Monday, April 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دفاعی تعاون۔۔

پاکستان اور ترکیہ اپنی دفاعی قوت کے لحاظ سے دنیا کے پہلے 10 ممالک کی صف میں جگہ بنائے ہوئے ہیں
ڈاکٹر فرقان حمید
عالم ِ اسلام میں پاکستان اور ترکیہ دو ایسے ممالک ہیں جو اپنی دفاعی قوت کے لحاظ سے دنیا کے پہلے 10 ممالک کی صف میں جگہ بنائے ہوئے ہیں۔ ترکیہ، صدر رجب طیب اردگان سے قبل دفاعی صنعت کے لحاظ سے ایک کمزور ملک تھا اور اپنی ضروریات کا صرف 20 فیصد ہی مقامی وسائل سے پورا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ترکیہ طویل عرصے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ کامیابیاں حاصل نہ کرسکا تھا بلکہ اس کے اتحادی نیٹو کے رکن ممالک نے ترکیہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اس کو نہ صرف اسلحہ فراہم کرنے سے گریز کیا بلکہ کئی ایک مواقع پر پابندیاں بھی عائد کردیں۔ اس دور میں اگر کوئی ملک ترکیہ کی دفاعی ضروریات پوری کررہا تھا یعنی گولہ بارود وغیرہ فراہم کررہا تھا تو وہ پاکستان ہی تھا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ قبرص کی جنگ کے دوران جب پوری دنیا نے ترکیہ سے منہ موڑ لیا تھا تو یہ صرف پاکستان ہی تھا جس نے امریکا کے دباؤ کی پروا کئے بغیر ترکیہ کی ہرممکن مدد کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بچپن میں یعنی 1974ء میں جب ہم بہن بھائی اپنی ترک فیملی سے ملنے قبرص گئے تھے تو بڑی تعداد میں قبرصی ترکوں نے ہمارے پاکستانی ہونے کے ناتے (کیونکہ اس وقت تک کوئی بھی پاکستانی قبرص نہیں گیا ہوا تھا) ہمارا خصوصی استقبال کیا اور ہم غازی مگوسا کے اس وقت کے گورنر عصمت بسیم اتالائے کے گھر ٹھہرے اور وہاں کئی روز تک اعلیٰ قبرصی ترک حکام ہم سے ملنے آتے رہے اور پاکستان کا دل کھول کر شکریہ ادا کرتے رہے، جو ہم سب کے لئے باعثِ فخر تھا۔ دیکھا جائے تو پاکستان، اس دور میں ترکیہ کے لئے ہر درد کی دوا تھا۔
امریکا نے F-16 جنگی طیارے خطے میں سب سے پہلے پاکستان ہی کو فراہم کئے تھے۔ پاکستان کے پائلٹ جن کی مہارت کی دنیا قائل ہے، F-16 طیارے ترکیہ کو ملنے پر پاکستان ہی کے پائلٹوں نے ترک پائلٹوں کو ٹریننگ دی تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ ترکیہ کے اس وقت کے وزیراعظم اور بعد میں صدر بننے والے ترگت اوزال بھی پاکستان کے پائلٹوں کی مہارت سے بہت متاثر تھے اور ان کے ذاتی طیارے بھی طویل عرصے تک پاکستانی پائلٹ ہی چلاتے رہے۔ میری صدر ترگت اوزال سے اچھی یاد اللہ تھی اور ان کے ہاں طویل عرصے اسٹوڈنٹ ہونے کے دور میں آنا جانا بھی رہا۔ وہ پاکستان کی اس دور کی ترقی سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے پاکستان ہی سے متاثر ہو کر ترکیہ میں پہلی بار آزاد منڈی اقتصادیات کے نظام کو متعارف کروایا تھا، ورنہ ترکیہ میں ترگت اوزال سے قبل کسی قسم کی غیرملکی اشیاء خریدنا ممنوع تھا اور جیب میں ایک ڈالر رکھنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ ترگت اوزال کے بعد ترکیہ ایک بار پھر کئی سال تک سیاسی ابتری کا شکار رہا، تاہم رجب طیب اردگان کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی ترکیہ ایک بار پھر ترقی کی جانب گامزن ہوگیا۔ ترکیہ اس وقت اپنی 80 فیصد دفاعی ضروریات مقامی وسائل سے پوری کررہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ترکیہ اپنی سو فیصد دفاعی ضروریات کو مقامی وسائل ہی سے پورا کرے گا اور پھر سپر قوتوں کی طرح دنیا پر اپنی دھاک بٹھاتے ہوئے دفاعی سازوسامان فروخت کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہوگا۔
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف جن کے دل میں ترکیہ کے لئے الگ مقام ہے، اپنے دور اقتدار میں ان تعلقات کو تجارتی حجم بڑھانے اور دفاعی صنعتی تعاون کو فروغ دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے اور ان ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ترکیہ اور پاکستان ایک بار پھر ایک دوسرے کے بہت قریب آرہے ہیں اور اس دوران ترک چیف آف جنرل اسٹاف جنرل متین گیوراک کے دورۂ پاکستان کے دوران ترکیہ اور پاکستان کے درمیان لازمی طور پر دفاعی صنعت کے شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو مزید فروغ دینے کے بارے میں ضرور بات چیت کی گئی ہوگی۔ ویسے تو پاکستان اور ترکیہ دفاعی شعبے میں مشکل وقت میں کسی ملک کے دباؤ کی پروا کئے بغیر ایک دوسرے کی کھل کر مدد کرتے چلے آرہے ہیں۔ موجودہ دور میں ترکیہ دفاعی صنعت میں دن دگنی را ت چوگنی ترقی کرنے کی وجہ سے یورپ کے کئی ایک عظیم ممالک کو اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے، امریکا، چین اور روس جیسے ممالک کی صف میں شامل ہونے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ترکیہ میں آج 2 ہزار 500 دفاعی صنعتیں کام کررہی ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ترکیہ دفاعی صنعت میں اپنے غیرملکی ماہرین کا چناؤ کرتے وقت پاکستانی ماہرین کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کئی ایک پاکستانی ماہرین ترکیہ کی بڑی بڑی دفاعی صنعت کی کمپنیوں میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان نے ترکیہ کے ساتھ کئی ایک مشترکہ دفاعی پروجیکٹ شروع کر رکھے ہیں۔ پاکستان کی ترکیہ کی جانب سے تیار کردہ اسٹیلتھ جنگی طیارے کی مشترکہ طور پر تیاری کی بھی بات چیت چل رہی ہے۔ دفاعی صنعت کے شعبے میں ترکیہ کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے اور ترکیہ کے تجربات سے استفادہ کرنے کے لئے مختلف معاہدے جنرل گیوراک کے دورۂ پاکستان کے موقع پر طے کئے جانے کی توقع ہے۔ اسی دوران پاکستان نے ترکیہ سے تین ارب ڈالر مالیت کا دفاعی سازوسامان خریدا ہے۔ اس کے علاوہ ملجم پروجیکٹ پر بھی ترکیہ پاکستان کے ساتھ تعاون کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ بحری جہاز پاکستان کی میری ٹائم سیکیورٹی کی صلاحیت کو بڑھانے میں اہم ثابت ہوں گے۔ دراصل یہ منصوبہ ترکیہ اور پاکستان کی تاریخی دوستی اور برادرانہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔ (بشکریہ ”جنگ“)

مطلقہ خبریں