Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

”آنسو بھی عبادت ہے“

تبصرہ: نصرت مرزا
یونس ہمدمؔ صاحب فلمی دُنیا میں اپنے گیتوں کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے، یہاں تک کہ انہوں نے پھر فلم کا سفر شروع کیا اور شاعری کی دُنیا میں نام بنانے میں کوشاں ہوگئے، اُن کی فلمی دُنیا کی مقبولیت کے حوالے سے سحر ؔانصاری نے ان کے مجموعہ کلام ”آنسو بھی عبادت ہے“ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ یونس ہمدم ؔصاحب سے ناواقف تھے، وہ کسی کے توسط سے میرے پاس آئے تو اُن کے بیٹے نے دروازہ کھولا۔ ابھی ہمدم صاحب نے کہا ہی تھا کہ اُن کی شعری مجموعہ پر کچھ لکھ دیں کہ سحر ؔانصاری صاحب کے صاحبزادے یونس ہمدم ؔصاحب کے لئے چائے اور بسکٹ لے آئے، جس سے سحر ؔانصاری صاحب کو اندازہ ہوا کہ نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں اور یوں بعد میں پتہ چلا کہ وہ فلمی گیت لکھتے رہے ہیں اس لئے نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں۔
یونس ہمدم ؔصاحب نیوجرسی امریکا میں رہتے ہیں اور ہر سال پاکستان آتے ہیں تو ایک کتاب کا تحفہ ساتھ لاتے ہیں۔ وہ پہلے اپنی کتاب کے مسودہ کو اپنی آمد سے پہلے بھیج دیتے ہیں، جب وہ پاکستان پہنچتے ہیں تو اُنہیں کتاب چھپی چھپائی حالت میں مل جاتی ہے، جیسے کہ اُن کا یہ شعری مجموعہ ”آنسو بھی عبادت ہے”۔
میں خرم صاحب کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے کراچی کے دانشوروں کی محفل میں یونس ہمدمؔ کے سخن کلام پر گفتگو کرنے کا موقع دیا، عموماً یہ میرا پسندیدہ میدان نہیں ہے، میں صرف کسی اچھے شعر پر واہ واہ کرسکتا ہوں اور پھر وہ شعر یاد بھی نہیں رہتا۔ میں نے عالمی اور ملکی سیاست اور اقتدار کی کشمکش کے بعد اب اپنے آپ کو اسٹرٹیجک معاملات تک محدود کرلیا ہے، یہ ایسا موضوع ہے جسے بہت کم لوگ سمجھتے ہیں اور داد دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس کو سمجھیں تو داد دیں، میں نے اسٹرٹیجک افیئرز میں سے ایک حصہ پاکستان کے پُرامن ایٹمی پروگرام اور خدمتِ انسانیت کے حوالے سے ایک کتاب ”جوہری نشترِ تحقیق“ لکھی جو اُردو کی پہلی ایٹمی کتاب ہے۔ پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن (PAEC) انسانیت کی خدمت پر جو کام کررہا ہے، میں نے اُن کی خدمات کو احاطہئ تحریر میں لایا ہے اور اِس کتاب کا نام علامہ اقبال کے اس شعر سے مستعار کیا:
کس طرح ہُوا کُند ترا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
اس کتاب پر سوائے جناب محترم لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی اور محمد نعیم چیئرمین ایٹمی انرجی کمیشن کے علاوہ کسی نے داد نہ دی۔ البتہ یونس ہمدمؔ صاحب کے کلام کو داد دینے کے لئے یہاں بہت سے لوگ موجود ہیں لیکن میں نے اس توجہ سے کوئی شعری مجموعہ نہیں پڑھا جیسا کہ ”آنسو بھی عبادت ہے“ پڑھا۔
میں نے محسوس کیا کہ اس شعری مجموعہ کو انتہائی دانائی کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے اور اس کا پیش لفظ اپنے اندر بلا کی کشش رکھتا ہے۔ یہ پیش لفظ بعنوان ”میری باتیں“ شعری مجموعہ پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔
پھر وہ اپنی شعری مجموعہ کو اللہ کی حمد سے شروع کرتے ہیں:
وہ جو کعبہ ہے وہی قبلہ ہے
وہی سجدہ وہی صنم سب کچھ
نور کون و مکاں میں جس کا ہے
اس کے ہونے سے ہی ہیں ہم سب کچھ
پھر وہی میرا خدا ہے
فلک کو جس نے سورج دیا
وہ ہی میرا خدا ہے
رگ و ریشے خیالوں میں بسا ہے
وہ ہی میرا خدا ہے
پھر نعت کے اشعار ہیں:
نام محمدؐ لکھتے لکھتے ایک سمندر چاہوں
قطرہ قطرہ بولے قلم سے سیاہی میں بن جاؤں
اور پھر ”ماں“ کے عنوان سے اشعار لکھے گئے:
ماں کی دُعا تو وہ ہے جو خالی نہیں جاتی
سانسوں سے ماں کی خوشبو نکالی نہیں جاتی
اس کے بعد انہوں نے غزلیات لکھی ہیں جو اُن کے تجربات اور احساسات کی عکاسی کرتی ہیں۔ پھر زمانے کی اچھائی اور بُرائیوں کو موضوع سخن بنایا ہے۔ ماضی و حال کے سیاسی معاملات پر بھی نظر ڈالی ہے اور اس کے بعد انقلاب کا پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ حبیب جالبؔ کے نقش قدم پر چلنے کو پرتول رہے ہیں۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے زبان کو عام فہم رکھی ہے جس سے اُن کے کلام اور پیغام کو دور دور تک رسائی نصیب ہوسکتی ہے اور عام شخص اُن کے خیالات و کلام سے مستفیض ہوسکے گا۔

مطلقہ خبریں