بلنکن کے حالیہ دورۂ چین کا مقصد چینی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کرکے قومی سلامتی، معیشت پر تنازعات، مصنوعی ذہانت پر بڑھتے ہوئے تناؤ، یوکرائن، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سمیت جغرافیائی و سیاسی اختلافات کے تناظر میں دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنا تھا
ڈاکٹر طاہر اشرف
امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے چین کا دورہ کیا ہے اور چینی صدر شی جن پنگ اور وزیر خارجہ وانگ یی سمیت چینی قیادت سے بات چیت کی ہے۔ مسٹر بلنکن نے 24 سے 26 اپریل 2024ء کو اپنے تین روزہ دورے کے دوران شنگھائی کی کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری چن جننگ کے ساتھ ایک میٹنگ بھی کی۔ یہ دورہ دنیا کی توجہ کا مرکز تھا اس بات کا جائزہ لینے کے لئے کہ آیا یہ دورہ تعاون کی راہ ہموار کرتا ہے یا دو بڑے اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی حریفوں کے درمیان تصادم کو ہوا دیتا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ بننے کے بعد بلنکن نے دوسری بار چین کا دورہ کیا ہے۔ چین اور امریکا کے تعلقات حالیہ برسوں میں تناؤ کا شکار رہے ہیں، جن میں تجارتی جنگ، اس وقت کے ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کا 2022ء میں تائیوان کا دورہ اور گزشتہ سال ایک مشتبہ چینی نگرانی کے غبارے کو امریکا میں گرائے جانے کے تنازع سمیت کئی عوامل کی وجہ سے حالات خراب ہوئے ہیں۔ تاہم 15 نومبر کو سان فرانسسکو میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (APEC) سربراہی اجلاس کے موقع پر بائیڈن اور صدر ژی جن پنگ کے مابین ملاقات کے بعد سے دونوں ممالک نے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ بلنکن کے حالیہ دورۂ چین کا مقصد چینی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کرکے قومی سلامتی، معیشت پر تنازعات، مصنوعی ذہانت پر بڑھتے ہوئے تناؤ، یوکرین، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سمیت جغرافیائی و سیاسی اختلافات کے تناظر میں دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کی مزید وجوہات میں امریکا میں ٹک ٹوک پر پابندی لگانے کا ایشو اگر ٹک ٹوک کی چینی پیرنٹ کمپنی اسے فروخت کرنے سے انکار کردیتی ہے اور کی طرف سے فینٹینائل بنانے میں استعمال ہونے والے کیمیکل کی فراہمی کا ایشو شامل ہیں۔ امریکا اس دورے سے کیا حاصل کرنا چاہتا تھا؟ اور، اس دورے کا کیا نتیجہ نکلا؟ ان دونوں سوالوں کا جواب اس کالم میں دیا جائے گا۔ چینی میڈیا کے مطابق دورے کے نتائج کے حوالے سے صدر شی نے امریکا کے سیکریٹری بلکنن کو بتایا کہ چین اور امریکا کو ”حریف نہیں، شراکت دار“ ہونا چاہئے۔ اہم امریکی خدشات میں روس کی دفاعی صنعتی پیداوار میں چینی حمایت کا مسئلہ، تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین کے ایشوز شامل ہیں۔ امریکا اور مغربی ممالک الزام لگاتے ہیں کہ چینی صنعتی برآمدات جیسے مشینری اور سیمی کنڈیکٹرز نے روس کو ہتھیاروں کی پیداوار بڑھانے میں مدد فراہم کی ہے جبکہ چین کا جواب ہے کہ بڑی مغربی اقوام کی جانب سے ہتھیاروں اور فنڈنگ کی منتقلی کی وجہ سے یوکرین کی جنگ طول پکڑ رہی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں امریکی کانگریس نے یوکرین کے لئے 61 ارب ڈالر اور چین کی فوجی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے 8 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کا بل منظور کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلنکن اور چینی قیادت کے درمیان ہونے والی بات چیت جنگ، تجارت، ٹیکنالوجی اور سیکیورٹی کے تنازعات کے گرد گھومتی ہے کیونکہ یہی وہ مسائل ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوششوں کا امتحان لے رہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان بات چیت ساڑھے پانچ گھنٹے تک جاری رہی جوکہ دونوں فریقوں کی جانب سے دوطرفہ تعلقات کو سنبھالنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی جانب مثبت اشارہ ہے۔ تاہم، میڈیا میں رپورٹ ہونے والے بیانات کے مطابق سیکریٹری بلنکن نے چینی وزیرخارجہ کو خبردار کیا کہ ان کے ممالک یا تو ”استحکام کے ساتھ آگے بڑھنے کی درست سمت پر گامزن ہوسکتے ہیں یا نیچے کی طرف لوٹ سکتے ہیں“ یا یہاں تک کہ ”تصادم کی طرف پھسل سکتے ہیں“۔ حالات کا یہ جائزہ دونوں اطراف کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے کہ دنیا کی یہ دو بڑی طاقتیں اپنے درمیان غیرمستحکم تعلقات اور غیرمتوقع حالات کو سنبھالنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ بلنکن کے موجودہ دورے کا مقصد ثقافتی تبادلوں کو فروغ دینے، اختلافات کو منظم کرنے اور کسی غلط فہمی سے بچنے اور ہر سطح پر تبادلوں پر زور دینے کے لئے بات چیت اور ڈائریکٹ رابطوں کے ذرائع کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ تاہم، حالیہ بات چیت کے دوران، دونوں فریقوں نے، براہ راست اور دو ٹوک پیغامات کے ذریعے، اپنی ”ریڈ لائنز“ اور ”بنیادی مفادات“ سے بھی ایک دوسرے کو آگاہ کیا ہے جس کے بعد یہ پیشین گوئی کرنا مشکل ہے کہ اس قسم کی بات چیت اور انتباہات مستقبل میں دونوں فریقوں کے طرزعمل کو کس حد تک متاثر کریں گے؟ بہرحال، امریکی سیکریٹری بلنکن کے چین کے دورے سے یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ موجودہ غالب طاقت (امریکا) اور ابھرتے ہوئے چیلنجر (چین) اپنے مابین ٹکراؤ کو روکنے کے لئے مثبت سوچ کے ساتھ کسی حد تک مخلص نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ نرم گوشہ کے لئے تیار ہیں اس لئے بلنکن کے دورے کو مفاہمت کے راستے کی جانب ایک درست قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ امریکا اور چین کے مابین دوطرفہ تعلقات کی نازک نوعیت، یوکرین میں جاری جنگ، اسرائیل کی غزہ پر جاری جارحیت اور مشرق وسطیٰ میں موجودہ غیرمستحکم صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، چین اور امریکا کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان کے ممالک کے درمیان مسابقت، خواہ ارادی ہو یا غیرارادی، ان کے مابین براہِ راست جنگ میں نہ تبدیل ہوجائے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے لئے یہ ایک دشوار راستہ ہے اور انہیں محتاط ہو کر ڈھلوان نما سڑک پر آگے بڑھنا ہے لیکن ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر گراہم ایلیسن کی طرح ہمیں پُرامید ہونا چاہئے۔ جنہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب Destined for war: Can America and China Escape Thucydides’s Trap? (جنگ کے لئے مقدر: کیا امریکا اور چین تھوسیڈائڈز کے جال سے بچ سکتے ہیں) میں امریکا اور چین کے مابین براہِ راست جنگ کے امکانات کا اندازہ لگایا ہے۔ اس بات پر زور دیا کہ امریکا اور چین کے درمیان جنگ ناگزیر نہیں ہے کیونکہ پروفیسر ایلیسن کے بقول چین اور امریکا کے درمیان جنگ جیسی تباہی سے بچنے کے لئے ”امن کے بارہ اشارے“ موجود ہیں۔ عالمی حالات کے اس اتار چڑھاؤ میں پاکستان کے لئے بھی ایک اہم سبق ہے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کے لئے چین کے ساتھ اپنے دائمی اور آزمودہ دوستی کو قربان کرنے سے گریز کرے بلکہ پاکستان کو امریکا اور چین دونوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان کی یہی مستقل پالیسی جاری رکھنا چاہئے۔