میں نے کی زندگی بسر تنہا
حوصلے نے کیا سفر تنہا
تم بھی دیکھو کہ ہجر کی شب میں
چاند لگتا ہے کس قدر تنہا
لاکھ ویران راستے ہوں مگر
دل نکلتا ہے بے خطر تنہا
اُس سے میری جدائی لازم تھی
اب تو رونا ہے عمر بھر تنہا
مجھ کو سائے پکارتے ہی رہے
میں نہ ٹھہرا کہیں مگر تنہا
کچھ تو کہئے زبان سے اپنی
آپ آخر چلے کدھر تنہا
جس نے سینچا تھا خون سے اپنے
باغ میں ہے وہ بے ثمر تنہا
جس میں حاصل تری رفاقت تھی
کاٹتا ہے مجھے وہ گھر تنہا
دیکھ کر جی اُداس ہے کاوشؔ
اک پرندے کو شاخ پر تنہا
کاوشؔ عمر