Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ہمارے معاشرے پر اخلاقی گراوٹ کے اثرات

مثالی قیادت کا معاشرے میں جڑ پکڑ چکی بُرائیوں کے خاتمے میں محض معمولی سا حصہ ہے جب کہ سوسائٹی کے متوسط نچلے طبقات اگر خود اپنی اخلاقی بُرائیوں کے خاتمے کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ان کی زندگیوں سے زیادہ تر اذیتوں، ناگواریوں، پریشانیوں اور حق تلفیوں کا ازالہ ممکن ہے
کنور خالد علی خاں
قارئین! سماجی ترقی کے بارے میں پھیلے بحث و مباحثہ میں یہ سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا ہماری معاشرتی زندگی کی ناہمواریوں، تلخیوں اور اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اذیتوں میں زیادہ حصہ مثالی قیادت کے فقدان نے ڈالا ہے یا پھر یہ ہم خود ہیں، ہماری اخلاقی پستی و گراوٹ ہے جو ہمیں پُرسکون ذہنی فضا سے محروم رکھے ہوئے ہے، ہماری معاشیات بھی اس اخلاقی آلودگی کی بنا پر ایک نوع کے بحران کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ ملکی سیاست میں جس نوعیت کی زبان ایک دوسرے کے لئے استعمال ہورہی ہے جس قدر لعن طعن ہورہی ہے وہ بھی سب پر عیاں ہے کہ ہم کس طرح ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اپنی اس بدکلامی کے نتیجے میں قومی وحدت میں دراڑیں ڈالنے کا موجب بن رہے ہیں۔ مجموعی سماجی اخلاقی گراوٹ کے بارے میں جاری گفتگو اور منفی رویوں کے خاتمے اور انصاف کے قیام کے حوالے سے نظریات میں اختلاف پایا جاتا ہے، ایک جانب یہ یقین ہے کہ عدل اور انصاف کے اصولوں کو معاشرے میں رائج رکھنے کے لئے مثالی قیادت کا مہیا ہونا ضروری ہے، دوسری طرف ایک متبادل نقطہئ نظر عوام الناس میں انتہائی درجہ کے پست اخلاقی چال چلن کا معیار ہے جوکہ ہماری سوسائٹی کے 80 فیصد مصائب، اذیتوں، پریشانیوں کا بنیادی سبب ہے۔ اس طبقہ خیال کی رائے میں مثالی قیادت سے محض پندرہ سے بیس فیصد بہتری لا سکتی ہے۔ مذکورہ بالا اختلاف کے سلسلے میں جو دلائل متوسط اور نچلے طبقات کی نمائندگی کرنے والے حضرات پیش کررہے ہیں وہ بنیادی طور پر اشرافیہ پر بددیانتی، کرپشن، لوٹ مار اور اختیارات کا ناجائز استعمال جیسے الزامات پر مبنی ہیں جب کہ بااختیار اشرافیہ کی انہی خرابیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک پورا نظام تشہیر و اشاعت وجود میں لایا گیا ہے۔ مذکورہ اشرافیہ مختلف ناموں، حوالوں اور پہچانوں سے قومی زندگی میں منفی رحجانات کا زہر کھولنے میں ناصرف مصروفِ عمل ہے بلکہ باہمی دست و گریباں ہے۔ الیکٹرونک سوشل میڈیا کا خاصا بڑا حصہ اپنے اپنے اسپانسرز کے محاسن بیان کرنے اور مخالفین کے بخیے ادھیڑنے میں لگا ہوا ہے جب کہ ایک عام آدمی کی عقل نقار خانے کے اس شدید غل غپاڑے میں اپنا انفرادی، امتیازی وجود کھو کر محو حیرت بن کر رہ گئی ہے۔ اپنی شناخت پر استوار نہ رہنے کی بنا پر عوام الناس کی 95 فیصد آبادی اشرافیہ کے متصادم گروہوں کی لاحاصل بے ثمر بلکہ گمراہ کن پیروی میں مصروف ہے اور ان کے بیانیے کو اپنا بیانیہ قرار دینے کے شدید مغالتوں کا شکار ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ متوسط اور نچلی کلاس کے دانشور اس خیالِ خام میں بدرجہئ اتم مبتلا ہیں کہ ان کی نشاندہی، تنقید اور لعن طعن کے نتیجے میں اشرافیہ اپنے ذاتی مفادات کی رزم آرائی سے ٹل جائے گی اور ملکی مفاد کو اپنے ذاتی خودغرضانہ پر ترجیح دینے لگے گی۔ آغازِ بحث ہذا میں اس رائے کا اظہار کیا گیا تھا کہ مثالی قیادت کا معاشرے میں جڑ پکڑ چکی بُرائیوں کے خاتمے میں محض معمولی سا حصہ ہے جب کہ سوسائٹی کے متوسط نچلے طبقات اگر خود اپنی اخلاقی بُرائیوں کے خاتمے کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ان کی زندگیوں سے زیادہ تر اذیتوں، ناگواریوں، پریشانیوں اور حق تلفیوں کا ازالہ ممکن ہے۔ اس ضمن میں ایک مستحکم دلیل یہ بھی ہے کہ ہم برسراقتدار طبقے کی اصلاح پر قادر ہرگز نہیں ہیں۔ دوسری جانب خود اپنی کمیوں، کوتاہیوں کو دور کرنے پر پوری قدرت رکھنے کے باوجود متوجہ نہیں ہیں۔ ہمارے پاس دوسروں کو بُرا بھلا کہنے، سخت ترین زبان استعمال کرنے کا وقت ہے اور ہم اپنے اس احمقانہ و لاحاصل کام کو تو اپنا فرض منصبہ سمجھ کر ادا کرنے پر بضد ہیں لیکن خود اپنی ذاتی و قومی زندگی میں سرایت شدہ اخلاقی گراوٹ کا محاسبہ کرنے کی ذاتی ذمہ داری کے احساس تک سے فارغ ہیں۔ ہم اپنے تئیں یہ تو جانتے ہیں کہ دُنیا جہاں کے مسائل کیسے حل ہوں گے جب کہ عملاً مذکورہ مسائل کو حل کرنے پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی قدرت نہیں رکھتے، دوسری جانب خود اپنی ذات، اپنے ماحول سے وابستہ لوگوں کی بُرائیوں، جیسے جھوٹ بولنا، وعدہ کا پاس نہ کرنا، غیبت کرنا، دوسروں سے بدگمان رہنا، دوسروں کے خلاف بلاتکان بدکلامی کرنا، ذاتی ذمے داری کا خیال نہ رکھنا، دوسروں کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کے بجائے ان کو مشکل میں دیکھ کر خودغرضانہ رویے اختیار کرنا، دوسروں کی لاعلمی مجبوری سے فائدہ اٹھانا وغیرہ وغیرہ۔
مثالی قیادت، عوام الناس کی پسشت اخلاقی حالت کو بہتر بنانے کے سلسلے میں سزاؤں کا نفاذ کرسکتی ہے، تاہم جرمانوں یا سزاؤں کا اطلاق معاملات کی جن نوعیتوں پر ہوتا ہے ان کا حصہ بھی مجموعی اخلاقی گراوٹ کے حجم میں زیادہ سے زیادہ پندرہ سے بیس فیصد ہی ہوگا۔ پھر سخت قوانین تو فی الوقت بھی موجود ہیں لیکن ان پر مؤثر عمل درآمد نہ ہوسکنے کی راہ میں حائل رکاوٹ بھی عوام الناس کے رگ وپے میں سرایت کردہ بداخلاقی کے عوامل ہیں۔ جیسے قانون کا نفاذ اس لئے نہیں ہو پاتا کہ قانون نافذ کرنے والے نچلے درجوں کے اہل کاران کرپٹ ہیں۔ مذکورہ اہل کاروں کا تعلق بھی کیا ہمارے معاشرے کے متوسط و نچلے طبقات سے نہیں ہے؟ اگر یہ حضرات دیانت داری سے اپنی ذاتی و انفرادی ذمہ داریوں کا پاس کریں تو محض طبقات بالا کے لوٹ مار کے رویے ان کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتے ہیں۔ طرفہ تماشہ ہے کہ اشرافیہ پر انگلی اٹھانے والے خود اپنی ذمہ داریوں سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں، جب بھی موقع ملتا ہے بُرائی کو روکنے کی بجائے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ انہی وجوہات کے ہوتے ہوئے غالب امکان یہی ہے کہ کوئی بھی مثالی قیادت یا مؤثر حکومت جماعتی اور مجموعی قومی اخلاقیات میں محض معمولی بہتری کا سبب بن سکتی ہے۔ نیز عدالتوں سے جاری ہونے والے احکامات کا دائرہ نفاذِ قانون، اخلاقی گراوٹ کے ماحول کی وسعت کے محض ایک معمولی سے حصہ کو ہی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے جب کہ غیرانسانی برتاؤ، خود غرضانہ رویے، بہتان تراشیاں، بدگمانیاں، ناجائز منافع خوریاں، جھوٹ، وعدہ خلافی، دھوکہ دہی، بلیک میلنگ، دوسروں کی پریشانیوں، مجبوریوں سے اپنی جیبیں بھرنا وغیرہ، ایسے اعمال خبیثہ ہیں کہ جن پر تادیبی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا ہے اور یہی وہ علاقہ ہے جو سماجی بدحالی کے 80 فیصد معاملات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ان عوامل کو تو ذاتی ذمہ داری کے احساس ہی سے رد کیا جاسکتا ہے۔
باہمی ہمدردی اور اخلاقی شعور کی ثقافت کو بڑھانا ایک قابل عمل، قابل ستائش اور محفوظ راستہ ہے، جس کے ثمرات کا عملی مشاہدہ ان ممالک و اقوام کے اجتماعی آسودہ ماحول سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جہاں یہ مذکورہ ثقافت پروان چڑھی ہے۔ فی الوقت ہمارے ملک میں بااختیار اشرافیہ کا بڑا حصہ ماضی کے متوسط و نچلے طبقات پر مشتمل ہے۔ ذرا غور فرمایئے کہ اگر آج کے متوسط اور نچلے طبقات میں ہم اور آپ بلند اخلاقیات کی تخم ریزی کرسکیں تو کیا انہی میں سے کل اوپر کی کلاس میں پہنچنے والے افراد لوٹ کھسوٹ، کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال کے مرتکب ہوں گے؟ جب کہ وہ ابتدا ہی سے بلند اخلاقیات کی تربیت گاہوں میں پروان چڑھ کر یہاں تک پہنچتے ہوں۔ یقیناً آج بھی ہم میں چیدہ چیدہ ایسی مثالیں ہیں جنہیں اپنی زندگی کے اوائل حصہ میں صاف ستھرا، پاکیزہ ماحول ملا۔ سو اُن کی خوشبو اندھیرے راستوں میں چلتے چلتے رات کی رانی کی اچانک حاصل ہوجانے والی مہک سے مشابہ ہے۔ ان کا وجود ہمیں آج کل کے حالات میں اُمید کی کرن دکھاتا ہے۔

مطلقہ خبریں