طالبان کی اولین ذمہ داری ہے کہ پہلے تو نفرت پھیلانے والے ہر بیانیے کا راستہ روکے دوسرا اپنی عوام کو حقیقت حال بتلائے کہ ان کی سرزمین پر روسی یا پھر امریکی حملہ پاکستان کی منشا سے نہیں ہوا
سید سمیع اللہ
سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالی ہے ”اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا“ (آیت:206)، اسی طرح سورۃ القصص میں ارشاد ہے ”اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“ (آیت:78) نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے“ (بخاری)، الغرض اسلام امن وآشتی کا خواہاں اور ہر طرح کے فساد کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، بالخصوص مسلمانوں کے آپسی معاملات خواہ وہ انفرادی سطح پر ہو یا پھر اجتماعی وہ قومی سطح پر،سب میں اسلام رواداری، اخوت اور عفو و درگزر پر زور دیتا ہے۔
اس تمہید کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان افغانستان کے باہمی تعلقات انہی آئیڈیل بنیادوں پر استوار ہونے چاہئے اور تاریخ میں کئی ایسے ادوار آئے بھی ہیں جب یہ تعلقات مثالی رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے کثرت ایسے ادوار کی رہی ہے جب یہ تعلقات مختلف رنجشوں یا پھر عداوتوں کا شکار رہے ہیں۔
ماضی قریب میں، جب ابھی 15 اگست 2021ء کا سورج طلوع نہیں ہوا تھا تو پاکستان میں مذہبی طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کی متفقہ پیش بنی یہ تھی کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آتے ہی دونوں ریاستوں کے مابین امن اور اعتماد کی ایک ایسی بادنوبہار چلے گی کہ گویا ”من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی“ کا وجودی مظہر نظروں کو خیرہ کردے گی مگر ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“
اب ذرا آتے ہیں ان بنیادی معاملات پر جو دونوں ملکوں کے مابین تنازع کو جنم دیئے ہوئے ہیں۔ پہلا بنیادی مسئلہ تحریک طالبان پاکستان کے مستقبل کا ہے۔ یہ لوگ پہلے روس کے خلاف پاکستانی ریاست کی ایما پر افغان جہاد کا حصہ رہے اور پھر جب نائن الیون کے بعد امریکا افغانستان میں اترا تو ان لوگوں نے امریکا کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔ اس دوران ان کے کئی درجن گروپ بنے جن میں سے اکثر مختلف ایجنسیوں کے آلہ کار بن کر مختلف محاذوں پر سرگرم ہوئے، کچھ گروہوں نے پاکستان کو اپنی کارروائیوں کا مرکز بنایا جبکہ کچھ گروہ افغانستان میں افغان طالبان کے شانہ بشانہ امریکا کے خلاف برسرپیکار رہے، پاکستان نے اپنے علاقوں میں خود پر حملہ آور گروہوں کے ساتھ پہلے مذاکرات کا ڈول ڈالا مگر ناکامی پر ان کا قلع قمع کرنے کے لئے دو ملٹری آپریشنز ضربِ عضب اور ردالفساد کے نام سے لانچ کئے۔ نتیجتاً پاکستانی طالبان کی ایک بڑی تعداد افغانستان فرار ہوئی، کچھ مارے یا پکڑے گئے اور کچھ روپوش ہوگئے۔ اس پورے پس منظر میں 2021ء کے اوائل ہی سے جب کہ امریکا افغانستان سے ہزیمت کھائے رفوچکر ہونے کے لئے پر تول رہا تھا تو یہ سوال سر اٹھانے لگا کہ ٹی ٹی پی کا مستقبل کیا ہوگا؟
پاکستان نے شروع میں افغان طالبان کی مدد سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات شروع کئے، مگر بوجوہ کامیاب نہ ہوپایا۔ اب اس وقت پاکستان کی ڈیمانڈ یہ ہے کہ چونکہ ٹی ٹی پی کے لوگ دہائیوں سے افغانستان میں برسرپیکار رہے یا پھر پناہ گزین رہے ہیں، لہٰذا افغان حکومت یعنی امارت اسلامی اور طالبان انہیں اس بات پر نہ صرف قائل بلکہ پابند کریں کہ وہ پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہوں اور اگر وہ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہیں، (جیسا کہ پاکستانی وزارتِ داخلہ کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2023ء میں ہی پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 1000 لوگ جن میں 500 سویلینز اور 500 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، اور ان تمام واقعات یا حملوں کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں) تو ایسی صورت میں افغانستان بطور ریاست اس کا ذمہ دار ہوگا جب کہ اس کے برخلاف افغان حکومت اس مطالبے پر پیشرفت کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے سے گریزاں نظر آتی رہی ہے۔
پاکستان کا دوسرا اہم مسئلہ افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کو تسلیم کا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا بجاطور پر مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان نہ صرف پاکستان کے ساتھ مشترکہ سرحد کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرے بلکہ سرحدپار آمدورفت اور تجارت کے لئے پاسپورٹ اور دیگر ضروری سفری دستاویزات کو قبول اور رائج کرے۔ لیکن افغان حکومت اس مطالبے پر بھی پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ کبھی وہ مورٹیمر ڈیورنڈ کے امیر عبدالرحمن خان سے معاہدے کا حوالہ دے کر اس کی مدت اجرا سو سال بتلاتے ہیں، تو کبھی اس کو تاریخی مسئلہ بتلا کر اسے سردست نہ چھیڑنے اور بعد پر اٹھائے رکھنے کا کہتے ہیں۔ ایک اور اہم دلیل جو افغانستان کی طرف سے دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ سرحد کے دونوں اطراف پشتون آبادیاں ہیں، جن کے مابین گہرے مراسم اور رشتہ داریاں ہیں اس لئے یہاں دوطرفہ آمدورفت اور تجارت کے لئے پاسپورٹ یا دیگر دستاویزات کی شرط قابل عمل نہیں ہے۔ البتہ پاکستان کا مؤقف ان تمام تر امور پر یہ ہے کہ پاکستان چونکہ دیگر ریاستوں کی طرح ایک الگ اور خودمختار ریاست ہے۔ اس لئے اس میں داخلے کے لئے دیگر ممالک کی طرح سفری دستاویزات کی پابندی ضروری ہوگی اور ڈیورنڈ لائن چونکہ پاکستان کے قیام سے پہلے کی کھینچی گئی ہے اور جب پاکستان بنا تو اس کی حیثیت ایک سرحد کی سی ہی تھی اور عملاً بھی یہ گزشتہ 77 برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان خط فاصل کی حیثیت سے قائم ہے، لہٰذا اسے سرکاری سطح پر بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے میں کسی تاخیر یا پس و پیش کا جواز نہیں بنتا۔ مزید یہ کہ جب اہل پاکستان نے انگریزوں کی حکمرانی قبول کرنے سے انکار کیا اور انہیں یہاں سے نکالنے پر مصر رہے، اور جنگ آزادی میں بے شمار قربانیاں دیں، تو پھر اسی انگریز یعنی جوکہ غاصب تھا اس کے کسی معاہدے کی پاکستان کیوں کر پاسداری کرے گا؟
تیسرا مسئلہ جس نے پچھلے سال سے سر اٹھا رکھا ہے، وہ افغان مہاجرین کی واپسی کا ہے۔ پاکستانی وزارتِ داخلہ نے پچھلے سال کے اخری سہ ماہی میں مختلف اعدادوشمار کی روشنی میں یہ خبر جاری کی تھی کہ پاکستان میں لگ بھگ 17 لاکھ افغان مہاجرین غیرقانونی طور پر آباد ہیں اور مزید یہ کہ 2023ء میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں یہ غیرقانونی مہاجرین براہ راست یا بالواسطہ ملوث رہے ہیں۔ لہٰذا ان کو پاکستان چھوڑنے کے لئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا۔ پاکستان کے اس الٹی میٹم سے دونوں ملکوں میں پھر نہ صرف اعتماد کی فضا میں ارتعاش برپا ہوا بلکہ دونوں طرف سے مخالفانہ بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے یہ فیصلہ کافی عجلت میں لیا گیا جسں پر نہ صرف پاکستان کے اندر سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں بلکہ بین الاقوامی دنیا نے بھی کردار ادا کرنے کے لئے دونوں ممالک سے روابط استوار کئے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک نے اپنے سفارتی اور سیاسی و سماجی چینلز اور پلیٹ فارمز کو فوری استعمال کرنا شروع کیا اور وقتی طور پر مسئلہ کچھ اس طرح سے ٹل گیا کہ پاکستان نے اس الٹی میٹم میں یکے بعد دیگرے مسلسل توسیع دی لیکن یہ مسئلہ تاحال مستقل حل کا متقاضی ہے۔ افغان حکومت کو البتہ اس وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے ابھی سے افغان مہاجرین کو بسانے کی پیش بندی کرنی چاہئے تاکہ آئندہ ڈیڈلائن کے بعد کسی بھی افراتفری سے بچا جا سکے۔
چوتھا مسئلہ جو دونوں ملکوں میں عوامی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو فروغ دے رہا ہے وہ مخصوص ”افغان سوچ“ ہے۔ عام افغانی، پروپیگنڈے کے زیراثر افغانستان پر مسلط کئے گئے، دونوں جنگوں کا بلواسطہ یا بلاواسطہ ذمہ دار پاکستان کو سمجھتا ہے جبکہ گزشتہ دو سالوں سے سوشل میڈیا سے وابسطہ کچھ طالبان رہنما بھی اس اپروچ کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایسے میں طالبان کی اولین ذمہ داری ہے کہ پہلے تو نفرت پھیلانے والے ہر بیانیے کا راستہ روکے دوسرا اپنے عوام کو حقیقت حال بتلائے کہ ان کی سرزمین پر روسی یا پھر امریکی حملہ پاکستان کی منشا سے نہیں ہوا۔ اور مزید یہ کہ روس کو دھکیلنے اور پسپا کرنے میں پاکستان کے عوام اور اداروں نے نہ صرف کھل کر افغانستان کی مدد کی بلکہ 30 لاکھ سے زیادہ افغان بھائیوں کی کئی دہائیوں تک میزبانی بھی کی۔ اپنی کمزور معیشت کے باوجود ان کو اپنے ہاں بغیر کسی ٹیکس کا مطالبہ کئے کئی دہائیوں تک بسایا۔ ہزاروں لاکھوں افغان مریضوں کے لئے اپنے سرکاری اسپتالوں کے دروازے کھول رکھے۔ تعلیمی درس گاہوں میں بغیر کسی امتیاز کے ان کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے رکھی۔ اسی طرح امریکی حملے کے وقت اگرچہ پاکستان اپنے معروضی اور جغرافیائی حالات کے پیش نظر امریکا کو راستہ دینے سے انکار نہ کرسکا تاہم اس کے باوجود اپنی بساط کے مطابق افغان لیڈرشپ کو پناہ دی۔ ان کی مزاحمت میں کسی نہ کسی درجے میں معاونت فراہم کرتا رہا اور اس پورے عرصے میں افغان مہاجرین کی میزبانی بھی کرتا رہا۔ حتیٰ کہ امن کے قیام کے لئے طالبان اور امریکا کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کا سہرا بھی پاکستان کے ہی سر جاتا ہے۔ اگرچہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ روس کا شکست پاش ہو یا پھر ہزیمت سے عبارت امریکی انخلا، دونوں بار افغان قوم نے بے پناہ قربانیاں دیں اور نہایت بہادری سے مزاحمت کی، تاہم اس سب میں پاکستان کا ہمدردانہ اور تعاون پر مبنی کردار بھولنا یا اس سے صرف نظر کرنا کسی بھی طرح انصاف پر مبنی نہیں۔
المختصر اس وقت جس بات کو سمجھنے کی دونوں ممالک کو ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ممالک نے گزشتہ 22، 23 سالوں کے دوران بدامنی کے ہاتھوں بے پناہ جانی و مالی نقصان اٹھایا، اب دونوں اطراف کی زمین اور لوگ امن کے پیاسے ہیں اور اس امن کے قیام میں دونوں ریاستوں کو ایک دوسرے کا دست و بازو بننا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ امن ہی ہے جس کے سائے تلے کاروبار دوراں کو مہمیز مل سکتی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔ تجارت پروان چڑھ سکتی ہے اور نتیجتاً معاشی خوشحالی اور قومی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ لہٰذا نصرت مہدی کے بقول ؎
فضا یہ امن و اماں کی سدا رکھیں قائم
سنو یہ فرض تمہارا بھی ہے ہمارا بھی