چونکہ ہم بے ایمان نہیں تھے اس لئے ہمارا ریونیو آنے لگا۔ اس پر چیئرمین واپڈا نے ممبر فنانس سے کہا کہ میں صحیح کام کررہا ہوں۔ ہم نے یہ نیک نیتی کے ساتھ کیا اور وہ کمپنی جو 15 یا 16 نمبر پر بھی نہیں تھی، یہ میرے دو سالوں میں فیصد کی وصولی میں نمبر ون کمپنی بن گئی۔ اس سلسلے میں جب میں نے کیسکو کو سنبھالا تو میں بگٹی صاحب کے پاس بھی گیا، بگٹی صاحب نے یہ جاننے کے باوجود کہ میں آرہا ہوں اپنے لوگوں کے ذریعے بدتمیزی سے کہوایا کہ میں گاڑی میں ان کے ہاں نہیں جاؤں گا۔ ہم گاڑی سے اتر کر چلنے لگے، میرے ساتھ ایف سی کے گارڈز بھی تھے، ان کے لوگوں نے کہا گارڈز بھی نہیں جاسکتے۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے اور ہم بغیر گارڈز کے ہی چلے گئے۔ ایک کچا گھر تھا، اندر بگٹی صاحب اور ان کے بڑے صاحبزادے سلیم موجود تھے، دونوں اب فوت ہوچکے ہیں، اللہ انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے۔ میں بچپن میں بگٹی صاحب کو انکل کہا کرتا تھا جب وہ میرے والد سے ملاقات کے لئے آتے تھے۔ جب میں 1973ء میں کورکمانڈر کا اے ڈی سی تھا اور وہ گورنر بنے تو میں انہیں سر کہتا تھا۔ اب جب میں اس بار گیا تو میں نے انہیں نواب صاحب کہا۔ خیر، چائے پینے کے بعد میں نے کہا نواب صاحب، میں آپ کے پاس 2 درخواستیں لے کر آیا ہوں، ایک یہ کہ آپ کے علاقے میں چوری نہ ہو اور دوسری یہ کہ یہ لوگ اپنے بل ادا کریں۔ نواب صاحب نے اپنی مونچھوں کو کچھ دیر تک تاؤ دیا اور کہا ”اوکے“۔ وہ زیادہ تر انگریزی میں بات کرتے تھے۔ جب میں ایف سی کے ریسٹ ہاؤس پہنچا تو میرے ایس ای نے بتایا کہ نواب صاحب کا مختیارکار آیا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ ہمارے جتنے کنکشنز ہیں ان سب کو ریگولرائز کروا دو۔ میں نے پورے صوبے میں کہا تھا کہ آپ ریگولرائزیشن کے لئے درخواست دیں، ہم ریگولرائز کریں گے، کوئی سوال نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی بقایاجات لئے جائیں گے۔ میں نے نواب صاحب کے تمام کنکشن سب سے پہلے ریگولرائز کرانے کا حکم دیا اور پھر انہوں نے یہ پیغام دیا کہ اب تم خود ہی براہ راست لوگوں کو ڈیل کرو، مجھے درمیان میں لانے کی ضرورت نہیں۔ اس پر میں نواب صاحب کا بہت شکرگزار تھا کہ ان کے تعاون سے ڈیرہ بگٹی جیسی جگہ میں بھی بجلی چوری ختم ہوئی اور ریونیو آنا شروع ہوا۔
انٹرویو کے اختتام پر میزبان نصرت مرزا صاحب نے بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل صاحب کا شکریہ ادا کیا اور خاص کر کوئٹہ سے انٹرویو کے لئے ان کی آمد، ان کے قیمتی وقت مرحمت کرنے اور بصیرت افروز گفتگو پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

مطلقہ خبریں