Monday, April 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

دماغی امراض کے بارے میں آگاہی ناگزیر

اگر دماغی امراض کی بروقت تشخیص کرلی جائے تو علاج کی کامیابی کی شرح بڑھ جاتی ہے، طبی ماہرین
ڈاکٹر رابعہ خان
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ خوشگوار، بہتر اور طویل عمر کے لئے جتنا انسانی مجموعی صحت کا برقرار رہنا ضروری ہے اتنا ذہن سے متعلق نظر نہ آنے والی مگر تکلیف دہ ذہنی بیماریوں کی بروقت تشخیص اور اِن کا علاج بھی ناگزیر ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق جسم کے ساتھ ساتھ ذہن کا صحت مند ہونا اور اس کی صحت پر توجہ دینا بھی نہایت ضروری ہے، اگر دماغی امراض کی بروقت تشخیص کرلی جائے تو علاج کی کامیابی کی شرح بڑھ جاتی ہے اور بعد میں ہونے والے مسائل پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ ماہرِ دماغی امراض (نیورولوجسٹ) ڈاکٹر عبدالمالک کے مطابق دنیا بھر میں عام دماغی مرض سر درد ہے اور مائیگرین کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ بعدازاں فالج کی شرح زیادہ ہے۔ اسپتالوں میں موجود ڈیٹا کے مطابق ہر سال 3.5 سے 4 لاکھ لوگ فالج کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں مرگی کے مریضوں کی شرح صرف ایک فیصد ہے لیکن اس کے اعدادوشمار دیہی اور شہری علاقوں میں مختلف ہیں، دیہی علاقوں میں اس کی شرح تقریباً 2 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 0.7 سے 0.5 فیصد ہے۔ اس مرض میں مبتلا 60 سے 70 فیصد افراد کے مرگی کے دورے کو کنٹرول کرلیا جاتا ہے مگر 30 سے 40 فیصد کو کنٹرول کرنا آج بھی مشکل ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کے مطابق ہر سال دُنیا بھر میں 6 سے 7 فیصد لوگ نیورولوجیکل بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جبکہ عورتوں میں سر درد، فالج اور مرگی کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک کے مطابق عورتوں میں فالج کی شرح زیادہ ہونے کی اہم وجہ زچگی کے دوران ہونے والے مسائل، ہائی بلڈ پریشر اور اسٹریس لیول زیادہ ہونا ہے۔
دماغی امراض میں اضافے کی وجہ:
ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی آلودگی، غیرمناسب رویے، گھریلو ناچاقیاں اور نظرانداز ہونا ڈپریشن اور انزائٹی جیسے دماغی امراض میں اضافے کا باعث ہیں۔
طبی ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ دماغی مرض کے نتیجے میں بعض لوگ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس حالت میں مریض کا علاج کرنا معالج کیلئے مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ تھیراپی یا ادویات اس پر صحیح طرح اثر انداز نہیں ہو پاتیں۔
مثال کے طور پر کچھ لوگوں کو فالج کے بعد معذوری ہوجاتی ہے تو وہ اس کے سبب ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ ہماری طرزِ زندگی دماغی امراض میں اضافے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، ا?ج کل راتوں کو دیر تک جاگنا، سادا غذا کا استعمال نہ کرنا، فیزیکل ایکٹی وٹی نہ ہونا، اکیلے میں ہر وقت موبائل استعمال کرنا اور لوگوں سے بات چیت نہ کرنا لوگوں کو ذہنی مریض بنا رہی ہیں مگر افسوس ہم ان چیزوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جبکہ ہم جانتے ہے کہ یہ کام ہماری دماغی صحت کیلئے کس قدر نقصان دہ ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ سروائیکل، آنکھوں اور جوڑوں کا مسئلہ لوگوں میں عام ہوگیا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ ہم نے ا?رام دہ زندگی گزارنے کا تہیا کیا ہوا ہے، ایک بہتر طرز زندگی گزارنے کیلئے ہمیں چاہیے کہ ہم 24 گھنٹوں کو 3 حصوں میں تقسیم کردیں، 8 گھنٹے کام کریں، 8 گھنٹے لوگوں سے ملیں جلیں اور دیگر کاموں میں گزاریں اور 8 گھنٹے ا?رام کریں، اگر ہم دماغی امراض میں کمی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا طرزِ زندگی بدلنا پڑے گا تا کہ ایک بہتر معاشرہ تشکیل دیا جاسکے اور دماغی امراض کی شرح کو کم بھی کیا جاسکے۔
ہر ذہنی مرض کا علاج دستیاب:
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ذہنی مرض کا علاج دستیاب ہے، اگر مرض کی تشخیص جلد ہوجائے تو کامیابی سے اس کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ علاج میں تاخیر سے مرض پیچیدہ ہوجاتا ہے اور مرض کے ٹھیک ہونے کے چانسز کم ہوجاتے ہیں۔

مطلقہ خبریں