Tuesday, April 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نیا سال

سعادت حسن منٹو
کیلنڈر کا آخری پتا جس پر موٹے حروف میں 31 دسمبر چھپا ہوا تھا، ایک لمحہ کے اندر اس کی پتلی انگلیوں کی گرفت میں تھا۔ اب کیلنڈر ایک ٹنڈ منڈ درخت سا نظر آنے لگا۔ جس کی ٹہنیوں پر سے سارے پتے خزاں کی پھونکوں نے اڑا دیئے ہوں۔ دیوار پر آویزاں کلاک ٹِک ٹِک کررہا تھا۔ کیلنڈر کا آخری پتا جو ڈیڑھ مربع انچ کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا، اس کی پتلی انگلیوں میں یوں کانپ رہا تھا گویا سزائے موت کا قیدی پھانسی کے سامنے کھڑا ہے۔ کلاک نے بارہ بجائے، پہلی ضرب پر انگلیاں متحرک ہوئیں اور آخری ضرب پر کاغذ کا وہ ٹکڑا ایک ننھی سی گولی بنا دیا گیا۔ انگلیوں نے یہ کام بڑی بے رحمی سے کیا اور جس شخص کی یہ انگلیاں تھیں اور بھی زیادہ بے رحمی سے اس گولی کو نگل گیا۔ اس کے لبوں پر ایک تیزابی مسکراہٹ پیدا ہوئی اور اس نے خالی کیلنڈر کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھا اور کہا، ”میں تمہیں کھا گیا ہوں۔۔۔ بغیر چبائے نگل گیا ہوں۔“۔ اس کے بعد ایک ایسے قہقہے کا شور بلند ہوا جس میں ان توپوں کی گونج دب گئی جو نئے سال کے آغاز پر کہیں دور داغی جارہی تھیں۔ جب تک ان توپوں کا شور جاری رہا، اس کے سوکھے ہوئے حلق سے قہقہے آتشیں لاوے کی طرح نکلتے رہے، وہ بے حد خوش تھا، بے حد خوش، یہی وجہ تھی کہ اس پر دیوانگی کا عالم طاری تھا۔ اس کی مسرت آخری درجہ پر پہنچی ہوئی تھی، وہ سارے کا سارا ہنس رہا تھا۔ مگر اس کی آنکھیں رو رہی تھیں اور جب اس کی آنکھیں ہنستیں تو آپ اس کے سکڑے لبوں کو دیکھ کر یہی سمجھتے کہ اس کی روح کسی نہایت ہی سخت عذاب میں سے گزر رہی ہے۔ بار بار وہ نعرہ بلند کرتا، ”میں تمہیں کھا گیا ہوں۔۔۔ بغیر چبائے نگل گیا ہوں۔۔۔ ایک ایک کرکے تین سو چھیاسٹھ دنوں کو، لیپ دن سمیت!“۔ خالی کیلنڈر اس کے اس عجیب و غریب دعوے کی تصدیق کررہا تھا۔ آج سے ٹھیک چار برس پہلے جب وہ اپنے کندھوں پر مصیبتوں کا پہاڑ اٹھا کر اپنی روٹی آپ کمانے کے لئے میدان میں نکلا تو کتنے آدمیوں نے اس کا مضحکہ اڑایا تھا۔ کتنے لوگ اس کی ”ہمت“ پر زیرِ لب ہنستے تھے مگر اس نے ان باتوں کی کوئی پروا نہ کی تھی اور اسے اب بھی کسی کی کیا پروا تھی، اس کو صرف اپنے آپ سے غرض تھی اور بس، دوسروں کی جنت پر وہ ہمیشہ اپنی دوزخ کو ترجیح دیتا رہا تھا اور اب بھی اسی چیز پرپابند تھا۔ وہ ان دنوں گدھوں کی سی مشقت کررہا تھا، کتوں سے بڑھ کر ذلیل زندگی بسر کررہا تھامگر یہ چیزیں اس کے راستے میں حائل نہ ہوتی تھیں۔ کئی بار اسے ہاتھ پھیلانا پڑا۔۔۔ اس نے ہاتھ پھیلایا، لیکن ایک شان کے ساتھ۔ وہ کہا کرتا تھا، ”یہ سب بھکاری جو سڑکوں پر جھولیاں پھیلائے اور کشکول بڑھائے پھرتے رہتے ہیں، گولی مار کر اڑا دینے چاہئیں۔ بھیک لے کر یہ ذلیل کتے شکر گزار نظر آتے ہیں۔ حالانکہ انہیں شکریہ گالیوں سے ادا کرنا چاہئے۔ جو بھیک مانگتے ہیں وہ اتنے لعنتی نہیں جتنے کہ یہ لوگ جو دیتے ہیں۔ دان پْن کے طور پر۔۔۔ جنت میں ایک ٹھنڈی کوٹھری بک کرانے والے سوداگر!“۔ اس کو کئی مرتبہ روپے پیسے کی امداد حاصل کرنے کی خاطر شہر کے دھن وانوں کے پاس جانا پڑا، اس نے ان دولت مندوں سے امداد حاصل کی، ان کی کمزوریاں انہی کے پاس بیچ کر اور اس نے یہ سودا کبھی اناڑی دکاندار کی طرح نہیں کیا، آپ شہر کی صحت کے محافظ مقرر کئے گئے ہیں لیکن درحقیقت آپ بیماریاں فراہم کرنے کے ٹھیکیدار ہیں۔ حکومت کی کتابوں میں آپ کے نام کے سامنے ہیلتھ آفیسر لکھا جاتا ہے مگر میری کتاب میں آپ کا نام امراض فروشوں کی فہرست میں درج ہے۔ پرسوں مارکیٹ میں آپ نے سنگتروں کے دو سو ٹوکرے پاس کرکے بھجوائے جو طبی اصول کے مطابق صحت عامہ کے لئے سخت مضر تھے۔ دس روز پہلے آپ نے قریباً دو ہزار کیلوں پر اپنی آنکھیں بند کرلیں جن میں سے ہر ایک ہیضہ کی پڑیا تھی اور آج آپ نے اس بوسیدہ اور غلیظ عمارت کو بچا لیا جہاں بیماریاں پرورش پاتی ہیں اور۔ اسے عام طور پر آگے کہنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی تھی، اس لئے کہ اس کا سودا بہت کم گفتگو ہی سے طے ہوجاتا تھا۔ وہ ایک سستے اور بازاری قسم کے اخبار کا ایڈیٹر تھا، جس کی اشاعت دو سو سے زیادہ نہ تھی۔ دراصل وہ اشاعت کا قائل ہی نہ تھا۔ وہ کہا کرتا تھا، ”جو لوگ اخبار پڑھتے ہیں بیوقوف ہیں اور جو لوگ اخبار پڑھ کر اس میں لکھی باتوں پر یقین کرتے ہیں، سب سے بڑے بیوقوف ہیں۔ جن لوگوں کی اپنی زندگی ہنگامے سے پُر ہو، ان کو اِن چھپے ہوئے چیتھڑوں سے کیا مطلب؟“۔ وہ اخبار اس لئے نہیں نکالتا تھا کہ اسے مضامین لکھنے کا شوق تھا یا وہ اخبار کے ذریعے سے شہرت حاصل کرنا چاہتا تھا، نہیں، بالکل نہیں۔ ایک دو گھنٹے کی مصروفیت کے سوا جو اس کے اخبار کی اشاعت کے لئے ضروری تھی وہ اپنا بقیہ وقت ان خوابوں کی تعبیر دیکھنے میں گزارا کرتا تھا جو ایک زمانہ سے اس کے ذہن میں موجود تھے۔ وہ اپنے لئے ایک ایسا مقام بنانا چاہتا تھا جہاں اسے کوئی نہ چھیڑ سکے۔ جہاں وہ اطمینان حاصل کرسکے۔۔۔ خواہ وہ دو سیکنڈ ہی کا کیوں نہ ہو۔ ”جنگ کے میدان میں فتح، برلبِ گورہی نصیب ہو۔ مگر ہو ضرور۔ اور اگر شکست ہوجائے، پٹنا پڑے تو بھی کیا حرج ہے۔ شکست کھائیں گے لیکن فتح حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے۔ موت ان کی ہے جو موت سے ڈر کر جان دیں اور جو زندہ رہنے کی کوشش میں موت سے لپٹ جائیں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ کم از کم اپنے لئے!“۔ دنیا اس کے خلاف تھی۔ جو شخص بھی اس سے ملتا تھا اس سے نفرت کرتا تھا۔ وہ خوش تھا۔ نفرت میں محبت سے زیادہ تیزی ہوتی ہے۔ اگر سب لوگ مجھ سے محبت کرنا شروع کردیں تو میں اس پہیے کے مانند ہوجاؤں جس میں اندر باہر، اوپر نیچے سب جگہ تیل دیا گیا ہو۔ میں کبھی اس گاڑی کو آگے نہ دھکیل سکوں گا جسے لوگ زندگی کہتے ہیں۔ قریب قریب سب اس کے خلاف تھے اور وہ اپنے ان مخالفین کی طرف یوں دیکھا کرتا تھا، گویا وہ موٹر کے انجن میں لگے ہوئے پرزوں کو دیکھ رہا ہے، ”یہ کبھی ٹھنڈے نہیں ہونے چاہئیں۔“ اور اس نے اب تک ان کو ٹھنڈا نہ ہونے دیا تھا۔ وہ اس الاؤ کو جلائے رکھتا تھا جس پر وہ ہاتھ تاپ کر اپنا کام کیا کرتا تھا۔ جس روز وہ اپنے مخالفین میں کسی نئے آدمی کا اضافہ کرتا تو اپنے دل سے کہا کرتا تھا، ”آج میں نے الاؤ میں ایک اور سوکھی لکڑی جھونک دی ہے جو دیر تک جلتی رہے گی۔“ اس کے ایک مخالف نے جلسے میں اس کے خلاف بہت زہر اگلا۔ اسے بہت بُرا بھلا کہا، حتیٰ کہ اسے ننگی گالیاں بھی دیں، اس کے مخالف کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ سن کر اسے نیند نہ آئے گی مگر اس کے برعکس وہ تو اس روز معمول کے خلاف بہت آرام سے سویا اور اسے خود ساری رات آنکھوں میں کاٹنا پڑی۔ شب بھر اس کا ضمیر اُسے ستاتا رہا۔ حتیٰ کہ صبح اٹھ کر وہ اس کے پاس آیا اور بہت بڑے ندامت بھرے لہجہ میں اس سے معذرت طلب کی۔ ”مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے آپ جیسے بلند اخلاق انسان کو بُرا بھلا کہا، گالیاں دیں۔ دراصل۔ دراصل میں نے یہ سب کچھ بہت جلد بازی میں کیا۔ سوچے سمجھے بغیر۔ مجھے اکسایا گیا تھا۔ میں اپنے کئے پر نادم ہوں اور مجھے امید ہے کہ آپ مجھے معاف فرما دیں گے۔ مجھ سے سخت غلطی ہوئی!“ بلند اخلاق۔! اسے اس لفظ اخلاق سے بہت چڑ تھی۔ اخلاق رُخِ انسانیت کا غازہ۔ اخلاق۔ اخلاق، اخلاق۔ یعنی چہ۔۔؟ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو کی بے معنی گردان۔ انسان کی آزادانہ سرگرمیوں پر بٹھایا ہوا سینسر!۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کے کمزور دل مخالف نے جھوٹ بولا۔ مگر نامعلوم اس کے دل میں غصہ کیوں نہ پیدا ہوا۔۔۔ بخلاف اس کے اسے ایسا محسوس ہوا کہ جو شخص اس کے سامنے بیٹھا معافی مانگ رہا ہے اس کی کوئی نہایت ہی عزیز شے فنا ہوگئی ہے۔ وہ غایت درجہ بے رحم تصور کیا جاتا تھا اور اصل میں وہ تھا بھی بے رحم، نرم و نازک جذبات سے اس کا سینہ بالکل پاک تھا مگر اس پتھر پر سے کوئی چیز رینگتی ہوئی نظر آئی۔ اسے اس شخص پر رحم آنے لگا۔ ”آج تم روحانی طور پر مر گئے ہو اور مجھے تمہاری اِس موت پر افسوس ہے!“ یہ سن کر اس کے مخالف کو پھر گالیاں دینا پڑیں مگر اس کے کانوں تک کوئی آواز نہ پہنچ سکی۔ مدت ہوئی وہ اس کو کسی دور دراز قبرستان میں دفن کر چکا تھا۔ چار برس سے وہ اسی طرح جی رہا تھا، زبردستی، دنیا کی مرضی کے خلاف، بہت سی قوتیں اس کو پسپا کر دینے پر تلی رہتی تھیں مگر وہ اپنے وجود کا ایک ذرہ بھی جنگ کے بغیر ان کے حوالے کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ جنگ، جنگ، جنگ۔۔ ہر مخالف قوت کے خلاف جنگ۔ رحم و ترحم سے ناآشنائی، عشق و محبت سے پرہیز۔ امید، خوف اور استقبال سے بیگانگی۔ اور پھر جو ہو سو ہو!۔ چار برس سے وہ زمانے کی تیزوتند ہوا میں ایک تناور اور مضبوط درخت کی طرح کھڑا تھا۔ موسموں کے تغیروتبدل نے ممکن ہے اس کے جسم پر اثر کیا ہو مگر اس کی روح پر ابھی تک کوئی چیز اثرانداز نہ ہوسکی تھی۔ وہ ابھی تک ویسی ہی تھی۔ جیسی کہ آج سے چار برس پہلے تھی، فولاد کی طرح سخت، یہ سختی قدرت کی طرف سے عطا نہیں کی گئی تھی بلکہ خود اس نے پیدا کی تھی۔ وہ کہتا تھا، ”نرم و نازک روح کو اپنے سینے میں دبا کر تم زمانے کی پتھریلی زمین پر نہیں چل سکو گے۔ جو پھول کی پتی سے ہیرے کا جِگر کاٹنا چاہے اسے پاگل خانے میں بند کردینا چاہئے۔“ شاعرانہ خیالات کو اس نے اپنے دماغ میں کبھی داخل نہ ہونے دیا تھا اور اگر کبھی کبھار غیرارادی طور پر وہ اس کے دماغ میں پیدا ہوجاتے تھے تو وہ ان کا فوراً گلا گھونٹ دیا کرتا تھا۔ اس نے اپنے سازِ حیات سے ساری طربیں اُتار دیں تھیں۔ اس نے اس میں سے وہ تمام تار نوچ کر باہر نکال دیئے تھے جن میں سے نرم و نازک سُر نکلتے ہیں۔ ”زندگی کا صرف ایک راگ ہے اور وہ رجز ہے۔ جو آگے بڑھنے، حملہ کرنے، مرنے اور مارنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اس کے سوا باقی تمام راگنیاں فضول ہیں جو اعضا پر تھکاوٹ طاری کرتی ہیں“۔ اس کا دل شباب کے باوجود عشق و محبت سے خالی تھا۔ اس کی نظروں کے سامنے سے ہزارہا خوبصورت لڑکیاں اور عورتیں گزر چکی تھیں مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اس کے دل پر اثر نہ کیا تھا۔۔۔ وہ کہا کرتا تھا، ”اس پتھر میں عشق کی جونک نہیں لگ سکتی!“ وہ اکیلاتھا، بالکل اکیلا۔۔۔ کھجور کے اس درخت کے مانند جو کسی تپتے ہوئے ریگستان میں تنہا کھڑا ہو۔ مگر وہ اس تنہائی سے کبھی نہ گھبرایا تھا۔ دراصل وہ کبھی تنہا رہتا ہی نہ تھا۔ ”جب میں کام میں مشغول ہوتا ہوں تو وہی میرا ساتھی ہوتا ہے اور جب میں اس سے فارغ ہوجاتا ہوں تو میرے دوسرے خیالات و افکار میرے گردوپیش جمع ہوجاتے ہیں۔ میں ہمیشہ اپنے دوستوں کے جمگھٹے میں رہتا ہوں۔“ وہ اپنے دن یوں بسر کرتا تھا جیسے آم کھا رہا ہے۔ شام کو جب وہ بستر پر دراز ہوتا تھا تو ایسا محسوس کیا کرتا تھا کہ اس نے دن کو، چوسی ہوئی گٹھلی کے مانند پھینک دیا ہے۔ اگر آپ اس کے کمرے کی ایک دیوار ہوتے تو کئی بار آپ کے ساتھ یہ الفاظ ٹکراتے جو کبھی کبھی سوتے وقت اس کی زبان سے نکلا کرتے تھے، ”آج کا دن کتنا کھٹا تھا۔ اس برس کے ٹوکرے میں اگر بقایا دن بھی اسی قسم کے ہوئے تو مزا آجائے گا!“ چار برس سے وہ اسی طرح زندگی بسر کررہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک اونچے چبوترے پربیٹھا ہے۔ ہاتھ میں ہتھوڑا لئے۔ زمانہ کا آہنی فیتہ اس کے سامنے سے گزر رہا ہے اور وہ اس فیتے پر ہتھوڑے کی ضربوں سے اپنا ٹھپہ لگائے جارہا ہے۔ ایک دن جب گزرنے لگتا ہے تو وہ فیتے کو تھوڑی دیر کے لئے تھام لیتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر کہتا ہے، ”اب جاؤ، میں تمہیں اچھی طرح استعمال کرچکا ہوں۔“۔ بعض لوگوں کو افسوس ہوا کرتا ہے کہ ہم نے فلاں کام فلاں وقت پر کیوں نہیں کیا اور یہ پچھتاوا وہ دیر تک محسوس کیا کرتے ہیں مگر اسے آج تک اس قسم کا افسوس یا رنج نہیں ہوا۔ جو وقت سوچنے میں ضائع ہوتا ہے وہ اس سے بغیر سوچے سمجھے فائدہ اٹھانے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ خواہ انجام کار اسے نقصان ہی کیوں نہ پہنچے۔ اگر سوچ سمجھ کر چلنے ہی میں فائدہ ہوتا تو ان نیکوکاروں کی زندگی تکلیفوں اور ناکامیوں سے بھری ہوئی ہرگز نہ ہوتی، جو ہر کام بڑے غوروفکر سے کیا کرتے تھے۔ اگر سوچ بچار کے بعد بھی نقصان ہو یا ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے تو کیا اس سے یہ بہتر نہیں کہ غوروفکر میں پڑنے کے بغیر ہی نتائج کا سامنا کرلیا جائے۔ اسے ان چار برسوں میں ہزارہا ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ صرف منہ ہی نہیں بلکہ ان کو سر سے پیر تک دیکھنا پڑا تھا مگر وہ اپنے اصول پر اسی طرح قائم تھا جس طرح تند لہروں میں ٹھوس چٹان کھڑی رہتی ہے۔ آج رات بارہ بجے کے بعد نیا سال اس کے سامنے آرہا تھا اور پرانے سال کو وہ ہضم کرگیا تھا۔ بغیر ڈکار لئے۔ نئے سال کی آمد پر وہ خوش تھا جس طرح اکھاڑے میں کوئی نامور پہلوان اپنے نئے مدمقابل کی طرف خم ٹھونک کر بڑھتا ہے۔ اسی طرح وہ نئے سال کے مقابلے میں اپنے ہتھیاروں سے لیس ہو کر کھڑا ہوگیا تھا۔ اب وہ بلند آواز میں کہہ رہا تھا، ”میں تم جیسے پہلوانوں کو پچھاڑ چکا ہوں۔ اب تمہیں بھی چاروں شانے چِت گرا دوں گا۔“ جی بھر کر خوشی منانے کے بعد وہ نئے کیلنڈر کی طرف بڑھا جو میلی دیوار پر اوپر کی طرف سمٹ رہا تھا۔ تاریخ نما سے اس نے اوپر کا کاغذ ایک جھٹکے سے علیحدہ کردیا اور کہا، ”ذرا نقاب ہٹاؤ تو۔۔۔ دیکھو ں تمہاری شکل کیسی ہے۔ میں ہوں تمہارا آقا۔ تمہارا مالک۔ تمہارا سب کچھ!“ یکم جنوری کی تاریخ کا پتا عریاں ہوگیا۔ ایک قہقہہ بلند ہوا اور اس نے کہا:
”کل رات تم فنا کر دیئے جاؤ گے!“

مطلقہ خبریں