Monday, April 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

معاشرے میں موجود اختلافی بیانیوں کے اثرات کا تجزیہ

فی زمانہ پرنٹ، الیکٹرونک اور بالخصوص سوشل میڈیا جیسے اظہارِ رائے کے ذرائع نے عوام الناس کی دلچسپیاں سمیٹ لی ہیں
کنور خالد علی خاں
قارئین یہ خاصی حد تک درست ہے کہ غیرترقی یافہ یا نیم ترقی یافتہ پسماندہ ممالک میں بسنے والے عوام میں بیک وقت دو طرح کے منظرناموں کا پرچار کیا جاتا ہے۔ ایک ملک کی کثیر اکثریت کا منظرنامہ جو ان کی محدود یا ادھوری معلومات یا دشمن قوتوں کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے اور دوسرا وہ منظرنامہ ہے جو گہری اور Deep Rooted حقیقتوں کا عکاس ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ جہاں منظرنامے کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے وہاں اشخاص کے ذہنوں میں محفوظ قومی زندگی کے مسائل اور ان سے نمٹنے کے بارے میں ایک لائحہ عمل مراد ہے اور جب وہ اپنی آراء کافی الوقت موجود پلیٹ فارمز پر واضح اظہار کرتے ہیں تو وہ ان کا بیانیہ کہلاتا ہے، یہی کیفیت صاحب بصیرت افراد کے منظرنامے، ان کی آراء اور بیانیے پر صادق آتا ہے، گویا اس طرح یہ دو بیانیے وجود میں آتے ہیں۔ چنانچہ فکری استعداد کے مطابق ملک کی ایک کثیراکثریت اپنی ایک جداگانہ رائے رکھتی ہے جو صاحب بصیرت افراد کی ملک کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے بارے میں آراء سے عموماً مختلف ہوتی ہے۔ گویا یکساں مسائل کے بارے میں دونوں طبقات کی چھان بین اور تحقیق میں واضح فرق محسوس ہوتا ہے۔ فی زمانہ پرنٹ، الیکٹرونک اور بالخصوص سوشل میڈیا جیسے اظہارِ رائے کے ذرائع نے عوام الناس کی دلچسپیاں سمیٹ لی ہیں، وہ اپنا قیمیتی وقت ضرورت سے کہیں زیادہ اس میں سرف کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک کی Intellectual Community کے نزدیک گہرے حقائق وہ سمجھے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں کسی معاشرے کی ظاہری اچھی یا بُری حالت جنم لیتی ہے جبکہ محدود فکری استعداد اور نامکمل معلومات کی حامل عوام الناس کی بھاری اکثریت کے مطابق سوسائٹی کی موجودہ کیفیت اور حالات ہی حقائق کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ جو دیکھتے ہیں اور جن حالات سے گزرتے ہیں انہی کو حقیقت قرار دیتے ہیں، جبکہ صاحب بصیرت طبقہ اس کو فی نفسیہہ حقائق کے بجائے Deep Rooted Realities کا نتیجہ قرار دیتا ہے یا ذیلی حقائق مانتا ہے۔ ان کے نزدیک اگر ملکی حالت ابتر ہے تو اس کے سدھار کا واحد راستہ بنیاد کی اصلاح ہوتا ہے۔ مذکورہ فکری اختلاف سے ملک دشمن عناصر پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ ملک کی سادہ لوح اکثریت کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ اپنے منفی پروپیگنڈے کے ذریعے انتشار برپا رکھتے ہیں اور کسی بھی حکومت کو مستحکم نہیں ہونے دیتے، مبادہ ملک اور اس میں بسنے والی قوم ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوجائے۔ اغیار کی چال کو غیرمؤثر کرنے کے لئے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ عوام الناس کی فکر اور ان کے شعور کو پختگی کی جانب لایا جائے اس میں گہرائی پیدا کی جائے تاکہ وہ ازخود اپنے تئیں ملکی و قومی مفادات کی حفاظت کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔ جن اقوام عالم کی بڑی اکثریت شعور کی پختگی و قومی یکجہتی کی حامل ہوتی ہے، وہ اپنے اہداف پر نظر رکھتے ہوئے ترقی کی منزلیں طے کر لیتی ہے، ان کی راہیں وضاحت کے ساتھ ان کے اذان میں متعین ہوتی ہیں، ان کی باریک بین نظر دشمنوں کے پھیلائے ہوئے مصنوعی منظرناموں اور بیانیوں کو اچھی طرح پہچانتی ہے، ایسی غالب اکثریت کبھی دشمنوں کا آلہ کار نہیں بنتی، نتیجتاً ملک کسی افراتفری، سیاسی خلفشار یا انارکی میں نہیں آتا، اس کی اسٹرٹیجک پوزیشن کے ستون مضبوطی سے جمے رہتے ہیں۔
قصہ مختصر عوام الناس کی بڑی اکثریت کا ان مخفی حقیقتوں اور عوامل سے اچھی طرح باخبر ہونا ازبس ضروری ہوتا ہے تاکہ گورنمنٹ کو جواب دہی کا پابند رکھا جاسکے، مثبت تبدیلیاں لائی جاسکیں جس کے نتیجے میں ایک ایسی سوسائٹی پروان چڑھ سکے جس میں مساوات پائی جاتی ہو اور وہ خوشحال بھی ہو، گہری اور عموماً کم دکھائی دی جانے والی حقیقتوں سے عدم آگہی یا لاتعلقی ناصرف ملکی مفاد کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ عوام الناس کی اجتماعی بہبود و ترقی کی راہیں بھی مسدور ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا کسی ملک کی کل آبادی میں مجموعی طور پر گہری اور پوشیدہ حقیقتوں سے آگہی نہایت ضروری ہے۔ اس کے بعد ایسی افرادی یا گروہی سرگرمیاں جو عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے اختیار کی گئی ہوں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، ہاں مگر ان کوششوں کا تعلق بلاتفریق علاقہ، قومیت، مذہب اور زبان ملک کے کسی بھی حصے میں بسنے والی تمام تر آبادی کی فلاح و بہبود کیلئے ہونا چاہئے۔ ان میں ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں جو باہم مل کر کام کرتی ہیں نیز ان افراد کیلئے سازگار فضاء پیدا کی جائے جو تنہا سیاسی و غیرسیاسی میدان میں عمومی بہتری کے لئے سرگرم عمل ہوں، اس سماجی شمولیت کا مقصد عوام میں پائی جانے والی اعلیٰ قدروں کی حفاظت یا مثبت تبدیلی آجانے کی فضاء پیدا کرتا ہو۔ جس کا لابدی نتیجہ ملک و قوم کی اجتماعی ترقی پر منتج ہوتا ہے۔
یادش بخیر خرابی وہاں ہوتی ہے جہاں فیصلہ ساز افراد یا ادارے محض سطحی لیول کی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائیں اور نظام میں موجود حقیقی مسائل کی Deep Rooted Realities کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے میں ناکام رہیں یا مسلسل اس سے چشم پوشی کا رویہ اپنائے رہیں۔

مطلقہ خبریں