Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور اداکار یوسف خان

یوسف خان نے اپنے فنی سفر میں چار سو کے قریب اردو اور پنجابی فلموں میں کام کیا تھا۔۔
خالد یزدانی
پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور اداکار یوسف خان کی پہلی فلم ”پرواز تھی“ جس کے ہدایتکار اشفاق ملک تھے۔ یہ فلم 1854ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ یوسف خان کے مدمقابل صبیحہ خانم نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ شائقین نے یوسف خان کی اداکاری کو بے حد پسند کیا۔ اس کے بعد فلم ”مجرم“، ”حسرت“، ”بھروسہ“، ”فیصلہ“، ”نیا دور“، ”پہاڑن“، ”خاموش رہو“، ”ماں باپ“، ”سسرال“، ”غرناطہ“ اور”بت شکن“ میں یوسف خان نے مختلف ہیروئنو ں کے ساتھ کام کرکے ثابت کردیا کہ وہ ورسٹال اداکار ہیں اور پھر اردو فلموں کے ساتھ ساتھ پنجابی فلموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ ”ضدی‘ میں مرکزی کردار ادا کرکے اْس سال کے بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اسی طرح ”شریف بدمعاش“، ”ہتھکڑی“،”جٹ مرزا“، ”خطرناک“، ”جبرو“، ”قسمت“، ”ٹیکسی ڈرائیور“، ”چن بدمعاش“، ”امیر تے غریب“، ”عیاش”اور ”جتھے وگدی اے راوی“ کے علاوہ ان کے کریڈٹ پر بے شمار کامیاب فلمیں ہیں۔ وہ ہیرو کے بعد کریکٹر ایکٹر کے رول میں آئے تو ایک بار پھر شائقین نے ان کو بے حد پسند کیا۔ خاص طور پر ”بڈھا گجر“، ”دادا بدمعاش“، ”ارائیں دا کھڑاک“ اور ”بڈھا شیر“ میں یوسف خان کی اداکاری قابل ذکر ہے۔
یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے، میں ان دنوں ایم سی پرائمری اسکول ٹمپل روڈ لاہور میں زیرتعلیم تھا جبکہ رہائش مزنگ تھانہ کے ساتھ گلی میں تھی، چند ہم جماعتوں کا معمول تھا کہ شام کو ٹیچر انور چوہدری جو بھونڈپورہ کے قریب رہائش پذیر تھے کے پاس ٹیوشن پڑھنے جاتے، البتہ اس سے قبل باغ جناح کا ایک چکر ضرور لگایا کرتے تھے، وارث روڈ تالاب کے ساتھ باغ میں کرکٹ کھیلتے تھے، انہی دنوں کی ایک دوپہر کا ذکر ہے، جب اسکول سے گھر آ کر بستہ رکھا اور ہم جماعتوں کے ساتھ باغ جناح کی سیر کے لئے لارنس روڈ کے گیٹ سے اندر پہنچے تو ایک پہاڑی پر کسی فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی، جب ہم سب دوست اوپر پہاڑی پر پہنچے تو بڑی رونق نظر آئی۔ معلوم ہوا کہ وہاں فلم ”نتیجہ“ کی شوٹنگ جاری تھی، فلم بندی دیکھنے والوں کا بھی اژدھام تھا، اس وقت کیمرہ ایک ٹرالی پر رکھا ہوا تھا اور فلم کے ہدایتکار جعفر بخاری تھے، جبکہ قریب دو اداکار تھے جنہیں ڈانس ڈائریکٹر سین سمجھا رہا تھا، ان اداکاروں میں ایک یوسف خان اور ان کے مدمقابل شمیم آرا تھیں جن پر دو گانا فلمبند ہورہا تھا۔ اس طرح پہلی بار ان دونوں اداکاروں کی شوٹنگ کو کچھ دیر دیکھنے کے بعد واپس آگئے، اس وقت معلوم نہ تھا کہ آگے چل کر اسی اداکار سے روزانہ ملاقات رہے گی۔
جن دنوں راقم ایک روزنامہ اخبار میں کلچرل رپورٹر تھا تو روزانہ فلم اسٹوڈیوز جانا پڑتا تھا، لہٰذا وہاں کی فلمی سرگرمیوں کی کوریج کے بعد ایک چکر اداکاروں کی تنظیم ”ماپ“ کے دفتر کا بھی لگتا اور وہاں اس تنظیم کے چیئرمین اداکار یوسف خان سرشام تشریف لے آتے تھے تو پھر ان سے بھی دیر تک نشست رہتی۔ وہ پکے مسلم لیگی اور نوازشریف کے حامی تھے۔ ان کا دفتر جب تک وہ بیٹھتے ایک جرگے کا منظر پیش کیا کرتا تھا، کیونکہ اداکاروں اور فلم سازوں یا مالکان اسٹوڈیوز کے حوالے سے جو شکایت لے کر آتا اسے بحسن وخوبی انجام دیتے تھے۔ ان کی دبنگ شخصیت کے سامنے کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کے فیصلے پر اعتراض کرے کیونکہ وہ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتے تھے۔
پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور اداکار یوسف خان کی ابتدائی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو وہ 1929ء میں پنجاب کے علاقہ قصور میں پیدا ہوئے تھے، دوران تعلیم ایک بار اسٹوڈیو آنے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے پاکستان کی اُردو زبان میں بننے والی فلم ”پرواز“ میں پہلی بار اداکاری کے جوہر دکھائے، یہ وہ دور تھا جب فلمی دنیا میں سنتوش کمار، اسلم پرویز اور سدھیر جیسے اداکار چھائے ہوئے تھے۔ یوسف خان نے اگرچہ اداکاری کا آغاز اردو زبان کی فلموں سے کیا تھا۔ اس دوران شمیم آرا اور جمیلہ رزاق کے ساتھ 1959ء میں کراچی میں بننے والی فلم ”فیصلہ“ میں بھی اداکاری کے جوہر دکھانے کا موقع ملا، قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اسی فلم میں دیبا نے بھی بطور چائلڈ اسٹار پہلی بار کام کیا تھا۔ پچاس کی دہائی میں یوسف خان نے فلم حسرت، بھروسہ اور ناگن میں بھی کام کیا، یوسف خان کو اگرچہ ابتدا میں زیادہ تر ثانوی نوعیت کے کردار ملے مگروہ بڑی دلجمعی سے کام کرتے رہے۔ پچاس سے ساٹھ کی دہائی میں بھی یوسف خان متعدد اردو اور پنجابی فلموں میں کام کرتے رہے، فلم پہاڑن، ہدایتکار جمیل اختر کی فلم خاموش رہو، ریاض شاہد کی اہم موضوع پر لکھی فلم سسرال کے ساتھ ساتھ فلم بدلہ، مکھڑا چن ورگا، سیف الدین سیف کی فلم دروازہ، اور ہدایت کار رشید اختر کی فلم ملنگی جس میں اکمل نے مرکزی کردار کیا تھا، اس میں یوسف خان کا کردار بڑا اہم تھا۔ اسی طرح انہوں نے ہدایت کار اکبر علی اکو کی فلم حاتم طائی میں اپنا کردار بخوبی نبھایا تھا۔ تاج محل اور باؤجی جیسی فلموں میں بھی انہوں نے اپنے کردار سے انصاف کیا۔ اردو اور پنجابی فلموں میں مسلسل کردار ادا کرتے ہوئے ان کو فلمی دنیا میں مکمل قدم جمانے کا بھی موقع ملا اور اس دوران وقت کے بڑے سپر اسٹارز کے ساتھ جس خوداعتمادی سے اپنے کرداروں میں ڈوب کر کام کیا، اسے فلمی دنیا ہی نہیں فلمی شائقین نے بھی بے حد سراہا۔ عوامی اداکار علاؤالدین، محمد علی اور پنجابی فلموں کے دلیپ کمار کہلوانے والے اکمل کے علاوہ، سلطان راہی کے ساتھ کام کرکے ثابت کیا کہ ان میں فنکارانہ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔
ستر کی دہائی یوسف خان کے لئے خوش قسمت ثابت ہوئی۔ ریاض شاہد کی فلم غرناطہ، چن پتر، بابل، عزت تے قانون، خطرناک، باؤ جی، ہتھکڑی اور شریف بدمعاش جیسی متعدد فلموں کے ساتھ ”ضدی“ 1973ء میں نمائش کے لئے پیش کی گئی تھیں۔ فلم ”ضدی“ میں یوسف خان کا کردار ان کی اپنی شخصیت سے بھی مماثلت رکھتا تھا۔ اس فلم کی کامیابی نے انہیں ”سپراسٹار“ بنا دیا اور نوے کی دہائی میں انہوں نے عمر مختار، خداگواہ اور بت شکن جیسی فلموں میں چیلنجنگ کردار ادا کئے۔
2000ء میں ایک بار پھر یوسف خان نے کیریکٹر کردار کرکے شائقین فلم کے دلوں میں جگہ بنائی خاص طور پر ”بڈھا گجر“ اور ”ارائیں دا کھڑاک“ جیسی پنجابی فلموں میں زبردست پرفارمنس دی۔ یوسف خان نے اپنے فنی سفر میں چار سو کے قریب اردو اور پنجابی فلموں میں کام کیا تھا۔ فلم ”ضدی“ میں بہترین اداکاری پر نگار ایوارڈ حاصل کیا اور انہیں پرویز مشرف کے دور میں 2004ء میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
یوسف خان کا اپنا ذاتی ڈسٹری بیوشن آفس بھی رائل پارک میں تھا، جبکہ وہ آرٹسٹوں کی تنظیم ”ماپ“ کے تاحیات چیئرمین بھی رہے۔ ان کا حلقہ احباب بھی بڑا وسیع تھا۔ نہ صرف اداکار، فلم ساز، ہدایتکار، فلمی مصنفین، صحافی بلکہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے احباب بھی ان سے ملاقات کرنے اسٹوڈیو آتے اور یوں رات گئے تک مختلف موضوعات پر سیرحاصل گفتگو ہوتی۔ سرخ و سفید رنگت اور مضبوط جسم کے مالک درازقد، یوسف خان کی گفتگو میں بھی بڑی تاثیر تھی، وہ اردو اور پنجابی میں اس قدر علمی اور اسلامی موضوعات پر گھنٹوں گفتگو کرتے جیسے ضخیم کتابیں انہوں نے حفظ کر رکھی ہیں۔ اداکاری کے علاوہ ان کو کبوتر پروری کا بھی بڑا شوق تھا۔ اگرچہ ان کے والد ان کے اس شوق سے خوش نہ تھے۔ نایاب کبوتروں کے بارے انہیں مکمل معلومات بھی تھیں، اگرچہ وہ کبوتر پروری پر تفصیل سے گفتگو بھی کرتے تھے مگر زندگی کے آخری سالوں میں وہ اس پر کم کم بات کرتے تھے۔
یوسف پروڈکشنز کے بینر تلے انہوں نے متعدد ذاتی فلمیں بھی بنائیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کے سخت خلاف تھے اور کھل کر ہندو ذہنیت کے بارے میں بات کیا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی بھارتی فلمی وفد پاکستان کا دورہ کرتا تو یوسف خان کھل کر اس کی مخالفت کیا کرتے تھے۔
2009ء میں وہ گھر کی سیڑھیوں سے گر گئے تھے اور کچھ عرصہ اسپتال میں زیرعلاج رہنے کے بعد گھر پر ہی آرام کررہے تھے کہ اچانک طبیعت خراب ہونے پر اسپتال لے جایا گیا، اس طرح فلمی دنیا کی یہ بڑی شخصیت عارضہ قلب کے باعث 11 ستمبر 2009ء کو اس جہاں فانی سے رخصت ہوگئی۔ ان کی میت کو ان کے آبائی شہر قصور لے جاکر مقامی قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔
فنکار تو اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں مگر ان سے پیار کرنے والے انہیں کیسے بھول سکتے ہیں یوسف خان بظاہر ”ضدی“ نظر آتے تھے، مگر دل کے نرم اور سخی تھے، کوئی پروڈیوسر آ کر کہتا۔ ”خان صاحب کل میری نئی فلم کا افتتاح ہونے والا ہے۔ فلم میں آپ کا کردار سب سے اہم اور مرکزی ہے اور یقیناً آپ سنیں گے تو پسند کریں گے۔ میں نے دیگر اداکاروں سے بھی بات کرلی ہے مگر آپ کا معاوضہ سب سے زیادہ ہے، وہ انشااللہ فلم کی ریلیز سے قبل ادا کردوں گا کیونکہ میرے مالی حالات آج کل خراب ہیں۔
خان صاحب کا جواب ہوتا۔ ”آپ نے جو وعدہ کیا اسے یاد رکھنا، وعدہ خلافی میرے لئے ناقابل معافی ہے۔“ اور یوں خان صاحب بغیر ایڈوانس فلم میں کام کرتے اور جب فلم نمائش کے لئے تیار ہوجاتی اور تمام ملک میں اس کے حقوق نمائش دے کر فلمساز لاگت سے زیادہ رقم اکٹھی کر لیتا ہے تو ایک بار پھر یوسف خان کے دفتر لکشمی چوک کے قریب رائل پاک کی بلڈنگ کی دوسری منزل آتا اور اپنے حالات کا رونا رو کر طے شدہ معاوضہ میں مزید کمی کروا کر اپنا بریف کیس اٹھائے مسکراتا ہوا سیڑھیاں سے اتر جاتا ہے۔
درحقیقت یوسف خان فلم سازوں کے ساتھ ہرممکن تعاون کرتے، جو کسی وجہ سے مالی خسارے کا شکار ہوں اور کئی فلم ساز ان کی اس کمزوری کا فائدہ بھی اٹھاتے رہے مگر یوسف خان کا ساری زندگی یہی دستور رہا کہ وہ کسی کی مجبوری کے پیش نظر اس کی شرائط کو منظور کر لیتے لیکن فلم ساز اگر طے شدہ معاوضے کی ادائیگی میں پھر بھی لیت و لعل سے کام لیتا تو پھر یوسف خان سے بڑا ”ضدی“ کسی اور نے نہیں دیکھا ہوگا۔ اس کے بعد ”جو کہہ دیا سو کہہ دیا“۔ فلموں میں کام بھی وہ اپنی مرضی سے کرتے تھے۔ اپنی ذاتی فلم ”سوہنی مہینول“ کی اے ایم اسٹوڈیوز بند روڈ لاہور کے ایک فلور میں شوٹنگ تھی، ایک ”سین“ کے بعد ہی بجلی کی فراہمی میں تعطل آگیا اور خان صاحب کا موڈ بھی بدل گیا۔ انہوں نے گیٹ اپ کے لئے جو مصنوعی مونچھیں لگائی تھیں وہ اتار کر ”میک اپ مین“ کے حوالے کیں تو پھر چند منٹوں بعد ”ہدایتکار“ کی آواز گونجی ”پیک اپ“ یعنی فلمبندی آج کے لئے ملتوی۔
اسی طرح ہدایتکار حیدر چوہدری کی ایک فلم ”دو پتر اناراں دے“ میں یوسف خان ”ہیرو“ تھے۔ آدھی کے قریب فلم مکمل ہوچکی تھی۔ ایک گانے کی فلمبندی کے دوران ہدایتکار نے کہا کہ ”خان صاحب آپ نے ذرا سی کمر لہرانی ہے“ یعنی ہیروئن کے سامنے تھوڑا سا رقص کرنا ہے لیکن خان صاحب نے انکار کردیا کہ یہ نہیں کروں گا اور پھر بات اتنی بڑھی کہ یوسف خان نے فلم چھوڑ دی اور حیدر چوہدری کو دوسرے اداکار کو لے کر دوبارہ وہ مناظر فلمبند کرنا پڑے۔ یوسف خان دراصل ایسا حساس فنکار تھا جو کسی دکھی کو دیکھ کر خود اس کا درد محسوس کرتا ہے۔ پیار سے ان سے ہر بات منوائی جا سکتی ہے مگر کسی کے رعب میں وہ زندگی بھر نہ آئے۔
ایورنیو اسٹوڈیوز میں میں وہ باقاعدگی سے آتے جہاں فلم آرٹسٹس ایسوسی ایشن کا مرکزی دفتر بھی تھا۔ وہ ہرشام آتے اور فجر کے قریب گھر واپس جاتے، یوں تو پاکستان سے فلم انڈسٹری ہی رخصت ہوگئی لیکن ایورنیو اسٹوڈیو جائیں تو ماپ کے دفتر کے سامنے سے گزرتے ہوئے یوسف خان بہت یاد آتے ہیں۔
ہائے!! اس دفتر میں منعقد ہونے والی محفلیں اجڑ گئیں۔

مطلقہ خبریں