سعودی وزیرخارجہ کی سربراہی میں سعودی اعلیٰ وفد کا پاکستان آنا انتہائی اہم ہے، اس وفد میں سعودی وزیرخزانہ، سرمایہ کاری کے وزیر اور بڑے سرمایہ کار بھی شامل تھے۔ کان کنی، توانائی، خوراک، صنعت، لائیو اسٹاک سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری پر اتفاق ہوا۔ آئل ریفائنری لگانے پر بھی معاملات طے ہوگئے۔ 9 ارب ڈالر آئل ریفائنری میں لگائے جائیں گے۔ یہ سارے معاملات وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب جہاں ورلڈ اکنامک فورم ہوا، وہاں اس پر دوبارہ گفتگو ہوئی۔ دُنیا کے مختلف رہنماؤں سے ملاقات میں سرمایہ کاری، عالمی تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی سمیت مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے عالمی موسمیاتی تبدیلی کا ذکر کیا، جس کے بگاڑ میں پاکستان ذمہ دار نہیں مگر سب سے زیادہ اُس سے متاثر ہے۔ 2022ء کے سیلاب میں تقریباً 30 ارب ڈالر کا مالی نقصان برداشت کیا، عالمی سطح پر پاکستان کی مدد کا وعدہ کیا گیا لیکن اُس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹالینا جارجیوا سے بھی ملاقات کی اور 8 ارب ڈالر کے لئے بیل آؤٹ پیکیج پر مذاکرات کئے۔ پاکستان اس وقت معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی ایم ڈی نے حکومتی اخراجات کم کرنے کا مشورہ دیا۔ گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کے معاملات کا ہدف پورا کرنے کو ضروری قرار دیا۔ انسدادِ بدعنوانی کے اداروں کی خودمختاری کو شفافیت کے لئے ناگزیر کہا اور پاکستان کی معاشی شرح نمو کو 2 فیصد قرار دیا اور آئندہ کے سالوں میں اس میں مزید بہتری آنے کی پیش گوئی کی لیکن مہنگائی اور کم آمدنی والے طبقے کو مہنگائی سے متاثر ہونے کے معاملے کو دیکھنے کا مشورہ دیا۔ اگرچہ وزیراعظم نے ان تمام نکات کو تسلیم کیا لیکن اس پر عمل درآمد میں انہیں مشکلات کا سامنا رہے گا۔ اس کے علاوہ امریکی بزنس مین بل گیٹس سے بھی ملاقات میں معاشی اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل پر گفتگو کی، جس پر بل گیٹس نے مکمل تعاون کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ پاکستان کے خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے بھی ایک بوجھ ہیں جن پر عالمی مالیاتی اداروں نے تحفظات کا اظہار کیا لیکن ان تمام ملاقاتوں سے معاشی استحکام کے حصول کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ سب سے بڑھ کر سعودی قیادت اور سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ برادر اسلامی ملک پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنے والا ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا پاکستان میں وزراء اور بڑے سرمایہ کاروں کے ساتھ آنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ایران اور پاکستان نے چند ماہ قبل ایک دوسرے کے علاقوں میں فضائی کارروائی کی، جس سے تناؤ اتنا بڑھا کہ ایک دوسرے کے سفیر بھی نہیں رکھے تھے۔ چین نے معاملے کو ٹھنڈا کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ خود ایرانیوں کو بھی اپنی غلطی کی سنگینی کا ادراک ہوا اور انہوں نے معاملے کو سلجھانے میں پہل کی، جس کا پاکستان نے مثبت جواب دیا۔ حالیہ ایرانی صدر کا دورہ معاشی تعلقات کو بڑھانے کے ساتھ تزویراتی اہمیت کا حامل بھی تھا۔ اس میں مختلف منصوبوں پر سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے لیکن سب سے اہم گیس پائپ لائن منصوبہ ہے، اگرچہ اس پر دونوں طرف سے واضح بات نہیں کی گئی لیکن یہ طے ہے کہ اسے مکمل کیا جائے گا۔ چاہے امریکا کو جتنا بھی ناگوار گزرے۔ پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ گیس کی قلت کی وجہ سے صنعتی پیداوار اور بجلی گھروں سے بجلی کی پیداوار پر منفی اثر پڑ رہا ہے بلکہ گھریلو صارفین بھی شدید متاثر ہورہے ہیں۔ ان حالات میں پاک ایران گیس پائپ لائن کی تکمیل ضروری ہے۔ سعودی عرب ماضی میں بھی پاکستان کی مالی مدد کرنے میں پیش پیش رہا ہے، سعودی سرمایہ کار پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں، امکان ہے کہ انہیں قومی ادارے کو شیئرز فروخت کر دیئے جائیں، البتہ اس کی قیمت عالمی مارکیٹ کے مطابق لینا چاہئے۔ پی آئی اے کی شاندار پیشہ ورانہ تاریخ ہے، چین کی ایئرلائن، عرب ملکوں، ملائیشیا اور انڈونیشیا کی ایئرلائنز کو کھڑا کرنے میں پی آئی اے کے پروفیشنلز کا بڑا اہم کردار رہا ہے، پی آئی اے کے پائلٹس جہاز اُڑانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اسی طرح اس کے انجینئرز اور ٹیکنیشن بھی انتہائی مہارت کے حامل ہیں۔ شنید ہے کہ اس اہم قومی ادارے کے 51 فیصد شیئرز 60 ارب روپے میں بیچے جارہے ہیں، اگر ایسا ہوا یعنی اونے پونے داموں فروخت کردیا گیا تو یہ ایک اور المیہ ہوگا۔ اس سے قبل کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو جنرل پرویز مشرف کے دور میں صرف 14 ارب روپے میں فروخت کردیا گیا تھا۔ حکومت کو چاہئے کہ قومی ادارے کو اس کی اصل مارکیٹ ویلیو کے حساب سے فروخت کرے اور یہ بھی یقینی بنائے کہ اس کی فروخت سے حاصل ہونے والے سرمائے کو قرض اتارنے کے لئے استعمال کرے، ایسا نہ ہو کہ سرکاری افسران کے اللے تللے میں رقم ضائع ہوجائے۔ پاکستان کے معاشی استحکام کے لئے بڑے مواقع موجود ہیں۔ راعت کے شعبے سے اچھی خبریں آرہی ہیں، گندم کی بمپر پیداوار کے باعث آئندہ ایک سال تک درآمد کرنے میں زرمبادلہ خرچ نہیں ہوگا بلکہ اضافی گندم برآمد بھی کی جاسکتی ہے۔ البتہ نگراں حکومت کے دور میں بدعنوان سرکاری افسران نے غیرضروری طور پر 35 لاکھ ٹن گندم درآمد کرکے ملکی خزانے کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی مکمل تحقیقات کرکے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اور انہیں نشانِ عبرت بنایا جائے، کیونکہ جو زرمبادلہ آئی ایم ایف اور دیگر دوست ملکوں سے مانگ مانگ کر اکٹھا کیا جارہا ہے اس کا اس بے دردی سے استعمال قومی جرم جیسا ہے، اس لئے اس کا سخت حساب لیا جانا چاہئے۔ اسی طرح لائیواسٹاک کے شعبے سے بھی مثبت اشارے مل رہے ہیں، متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کار ہمارے جانوروں اور ان کی وسیع چراگاہوں میں دلچسپی لے رہے ہیں اور بڑی سرمایہ کاری کرنے والے ہیں۔ کان کنی کے شعبے میں سعودی سرمایہ کار بڑی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ صنعت کے شعبے میں بھی اچھی پیشرفت ہورہی ہے، آج بھی ہماری لیدر پروڈکٹس دُنیا کے کسی بھی ملک سے اچھی اور معیاری ہیں، یورپ، امریکا اور جاپان میں ہماری لیدر مصنوعات کو فوقیت دی جاتی ہے، حکومت کو صرف تاجروں کے بنیادی مسائل جس میں توانائی کی بڑھتی قیمتوں کو کنٹرول کرنا پہلا مسئلہ ہے، اس سے جڑا ہوا مسئلہ مہنگی لیبر کا ہے کیونکہ ان دونوں مسئلوں سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے، جس کے باعث عالمی مارکیٹ میں مسابقت کی دوڑ سے ہمارے سرمایہ کار باہر جاتے ہیں، اگر اس مسئلے کو حل کرلیا جائے تو بہت اچھا ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف بھی توجہ دے انہیں صرف زرمبادلہ کمانے کی مشین نہ سمجھے بلکہ انہیں بڑی صنعتوں کے ساتھ اسمال انڈسٹریز کی طرف سرمایہ کاری کی رغبت دلائے اور مواقع پیدا کرے کیونکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے رشتہ دار پاکستان میں رہتے ہیں، اگر ان کے لئے کوئی صنعتی زون بنایا جائے تو اس میں بڑی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے