اس کی محفل میں آ کے جو بیٹھے
اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے
اس کی باتیں بھی کیوں کرو بیٹھے
جو کسی دوسرے کا ہو بیٹھے
پوچھتے کیا ہو ماجرا شب کا
بالش و آستیں بھگو بیٹھے
آج تک پھر رہی ہیں آنکھوں میں
صورتیں وہ کہ جن کو رُو بیٹھے
دیکھ کر ہو گئیں نگاہیں نم
جب پرندے کہیں پہ دو بیٹھے
اس نے دیکھا جو مسکرا کے ہمیں
دل میں تخمِ اُمید بو بیٹھے
اس کے در سے گیا سلامت کون؟
عمر بھر اب یہیں مرو بیٹھے
وہ گل آرزو تو کیا ملتا
پاؤں میں خارِ غم چبھو بیٹھے
جن کو صحرا کی دھوپ تھی مرغوب
چھاؤں میں وہ بھی دیکھ لو بیٹھے
ہم بیاد شکر لباں کاوشؔ
رُوح میں تلخیاں سمو بیٹھے
کاوش ؔعمر