ایسی شاعری جو معمار اخلاق ہو، اس کا انتخاب کرنا اور اس کو اپنے ٹروپس کی نفسیاتی اور روحانی قوتوں یا ان کی شخصیت کے پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کرنا ایک ”کمانڈ ذمہ داری“ ہے اور اس حوالے سے کلام اقبال کی تفہیم پاک فوج کے تمام ہائر کمانڈروں کے لئے ضروری قرار دی جا سکتی ہے
لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان
ہم اس نکتے کو بار بار دہرانے پر مجبور ہیں کہ اقبال کا آدھے سے زیادہ کلام فارسی میں ہے اور ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں فارسی کی تعلیم و تدریس برائے نام رہ گئی ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ نئی نسل اقبال کے پیغام کو کاملاً سمجھنے سے قاصر ہے حالانکہ یہ وہی پیغام تھا جس نے مسلمانان برصغیر کے سینوں میں حصول آزادی کی شمع روشن کی تھی۔ لیکن جب ہم آزادی حاصل کرچکے تو بہت سی وجوہات کی بنا پر رفتہ رفتہ تعلیمی اداروں سے فارسی کی تعلیم و تدریس ختم ہو کے رہ گئی۔ اب شاذ ہی کوئی ایسا طالب علم ہوگا جس کو اقبال کے فارسی کلام سے آگاہی ہو، بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہو کہ اب تو علامہ کے اردو کلام کو سمجھنے والے بھی بتدریج کم ہوتے چلے جا رہے ہیں!
اقبال نے جو کچھ اردو میں کہا اس سے کہیں زیادہ اور کہیں بہتر فارسی میں کہا۔ اس لئے اگر اس کے اردو کلام کو کسی بھی حوالے سے تشکیل کردار کی اساس گردانا جا سکتا ہے تو اس کا فارسی کلام بھی اسی زمرے میں شمار کرنا ہوگا اور اس کا معیار اور اس کی مقدار بھی بمقابلہ اردو کلام کے نسبتاً زیادہ ہوگی۔ مقام افسوس ہے کہ وہ شاعر مشرق جس نے اہل مغرب کی ترقی اور ہمہ جہت برتری کے اسباب پر کھل کر بحث کی اور من حیث القوم ان کی کمزوریوں کی بھی نشاندہی کی اس کی تعلیمات کو عام نہ کیا جا سکا۔ اس کے فارسی کلام سے بے اعتنائی برتنے کی وجوہات سمجھنا کوئی اتنا مشکل نہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جو معدودے چند لوگ فارسی میں کچھ شدبد رکھتے ہیں اور اقبال کے مفکر پاکستان ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اور صاحب ِ مراتب ہیں انہوں نے بھی اس سمت میں کوئی قدم نہ اٹھایا۔
ہم پہلے بھی اپنے قارئین کے ساتھ یہ حقیقت شیئر کرچکے ہیں کہ فوج اور شاعری کی ویسے بھی آپس میں نہیں بنتی اور ہمارا ذاتی خیال ہے کہ تدبیراتی (Tactical) سطح پر بننی بھی نہیں چاہئے۔ البتہ تزویراتی (Strategic) سطح پر یا اونچے لیول پر ہر فن خواہ وہ کمانڈ ہو یا کچھ اور فن لطیف بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو اعلیٰ سطح کے کمانڈروں کو شاعری کی ان اصناف اور ان اقسام کی خبر ضرور ہونی چاہئے جو انسانی اخلاق اور قائدانہ اوصاف کی تعمیر میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اگر زیادہ بلندی سے کسی زمینی ٹارگٹ کو نشانہ بنانا مقصود ہو تو نشانہ کی از بس درستگی (Accuracy) شرط اوّل ہے وگرنہ ٹارگٹ کا ہٹ ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ جوں جوں نیچے آتے جائیں گے نشانہ زیادہ صاف اور واضح ہوتا چلا جائے گا۔ جس طرح نچلی یا تدبیراتی سطح پر اوپر سے فائر کرنے والے کو زیادہ مشکل پیش نہیں آتی اسی طرح سینئر کمانڈروں کا لیول ”نشانے“ کی درستگی کا متقاضی ہوتا ہے۔ ان کو گویا پری سیژن میونیشن (Precision Munition) درکار ہوتا ہے۔ ان کی بصارت میں شاہین کی سی گہرائی اور ضرب میں چیتے کی سی پھرتی ضروری ہوتی ہے۔ اس مقام بلند پر فائز ہونا آسان نہیں۔ یہاں ذرا سی بھول چوک یا ڈائریکشن سے اِدھر اُدھر ہٹنا کامیابی یا ناکامی کا موجب بن جاتا ہے۔ شاعری کے فن لطیف کو اگر سینئر لیول کے کمانڈر اپنے ٹروپس کے کردار کی تشکیل کے لئے استعمال کرنا چاہیں تو انہیں اپنی بصارت نہیں بلکہ بصیرت کو آزمانا پڑے گا۔ یہی آزمائش ”آرٹ آف ہائر ڈائریکشن آف وار“ کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔ ایسی شاعری جو معمار اخلاق ہو، اس کا انتخاب کرنا اور اس کو اپنے ٹروپس کی نفسیاتی اور روحانی قوتوں یا ان کی شخصیت کے پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کرنا ایک ”کمانڈ ذمہ داری“ ہے اور اس حوالے سے کلام اقبال کی تفہیم پاک فوج کے تمام ہائر کمانڈروں کے لئے ضروری قرار دی جا سکتی ہے۔ چھوٹے لیول پر بے شک کلام اقبال سمجھ آئے یا نہ آئے، اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن مفکر پاکستان نے بڑے لیول پر جو کچھ کہا ہے اس کو سمجھنے اور پھر سمجھ کر برتنے کے لئے کمانڈ کا ہائر لیول ہی درکار ہے۔اس پس منظر میں اقبال کے فارسی کلام کی اہمیت اور افادیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ پاک فوج میں شاذ ہی کسی نے اقبال کے کلام کے اس نازک، حساس اور تہہ در تہہ پہلو کا ادراک کیا ہوگا!
کہتے ہیں اگر کسی مسلمان کے خلوص نیت کا امتحان مقصود ہو تو اس کی ان دعاؤں کے الفاظ اور معانی پر غور کرو جو وہ اپنے رب کے حضور پیش کرتے ہوئے استعمال کرتا ہے۔ دعا مانگنا عبادت خداوندی کا ایک لازمی جزو ہے بلکہ لب لباب اور خلاصہ ہے۔ نماز کے بعد مسلمان دو قسم کی دعائیں مانگتا ہے ایک وہ جو عربی زبان میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب سمجھ میں آئے نہ آئے ہر نمازی پابند ہے کہ وہ یہ دعا مانگے۔ دوسری قسم دعاؤں کی وہ ہے جو اپنی زبان میں مانگی جاتی ہے، عربی میں نہیں۔ اس دعا کا انداز ہی دوسرا ہوتا ہے۔ پنجاب (ضلع پاک پتن) کے گاؤں کی ایک مسجد میں مجھے جمعہ کی نماز کے بعد ایک مولوی صاحب کی زبان سے پنجابی دعا سننے کا جب پہلی بار اتفاق ہوا تھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی تھی کہ وہ دعا اتنی جامع، اتنی مکمل اور اتنی پُرتاثیر تھی کہ مجھے اردو، فارسی اور عربی کی تمام دعائیں اس کے سامنے کم اثر نظر آنے لگی تھیں۔
دعا میں خشوع و خضوع شرط اول ہے لیکن دعا کا ایک متن اور ایک مغز بھی ہوتا ہے۔ جذبات کی شدت کو زبان نہ ملے تو وہ آنسوؤں کی شکل میں ڈھل کر باہر نکل آتے ہیں اور اگر زبان مل جائے تو بعض اوقات شعر، نغمہ یا دعا کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اقبال کے جذبات کا صحیح اندازہ لگانا ہو تو اس کی اثر آفرینی اور گہرائی اس کی ان دعاؤں میں دیکھی جا سکتی ہے جو وہ سربسجود ہو کر پروردگار عالم سے مانگتا ہے۔ دعا اگرچہ ایک انفرادی مکالمہ ہوتا ہے (بلکہ اسے خودکلامی کہیں تو زیادہ موزوں ہوگا) پھر بھی الفاظ کے سہارے اپنی قلبی کیفیتوں کا بیان وہ کسوٹی ہے جس پر دعا مانگنے والے کا خلوص پرکھا جا سکتا ہے۔ آیئے اقبال کا خلوص بھی اس کی ایک فارسی دعا کے توسط سے پرکھیں۔
فارسی میں ان کی بہت سی دعائیں ہیں اور اتنی پُرتاثیر ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ان سب کو اپنے قارئین کی خدمت میں سلیس اردو میں پیش کروں لیکن ایک تو ان کا حجم بہت زیادہ ہوجائے گا اور دوسرے ان کا اسلوب اور الفاظ و تراکیب اتنی مشکل اور اتنی جامع و مانع ہیں کہ ان کا آسان اردو میں ترجمہ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
حضرت علامہ کی بعض دعائیں فوج کی ہائر کمانڈ کے لئے مانگی گئی دعاؤں میں شامل کی جا سکتی ہیں۔ ذیل کی دعا بھی اسی زمرے میں شمار ہونی چاہئے۔
اقبال کی یہ دعا ان کی سب سے پہلی طبع شدہ فارسی کتاب ”اسرار خودی“ کے آخر میں درج ہے۔ ذیل میں متن کا اردو ترجمہ اور تشریح نذر قارئین ہے:
”اے خدائے بزرگ و برتر“ اگر تمام کائنات ایک وجود بن جائے تو تیری حیثیت اس وجود (بدن) میں جان اور روح کی سی ہوگی۔ یہ عجیب بات ہے کہ تو شہ رگ سے بہت قریب بھی ہے اور بہت دور بھی۔ زندگی کی رونقیں تیرے ہی دم قدم سے ہیں اور ساز حیات میں نغمے تیرے ہی سبب پھوٹتے ہیں۔ میرے دل بے قرار کو ایک بار پھر سکون و اطمینان بخش اور میرے سینہ ویراں میں ایک بار پھر آکر بسیرا کر۔ ایک بار پھر یہ نمائشی ننگ ونام مجھ سے چھین لے اور میرا عشق جو خام ہے اس کو پختگی عطا کر۔ ہم تہی دست اور مفلس ہیں اور تمہارا نرخ بہت زیادہ ہے جو ہماری قوت خرید سے باہر ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تو ہم غریبوں سے منہ موڑ لے۔ اے پروردگار، ہمیں حضرت بلال حبشیؓ اور حضرت سلمان فارسیؒ کا سا عشق عطا فرما۔ ہمیں ایسی آنکھ عطا کر جو نیند کی ماتی نہ ہو اور ایسا بے قرار اور بے تاب دل عطا کر جو قرار اور سکون سے ناآشنا ہو، بس ہر دم تیری تلاش میں سرگرداں رہے اور پارے کی طرح ہر لمحہ سکوں ناآشنا ہو۔ ہم ایک سوکھا ہوا گھاس کا تنکا ہیں تو ہمیں اٹھا کر کوہساروں کی سی عظمت اور شوکت عطا کر۔ ہم تیرے عشق اور تیری جستجو میں سراپا آتش بن جائیں اور تیرے سوا تمام معبودوں کو جلا کر راکھ کردیں“۔
”میری قوم میں اتحاد و اتفاق عنقا ہوچکا ہے اور اسی سبب بہت سی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ آسمان پر جس طرح ستارے آوارہ اور بے خانماں پھر رہے ہیں ہم بھی زمین پر اسی طرح لخت لخت ہوچکے ہیں۔ ہمیں اتفاق کی برکت سے مالامال فرما۔ ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے کی توفیق دے۔ ہماری کتاب ہستی کا شیرازہ بکھر چکا ہے اس کی شیرازہ بندی کر اور محبت کا بھولا ہوا سبق ہمیں پھر عطا کر۔ بہت پہلے تو نے ہمیں ایک مشن پر مامور کیا تھا۔ وہی مشن ایک بار پھر ہمارے سپرد کر۔ ہم تیرے عشاق میں شمار ہوتے ہیں اس لئے اپنے کرنے کے سارے کام ہمارے سپرد کر۔ ہم مسافر ہیں ہمیں تسلیم و رضا کی منزل عطا کر۔ حضرت ابراہیمؑ کا سا زور ایمان دے اور توفیق بخش کہ ہم تیرے سوا کسی کو بھی شریک عبادت نہ کریں اور تیرے سوا ہر معبود کو پاش پاش کردیں“۔
”اے خداوند ذوالجلال! میری حیثیت اس شمع کی سی ہے جو جل کر دوسروں کو روشنی دکھاتی ہے۔ میں شمع کی مانند اپنی بزم میں خود ہی اکیلا جل رہا ہوں۔ مجھے ان اشکوں سے نواز جو بے قرار، مضطر اور آرام سوز ہوں۔ میرا دل اپنی قوم کے شاندار ماضی کو دیکھ دیکھ کر بے قرار ہے اور میری آنکھ مستقبل (اور روشن مستقبل) کی تمنائی ہے“۔
”اے پروردگار، میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اس بھری محفل میں، اس وسیع کائنات میں تنہا ہوں۔ شاید میں ایک ایسا راز ہوں جو اپنے ہی وجود میں چھپا رہتا ہے۔ میں اس درد دل کو کسی آشنا سے کہنا چاہتا ہوں۔ یا رب وہ آشناء، وہ دوست، وہ غم گسار کہاں ہے؟ میں اگر صحرائے سینا ہوں تو میرا کلیم، میرا موسیٰ کدھر ہے؟ بعض اوقات سوچتا ہوں کہ میں کتنا ظالم ہوں۔ اپنے اوپر کس انداز کے ظلم ڈھا رہا ہوں۔ میں گویا شعلوں کو دامن میں پال رہا ہوں اور شعلے بھی ایسے جو عقل و ہوش کو پل بھر میں پھونک ڈالیں اور عقل و آگہی کا دامن تار تار کردیں۔ میں نے عقل کو دیوانگی سکھانے کی ٹھان رکھی ہے اور ہوش و خرد کو مدہوشی کی طرف گامزن کر رکھا ہے۔ میری آنکھوں سے شبنم کی طرح آنسو گر رہے ہیں۔ شاید یہ کسی آتش پنہاں کا اخراج ہے! زمانے کو کچھ خبر نہیں کہ میں شمع کی مانند آہستہ آہستہ اور چپکے چپکے پگھل رہا ہوں۔ اس کشمکش میں میرے جسم کے ہر بُن مُو سے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اور میرے خیال اور فکر سے آگ کے الاؤ دہک کر نگاہوں کو خیرہ کررہے ہیں۔ میں ایسا بلبل ہوں جو شراروں سے خوشہ چینی کرتا ہے اور میرے نغموں میں آتش نوائی پائی جاتی ہے۔ میں جس عہد میں جی رہا ہوں اس کے سینے میں شاید دل نہیں ہے۔ میرا قیس فریاد کررہا ہے کہ محمل لیلیٰ خالی ہے“۔
”اے رب کائنات، اکیلے جلنا آسان کام نہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب کوئی ایک پروانہ بھی اس کے گرد جلنے کو تیار نہ ہو۔ میں کب تک کسی پروانے، کسی غم گسار کا انتظار کروں؟ کب تک کسی رازدار کا منتظر رہوں؟ اے باری تعالیٰ، اے خالق کون و مکاں، اے وہ کہ تیرے نور سے چاند اور ستاروں کے چہرے روشن ہیں تو نے میری روح میں بھی یہی نور اور یہی آگ کیوں بھر دی ہے؟ اس آگ کو واپس لے لے۔ اس امانت کو میرے سینے سے نکال لے اور میرے سینے کے پھول سے آرزو کا یہ کانٹا باہر کھینچ لے…… اور اگر ایسا نہیں کرتا تو پھر ایک ایسا ہمدم دیرینہ، ایک ایسا رفیق کار، ایک ایسا ہم جلیں عطا کر جو میرا آئینہ ہو۔ ساری کائنات میں ہر وجود کے ساتھ تو نے ایک غمگسار پیدا کیا۔ مثلاً سمندر کو دیکھتا ہوں تو اس میں ایک موج دوسری موج کے ساتھ بغل گیر ہورہی ہے۔ آسمان پر ستارے ایک دوسرے کے رازدار اور ہمدم ہیں۔ چاند نے ایک چمکتا چہرہ رات کی آغوش میں دے رکھا ہے اور رات ہے کہ اس کے پہلو میں دن خوابیدہ ہے۔ ایک ندی کچھ دور جا کر ایک دوسری ندی میں گھل مل رہی ہے۔ خوشبو کے جھونکے آپس میں بغل گیر ہورہے ہیں۔ صحراؤں میں ذرے رقصاں ہیں اور ایک بادہ کش دوسرے بادہ کش سے گلے مل رہا ہے…… کہنے کو تو تو یکتا اور یگانہ ہے لیکن تو نے بھی اپنے لئے نہ جانے کتنے عالم آراستہ کر رکھے ہیں!!…… لیکن کیا غضب ہے کہ میں بھری محفل میں تنہا ہوں۔ اپنا لطف و کرم مجھ بے خانماں پر عام فرما اور ایک ایسا ہمدم عطا کر جو میری فطرت کا محرم ہو۔ وہ ایسا دیوانہ ہو جس پر فرزانوں (عقل مندوں) کو رشک آئے اور جو سودوزیاں کے خوف اور بیم و رجا سے ماورا اور بیگانہ ہو تاکہ میں بھی اپنی جان ناشکیبا اور روح بے تاب کو اس میں گم کرسکوں اور اس کے دل میں جگہ بنا سکوں …… یا پھر وہ ایسا پیکر ہو جس کو میں اپنی ہی مٹی سے تخلیق کروں …… گویا خود ہی بت گر بنوں اور خود ہی صنم تراش!!“
خلاصہئ کلام
آپ نے یہ دعا پڑھی۔ اس کے الفاظ پر غور کیا۔ شاید آپ اسے لفاظی کا نام دیں لیکن یہ لفاظی محض زبان سے نہیں اقبال کی اعماق جاں سے نکلتی معلوم ہوتی ہے…… یہ ایک ایسے مسلمان کی دعا ہے جو اسے ہر دم کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور رکھتی ہے۔ تخلیق کرنے کی یہی صفت اور یہی بے تابی اسے خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رکھتی ہے۔ شرف انسانی یہی ہے کہ وہ ہر لحظہ نیا طور اور نئی برق تجلی تخلیق کرتا رہے۔ اس نوع کی بے تابی سے سرشار جب کوئی مسلمان کسی غیرمسلم کا سامنا کرتا ہے تو وہ غیرمسلم اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔
قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ کی مسلمان افواج کے سپاہی اور سالار اسی بے قراری اور اسی جستجو سے سرشار تھے۔ یہی بے تابی اور یہی وارفتگی تھی جو انہیں اسلام کے صرف ابتدائی 70 سالوں میں براعظم ایشیا، افریقہ اور یورپ تک لے گئی۔ میں اقبال کی اس دعا کو اس لشکر اسلام کی اجتماعی دعا سمجھتا ہوں جس کے سامنے قیصر و کسریٰ کے لشکر جرار خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے تھے۔ یہ دعا زندگی، حرارت، کشمکش، موومنٹ، مناور، اٹیک اور اسالٹ کا درس دیتی ہے۔ یہ جمود و انجماد کی طرف نہیں، حرکت اور جستجو کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی وہ جستجو تھی جس کو اقبال شان خداوندی سے بھی عزیز تر گردانتا تھا۔
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی