Monday, April 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چین، پاکستان اور انڈیا کا دو محازی جنگ کی تیاری

وزیراعظم نریندر مودی بھارتی فوج کو چین کے مقابلے میں تیار نہیں کررہے ہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کا دکھاوا بھی کررہے ہیں، عین ممکن ہے کہ وہ امریکا کی مدد کا انتظار کررہے ہیں مگر کیا امریکا اس پوزیشن میں ہے کہ انڈیا کی مدد کو آئے۔۔؟
نصرت مرزا

بھارت کا چینی سرحدوں پر سات 21 ڈویژن فوج کا جمگٹھا
چین اور انڈیا کے درمیان سرحد 3448 کلومیٹر پر محیط ہے۔ بھارت نے چین کے سرحدوں پر سات کور 1, 3, 4, 14, 17, 18, 33 تعینات کردی ہیں۔ ایک کور میں تین ڈویزن اور انڈین ڈویزن میں 12 ہزرا کی نفری ہوتی ہے، اس طرح ایک کور میں 36 ہزار سپاہی اور افسران اور دیگر عملہ ہوتا ہے۔ اس طرح ڈھائی لاکھ فوج لگائی گئی ہوگی مگر اس صورتِ حال میں انہوں نے ایک ڈویژن میں 90 ہزار کی نفری تک پہنچا دیا ہے، جس کا ذکر کشمیر میں لیفٹیننٹ جنرل جوشی نے یہ کہا تھا کہ انڈیا میں ایک وقت میں کور میں 90 ہزار تک فوجی چین کی سرحد پر لگا دیئے گئے تھے۔ وہاں صرف 2020 کے وسط تک صرف ایک کو 14 تعینات تھی۔بھارت کی کل فوج 14 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اگر اس نے چین کی سرحد پر 6 لاکھ 30 ہزار فوجی لگا دیئے ہیں تو اتنے ہی اپنے آدھے فوجی چین کی سرحد پر آدھی فوج پاکستان کی سرحد پر لگا دی ہے۔اگر پاکستان کے خلاف بنائی جانے والی اور دیگر پیراملٹری فورس کا حساب لگایا جائے تو وہ مزید دو لاکھ سے اوپر پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چار لاکھ کے قریب نئی بھرتی کی گئی ہے۔ 90 ہزار کو شامل کیا جائے گا، یہ تعداد بڑھ جائے گی۔ اس کے علاوہ انڈیا نے بیروزگاری سے تنگ آئے ہوئے کو اگنی ویر کے نام سے بھرتی کئے ہیں اُن کی صحیح تعداد معلوم نہیں البتہ ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں اور اُن سے کم از کم تین ڈویژن بنائے گئے ہیں۔ بریلی میں ایریا ہیڈکوارٹر کو جو ایک ریزورز فورس تھی اُس کو بھی ایک کور بنا ڈالی ہے اور اُسے 18 کور کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا نے دس ہزار وہ فوجی جو سیاچن پر تعینات کئے اُن کو ارون چل پردیش میں لگایا گیا ہے۔ یہ سرحدی علاقہ میں جنگ کرسکتے ہیں۔اُن کو پاکستان کی سرحد سے ہٹا کر ارون چل پردیش کی سرحد پر لگا دیا ہے۔شاید یہ امریکا کی یقین دہانیوں پر کیا گیا ہو کہ پاکستان حملہ نہیں کرے گا یا اس وجہ سے کہ وہ سیاچن کو اب محفوظ سمجھے کہ یہاں پاکستان نیچے بیٹھا ہوا ہے جیسا کہ اُن کا دعویٰ ہے، اور سیاچن مکمل طور پر اُن کے پاس ہے، اُن فوجیوں کو گرم کپڑے دستیاب ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ چین کی سرحد پر تقریباً دس لاکھ فوج تعینات ہیں۔ چین پر تعینات کئے گئے فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد کے پاس مناسب گرم کپڑے موجود نہیں ہیں۔ جب 2020ء میں چین نے حملہ کیا تھا تو اس وقت امریکا نے اپنے استعمال شدہ اور روکے ہوئے کپڑے انڈیا کے فوجیوں کو فراہم کئے تھے اور ابھی تک بھارت گرم کپڑوں کی ضرورت پوری نہیں کرسکا۔ اگنی ویر منصوبہ کے تحت بھرتی کئے جانے والے لوگوں کے لئے پنشن کی سہولت موجود نہیں ہے۔ اس لئے ان میں بے چینی پیدا ہوسکتی ہے۔ مورال بہت ڈاؤن ہے اور پیسے نہیں ہیں۔بھارت نے دفاع کے لئے تین زون بنائے ہیں۔ ایک لداخ دوسرا ارون چل پردیش اور تیسرا اترکھنڈ اور ہماچل پردیش ؎جبکہ چین نے بھارت کے چار ہزار چھ سو کلومیٹر کا علاقہ پر قبضہ جما لیا ہے اور ایک اصول وضع کردیا ہے جس کا اعلان اس نے 8 جنوری 2022ء کو کیا کہ جو علاقہ اب چین کے پاس ہے اگر اس پر حملہ کیا گیا تو وہ چین کی خودمختاری پر حملہ سمجھا جائے گا۔ چین نے ارون چل پردیش کو اپنا علاقہ قرار دے دیا ہے چین کے سفیر تعینات نئی دیلی 2016ء میں یہ کہہ دیا تھا کہ ارون چل پردیش چین کا حصہ ہے۔ چین نے اپنے ان علاقوں میں بنکرز، مضبوط فوجی چوکیاں قائم کرلی ہیں اور وہاں گرم پانی، بجلی، دوسری سہولتیں اپنے فوجیوں کو فراہم کردی ہیں۔ بھارت ابھی G-3، G-4 وائی فائی کا استعمال کررہا ہے، سڑکیں بنا رہا ہے اور بنکرز بھی بنا رہا ہے۔ مگر اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس کے لئے وہ امریکا کی طرف دیکھ رہا ہے۔ امریکا اس کو اسلحہ اور رقم کن شرائط پر دیتا ہے اس کو دیکھنے کی بات ہے۔اب سوال یہ ہے کہ انڈیا چین سے جنگ کے لئے تیار ہے، بظاہر تو ایسا نظر نہیں آتا کیونکہ اُس کے پاس سہولتوں اور ایک مربوط نطام کی ضرورت ہے جو اس کے پاس نہیں۔اس کے لئے اسلحہ اور فوجی کمانڈ کے مربوط نہ ہونا ہے۔ اس فوج میں جو ردوبدل کی گئی ہے۔ اس علاقے میں لڑنے کا تجربہ نہیں ہے۔ انہوں نے اس کی مشق بھی نہیں کی ہے۔ ان کے پاس سہولیات کی کمی ہے۔ چین اور پاکستان کی سرحدوں پر سرگرمیاں بھی تیز ہوگئی ہیں۔مودی کا مقصد جنگ کرنا نہیں ہے اس لئے بھارت کی بھارت محفوظ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اس کے شمالی اور جنوبی ہندوستان جو تفریق اور تضادیں بھی ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ اس کے تضادات منی پور، مشرقی پنجاب میں سکھ اور دیگر علاقہ جات حالت جنگ میں ہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ اس کو پاکستان خطرہ نہیں ہے بلکہ چین سے ہے، مورال ڈاؤن ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چین اس کے خلاف جنگ نہیں کرے گا۔ جیسے گلوان وادی میں پتھر اور مارکوٹ ہوئی، اس سے وہ آگے نہیں بڑھے گا، مگر اب جنگ کا انداز بدل گیا ہے، اس کی ایک جھلک 27 فروری 2019ء میں بالاکوٹ کے حملہ اور پاکستانی فوج کی جوابی کارروائی سے دیکھی جاسکتی ہے، وہ ایک ٹریلر تھا اصل فلم تو انڈیا کو اب دیکھنی پڑے گی، اگر اس نے کوئی مہم جوئی کی کوشش کی۔
اگنی پانچ
اگنی پانچ MIRV جس کی حد پانچ ہزارتا آٹھ ہزار کلومیٹر تک ہے اور چین کی حدود کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا ہے مگر چین کے پاس اس میزائل کا توڑ موجود ہے اور وہ اس میزائل کی موجودگی سے خوفزدہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ اگنی میزائل چلنے سے پہلے وچین اس میزائل کو بے کار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دفاعی بجٹ کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت کا بجٹ 72 بلین ڈالرز کے برابر ہے جبکہ چین کا بجٹ227 بلین ڈالرز ہے۔ جو تقریباً انڈیا کے بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے اور چین کا یہ بجٹ تو ظاہری ہے اس کے علاوہ بھی اس کے پاس کئی اور ذرائع موجود ہیں جو غیراعلانیہ ہیں اور وہ اپنے دفاعی بجٹ پر خرچ کرتا ہے۔ 1999ء سے چین نے یہ عزم کیا ہوا ہے کہ اُن کا مقابلہ امریکا سے ہے۔ ایئرکرافٹ کی ٹیکنالوجی بہت مشکل اور جدید ہوتی ہے اور اس ٹیکنالوجی میں بھی وہ آگے بڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ چین نے Land Based Missile فورس ترتیب دی، اُس کا نام Rocket Force رکھا ہے اور اس نے امریکی کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کے جواب میں دوسرا نظام وضع کرلیا ہے۔ جسے وہ Electronic Warfare اور Cyber War Counter Space Capabilities کا نام دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے Digital Strategic Support Force بنا لی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکا کا دفاعی بجٹ ایک ٹریلین ڈالرز ہے۔ فوج کو صرف 65 فیصد بجٹ ملتا ہے۔ اس بجٹ میں سے شریک کے لئے انڈیا کے پاس صرف 1.8 ملین ملتا ہے اور اس کو اس سے ہتھیار حاصل کئے گئے کئی قسطیں بھی ادا کرنا پڑتی ہیں۔اگنی 5 انڈیا چین کو خوفزدہ کرنے کیلئے استعمال کر نا چاہتا ہے جبکہ اس سے خوف نہیں کھاتا کیونکہ اسکے پاس اگنی 5کو بے اثر کرنے کا نظام موجود ہے۔

بھارت شکتی فوجی مشق
بارہ مارچ 2024ء کو انڈیا میں جو فوجی مشقیں ہوئیں، جن میں نریندر مودی فوجی وردی پہن کر خود شریک ہوئے، ان فوجی مشقوں کو تینوں مسلح افواج کی مشق کہا گیا اگرچہ وہ صرف بری فوج کی مشق تھی جبک فضائی اور بحری افواج کے سرہراہان اور افسران بطور مبصر شریک ہوئے۔ اس مشق میں جو ہتھیار استعمال ہوئے وہ سب کے سب بھارت میں تیار کردہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ مشق میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ جو ہتھیار استعمال ہوئے کیا واقئی وہ بھارت ساختہ تھے۔
بھارتی دانشوروں اور فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی شوبازی میں کمال کو پہنچ گئے ہیں۔ بھارتی فلموں کا سا اسٹائل بنائے ہوئے ہیں کہ ایک بہادر شخص 50 سے 100 گروپوں سے لڑ کر جیت جاتا ہے اُسے خراش تک نہیں آتی۔ وہ بھارت کے فوج کو چین کے مقابلے میں تیار نہیں کررہے ہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کا دکھاوا بھی کررہے ہیں، عین ممکن ہے کہ وہ امریکا کی مدد کا انتظار کررہے ہیں مگر کیا امریکا اس پوزیشن میں ہے کہ انڈیا کی مدد کو آئے۔اس سلسلے میں وہ بڑی مشکلات درپیش ہیں۔بھارت کے فوجی امریکی اسلحہ استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ دوسرے امریکا اپنی فوج بھارت میں نہیں بھیجے گا۔ اُس کے بھیجنے کے احکامات معروضی حالات صفر کے برابر ہیں۔اس کے علاوہ ایک اور بات یہ دیکھنے میں آئی کہ نریندر مودی نے فوجی وردی پہن کر ان مشقوں میں حصہ لیا۔ جیسے کہ انہوں نے سپریم کمانڈر کا عہدہ عملاً سنبھال لیا ہے اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان کو خود سے احکامات دینے سے فارغ کردیا ہے۔وہ پہلے ہی سے مسلح افواج کے فوجی کمانڈر ہیں مگر وہ مسلح افواج کی افواج کی اسٹرٹیجی تو نہیں بناتے ہیں، وہ فوج کے سربراہان اور افسران بناتے ہیں۔ اس طرح فوج کے سربراہان اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے پر مورال کھو بیٹھ سکتے ہیں۔ یوں فوج کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بُری طرح متاثر ہوتا نظر آتا ہے۔ اسطرح تو لگتا ہے کہ نریندر مودی اپنی فوج کو جنگ کے لئے تیار نہیں کررہے بلکہ وہ حالتِ جنگ میں ہونے کا انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ فوجی اصطلاح میں اسےGrey War Area کہا جاتا ہے کہ ایسی جگہ جنگ کرنے کی تیاری کی مشق کی جائے جہاں عملاً جنگ ہورہی ہو۔ دوسرے معنوں میں یہ کہا جائے کہ جیسے بھارت کی فوج جنگ کے لئے تیار ہے۔
اب جو بھارت شکتی مشق میں جو اسلحہ استعمال ہو،ا اس کے بارے میں اگر بات کریں تو یہ دیکھتے ہیں کہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ سب کے سب بھارتی ساختہ ہتھیار تھے ان کا جب جائزہ لیا گیا تو یہ دعویٰ حقیقت سے بہت دور تھا۔
ارجن ٹینک ایک بھارتی ٹینک ہے جو چین کے خلاف استعمال سرے سے نہیں ہوسکتا کہ وہ بلند سطح اور برفیلی علاقہ میں استعمال نہیں کیاسکتا۔ چین کی سرحدیں سطح سمندر سے پانچ سے دس ہزار فیٹ تک بلند ہیں۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے۔ اس میں بھی بہت سے پل ایسے ہیں جہاں ارجن ٹینک گزر کر نہیں جاسکتا، اس لئے اس ٹینک کو کسی بھی صورت میں بھارت کا فیصلہ کن ٹینک نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ ٹینک ہر وقت، ہر موسم اور ہر جگہ پر استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دوسرے اس مشق میں فوج کے پاس وجے آرٹیلری گن استعمال کی گئی اور کہا گیا کہ بھارت ساختہ ہے جبکہ جنوبی کوریا کی K-9 Thunder توپ خانہ کی چربہ ہے۔
دھنوش 155 mmگن استعمال کی گئی، اس کا ڈیزائن بفورس کا ہے جو سوئیڈن کی تیار کردہ ہے اور انڈیا کے بقول کارگل کی جنگ میں اس کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ دھنوش اصل میں بطورس کا چربہ ہے۔
آکاش دفاعی نظام کی بنیاد 1983ء میں ڈالی گئی تھی مگر اس میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں۔اور جب S-400 ڈیفنس سسٹم روس سے خریدا گیا تو آکاش کو S-400 سے تال میل کرنے کی کوشش کی، جو ناکام ہوئی۔ جو دونوں کو پس میں مل کر کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس لئے کہ آکاش پرانا ماڈل ہے۔
تیجا ایئر کرافٹ خامیوں سے پُر ہے اور مشق کے بعد بھی ایک حادثہ کا شکار ہوا جو اس کی کمتری کی علامت قرار دیا جارہا ہے۔جو اس کی سرحدی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔ مینیگا ملٹی پرل راکٹ سسٹم، یہ روسی ساختہ راکٹ سسٹم ہے اور بھارت کا یہ دعویٰ کہ وہ بھارت ساختہ ہے غلط ہے۔ انڈیا کا یہ دعویٰ بھی غلط ہوا کہ اگنی 5 نریندر مودی کے دور میں تیار ہوا۔ دراصل اگنی 5 جو پانچ ہزار کلومیٹر سے 8000 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ وہ من موہن سنگھ کے زمانے میں تیار ہوا تھا۔
اب صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ چین نے بھارت کی جو درگت 2020ء میں بنائی ہے اس کا بدلہ لیا جانا چاہئے تھا مگر بھارت اس کے لئے تیار نہیں ہے، اگرچہ چین اور بھارت کے درمیان بڑی سرگرمیاں دیکھی ہیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ سوال یہ ہے کہ وہ چین سے لڑ سکے گا۔ جواب یہ ہے کہ وہ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، چین کی سرحد پر دس لاکھ فوج جمع کردی ہے اور وہ جو ساتھ 21 ڈویژن پر مشتمل ہے اور ہر ڈویژن میں 90 ہزار فوجی ہیں۔ مگر وہ اُن میں رابطہ کاری کی کمی ہے اور اُن کو سامانِ حرب کی بھی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ اُن کے سرد علاقوں میں رہائش کا ضروری سامان بھی موجود نہیں ہے۔

مطلقہ خبریں