Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان کو سہ طرفہ چیلنجز کا سامنا

لینڈ لاک کنٹری افغانستان روس سے دس سالہ جنگ کے بعد خانہ جنگی کا شکار ہوا، پھر ملا عمر کی سربراہی میں تحریک طالبان افغانستان کی حکومت امارات اسلامی افغانستان کے نام سے 1996ء میں قائم ہوئی، پھر 9/11 کے سانحے کے بعد دو عشرے تک امریکا سے ٹکراؤ رہا، طالبان حکومت کا خاتمہ ہوگیا لیکن پھر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے، اس سے قبل بیک ڈور ڈپلومیسی بھی خوب ہوئی، بالآخر دونوں فریق ایک خفیہ معاہدے پر متفق ہوگئے، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اپنی افواج کو نکال لیا، افغان طالبان 15 اگست 2021ء کو دارالحکومت کابل میں داخل ہو کر دوسری مرتبہ اقتدار میں آگئے۔ اس سے قبل مئی 2021ء ہی سے افغانستان کے مختلف علاقے کنٹرول میں لینے لگے تھے۔ 2018ء میں امریکا اور طالبان کے درمیان پہلی مرتبہ براہ راست مذاکرات ہوئے، مئی 2020ء میں دوحہ معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکا کو افغانستان سے انخلا کو یقینی بنانا تھا اور طالبان کو امریکی افواج کو ہر قسم کے حملے سے بچانا تھا۔ طالبان سے یہ وعدہ بھی لیا گیا تھا کہ وہ اپنے زیرانتظام علاقوں میں القاعدہ، داعش یا کسی دوسرے عسکریت پسند گروہ کو متحرک نہیں ہونے دیں گے۔ ان سارے ادوار میں پاکستان افغانستان کی ہر طرح کی مدد کرتا رہا، روس سے جنگ پھر خانہ جنگی میں مختلف مواقعوں پر پاکستان نے سیاسی، سفارتی، عسکری اور مالی مدد سے کبھی ہاتھ نہیں کھینچا، طالبان کے پہلے دورِ اقتدار کی تمام گتھیوں کو پاکستان نے ہی سلجھایا، پھر حکومت کے استحکام کے لئے بھی بھرپور مدد کی، طالبان کا پانچ سالہ اقتدار اسامہ بن لادن کے معاملے پر ختم ہوا، جب امریکی طیارے کلسٹر بم گرا رہے تھے تو افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے غار بھی طالبان کی قبر بنتے جارہے تھے، ملا عمر سمیت پوری مرکزی قیادت اور پھر تنظیم نو کرتے رہے، یہ سب کچھ پاکستان میں بیٹھ کر کررہے تھے، 20 سال کے دوران پاکستان میں دہشت گردی ہوتی رہی، تقریباً 7500 سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 90 ہزار سے زائد شہری شہید کردیئے گئے، اے پی ایس اسکول کا سانحہ تو پاکستانیوں کے دل میں خنجر پیوست کرنے جیسا تھا، دہشت گردوں کے سارے تانے بانے طالبان سے جا ملتے تھے، امریکا طالبان کمانڈرز کو ڈرون طیاروں کے ذریعے نشانہ بناتا تھا، جن کا خمیازہ پاکستان بھگتتا تھا، 2013ء میں قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر کھلنے سے امن کی اُمید پیدا ہوئی، اسی دوران طالبان قائد ملا عمر بیماری کے سبب انتقال کر گئے، طالبان نے تقریباً 2 سال سے ان کی موت کو چھپائے رکھا، اُن کا انتقال پاکستان کے شہر کراچی کے ایک بڑے اسپتال میں ہوا تھا، ان کے بعد ملا منصور امیر طالبان بنے، جو مئی 2016ء میں امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنے، جن کے بعد ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے قیادت سنبھالی، پاکستان طالبان کی قیادت اور جنگجوؤں کے لئے پناہ گاہ بنا رہا، فروری 2020ء میں امریکا اور طالبان کے درمیان جو معاہدہ طے پایا اس کے مندرجات پاکستان سے بھی چھپائے گئے، اپریل 2021ء میں امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے فوج واپس بلانے کا اعلان کیا، جس کے اگلے ہفتے ہی طالبان نے افغانستان کے 34 میں سے 25 صوبوں کا کنٹرول سنبھال لیا، نئی افغان حکومت کے وزیرخارجہ پاکستانی غیرملکی سفر کے لئے پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرتے رہے، اپریل 2022ء میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد افغانیوں کا رویہ مزید سنگ دلانہ ہوگیا، پاکستان سے ڈالر کی غیرقانونی تجارت افغانستان کی طرف ہوتی رہی اور ساتھ ہی افغانستان سے دراندازی میں بھی اضافہ ہوتا رہا، پاکستان نے افغانیوں کی حمایت کی بھاری قیمت ادا کی، جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ ان واقعات کی وجہ سے سول و عسکری قیادت کو فیصلہ کرنا پڑا کہ افغان پاکستان ٹریڈ کوریڈور میں اب دستاویزات کے بغیر آنا جانا نہیں ہوگا، جو افغانی طورخم اور چمن گیٹ سے پاکستان میں داخل ہوگا اُسے پہلے ویزا لینا پڑے گا۔ اس فیصلے کے خلاف افغانستان کے تاجروں نے بارڈر پر دھرنا دیا، دوطرفہ تجارت چند ہفتون تک معطل رہی، جس پر پاکستانی بارڈر حکام کی مشاورت اور افغان حکومت کی درخواست پر اپریل تک کی مہلت دے دی گئی، اسی طرح غیرقانونی مقیم افغانیوں کو پاکستان سے نکلنے کے لئے 31 اکتوبر 2023ء تک کا وقت دیا گیا جس کے نتیجے میں تقریباً 5 لاکھ سے زائد افغانی واپس افغانستان چلے گئے۔ اب اس کے دوسرے مرحلے کا آغاز اپریل سے ہوگا، افغان طالبان ڈیورنڈلائن کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، حالانکہ یہ بین الاقوامی سرحد ہے۔ پاکستان کے ان دو فیصلوں کے باعث دہشت گردی کے واقعات بڑھے، خصوصاً بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان نشانہ بنتے رہے جبکہ شمالی و جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں بھی دہشت گردوں کی کارروائیاں جاری رہیں، ان واقعات میں ملوث زیادہ تر دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے تھا۔ جس کی پاکستانی دفترخارجہ نے تفصیلات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 2023ء میں پاکستان میں ہونے والے 24 خودکش حملوں میں سے 15 میں افغان باشندے ملوث تھے، نومبر 2021ء اور جون 2022ء میں افغان حکومت نے ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان دو قلیل مدت کے امن معاہدے کروائے لیکن اس کے مثبت نتائج نہیں نکلے، انتہائی برداشت کے بعد 18 مارچ کی صبح کو پاکستان نے افغانستان کے مشرقی علاقے میں فضائی حملوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جس پر افغان حکومت نے شدید ناراضگی کا اظہار کرنے کے ساتھ بدلہ لینے کا اشارہ بھی دیا۔ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس حملے سے قبل 16 مارچ کو شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دہشت گردوں کے حملے سے دو افسران سمیت 7 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے تانے بانے بھی افغانستان سے ملتے تھے۔ اسی طرح 16 جنوری کو ایران نے بلوچستان کے ضلع پنجگور کے سرحدی گاؤں سبزکوہ پر فضائی حملے کئے اور جیش العدل کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ پاکستان نے اس پر شدید ردعمل دیا تھا اور ایران کے مشرقی شہر سروان کے قریب بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد گروہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جس کے بعد دونوں ملکوں میں شدید کشیدگی بڑھ گئی، 18 جنوری کو پاکستان نے ”مرگ برسرمچار“ نامی آپریشن میں ایرانی سیستان کے تقریباً 20 میل اندر جا کر دہشت گردوں کے دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ آئی ایس پی آر نے ہلاک بی ایل اے کے رہنماؤں کی مکمل تفصیلات جاری کیں۔ دو ماہ کے اندر ان دو واقعات نے پاکستان کے مغربی بارڈر پر تشویش پیدا کردی ہے۔ مشرقی سرحد پر دیرینہ دشمن بھارت تو موقع کی تاک میں رہتا ہی ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی پر یہ ایک دباؤ ہے کہ دوست ملکوں کی جانب سے بھی دراندازی ہورہی ہے۔ پاکستان کے لئے تیسرا بڑا چیلنج معاشی محاذ پر ہے، 24 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے، بیرونی اور اندرونی قرضے بڑھتے جارہے ہیں، سرکاری اداروں کا بوجھ الگ ہے، توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے باعث عام آدمی شدید متاثر ہے، حکومت خواہش رکھنے کے باوجود بھی ریلیف دینے میں ناکام ہے، گزشتہ مہینے کے دوسرے عشرے میں آئی ایم ایف کا جائزہ وفد آیا اور مختلف مطالبات اور تجاویز دے کر گیا، حکومت 8 ارب ڈالر کے نئے سپورٹ فنڈز کا حصول چاہتی ہے جس کے لئے بجلی و گیس کی قیمتیں، پیٹرولیم لیوی اور ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے گا۔ ساتھ ہی تقریباً 9 لاکھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جانے کا فیصلہ کیا ہے جس پر عملدرآمد یکم جولائی سے ہوگا۔ ملکی خزانے پر بوجھ بننے والے سرکاری اداروں کو فوری فروخت کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے جس میں پی آئی اے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیز سرفہرست ہیں۔ پاکستان جس معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اس کے لئے دوست ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے ساتھ ڈالر ڈیپازٹ کروانے کی درخواست کی جاسکتی ہے لیکن یہ سب اقدامات عارضی علاج ہوں گے۔ اصل معاملہ چارٹرڈ آف اکنامکس کا ہے جس پر تمام جماعتوں کا اتفاق ضروری ہے، زرعی شعبے سے مثبت اشارے آ رہے ہیں، صنعت کے فروغ کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے، آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات بھی بڑھ رہی ہیں، وسائل بہت ہیں، راستے بھی ہیں، بس خلوصِ نیت کے ساتھ پالیسی بنانا اور اُس پر عمل درآمد کروانا ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری کونسل غیرملکی سرمایہ کاروں کو مختلف شعبوں میں راغب کررہی ہے، ایران سے گیس پائپ لائن کا منصوبہ آگے بڑھانے میں کامیابی مل گئی تو مہنگی بجلی کا مسئلہ حل ہوجائے گا، فیصلے جب ملک و قوم کے مفاد میں ہوں گے تو مثبت نتائج آئیں گے۔

مطلقہ خبریں