جاری سفر لہو کا بدن پس ابھی بھی ہے
سو نام میرا اہل سخن میں ابھی بھی ہے
پھر حرفِ حق سے آگ لگا دوں نہ دہر میں
شعلہ فشاں زبان دہن میں ابھی بھی ہے
دریائے خاک و خوں سے گزر آئے ہم مگر
احساس! کربِ ذات کا من میں ابھی بھی ہے
گل ہائے رنگ رنگ ہوئے خندہ زن تمام
ٹھہری ہوئی بہار چمن میں ابھی بھی ہے
ہو جستجوئے ذات کی پنرنگیوں میں گم
اک مور ناچتا ہوا من میں ابھی بھی ہے
معیار ہو ادب کا جو تخلیق کی ہو جاں
میرے ہنر میں اور میرے فن میں ابھی بھی ہے
الفاظ کی تلاش میں تھا ہوں ہر گھڑی
تخئیل کی اڑان گگن میں ابھی بھی ہے
خوشیو کو ہم سمیٹ کے رکھتے ہیں اپنے پاس
پہلے بھی دل مگن تھا مگن میں ابھی بھی ہے
لمبی مساحتوں سے رہِ زیست کی سحرؔ
دل کا عجب ہے حال تھکن میں ابھی بھی ہے
حبیب سحرؔ