Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کشمیر اور ہماری بے حسی۔۔

کشمیر کی تحریکِ آزادی دُنیا کے دیگر خطوں میں جاری تحریکوں سے قدرے مختلف ہے
فاروق اعظم

آزادی کی تحریکیں زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہتیں، یہ رفتہ رفتہ ضعف کا شکار ہوجاتی ہیں یا مقصد حاصل کرکے تحلیل ہوجاتی ہیں۔ معاصر دنیا میں یہ کہنا تاریخی طور پر درست ہوگا، تاہم کشمیر کی تحریکِ آزادی دنیا کے دیگر خطوں میں جاری تحریکوں سے قدرے مختلف ہے۔ جدید تاریخِ کشمیر میں آزادی کی تحریک 1931ء میں اس وقت شروع ہوئی، جب مسلمانانِ کشمیر نے ڈوگرہ راج کی مطلق العنانیت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا تھا۔ کشمیریوں نے ابتداً ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم سے نجات کے لئے آزادی کی تحریک شروع کی تھی، بعدازاں 1947ء میں جب ہندوستان تقسیم ہوا اور یہاں کی شاہی ریاستوں کو برطانوی ہند کے سقوط کے بعد اس کی جانشین حکومتوں (انڈیا/پاکستان) کے ساتھ سیاسی بندوبست کے لئے ازسرنو معاہدوں کی ضرورت پیش آئی، تو یہ امید کی جارہی تھی کہ مہاراجہ کشمیر اپنی رعایا کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ اس موقع پر کشمیر کی تحریکِ آزادی میں ایک نیا موڑ آیا۔ کشمیریوں نے ڈوگرہ حکمرانوں سے کامل آزادی کی تحریک شروع کی اور ان کا مطمح نظر الحاقِ پاکستان ٹھہرا۔
تقسیمِ ہند کے بعد اس تحریک پر پون صدی کا عرصہ بیت گیا، کشمیر کی تحریک آزادی سے جن نامور کشمیری شخصیات کو پہچان ملی، ان میں سے شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس کا دور ہم نے کتابوں میں پڑھا اور بزرگوں سے سنا، سید علی گیلانی کا دور ہم نے ازخود پایا اور مشاہدہ کیا، اب یہ تحریک تیسری نسل کو منتقل ہوچکی ہے، کسی بھی تحریک کے لئے اس قدر طویل دورانیہ معمولی نہیں ہوتا، طویل عرصہ تک جاری رہنے والی تحریکیں اپنا اثر کھو دیتی ہیں، تاہم کشمیر کی تحریک آزادی میں برہان مظفر وانی جیسے نوجوان آج بھی قربانیاں پیش کررہے ہیں، اگر ایک جانب اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ کشمیریوں نے وسیع پیمانے پر قربانیاں دینے کے باجود آزادی کی صبح نہیں دیکھی تو دوسری جانب اس بات پر حوصلہ بھی ملتا ہے کہ ایک ایٹمی قوت وسیع پیمانے پر انسانیت سوز مظالم کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے میں ناکام ہوئی ہے۔ کشمیر کی آزادی کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں حائل ہیں، اول انڈیا کی ہٹ دھرمی اور دوم عالمی برادری کی بے حسی۔ 1948ء میں جب مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تو اس تنازعے نے عالمی توجہ حاصل کی، اس طرح بڑی طاقتوں نے بھی اس مسئلے میں دلچسپی لی اور اپنے مفادات کی خاطر پاکستان و انڈیا کی حلیف بنیں۔ 1948-49ء میں اقوام متحدہ کمیشن برائے ہند و پاکستان کی منظور کردہ تفصیلی قراردادوں کی روشنی میں یہ طے پایا تھا کہ جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ مقامی ریاستی باشندے کریں گے۔ کشمیریوں کے لئے حقِ خودارادیت تسلیم کرلیا گیا، لیکن ان کو یہ حق تاحال نہیں دیا گیا، اس راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، دراصل انڈیا چاہتا ہی نہیں ہے کہ کشمیری باشندے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے الحاق کا فیصلہ کرے، انڈیا کے نزدیک اس کا مطلب جموں و کشمیر سے دستبردار ہونا ہے کیونکہ کشمیریوں کی اکثریت انڈیا سے الحاق کی خواہشمند نہیں ہے، اگر انڈیا کو ذرا بھی امید ہوتی تو وہ رائے شماری کی راہ میں رکاوٹوں کے بجائے اس کے انعقاد کی راہ ہموار کرتا۔ انڈیا نے سلامتی کونسل کی قراردادوں سے روگردانی کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لئے دو طریقے اختیار کیے ہیں، اول عالمی برادری بشمول سلامتی کونسل کو مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کے کردار سے باز رکھا جائے، دوم مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنے پاؤں جمانے کے لئے حریت پسندوں پر بدترین تشدد کی پالیسی اختیار کی جائے، جہاں تک تشدد کی بات ہے 2014ء میں نریندر مودی کا وزیراعظم بننے کے بعد بھارتیہ جتنا پارٹی (بی جی پی) کے دورِحکومت میں انڈیا نے اس پالیسی پر جس طرح عمل کیا ہے اس کی نظیر گزشتہ دہائیوں میں نہیں ملتی، اس وقت کشمیری حریت لیڈر شپ جیلوں میں بند ہے، ان پر مختلف سیاسی مقدمات بنائے گئے ہیں، انڈیا چاہتا ہے کہ حریت پسند قیادت کسی صورت جیل سے باہر نہ آئے، گزشتہ دو برسوں کے دوران تین حریت پسند رہنما سید علی گیلانی، محمد اشرف صحرائی اور الطاف احمد شاہ دوران حراست انتقال کرگئے جبکہ شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، مسرت عالم بٹ اور آسیہ اندرابی سمیت متعدد رہنما خرابی صحت کے باوجود دہلی کی تہاڑ جیل میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ انڈیا نے نہ صرف حریت پسند رہنماؤں کو بند رکھا ہے بلکہ ایسے ہزاروں نوجوان بھی جو حق خودارادیت کی بات کرتے ہیں، جیلوں اور تفتیشی مراکز میں زیرحراست ہیں یا لاپتہ کردیئے گئے ہیں، مقبوضہ جموں و کشمیر میں خوف کا یہ عالم ہے کہ کوئی شخص کشمیر کی تحریک آزادی کے حوالے سے تبادلہ خیال بھی نہیں کرسکتا۔ 2020ء میں جب راقم کشمیر کی سیاسی تحریکوں پر تحقیق کے لئے مواد جمع کررہا تھا تو درکار معلومات کے لئے مقبوضہ کشمیر کے ایک صحافی سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ قائم کیا، وہ راقم کے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے قاصر تھا اور ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ آپ انٹرنیٹ کے سہارے یہ تمام معلومات تلاش کرلیں۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ ہم کس قدر سخت پہرے میں ہیں، ہماری ہر بات نوٹ کی جارہی ہے اور مسلسل نگرانی ہورہی ہے۔ گزشتہ سال برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی سیربین میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی، جس میں بعض کشمیریوں کی شناخت ظاہر کیے بغیر ان کے ساتھ کشمیر میں امن کے حوالے سے بات کی گئی تھی، کشمیری مرد وخواتین نے جو تاثرات بیان کئے، وہ اگست 2019ء کے بعد کشمیر کا منظرنامہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں، ایک خاتون کا کہنا تھا: ”انڈین حکومت اب مختلف طریقوں سے آوازوں کو دبا رہی ہے، پہلے ایسا ہوتا تھا کہ احتجاج ہوں گے اور یہ تصور تھا کہ تشدد ہوگا، بندوقیں ہوں گی، راستوں پر جھڑپیں ہوں گی لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے“۔ ایک اور خاتون کا کہنا تھا: ”لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے، کوئی لکھے تو وہ گرفتار ہوجاتا ہے، صرف کشمیر کے باہر نہیں بلکہ کشمیر کے اندر بھی کوئی خبر نہیں، ہم جو سانس لیتے ہیں اس تک میں خوف ہے“۔ ایک نوجوان کشمیری نے بتایا: ”صرف کشمیری ہی نہیں، مجھے لگتا ہے انڈیا بھی اس خاموشی پر الجھن میں ہے، پتا نہیں کشمیریوں کی خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھ داری ہے یا پھر ناامیدی“۔ ان حالات میں اگر انڈیا یہ بیان دے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں خاموشی کے پیچھے ”امن“ ہے تو اس کو ہٹ دھرمی اور بے شرمی کا نام نہ دیا جائے تو اور کیا کہا جائے؟

مقبوضہ کشمیر میں شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ موسم بہار پُرسکون گزرا ہو، برف پگھلتے ہی کشمیر میں سیاسی طور پر بھی درجہ حرارت بڑھ جاتا تھا، پرزور ایجی ٹیشن شروع ہوجاتی تھی، 2008ء کی شرائن بورڈ تحریک کے بعد تسلسل کے ساتھ بھرپور عوامی احتجاج معمول کا حصہ بن گیا تھا لیکن اگست 2019ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی کشمیر میں جس قدر وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ شروع ہوا، وہ تاحال تھم نہ سکا۔ اگرچہ کشمیری ان مشکل حالات میں بھی حقِ خودارادیت کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے، تحریکِ آزادی کا سفر تاحال جاری ہے لیکن عالمی برادری کی بے خبری یا بے حسی کے باعث انڈیا کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر چہار سو خاموشی نظر آتی ہے۔ انڈیا کی کوشش ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات سے باہر کی دنیا بے خبر رہے۔ ذرائع ابلاغ پر بدترین پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ کشمیر میں ایک عرصہ سے اخبارات سنسر شپ کی پابندیوں سے گزر رہے ہیں۔ سیاسی ڈائری لکھنے پر پابندی ہے۔ اداریوں اور کالموں میں تحریک ِ مزاحمت پر بات نہیں ہوتی۔ اس صورت حال میں کشمیر کے حالات سے بیرونی دنیا کیسے باخبر ہوگی اور مقامی کشمیری احتجاج ریکارڈ کروائے تو کیسے؟
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود سلامتی کونسل، عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کیدفتر ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (اوایچ سی ایچ آر) نے 2018ء اور 2019ء میں جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر دو رپورٹیں شائع کی تھیں، اس کے بعد چار سال گزر گئے اور صورت حال پہلے سے زیادہ تشویش ناک ہے، لیکن اس کے باوجود عالمی برادری کی توجہ اس جانب نہیں ہے۔ دراصل انڈیا دنیا کے لئے ایک بڑی اقتصادی منڈی ہے، بیشتر ممالک کے انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں، باہمی مفادات کی خاطر مسلم ممالک بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر رسمی احتجاج نہیں کر پا رہے۔
پاکستان سالانہ بنیادوں پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اور او آئی سی کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں روایتی طور پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتا ہے۔ دوسری جانب انڈیا نے نہ صرف کشمیر میں زبان بندی اور انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، بلکہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وہاں نئے قوانین متعارف کروا کر آبادی کا تناسب بھی بگاڑ رہا ہے۔ یہ نہایت سنگین واردات ہے، اس طرح مستقبل میں منصفانہ رائے شماری کا راستہ مسدود ہوجائے گا۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز قیادت بھی احتجاج نہیں کرپا رہی۔ حالانکہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ان کی سیاست کی بنیاد تھی۔ اسی طرح سلامتی کونسل، جس کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر تاحال موجود ہے، وہ ان حالات میں بے حسی کا نمونہ بنا ہوا ہے۔ اگست 2019ء کے بعد سلامتی کونسل نے کشمیر کے مسئلے پر دو مرتبہ ان کیمرہ اجلاس منعقد کیا، لیکن نتائج ندارد۔ دراصل سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ مصالحانہ حیثیت میں کردار نبھانہ پسند کیا ہے، حالانکہ اس سنگین مسئلے پر تادیبی اقدامات کی ضرورت ہے، جس کی اجازت اقوام متحدہ کا منشور بھی دیتا ہے۔ یہی صورتِ حال بڑی طاقتوں اور عالمی برادری کی بھی ہے۔ 2019ء میں جب انڈیا نے یکطرفہ طور پر اقدامات کیے اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، تو اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان و بھارت کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی، لیکن انڈیا کے وزیرخارجہ ایس جیشنکر نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہہ کر اس پیشکش کو مسترد کیا کہ مسئلہ کشمیر پر جب بھی بات چیت ہوگی وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوگی۔ انڈیا عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر پر کردار ادا کرنے سے باز رکھنے کے لئے مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ ظاہر کرتا آیا ہے اور اس ضمن میں شملہ معاہدے کا حوالہ دیتا ہے حالانکہ اسی معاہدے میں مذکور ہے کہ کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر صورتِ حال میں تبدیلی نہیں کرسکے گا لیکن اس کے باجود انڈیا نے اگست 2019ء اس عہدوپیمان کو چاک کردیا، جس کا سہارا وہ ہمیشہ لیتا رہا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہوچکا ہے کہ پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی روکنے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ اس سلسلے میں چند نکات قابل توجہ ہیں 2019ء میں پاکستان میں اُس وقت کی حکومت نیاعلان کیا تھا کہ دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے دفتر خارجہ میں کشمیر سیل اور سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کیا جائے گا۔ ضروری ہوچکا ہے کہ عالمی برادری کو کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنے کے لئے دفترخارجہ میں کشمیر سیل اور دنیا بھر میں پاکستان کے تمام سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک کو فعال کیا جائے، ماہانہ بنیادوں پر دوست ممالک کو دستاویزات فراہم کئے جائیں اور ان کے ذریعے انڈیا پر سفارتی دباؤ ڈالا جائے۔
کشمیری حریت پسند رہنماؤں پر مشمتل کشمیر کی سفاتی کونسل تشکیل دی جائے اور ان کے ذریعے عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کی حساسیت سے آگاہ کیا جائے۔
پاکستان اور کشمیر کی مجوزہ سفارتی کونسل دنیا کو یہ باور کرائے کہ مسئلہ کشمیر دو ممالک کے درمیان سرحد کا تنازع نہیں ہے بلکہ یہ کشمیریوں کی قومی آزادی کا مسئلہ ہے۔ کشمیر میں جاری انسانیت سوز مظالم لمحہ فکریہ ہے۔
سلامتی کونسل کو باور کروایا جائے کہ مسئلہ کشمیر کا تصفیہ کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ خطے میں ممکنہ جنگ کے خطرات کو ٹالنے کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کیا جائے۔
مسئلہ کشمیر کی حساسیت سے ہر خاص و عام کو باخبر رکھنے کے لئے ذرائع ابلاغ پر اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر پیش کرنے کا اہتمام کیا جائے، اس سلسلے میں تعلیمی و تحقیقی اداروں اور لٹریچر کا سہارا لیا جائے اور کشمیر پر تحقیق و مطالعے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

مطلقہ خبریں